بڑھتی ہوئی مہنگائی کا دباو۔ معیشت سستی کی طرف گامزن
ٹیکس وصولی کے ہر ممکن ذریعہ پر حکومت کی نظر۔ مینو فیکچرنگ سیکٹر کی سرگرمیاںنچلی سطح پر
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
ہماری ملک کی معیشت سستی کی طرف گامزن ہے۔ جون میں بھارت کی مینو فیکچرنگ سیکٹر کی سرگرمیاں 9ماہ کی نچلی سطح پر پہنچ گئی ہیں حالانکہ بڑی سست روی سے ہی سہی گزشتہ 12مہینوں میں معمولی بہتری ضرور ہوئی ہے۔ یہ معلومات پرچیزنگ مینیجر انڈیکس (پی ایم آئی) سے حاصل ہوئی ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ابھی عارضی سیاسی تناو (Geopolitical tensions) کی وجہ سے آسمان کو چھوتی ہوئی مہنگائی اور ڈالر کے مقابلے روپے کی کمزوری جیسی بہت ساری وجوہات ہیں۔ فی الحال ایک ڈالر کی قیمت 80روپے سے بھی زیادہ ہوگئی ہے ۔ پی ایم آئی میں تخفیف اسی کا نتیجہ ہے۔ حالانکہ ایس اینڈ پی نے پی ایم آئی کے اعداد و شمار جاری کرنے کے بعد یہ بھی کہا ہے کہ چیلجز سے پر حالات میں مینو فیکچرنگ شعبوں کی سرگرمیوں میں اضافہ حوصلہ افزا ہے مگر اس میں سستی کے آثار نظر آرہے ہیں۔ ایس اینڈ پی گلوبل انڈیا میو فیکچرنگ سیکٹر کے لیے Purchasing Managers Indexجون میں گرکر53.9 ہوگیا ہے جومئی میں 54.69تھا۔ جون کے پی ایم آئی اعداد و شمار مسلسل 12مہینوں میں 50سے اوپر تھے۔ جو سیکٹر کی بہتری کی طرف نشاندہی کرتی ہے۔ پی ایم آئی کا 50سے اوپر رہنے کا مطلب ہے کہ معیشت بہتری کی طرف گامزن ہے اور 50سے نیچے رہنے پر تنزلی کا اشارہ ہوتا ہے۔ ایس اینڈ پی گلوبل مارکٹ انٹلیجنس میں معاون ڈائرکٹر پولی انا ڈی لیما نے کہا ہے کہ 2022-23کی پہلی سہ ماہی میں بھارت کی مینو فیکچرنگ سیکٹر کے لیے خوش آئند رہی ہے۔ اس درمیانی قیمتوں کے بڑھتے دباو ، اونچی شرح سود، روپے کا ڈالر کے مقابلہ میں گرتا رجحان، شدید عارضی سیاسی حالات کے باوجود اس سیکٹر میں بہتری ہی دیکھنے کو مل رہی ہے جو حوصلہ افزا ہے۔ کارخانوں سے آرڈر اور پیداوار میں جون میں لگاتار 12ویں ماہ اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ اس کے باوجود دونوں ہی معاملوں میں شرح توسیع 9 ماہ کی نچلی سطح پر پہنچ گئی ہے۔ ایسے اضافہ کے پس پردہ مضبوط آرڈر ہے۔ سروے کے حساب سے مہنگائی کی تشویش کاروباری اعتماد پر مسلسل حاوی ہورہی ہے۔ جو احساس (Sentiments ) 27ماہ کی نچلی سطح پر پہنچ گیا ہے حالانکہ روزگار میں چوتھے مہینے کچھ اضافہ دیکھنے کو ملا تھا۔ فی الحال ملک میں شرح مہنگائی آر بی آئی کے طے شدہ حد کے اوپر ہے جس سے مرکزی بینک کو شرح سود بڑھانے کا فیصلہ کرنا پڑا ہے اس سے معیشت کی ترقی میں سستی دیکھی جارہی ہے۔ دوسری طرف کمر توڑ مہنگائی سے کمپنیوں کے مارجن پر دباو بڑھ رہا ہے۔ اس لیے انہیں بھی قیمتوں میں اضافہ پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے اس کے ساتھ کاروباریوں کو یہ بھی فکر لاحق ہے کہ قیمتوں میں اضافہ سے طلب میں کمی بھی فطری ہے۔
کریسیل ریٹنگ ایجنسی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے مالی سال 2022-23کے دوران بھارت کی خوردہ مہنگائی شرح گزشتہ سال کے 5.5فیصد کے مقابلےمیں 6.8فیصد رہنے کی توقع ہے اسی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گھریلو غذائی پیداوار پر امسال گرمی کی لہر (Heat wave) کا اثر اور بین الاقوامی اشیا کی قیمتوں اور مختلف حلقوں کے لیے اِن پٹ لاگت کی وجہ سے شرح مہنگائی میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوگا ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اہم منفی خطرہ خام تیل کی اونچی قیمتیں ہیں جو ہمارے ملک پر ’ڈومینو افیکٹ‘ کی وجہ بنیں گی۔ اس کے علاوہ بھارت کے برآمدات کی کمتر طلب اور زیادہ مالیاتی خسارہ بھی باعث تشویش ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مہنگائی قوت عمل پر اثر انداز ہوکر اسے کم کرتی ہے اور کیفیت پر اثر ڈالتی ہے۔ ملک کا جاریہ خسارہ (سی اے ڈی) جاریہ مالی سال کی جی ڈی پی کے تین فیصد تک بڑھ جانے کی توقع ہے۔ جو گزشتہ مالی سال کے 1.2فیصد سے زیادہ ہے۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اشیا کی اونچی قیمتیں ہونے کے ساتھ روپے اور ڈالر کے درمیان ایکسچینج ریٹ غیر مستحکم رہے گا۔ امریکی ڈالر کی قیمت میں مضبوطی کے ساتھ ساتھ غیر ملکی سرمایہ کاری کی نکاسی بھی روپے کو کمزور بنانے کی وجہ ہوسکتی ہے۔ مارچ 2023تک روپے کا ایکسچینج ریٹ 78روپے فی ڈالر ہونے کی توقع ہے کہ جبکہ مارچ2022میں یہ 76.2روپے فی امریکی ڈالرتھا۔
غیر ملکی سرمایہ کاروں (ایف پی آئی) کا بھارتی بازاروں سے سرمایہ نکال لینے کا سلسلہ جون میں لگاتار 9ویں مہینے جاری رہا۔ جون میں ایف پی آئی نے 50,203کروڑ روپے کے شیئرس بیچے جو گزشتہ دو سالوں میں سرمایہ کو نکالنے کی سب سے اونچی سطح ہے اور مارچ 2020کے بعد ان کی سب سے بڑی رقم ہے اس وقت ایف پی آئی نے بھارتی شیئرس سے 61,973کروڑ روپے نکالے تھے۔ ڈپوزیٹری کے اعداد وشمار کے مطابق 2022کے پہلے چھ مہینوں میں ایف پی آئی بھارتی شیئر بازاروں سے 2.2لاکھ کروڑ روپے نکال چکی ہے۔
اس سے قبل 2008کے پورے سال میں ایف پی آئی نے شیئر بازار سے 52,987کروڑ روپے نکالے تھے۔ سرمایہ نکالنے کی بنیادی وجہ امریکی مرکزی بینک کا جارحانہ رویہ مہنگائی اور نچلی شرح اور گھریلو شیئرس کی اونچی قیمت ہے۔ تجزیہ کاروں نے متنبہ کیا ہے کہ ابھی ایف پی آئی سے سرمایہ نکالنے کا سلسلہ جاری رہ سکتا ہے۔ کوٹک ایکٹیوٹی ریسرچ چیف شری کانت چوہان نے کہا کہ آئندہ دنوں میں مہنگائی کی شرح سے ایف پی آئی کا رخ طے ہوگا اس کے علاوہ بونڈ اور شیئرس پر محصول کا فرق بھی مسلسل کم ہورہا ہے۔ اس سے بھی ایف پی آئی سرمایہ نکال رہی ہیں۔ مارننگ انڈیا میں اسوسی ایٹ ڈائرکٹر ہیمانشو شریواستو نے کہا کہ فیڈرل ریزرو کے ذریعہ شرح سود میں جارحانہ اضافہ ، مہنگائی اور شیئرس کی زیادہ قیمتوں کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ دار بھارتی بازاروں سے سرمایہ نکال رہے ہیں۔ شریواستو کے مطابق بھارت کے تعلق سے منفی رجحان بنا ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے 3 کمپنیوں کا مارکٹ کیپ 73630کروڑ روپے کم ہوگیا۔ اس میں ریلائنس انڈسٹریز کا سب سے زیادہ 62,100.95کروڑ کا نقصان ہوا۔ اس کے علاوہ ہندوستان یونی لیور کے مارکٹ کیپ میں 4,875.41روپے اور آئی سی آئی سی آئی بینک کے مارکیٹ کیپ میں 6654.2کروڑ روپے کی تیزی آئی۔
دوسری طرف ملک میں غیر معمولی چیلنجز کی وجہ سے خرچ کافی بڑھ گیا ہے۔ اس سے معیشت کا توازن متزلزل نہ ہوجائے اس کے لیے حکومت ٹیکس کے حصول کے ہر ممکنہ ذرائع پر توجہ مرکوز کرنے میں لگ گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزارت مالیات نے گھریلو خام تیل کی پیداور پر 23250روپے فی ٹن کا سیس لگادیا ہے۔ ساتھ ہی پٹرول اور ڈیزل کی برآمدات پر فی لیٹر بالترتیب 6اور 13روپے کا ٹیکس لگایا ہے۔ ملک میں غذائی سبسیڈی میں اضافہ اور مفت راشن منصوبہ کے ساتھ پٹرول اور ڈیزل پر اکسائز ڈیوٹی میں کٹوتی سے معاشی بوجھ بڑھ گیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ حکومت کے سامنے شرح نمو بہتر کرنے کا چیلنج ہے جو اخراجات میں تخفیف کرکے بھی ممکن نہیں ہے۔ اس لیے حکومت اپنی آمدنی بڑھانے کے لیے کوئی موقع گنوانا نہیں چاہتی ہے۔ وزارت مالیات کے رویہ سے یہ بھی واضح ہے کہ کسی طرح کی خدمت یا فروخت سے آمدنی پر بھی ٹیکس دینا پڑے گا۔ اس لیے کیسینو، آن لائن گیم، لاٹری اور ریس کورس پر 28فیصد جی ایس ٹی لگانے کا منصوبہ ہے۔ کریپٹو پر بھی 28فیصد جی ایس ٹی لگایا گیا ہے۔
***
***
حکومت کے سامنے شرح نمو بہتر کرنے کا چیلنج ہے جو اخراجات میں تخفیف کرکے بھی ممکن نہیں ہے۔ اس لیے حکومت اپنی آمدنی بڑھانے کے لیے کوئی موقع گنوانا نہیں چاہتی ہے۔ وزارت مالیات کے رویہ سے یہ بھی واضح ہے کہ کسی طرح کی خدمت یا فروخت سے آمدنی پر بھی ٹیکس دینا پڑے گا۔ اس لیے کیسینو، آن لائن گیم، لاٹری اور ریس کورس پر 28فیصد جی ایس ٹی لگانے کا منصوبہ ہے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 31 جولائی تا 07 اگست 2022