ایک خاص سوچ نے دلی کو آگ کے حوالے کردیا
الکٹرانک وسوشیل میڈیا ڈبیٹ ہندو مسلم شبیہ کو متاثرکررہے ہیں
جاویداختر
(اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ جرنلزم، خواجہ بندہ نواز یونیورسٹی ، گلبرگہ (
آخر جس بات کا ڈر تھا وہی ہوا! اشتعال انگیزی اور نفرت کی سیاست نے کسی کو نہیں بخشا۔ شمال مشرقی دہلی کے کئی علاقوں میں فساد برپا کیا گیا جس میں اب تک درجنوں جانیں گئی ہیں اور قریب دو سو سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ اس تشدد میں ہندو، مسلم دونوں کے گھروں کو اس آگ کے حوالے کر دیا گیا جس آگ کو سلگانے کی برسوں سے کوشش جاری تھی۔ کیا اب بھی ہم نفرت خواب غفلت میں رہیں گے کیونکہ جس طرح سے نفرت کی سیاست کا لگاتار استعمال کرتے ہوئے انسانوں کو فساد کی آگ کا ایندھن بنانے کی کوشش کی جا رہی تھی اس کوشش میں ملک دشمن اور انسان کی کھال میں بھیڑیوں کو کامیابی ملتی نظر آ رہی ہے۔ اس ‘کھیل’ میں میڈیا کا رول سب سے بڑا ہے۔ کیونکہ جس طرح سے کئی ٹی وی چینلوں کی لگاتار کوشش رہی ہے کہ ملک کے عوام کو کیسے مذہب کے نام پر بانٹا جائے تاکہ ایک خاص سیاسی جماعت کو فائدہ پہنچایا جا سکے۔ پرائم ٹائم ڈبیٹ میں ہندو مسلم، اینٹی نیشنل اور اینٹی ہندو جیسے الفاظ نے ہمیں وہاں پہنچا دیا جہاں سب بیگانے ہو جاتے ہیں۔
مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر، بی جےپی لیڈر کپل مشرا اور بی جے پی کے ہی رکن پارلیمان پرویش ورما کے دلوں کو اب شاید ٹھنڈک اور تسلی مل گئی ہوگی کیونکہ ‘‘دیش کے غداروں’’ کو گولی مار دی گئی ہے اور اب ایسا لگتا ہے کہ ملک میں امن و چین قائم ہوچکا ہے۔ ان ‘بھیڑیوں‘ سے کوئی یہ پوچھے کہ ملک کا غدار کون تھا؟ کیا وہ بچاسی سالہ اکبری غدار تھی جنھیں بلوائیوں نے زندہ جلا کر مار دیا یا پھر وہ پندرہ سالہ ہندو لڑکا جس کا باپ اپنے بیٹے کی لاش کے لیے اسپتال کا چکر کاٹتا رہا۔یا پھر شیو وہار کا وہ دیش بھگت ہندو پریم کانت بگھیل جس نے اپنی جان کی پروا کیے بغیر چھ مسلمانوں کی جان بچائی۔ یا پھر وہ مسلمان جنھوں نے کئی علاقوں میں ہندوؤں کو بلوائیوں سے بچایا اور مندروں کو تحفظ فراہم کیا؟ حالانکہ اس فساد نے مسجدوں اور درگاہ کو بھی نہیں چھوڑا۔ کیا ہم اب بھی اس ڈیزائین کو سمجھنے سے قاصر ہیں جس کا تجربہ ملک کے کئی علاقوں میں کیا جا رہا ہے؟ چاہے وہ 1947 کا فساد ہو یا 1992 میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد کا فساد۔ 1984 میں دہلی میں کا سکھوں کا قتلِ عام ہو یا پھر 2002 میں گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام۔ ڈیزائین تقریباً ایک ہی ہے، اس ڈیزائین کی سب بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ اس میں کوئی سیاسی لیڈر اپنا کچھ نہیں کھوتا۔ اگر کوئی کھوتا ہے تو وہ صرف ایک عام شہری جس کا سب کچھ لوٹ لینے کے بعد بھی اس سے ‘دیش بھگتی’ کی امید کی جاتی ہے۔ وہ دیش بھگت اور انسانیت کے دوست ہی تو تھے جنھوں نے مندر اور مسجد کی حفاظت کی، جنھوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کی جانیں بچائی تھیں۔ ظاہر ہے یہ کوئی سیاسی لوگ نہیں تھے جنھیں انسانوں کی لاشوں میں بھی ہندو، مسلم نظر آتا ہے اور سیاسی مفادات حاصل کرنے کی تلاش میں لگے رہتے ہیں۔ یہاں ہمیں سوچنا ہوگا کہ آخر ہم ان سیاسی لیڈروں کے ہاتھ میں کٹھ پتلی کی طرح کیوں ہو جاتے ہیں جسے وہ جب چاہیں اور جیسے چاہیں نچا سکتے ہیں، ایک انسان کو دوسرے انسان کی جان لینے پر مجبور کر سکتے ہیں اور ایک دوسرے کے گھر جلانے پر اکسا سکتے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم نے ان سیاسی لیڈروں کو اپنا سب کچھ سونپ دیا ہے۔ جی ہاں سب کچھ!
آخر کون ہے جو ایک بڑی تعداد کو خونی بھیڑ میں تبدیل کر رہا ہے اور جس کا انھیں احساس بھی نہیں ہے؟ ہمیں اس سوال کا جواب چاہیے جب دہلی کے موج پور میں ایک پنڈت بھیڑ کو اُکساتے ہوئے کہتا ہے کہ ‘‘مسلمانوں کو جہاں دیکھو وہیں گولی مار دو، اوپر سے آرڈر آگیا ہے’’۔ ہمیں اس سوال کا بھی جواب چاہیے جب نیوز 18 کی رپورٹر ماریہ شکیل اپنے ٹویٹر ٹائم لائن پر یہ کہنے پر مجبور ہوجاتی ہیں کہ فساد کے دوران ‘‘کوئی بھی اپیل یا صحافی ہونا کام نہیں آیا! صرف ‘شرما’ ، ‘شکلا’ اور ‘رودراکش’ مالا نے بلوائیوں سے تین رپورٹروں کو بچایا۔’’
مجھے اس سوال کا بھی جواب چاہیے کہ شاخ رخ کیوں کھلے عام بندوق لے کر گولیاں چلاتا نظر آیا؟ مجھے اس کا بھی جواب چاہیے کہ گامری ایکسٹنشن میں ایک مسلم شخص کو زندہ جلانے والی بھیڑ سے ایک مقامی ہندو خاندان نے کیوں بچایا؟ مجھے کا اس بھی جواب چاہیے کہ جندل سنگھ سدھو کو مسلمان کی جان بچانے کا کیوں خیال آیا اور سلمان صدیقی ایک ہندو شخص کا محافظ بن کر سامنے کیوں آیا؟ جب ہم اکیلے ایک کونے میں بیٹھ کر ان سبھی سوالوں کا جواب تلاش کریں گے تو ہمیں اس کا جواب ضرور ملے گا اور اس بیچ اس ڈیزائین کا بھی جواب ملے گا جس کے ذریعہ ملک کو نفرت کی آگ میں جھونکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کپل مشرا، رام پرویش اور انوراگ ٹھاکر جیسے سیاسی لیڈران ایک ‘خاص’ نظریے کے تحت ہمارے ملک کو ایسے ملک میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جہاں ہمیں ایک دوسرے سے ملنے اور گلے لگانے کی کوئی صورت ہہ باقی نہ رہے اور انسانیت کے دشمن سیاسی لیڈروں کو اپنا ووٹ بینک مضبوط کرنے میں کامیابی مل سکے۔ کیونکہ جب کپل مشرا جیسے سیاسی لیڈر کھلے عام پولیس کی موجودگی میں بھیڑ کو اشتعال دلانے کی کوشش کرتے ہیں تب صرف تباہی آتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے راجدھانی کے کئی علاقوں کو آگ کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ انسان کا خود پر سے بھروسہ اٹھنے لگتا ہے، پیار ومحبت کی روشنی مدھم پڑ جاتی ہے، جمہوریت انارکی کی شکل اختیار کرنے لگتی ہے اور پھر نصیحت اور انصاف کی سب باتیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں اور نفرت سب پر بھاری پڑنے لگتی ہے۔
کوئی کہتا ہے کہ بلوائی باہر سے آئے تھے۔ کوئی کہتا ہے کہ ہم بلوائیوں کو چہروں سے پہچانتے ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ ہوا پولیس کی موجودگی میں۔ کسی کا کہنا ہے کہ پولیس تشدد کے مقام پر دیر سے پہنچی تب تک بہت کچھ ختم ہوچکا تھا تو کوئی کہتا ہے کہ بلوائیوں کا ساتھ دینے کے لیے پولیس پہلے سے موجود تھی۔ یہاں تک کہ ہرش مندر اور فرح نقوی کی عرضیوں پر سماعت کرتے ہوئے دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس ایس مُرلی دھر اور تلونت سنگھ کی بینچ نے دہلی پولیس اور مرکزی حکومت کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی۔لیکن کیا ہوا اور کیا ہونا تھا؟ ماحول مزید خراب ہونے کا ‘بہانہ’ بناکر سالسٹر جنرل تشار مہتا نے تینوں ‘مجرموں’ کے خلاف معاملہ درج کرنے کے لیے مزید وقت مانگا اور دوسرے ہی دن جسٹس ڈی این پٹیل اور جسٹس سی ہری شنکر کی بینچ نے سماعت کو 13 اپریل تک کے لیے ملتوی کر دیا۔ جسٹس مرلی دھر کے دہلی پولیس کو سرزنش کرنے کے ایک دن کے اندر ہی ان کا تبادلہ پنجاب، ہریانہ ہائی کورٹ میں کر دیا گیا جو شاید پہلے سے ہی طے تھا۔ لیکن جس جلدی میں تبادلہ کیا گیا اس پر شک کیا جانا فطری عمل ہے۔ وہ جج بھی سوچتا ہوگا کہ ہندو۔مسلم کی سیاست کا رنگ اس قدر گہرا ہوتا جا رہا ہے کہ ہر روز کوئی نہ کوئی بلوائی بن رہا ہے پھر چاہے وہ کسی شکل میں سامنے آئے اور اس سب کے پیچھے وہی نظریہ کار فرما ہے جس نے بابائے قوم گاندھی جی کو بھی نہیں بخشا۔ جس نظریہ نے اخلاق کی جان لی اور جس نظریہ نے اپنے ہی گھر میں ایک بہت بڑی آبادی کو بیگانا بنا کر رکھ دیا ہے۔ اگر ملک اور ملک کے لوگوں کو بچانا ہے تو سب سے پہلے اس نظریہ کو ختم کرنا ہوگا جس نے معصوم لوگوں کو نفرت کی آگ میں جھونک رکھا ہے۔ لیکن جس نظریہ کی ہم بات کر رہے ہیں اس کے خلاف ہمیں لڑنے کے لیے کسی بندوق، لاٹھی یا کسی مہلک ہتھیار کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کا مقابلہ ایک دوسرا ایسا نظریہ ہی کر سکتا ہے جو دلوں کو جوڑے، آپسی بھائی چارے کو مضبوط کرے اور انسانی قدروں کو تحفظ فراہم کرے۔ کیا ہم ملک کے سامنے ایسے نظریے کو پیش کرنے اور اسے سبھی تک پہنچانے کے لیے تیار ہیں؟
***