معاشی عدم توازن کم کرنا ضروری

غلط پالیسی سے چھوٹے کاروبار ختم ہونے کے دہانے پر

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

 

20فیصد آبادی خط افلاس کی طرف دھکیلی گئی ہے
کورونا کی دوسری لہر کے بعد صنعت کاروں کو گزشتہ سال کے مقابلے میں تیز رفتاری سے کاروبار میں بہتری کی توقع ہے۔ صنعت کاروں اور کاروباریوں کو امید ہے کہ دوسری لہر سے ہوئی معیشت کی بربادی پہلی لہر کے مقابلے میں بہت حد تک کم ہے۔ کنفڈریشن آف انڈین انڈسٹریز (سی آئی آئی) کے سی ای او پول کی رپورٹ سے اس بات کی توثیق ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق انسٹھ فیصد کارپوریٹ کو توقع ہے کہ دوسری کورونا لہر کے بعد ان کے شعبوں کو فروخت میں گزشتہ سال کے مقابلے تیزی آئے گی۔ چھیالیس فیصد لوگوں کا ماننا ہے کہ صورتحال گزشتہ کی طرح ہی رہے گی۔ سی آئی آئی کی رپورٹ کے مطابق انچاس فیصد سی ای او کا ماننا ہے کہ جاریہ مالی سال 22-2021 کی پہلی ششماہی میں خریداروں میں طلب کو جاری رکھنے میں ٹیکہ کاری کا اہم رول ہے۔ تقریباً اکیاسی فیصد سی ای او کا تجزیہ ہے کہ دوسری لہر کا اثر ان کے سیکٹرس کے برآمدات پر نہیں پڑا۔
جی ایس ٹی کے نفاذ کے پانچویں سال جون 2021 میں سب سے کم ٹیکس وصولی ہوئی ہے۔ جو ترانوے ہزار کروڑ روپے ہے۔ یہ گزشتہ دس مہینوں میں کم ترین وصولی ہے۔ امسال اپریل میں جی ایس ٹی سے ٹیکس وصولی کے ذریعہ 1.41 لاکھ روپیوں آمدنی ہوئی ہے۔ کورونا کی دوسری لہر کے ساتھ ہی مئی میں متاثرہ ریاستی حکومتوں نے سخت لاک ڈاون نافذ کیا تھا اس لیے اس طرح کی کم وصولی پر حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ گرچہ مئی۔جون میں جی ایس ٹی کی وصولی 22-2021 کی پہلی سہ ماہی میں گزشتہ سال کی پہلی کورونا لہر کے دوران پہلی سہ ماہی سے بہتر رہی کیونکہ بغیر منصوبہ کے پہلے لاک ڈاون کے مقابلے اس دوسرے نے معیشت کو کم زخم دیا۔ گرچہ وبا کی دوسری لہر نے کاروبار اور خریداروں کی قوت خرید کو بری طرح جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اوسط ماہانہ وصولی ایک لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی ہے، جیسا کہ نرملا سیتا رمن نے کہا کہ یہ ’’نیا معمول‘‘ ہے جو شاید پورے سال جاری رہے۔ اگر تیسری لہر کا قہر نہیں آتا ہے اور ٹیکہ کاری کی تحریک حسب وعدہ جاری رہتی ہے تو اس سے بھی بہتر کارکردگی کی امید کی جا سکے گی۔ مگر ٹیکہ کاری کی رفتار بہت سست ہے کیونکہ ٹیکہ کی دستیابی جملہ باز حکومت کے لیے مشکل ہو رہی ہے۔ اب حکومت اپنی ناکامی کو چھپانے کے لیے آبادی کا مسئلہ اٹھا رہی ہے۔ جی ایس ٹی ڈھانچہ میں اصلاح بہت اچھی پیش رفت ہے مگر اس سے بھی زیادہ کیا جانا چاہیے۔ بہت سارے صنعتی شعبوں نے عارضی طور سے طلب کو دیکھ کر اپنے شرح پیداوار میں کٹوتی کی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ وصولی میں کمی فطری نہیں ہے۔ جی ایس ٹی کونسل کی میٹنگ بلا تاخیر ہو جہاں معیشت کو متحرک کرنے کے اصولوں پر گفتگو ہو اور مرکز کو ریاستوں کا فوری حصص دے کر انہیں بھی ترقی کے مواقع فراہم کرے جس سے مرکز اور ریاستوں کے تعلقات میں خوشگواری آئے گی۔ دریں اثنا چیف اکانومک ایڈوائزر سنجیو سانیال نے کہا ہے کہ جلد ہی ہماری معاشی ترقی کی شرح نمو بہتر ہو جائے گی۔ اس کے باوجود طلب میں کمی آنے کا زیادہ ہی بڑا چیلنج ہے ساتھ ہی مالی خسارہ کے زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے۔
ملک کے موجودہ معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے ملک کی مشہور ریٹنگ ایجنسی کریسیل کے ایم ڈی اور سی ای او اشو سویش کہتی ہیں کہ کورونا قہر نے بھارتی طبی ڈی پی کو بہت زخم دیا ہے۔ جن سیکٹرس پر کورونا کی پہلی لہر سے آزادی کے بعد معیشت میں سب سے بڑی تنزلی آئی ہے اس سے نکلنے کے قریب ہی دوسری لہر نے اپنا جلوہ بکھیرنا شروع کیا۔ اس سے حالات کافی بدل گئے۔ لاک ڈاون نے خریداروں اور کاروباریوں کی نفسیات کو متزلزل کردیا گرچہ دوسری لہرمعاشی نقطہ نظر سے قدرے کمزور رہی ہے۔ اب تو تیسری لہر ابھی دستک دینے والی ہے اور ٹیکہ کاری کی رفتار جیسی ہونی چاہیے وہ نہیں ہے کیونکہ ملک میں ٹیکہ ہی دستیاب نہیں ہے کئی سیکٹرس میں ابھی بھی لاک ڈاون ہے۔ ایسے ہی حالات کے مد نظر کریسیل نے جاریہ مالی سال کی معاشی ترقی کے ممکنہ شرح نمو کو گیارہ فیصد سے کم کرکے نو اعشاریہ پانچ فیصد کردیا ہے۔ ایسے ابتر حالات میں معاشی ترقی کی شرح نمو آٹھ فیصد تک بھی جا سکتی ہے۔ گزشتہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں ریکارڈ تیئیس اعشاریہ نو فیصد کی تنزلی ہوئی ہے اور چوتھی سہ ماہی میں شرح نمو ماقبل کورونا کی طرف لوٹ آئی تھی۔ ترقی کی رفتار خراب نہیں تھی۔ کورونا کی دوسری لہر نے امسال کی پہلی سہ ماہی کی شرح نمو پر پانی پھیر دیا ہے۔ اس لیے گمان ہے کہ ماقبل کورونا کی حالت میں آنے میں کافی وقت لگے گا۔ یہی اصل بنیاد ہے کریسیل کے نو اعشاریہ پانچ فیصد شرح نمو کے اندازہ کا۔ ممکن ہے کہ دوسری سہ ماہی میں حالات میں زیادہ بہتری آئے مگر معیشت میں تیزی سے بہتری کا دور سال 23-2022 میں لوٹتا دکھائی دیتا ہے کیونکہ تب تک زیادہ تر آبادی کو ٹیکہ لگ چکا ہو گا۔ حکومت کا اس سال کے اخیر تک
اٹھاسی فیصد بالغوں کو ٹیکہ لگا دینے کا دعویٰ ہے لیکن کریسیل کا اندازہ ہے کہ ستر فیصد بالغوں کو ہی ویکسن لگ پائے گا۔ محترمہ اشو سویش کا ماننا ہے کہ اس قہر نے جن شعبوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے ان کے لیے آسانی سے کم شرح سود پر قرض کا انتظام ہونا چاہیے۔ صحت عامہ، چھوٹے کاروباریوں اور خریداروں کو لیکوڈیٹی (رقیقیت) کی پریشانی کا حل نکالا جائے آر بی آئی کے مالیاتی ضابطہ کے ساتھ حکومت ایسے سیکٹرس میں اپنے فنڈس کا بہتر استعمال کر سکتی ہے۔ پہلا ٹیکہ کاری کی تیزی پر کیونکہ جب تک ویکسی نیشن کے ذریعہ لوگوں کو کسی حد تک محفوظ نہیں کیا جائے گا تب تک کورونا قہر کو قابو میں کرنا مشکل ہوگا۔ دوسرا چھوٹے صنعت کاروں، دیہی آمدنی، شعبہ خدمات اور مفلس و نادار لوگوں پر خطیر رقم خرچ کرنا ہوگا کیونکہ لاک ڈاون سے ان شعبوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ دیہی معیشت کے لیے منریگا اور پی ایم آواس یوجنا پر توجہ دینے اور صحیح طور پر تقسیم بڑھانے سے کافی فرق پڑے گا۔ شہروں میں غیر منظم شعبوں کے مزدوروں کی مدد کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ شہروں کا سرویس سیکٹر بری طرح متاثر ہے کیونکہ شہروں کی ستر فیصد معیشت کا انحصار اس پر ہے۔ اس شعبہ میں کسی طرح کی جاب گارنٹی نہیں ہوتی ہے۔ مائیکرو اور چھوٹی کمپنیوں کو سہ طرفہ جھٹکا لگا ہے۔ طلب نہیں ہے، پیداوار میں مشکلات ہیں اور اس پر لاگت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انہیں حکومت سے مزید مدد کی ضرورت ہے۔
ہمارے یہاں طلب آہستہ آہستہ کم ہو رہی ہے بے روزگاری اور مہنگائی آسمان کی بلندی پر ہے۔ معیشت تنزلی کا شکار ہے۔ معیشت میں ابتری کی شروعات 17-2016 میں نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے نفاذ سے ہوگئی تھی۔ اس لیے اصل مسئلہ کووڈ-19 کا نہیں ہے بلکہ ہمارے ملک کے معاشی اصولوں کا ہے۔ 2014 سے ہی ہمارا سنسیکس لگاتار بڑھتا جا رہا ہے ممکن ہے کہ بڑھتے بڑھتے وہ اٹھاون ہزار کے پار کر جائے مگر ہماری معاشی شرح نمو کم ہو رہی ہے۔ سنسیکس میں اچھال کی وجہ بڑی کمپنیوں کی زیادہ شراکت داری ہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ معیشت میں تنزلی آرہی ہے لیکن ارب پتی صنعتکاروں کی تعداد بڑھ رہی ہے کیونکہ جی ایس ٹی کے نفاذ سے صنعت کاروں کے مال کے لیے بین الریاستی نقل وحمل آسان ہو گیا ہے لیکن چھوٹے کاروباریوں اور صنعتکاروں کی مشکلیں بڑھ گئی ہیں۔ جی ایس ٹی سے چھوٹے صنعت کار ختم ہو رہے ہیں اور بڑے صنعت کار بڑھ رہے ہیں۔ نوٹ بندی نے کم کرتب نہیں دکھایا ہے کیونکہ چھوٹے صنعت کار نقدی میں ہی کام کرتے تھے۔ اسی کے ساتھ حکومت نے ہائی ویز کی تعمیر پر کافی سرمایہ کاری کی جس سے بڑے صنعت کاروں کو طویل مسافت تک سامان پہنچانے میں سہولت ہوئی۔ مگر چھوٹے کاروباریوں کا بازار نزدیکی علاقوں تک ہی محدود ہوتا ہے۔ ہائی ویز کی تعمیر میں استعمال ہونے والے تمام مال واسباب بڑے صنعتکاروں کا تیار کردہ ہوتا ہے۔ مثلاً سمنٹ، اسٹیل، تارکول، جے سی بی وغیرہ اور انہیں کے ذریعے سپلائی کیا جاتا ہے۔ ترقی کے ایسے ماڈل کے نتیجے میں چھوٹے کاروباری ختم ہونے کے دہانے پر ہیں۔ انہیں چھوٹے کاروباریوں کے ختم ہونے پر ملک میں بیروزگاری بڑھی ہے کیونکہ چھوٹی صنعتوں سے ملک کی بڑی آبادی روزگار پاتی ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ گھریلو اور چھوٹے کاروبار میں گراوٹ حکومت کی معاشی پالیسی کی وجہ سے ہے۔ ماہرین معاشیات پروفیسر امرتیہ سین، پروفیسر راگھو رام راجن، پروفیسر ابھیجیت بنرجی اور ارجیت پٹیل وغیرہم پہلے ہی معاشی ابتری کی وجہ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کو قرار دے چکے ہیں۔ حکومت کو اس سے پیدا ہونے والے مسائل پر توجہ دینی چاہیے اس لیے عام لوگوں کے استعمال میں آنے والی چیزوں پر جی ایس ٹی کی شرح کم کی جائے۔ اب بنیادی ڈھانچہ میں سرمایہ کاری کی سمت دیہی علاقوں اور جھگی جھونپڑی کی طرف ہو۔ وہاں بجلی اور سڑک کے سہولتیں میسر ہوں۔ اس سے ہماری چھوٹی اور دیہی صنعتوں کو تحریک ملے گی اور روزگار کے مواقع نکل آئیں گے، گھریلو بازار کی طلب میں اضافہ ہوگا۔ اگر حکومت نے معاشی اصولوں میں تبدیلی نہیں کی تو ہماری مصیبتیں کم نہیں ہوں گی۔ ماہر معاشیات تھومس پیکٹی نے بہت صحیح کہا ہے کہ بھارت برٹش راج سے ارب پتی راج کی طرف بڑھ رہا ہے۔ لوگوں کی گھریلو بچت کم ہو رہی ہے جبکہ معیشت جو سانڈ پر سوار ہے وہ بھاگ رہی ہے۔ سنسیکس گرجتے ہوئے نئی اونچائیوں کو چھو رہا ہے، اس کے ساتھ ہی ارب پتیوں کی دولت بڑھ رہی ہے۔ اور متوازی طور پر پندرہ سے بیس فیصد آبادی خط افلاس کی طرف دھکیل دی گئی ہے۔
***

اگر حکومت نے معاشی اصولوں میں تبدیلی نہیں کی تو ہماری مصیبتیں کم نہیں ہوں گی۔ ماہر معاشیات تھومس پیکٹی نے بہت صحیح کہا ہے کہ بھارت برٹش راج سے ارب پتی راج کی طرف بڑھ رہا ہے۔ لوگوں کی گھریلو بچت کم ہو رہی ہے جبکہ معیشت جو سانڈ پر سوار ہے وہ بھاگ رہی ہے۔ سنسیکس گرجتے ہوئے نئی اونچائیوں کو چھو رہا ہے، اس کے ساتھ ہی ارب پتیوں کی دولت بڑھ رہی ہے۔ اور متوازی طور پر پندرہ سے بیس فیصد آبادی خط افلاس کی طرف دھکیل دی گئی ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 25 تا 31 جولائی 2021