ایک فرد ایک امّت

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کی قابلِ تقلید صفات

محمد شاکر الاکرم فلاحی، ناگپور

 

’بیٹا! میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں تمہارا کیا خیال ہے ؟‘‘
’’ابّا جان! آپ کو جو حکم ہو اسے کر ڈالیے میری فکر مت کیجیے۔ میں اپنا سر تسلیم خم کرتا ہوں۔‘‘
درج بالا مکالمے سے آپ نے اندازہ لگا لیا ہوگا کہ میں کس شخصیت کا تذکرہ کرنے لگا ہوں۔ یہ بزرگ ومحترم شخصیت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ہے جن کو قرآن نے امّت کا خطاب دیا ہے۔ انَّ ابراہیم کان امّۃ قانتاً للہ حنیفاً (النحل : ۱۲۰)۔
امّت کا مطلب ایک خیال اور ایک عقیدہ کے ماننے والے لوگ جن کے درمیان کچھ مشترک اقدار پائی جاتی ہیں۔ جس طرح ایک ماں باپ کی اولاد جسمانی طور پر چاہے جتنی دور چلی جائے مگر روحانی اور نسبی تعلق باقی رہتا ہے اسی طرح ایک خیال اور ایک عقیدے کے لوگ چاہے دنیا کے جس خطّے میں بھی رہتے ہوں ایک امّت ہیں۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو امّت اس بنا پر کہا گیا ہے کہ جو کام کئی اداروں اور جماعتوں کے مل کر کرنے کا تھا وہ تنہا آپ نے انجام دیا۔ آپ نے نہ صرف پورے ملک میں توحید کی صدا بلند کی بلکہ پورے ملک میں ایک آگ سی لگا دی کہ ہر شخص آپ کی دعوت سے واقف ہو گیا تھا۔ چنانچہ جب بت شکنی کا واقعہ پیش آیا تو بلا تردّد لوگوں نے کہا ہو نہ ہو یہ ابراہیم کا کام ہے۔ کیونکہ ایک وہی ہے جو بتوں کا دشمن ہے۔ قالوا سمعنا فتیً یذکر ھم یقال لہ‘ ابرٰہیم(الانبیاء : ۶۰) لہٰذا ایک اکیلے ابراہیم کے لیے وہ آگ دہکائی گئی جو ایک پوری بستی کے لیے کافی تھی۔ مگر خدا کے حکم سے وہ آگ آپ کے لیے گلزار بن گئی۔ عراق میں آپ کی دعوت کی راہیں مسدود ہوگئیں تو مصر ہوتے ہوئے حجاز پہنچ گئے بی بی ہاجرہ اور نومولود اسمٰعیل کو اس بے آب وگیاہ وادی میں چھوڑا، دم بھی نہ لیا اور پھر دعوتی اسفار کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ اردن، شام اور دنیا کے جس خطے تک بھی آپ کی رسائی ہو سکی وہاں پہنچ کر دعوتِ توحید عام کی۔ آپ نے مختلف شہروں اور ملکوں کو چھان کر تین علاقے منتخب فرمائے۔ ایک اردن کا علاقہ جہاں آپ نے اپنے بھتیجے لوط علیہ السلام کو تعینات کیا اور اپنی خلافت عطا کی دوسرا شام کا علاقہ جہاں آپ نے اپنے دوسرے بیٹے حضرت اسحٰق علیہ السلام کو تعینات کیا اور اپنی خلافت عطا کی۔ تیسرا حجاز کا علاقہ جو آپ نے اللہ کے حکم سے اپنے بڑے بیٹے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے لیے منتخب فرمایا۔ تین میں سے دو علاقے آج بھی دنیا کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ آپ نے بڑے بیٹے کے ساتھ مل کر کعبہ تعمیر کیا اور دوسرے بیٹے کے علاقے میں قدس تعمیر ہوا گویا آپ معمارِ جہاں بھی تھے۔ آپ کی نسل سے تین بڑی امّتیں وجود میں آئیں امّتِ یہود، امّتِ نصاریٰ اور امّتِ مسلمہ۔ آپ کو پوری دنیا کی امامت وخلافت عطا کی گئی۔قال انی جاعلک للناس اماماً (البقرہ : ۱۲۴) آپ کو پوری دنیا کا مؤذن بنایا گیا۔ و اذن فی الناس بالحج (الحج : ۲۷) آپ نے کہیں مقام کیا ہو یعنی سکونت اختیار کی ہو اس کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ آپ نے اپنے بیٹوں میں سے کسی کے پاس بھی مستقل بودو باش اختیار نہیں کی گویا آخر دم تک دعوتی جد وجہد سے فارغ نہیں ہوئے بلکہ مسلسل سفر میں رہے۔ میں وقت ہوں مری تقدیر میں قیام نہیں حفیظ روزِ ازل ہی سے میں سفر میں ہوںتاہم اتنا اشارہ ضرور ملتا ہے کہ بی بی ہاجرہ کو حجاز میں چھوڑا اور بی بی سارہ کو اپنے ساتھ رکھا۔ جب قومِ لوط پر عذاب آیا تو آپ ان کے درمیان نہیں تھے۔ ممکن ہے ملکِ شام میں رہے ہوں مگر یہ ثابت ہے کہ بی بی سارہ آپ کے ساتھ تھیں۔قومِ لوط پر عذاب کے لیے جو فرشتے بھیجے گئے تھے وہ پہلے آپ کے پاس آئے اور آپ کو حضرتِ اسحٰق کی بشارت دی ۔حضرت اسحٰق کی بشارت سن کر حضرتِ سارہ کو تعجب ہوا مگر فرشتوں نے اطمینان دلایا۔ تفصیل کے لیے دیکھیں سورۃ ذاریات آیات ۲۴ تا۳۰۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے آپ کو سچی ناموری عطا فرمائی کہ آپ کے بعد بھی آپ کا نام جاری فرمایا۔آج پوری دنیا میں آپ کے نام لیوا موجود ہیں۔ تین بڑی امّتوں کے لوگ آپ کو اپنا پیشوا اور مقتدا تسلیم کرتے ہیں۔ سرکارِ دو عالم احمدِ مرسل ﷺ کے ماننے والے تو بس امّتِ مسلمہ کے ہی افراد ہیں جبکہ سیدنا ابراہیم کے معتقد، امّتِ مسلمہ کے علاوہ یہود ونصاریٰ بھی ہیں۔ یہودی کہتے تھے ابراہیم علیہ السلام یہودی ہیں اور نصاریٰ کہتے تھے کہ وہ نصرانی ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ نہ وہ یہودی تھے نہ نصرانی تھے بلکہ مسلمِ حنیف تھے۔ماکان ابراہیم یھودیّاً ولا نصر انیّاًوَّ لٰکن کان حنیفاً مسلماً (آل عمران : ۶۷) دنیا کا دو تہائی حصہ بلکہ اس سے بھی زیادہ آپ کے ماننے والوں سے آباد ہے باقی کے ایک تہائی میں باقی مذاہب کے لوگ رہتے بستے ہیں۔ گویا قرآن کا یہ بیان کہ آپ ایک امّت تھے نا قابلِ تردید بیان ہے۔
اس تذکرے سے یہ بات ذہن نشین کرنی مقصود ہے کہ ہم ان کی امّت ہیں جو خود اپنے آپ میں ایک امّت تھے۔ آپ کی امّت میں سے امامت اسی کو ملے گی جو آپ کی جانشینی کا حق ادا کرے گا۔واذابتلیٰ ابرٰہیم ربُّہ‘ بکلمٰت فاَ تمّھن قال انی جاعلک للناس اماماً قالَ ومن ذُرِّ یّتی قالَ لاینال ُعھدی الظٰلمین (سورۃ البقرہ:۱۲۴) اور ان سے نسبت کے سچّے دعویدار وہی ہیں جو ان کے متّبع ہیں۔ انَّ اَولی النّاس بابرٰہیم للذین اتّبعوہ و ھٰذا النّبیُّ و الّذینَ آمنوا
(آلِ عمران:۶۸)۔
ایک فرد ایک امّت کیسے بن سکتا ہے وہ راز سورۃ نحل کی آیت ۱۲۰ میں بیان کر دیا گیا ہے جس کا ذکر اوپر آچکا ہے۔ مذکورہ آیت میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی تین صفات کا ذکر کیا گیا ہے۔ اگر آیت ۱۲۱ کو ملا لیا جائے تو چار صفات ہوتی ہیں۔ ایک صفتٰ قنوت ہے دوسری حنفیت تیسری شرک سے بیزاری اور چوتھی شکرانِ نعمت۔ قانت یا قنوت کا مطلب فرمابرداری، وفاداری بشرطِ استواری جانثاری، حنفیت کا مطلب یکسوئی، شکرانِ نعمت کا مطلب اللہ کی تمام نعمتوں کی قدر کرنا۔ امّت بننے کا راز یہی چار صفات ہیں اور چاروں صفات میں تسلسل اور دوام کا پایا جانا ضروری ہے۔ ان صفات کو اپنا کر امّت کا ہر فرد ایک امّت بن سکتا ہے۔
معمارِ حرم باز بہ تعمیرِ جہاں خیز
اٹھ خوابِ گراں خوابِ گراں خوابِ گراں خیز
***

ایک فرد ایک امّت کیسے بن سکتا ہے وہ راز سورۃ نحل کی آیت ۱۲۰ میں بیان کر دیا گیا ہے جس کا ذکر اوپر آچکا ہے۔ مذکورہ آیت میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی تین صفات کا ذکر کیا گیا ہے۔ اگر آیت ۱۲۱ کو ملا لیا جائے تو چار صفات ہوتی ہیں۔ ایک صفتٰ قنوت ہے دوسری حنفیت تیسری شرک سے بیزاری اور چوتھی شکرانِ نعمت۔ قانت یا قنوت کا مطلب فرمابرداری، وفاداری بشرطِ استواری جانثاری، حنفیت کا مطلب یکسوئی، شکرانِ نعمت کا مطلب اللہ کی تمام نعمتوں کی قدر کرنا۔ امّت بننے کا راز یہی چار صفات ہیں اور چاروں صفات میں تسلسل اور دوام کا پایا جانا ضروری ہے۔ ان صفات کو اپنا کر امّت کا ہر فرد ایک امّت بن سکتا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 25 تا 31 جولائی 2021