راحت اندوریؔ :عوامی جذبات کا ترجمان جرأت مندشاعر

’اے موت تو نے مجھ کو زمیں دار کردیا‘

بنت تفضل احمد

 

جو آج صاحبِ مسند ہیں کل نہیں ہونگے
کرائے دار ہیں ذاتی مکان تھوڑی ہے
اردو کی ایک چمکتی اور روشن نمایاں رونق، عالمی شہرت یافتہ ،بلند پایہ، کہنہ مشق، بے باک اور جراتمند شاعر راحت اندوری 11 اگست، منگل کی شام پانچ بجے اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔راحت اندوری کورونا وائرس سے متاثر تھے۔ اس سے قبل دن میں خبر آئی تھی کہ مشہور شاعر راحت اندوری کورونا وائرس کی زد میں آگئے ہیں۔ منگل کی صبح انہوں نے خود ٹوئٹر کے ذریعہ اس کی اطلاع دی۔انہوں نے لکھا کہ تھا "کووڈ۔19 کے ابتدائی علامات دکھائی دینے پر میرا کورونا ٹیسٹ کیا گیا، جس کی رپورٹ مثبت آئی ہے۔ آربندو اسپتال میں بھرتی ہوں۔ دعا کیجئے جلد ازجلد اس بیماری کو ہرا دوں۔ انہوں نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ ان کی صحت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے بار بار انہیں یا پھر ان کے ارکان خاندان کو فون نہ کریں، اس کی جانکاری ٹوئیٹر اور فیس بک کے توسط سے سبھی کو ملتی رہے گی”۔ کون جانتا تھا کہ اس کے فوراً بعد ہی ان کے انتقال کی خبر آجائے گی۔ راحت اندوری طویل عرصے سے تنفس کے مسائل سے دوچار تھے۔ کورونا رپورٹ پازیٹیو آنے کے بعد انہیں اندور کے اربندو اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق راحت اندوری شوگر اور دل کی بیماری سے بھی متاثر تھے۔ حال ہی میں نمونیا کے سبب ان کے پھپھڑوں میں انفیکشن ہوگیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ راحت اندوری چار ماہ سے گھر سے نہیں نکلے تھے۔وہ صرف طبی جانچ کے لئے ہی گھر سے باہر نکلتے تھے۔ انہیں چار پانچ دن سے بے چینی محسوس ہو رہی تھی۔ ڈاکٹروں کے مشورے پر پھیپھڑوں کا ایکسرے کرایا گیا تو نمونیا کی تصدیق ہوئی تھی۔ اس کے بعد ان کا کورونا ٹسٹ بھی پازیٹیو پایا گیا۔ سانس لینے میں تکلیف کے سبب آئی سی یو میں رکھا گیا تھا۔ ان کو تین مرتبہ ہارٹ اٹیک بھی آیا تھا۔ ان کی اچانک رحلت سے عوام کے ساتھ ساتھ عالمی علمی و ادبی حلقوں میں غم کی لہر دوڑ گئی۔
یہ سانحہ تو کسی روز گزرنے والا تھا
میں بچ بھی جاتا تو اک روز مرنے والا تھا
راحت اندوری کی پیدائش اندور میں یکم جنوری 1950ء کو ہوئی۔ وہ ایک ٹیکسٹائل مل کے ملازم رفعت اللہ قریشی اور مقبول النساء بیگم کے یہاں پیدا ہوئے۔ راحت اندوری اپنے والدین کی چوتھی اولاد تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم نوتن اسکول اندور میں ہوئی۔ انہوں نے اسلامیہ كريميہ کالج اندور سے 1973ء میں اپنی بیچلر کی تعلیم مکمل کی تھی، اس کے بعد 1975ء میں راحت اندوری نے بركت اللہ یونیورسٹی، بھوپال سے اردو ادب میں ایم اے کیا۔ اعلٰی تعلیمی سند کے لیے 1985ء میں انہوں نے مدھیہ پردیش کے (مدھیہ پردیش بھوج اوپن یونیورسٹی) سے اردو ادب میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ڈاکٹر راحت اندوری کے کیریئر کا گراف سخت جدوجہد اور نامساعد حالات میں مسلسل محنت کا مظہر ہے۔ ان کا پچپن سخت مشکلات اور غریبی میں گزرا تھا۔ وہ اپنے والد کے ساتھ پینٹر کا کام بھی کرچکے تھے۔ وہ پینٹر سے پروفیسر، شاعر اور پھر ہندی فلم کے گیت کار بھی بنے۔ راحت اندوری، اندور یونیورسٹی میں اردو ادب کے ماہر تعلیم تھے۔ وہ ممبئی کی فلم انڈسٹری سے لیکر پوری دنیا میں اردو شاعری سے شغف رکھنے والوں کے پسندیدہ شعلہ بیان شاعر تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ راحت اندوری فلسفیانہ جھکاؤ رکھنے والے ایک مکمل شریف آدمی کے طور پر اپنی شاعرانہ دلکشی اور اپنے کام کیلئے قطعی وابستگی کے لئے جانے جاتے تھے۔ انہیں کراچی کے عالمی مشاعرے میں شرکت کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں: دھوپ دھوپ ، میرے بعد، پانچواں درویش،رت بدل گئی،ناراض اورموجود۔ان کا مؤقف تھا کہ ایک اچھا شاعر یا نغمہ نگار بننے کے لیے ضروری ہے کہ ادب کا مطالعہ کیا جائے، چاہے وہ کسی بھی زبان میں ہو، اسی صورت میں ایک شاعر یا گیت کار معاشرے کو نئی روشنی دے سکتا ہے۔راحت اندوری اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ ایک شاعر کو معروضی صورت حال سے جڑ کر رہنا چاہیے۔ جو شاعر عصری کرب اور معروضی صداقتوں کو جان بوجھ کر نظر انداز کرتا ہے وہ بددیانتی کا مرتکب ہوتا ہے۔اس کے علاوہ وہ شاعری میں جمالیاتی طرز احساس کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔ ان کے خیال میں جمالیاتی طرز احساس کے بغیر، شاعری کی روح فنا ہو جاتی ہے۔ راحت اندوری کا اصل میدان غزل تھا اور انہوں نے ندرت خیال اور نکتہ آفرینی کی وجہ سے غزل کو نئے معنی دیے۔راحت اندوری آج کے مشاعروں کے بے حد کامیاب اور مقبول شاعر تھے۔ اس دور میں راحت اندوری کا تحت میں پڑھنے کا انداز سب سے الگ اور منفرد تھا۔ ان کے تحت کے آگے اچھے اچھوں کے چراغ ماند پڑ جاتے تھے۔ ان سے زیادہ مشاعروں کی نفسیات کون سمجھے گا کہ مشاعرے کے موضوع پر انہوں نے پی ایچ ڈی کیا ہوا تھا۔
راحت اندوری کی شاعری زندگی کے چھوٹے بڑے مسائل، عہد حاضر کے سیاسی اور سماجی حالات اور ایک عام آدمی کےدکھ درد کی ترجمان ہیں۔ ان کی شاعری میں کسی گہرے فلسفے یا کسی پیچیده رمز کی عقدہ کشائی نہیں ملتی لیکن یہ بات بھی کم اہم نہیں کہ سامع اس میں زندگی کے حقیقی رنگ پاتے ہیں۔ یہ شاعری ہر عمر کے لوگوں کو اپنے اطراف پھیلی ہوئی وسیع تر دنیا کے شب و روز کی سچی تصویریں دکھاتی ہے۔تخلیقی سطح پر سادہ اور مانوس لفظیات کے استعمال اور ایک غیر مبہم پیرایہ اظہار نے راحت اندوری کی شاعری کو ایسا ذائقہ عطا کیا جو عوام اور خواص دونوں کو اپنے دائرے اثر سے باہر جانے نہیں دیتا۔راحت اندوری کے لہجے میں احتجاج بہت زیادہ نمایاں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس کی بناء پر گزشتہ انتخابات اور اس کے بعد ہندوستان بھر میں ابھرنے والے احتجاجی مظاہروں میں ان کا کلام بہت مقبول ہوا۔ یہاں تک کہ ان کے کلام کی گونج پارلیمنٹ میں بھی سنائی دینے لگی تھی۔
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
میں جانتا ہوں کہ دشمن بھی کم نہیں لیکن
ہماری طرح ہتھیلی پہ جان تھوڑی ہے
ہمارے منہ سے جو نکلے وہی صداقت ہے
ہمارے منہ میں تمہاری زبان تھوڑی ہے
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
جو آج صاحبِ مسند ہیں کل نہیں ہونگے
کرائے دار ہیں ذاتی مکان تھوڑی ہے
جاوید اختر نے انہیں دور جدید کا حبیب جالب قرار دیا۔ راحت اندوری کی شاعری پر ظفر گورکھپوری کہتے ہیں کہ "ان کے شعری مزاج میں صاف گوئی، بے خوفی اور بے باکی کے وہ عنصر نمایاں ہیں جو ایک حقیقی فن کار کا جوہر ہوتے ہیں۔ ان کے کلام میں احتجاج وافر ہے اور احتجاج کا آبنگ اتنا crude واضح اور بیانیہ ہے کہ وہ کبھی کبھی فکری سطح پر صحافت کے حدود میں داخل ہوتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔”
کھڑے ہیں مجھ کو خریدار دیکھنے کے لیے
میں گھر سے نکلا تھا بازار دیکھنے کے لیے
قطار میں کئی نابینا لوگ شامل ہیں
امیرِ شہر کا دربار دیکھنے کے لیے
ہزاروں بار، ہزاروں کی سمت دیکھتے ہیں
ترس گئے تجھے ایک بار دیکھنے لیے
ہر ایک حرف سے چنگاریاں نکلتی ہیں
کلیجہ چاہیے اخبار دیکھنے کے لیے
راحت اندوری کے کلام کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ان کے ہاں ایسے بہت سے اشعار مل جائیں گے جن سے سرسری گزر جانا آسان نہیں ہوگا۔ ان میں فکر ہے، شعور ہے، فن ہے اور وہ رچاؤ اور ہنر داری ہے جو کسی شعر کو ادب پاره بناتی ہے۔
اسے سامانِ سفر جان یہ جگنو لے لے
راہ میں تیرگی ہوگی، مرے آنسو لے لے
عمر بھر چلتے رہے آنکھوں پر پٹی باندھ کر
زندگی کو ڈھونڈنے میں زندگی برباد کی
اس پار منتظر ہیں تیری خوش نصیبیاں
لیکن یہ شرط ہے کہ ندی پار کر کے آ
راحت اندوری کے یہ وہ اشعار ہیں جو مشاعرہ بازی کے کاروباری عمل سے قطع نظر ان کی ادبی شناخت کا حوالہ بھی ہیں۔ مستقبل انہیں اسی حوالے سے تلاش کرے گا۔
راحت اندوری کی ایک غزل کے چند اشعار ملاحظہ کیجئے گا۔
طوفاں تو اس شہر میں اکثر آتا ہے
دیکھیں اب کے کس کا نمبر آتا ہے
یاروں کے بھی دانت بہت زہریلے ہیں
ہم کو بھی سانپوں کا منتر آتا ہے
بوتا ہے وہ روز تعفن ذہنوں میں
جو کپڑوں پر عطر لگا کر آتا ہے

وہ ممبئی کی فلم انڈسٹری سے لیکر پوری دنیا میں اردو شاعری سے شغف رکھنے والوں کے پسندیدہ شعلہ بیان شاعر تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ راحت اندوری فلسفیانہ جھکاؤ رکھنے والے ایک مکمل شریف آدمی کے طور پر اپنی شاعرانہ دلکشی اور اپنے کام کیلئے قطعی وابستگی کے لئے جانے جاتے تھے۔ انہیں کراچی کے عالمی مشاعرے میں شرکت کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔