بدگمانی، رشتوں کو متاثر کرنے والا گناہ
مرسلہ: عائشہ نبیلہ بنت شیخ محمود
روز بروز بگڑتی ہوئی سماجی صحت کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ کتنی ہی خرافات، برائیاں اور بداخلاقیاں ہیں جو معاشرے کی رگ رگ میں رچتی بستی جا رہی ہیں۔ انہی میں ایک عام برائی ’بدگمانی‘ بھی ہے۔
’بدگمانی‘ ایسا گناہ ہے جو تعلقات کو خراب کرتا ہے۔ کسی کے لیے دل میں برے خیالات کا آنا اور اس پر یقین کر لینا، بغیر کسی معقول وجہ کے کسی کے تعلق سے غلط گمان رکھنا اور پھر اس گمان کو صحیح ثابت کرنے کی جستجو میں لگے رہنا عام ہو گیا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی بات کر رہا ہے اور ہمارے دل میں خیال آئے کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے تو ہمارے پاس کیا دلیل ہے کہ واقعی یہ جھوٹ بول رہا ہے؟ بدگمانی حرام ہوتی ہے جب سامنے والے کے اندر کوئی ایسی نشانی نہ ہو جو بد گمانی کو جائز کر دے جیسے ایک شخص ہے جو نیک ہے جھوٹ نہیں بولتا ظاہری طور پر ایسی کوئی نشانی نہیں ہے کہ اس سے بد گمان ہوا جائے تو یہ بدگمانی حرام ہو گی۔ دورانِ گفتگو فون بند ہو جائے تو گمان ہونے لگتا ہے کہ فون قصداً بند کیا گیا ہے۔ مذاقََا کوئی بات کہہ دی اور گمان ہونے لگتا ہے کہ بات بطور طنز کہی گئی تھی یا کسی کے کہنے پر سنائی گئی۔ کسی سے اپنے بارے میں رائے سنی تو سمجھا کہ اسے فلاں نے اکسایا ہوگا یا فلاں نے چغل خوری کی ہوگی یا فلاں نے شکایت کی ہے۔ روز مرہ ایسے ہی بے شمار گمان ہیں جو ہم پر حملہ آور ہوتے ہیں جو نہ صرف ایک دوسرے میں دوری کا سبب بنتے ہیں بلکہ ہمارے سکون کو بھی متاثر کرتے ہیں۔
ہر وہ خبر جس کے متعلق کوئی صحیح علامت اور گواہی موجود نہ ہو اس کے بارے میں بدگمان نہیں ہونا چاہیے۔ ’بدگمانی‘ انسان میں موجود دیگر اخلاقی خوبیوں کو بھی ضائع کر دیتی ہے اس کی وجہ سے آپسی تعلقات بھی متاثر ہوتے ہیں اور بعض دفعہ بہت سے مسائل کی وجہ یہی ’بدگمانی‘ ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے شریعت مطہرہ نے مسلمان کو ایک دوسرے سے حسن ظن رکھنے کی تاکید کی ہے۔ بغیر کسی وجہ کے دوسروں کے بارے میں غلط رائے قائم کرنے سے پرہیز کریں اور نہ کسی کو بدگمان ہونے کا موقع دیں۔ ایسی بات یا خبر جس کے مثبت اور منفی دونوں پہلو نکل سکتے ہوں تو مسلمانوں کو آپس میں حسنِ ظن سے کام لینا چاہیے۔
——————-
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی چند نصیحتیں
….علم سمندر ہے – اس میں کبھی کمی نہیں آسکتی
…..عمر بہت کم ہے اور علم بہت زیادہ ہے – جتنا علم ضروری ہے اسے حاصل کرو باقی کو چھوڑ دو
….اگر برائی ظاہر کرتے ہو تو نیکی بھی ظاہر کرو اور اگر برائی چھپ کر کرتے ہو تو نیکی بھی چھپ کر کرو
….خراب باتیں کرنے سے چپ رہنا بہتر ہے
….جب غصہ آئے تو زبان اور ہاتھ کو قابو میں رکھو
….اگر لوگوں سے تعلق رکھو تو سچی بات کہو اور امانت کو ادا کرتے رہو
…. دکھ ہو یا سکھ ہر حالت میں اللہ کو یاد رکھو جو شخص سکھ میں اللہ کو یاد کرتا ہے اور دکھ کے وقت دعا کرتا ہے – فرشتے اس کی آواز کو پہچان لیتے ہیں اور اس کے لیے دعا کرتے ہیں
….پاک جگہ پر رہنے سے انسان پاک نہیں بن جاتا بلکہ خوبی یہ ہے کہ وہ خود پاک ہو
….مال و دولت کی زیادتی – آل و اولاد کی کثرت آخرت میں کچھ فائدہ نہ دےگی- اس دن علم اور عمل کام دیں گے
سیف اللہ ، کوٹہ ،راجستھان
———————
اقوال زریں
مسرت دوسروں کے باغوں اور تفریح گاہوں میں نہیں ہمارے اپنے گھروں میں رہتی ہے (آسکر وائلڈ)
اپنے بٹوے کو پیسوں سے بھرنے کے بجائے اپنی الماری کو اچھی اچھی کتابوں سے بھرلو (جان سبلی)
حوصلہ دنیا کی سب سے بری چیز ہے یہ دولت، طاقت اور اثر سے بھی بڑی چیز ہے۔(ہنری پیسٹ)
سچائی ایک بڑی طاقت ہے جو بالآخر غالب ہوکر رہتی ہے (تھامس بروس)
مرسلہ:حامد حسین۔ مالیگاوں
نفس سے بڑھ کر تمہارا کوئی دشمن نہیں
ضمیر کی عدالت سے بڑھ کر کوئی عدالت نہیں
علم سے بڑھ کر دوسری کوئی دولت نہیں۔
نماز ہی راہ نجات ہے۔
ہمیشہ سچائی پر قائم رہو۔
جلد باز خود بھی تباہ ہوتا ہے دوسروں کو بھی تباہ کرتا ہے۔
جو گھبراتا ہے وہ بزدل ہے جو مقابلہ کرتا ہے وہ باہمت ہے۔
مرسلہ:محمد ادریس، رانچی
ہر وہ خبر جس کے متعلق کوئی صحیح علامت اور گواہی موجود نہ ہو اس کے بارے میں بدگمان نہیں ہونا چاہیے۔ ’بدگمانی‘ انسان میں موجود دیگر اخلاقی خوبیوں کو بھی ضائع کر دیتی ہے اس کی وجہ سے آپسی تعلقات بھی متاثر ہوتے ہیں اور بعض دفعہ بہت سے مسائل کی وجہ یہی ’بدگمانی‘ ہوتی ہے۔