ایک تھا سنت ایک تھا ڈاکٹر

ذات پات کے خاتمہ کے لیے امبیڈکر کی جدوجہد اور گاندھی جی کا موقف!

شبیع الزماں (پونہ)

زیر نظر مضمون اروندھتی رائے کی کتاب The Doctor And The Saint: The Ambedkar-Gandhi debate caste race and annihilation of cast پر تبصرہ ہے۔ یہ انگریزی کتاب پینگوین پبلیکیشن سے شائع ہوئی ہے۔ اس میں کل 165صفحات ہیں۔ مواد دلائل اور تحقیقات سے بھرا ہوا ہے۔ طرز تحریر دلچسپ اور انداز بیان دل کو چھو لینے والا ہے۔ کتاب شروع سے لے کر آخر تک قاری کو باندھے رکھتی ہے۔ اروندھتی رائے مصنف و سماجی جہد کار ہیں۔ رائے کو ان کی معروف کتاب The God Of Small Things کے لیے Booker Prize سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ ہندوستانی سماج اور اس کے مسائل اروندھتی رائے کی تحریروں کا خاص موضوع ہوتے ہیں۔
زیر تبصرہ کتاب بھی ہندوستانی تاریخ کے سب سے بڑے، طویل، اجتماعی اور مذہبی استحصال یعنی کاسٹ سسٹم کا تنقیدی جائزہ ہے۔ یہ کتاب ڈاکٹر امبیڈکر کی معروف تصنیف Annihilation Of Caste کے جدید ایڈیشن کے تعارف کے طور پر لکھی گئی تھی۔ Annihilation Of Caste ڈاکٹر امبیڈکر کی ایک ایسی تقریر ہے جو لکھی تو گئی لیکن اس کو بیان کرنے کا موقع انھیں ہندوستان نے کبھی نہیں دیا۔ ہندووں کی اصلاحی تنظیم ذات پات توڈک منڈل نے امبیڈکر کو اعلیٰ ذات کے ہندووں میں تقریر کے لیے مدعو کیا تھا لیکن پروگرام سے پہلے تقریر کا مواد دیکھنے کے بعد پروگرام ہی منسوخ کردیا گیا۔ منڈل کا احساس تھا کہ تقریر راست طور پر ہندو مذہب پر حملہ ہے۔ امبیڈکر نے تقریر کو شائع کرنے کا فیصلہ کیا لیکن کوئی بھی بڑا پبلشر تیار نہیں ہوا۔ یہ کتاب چھوٹے موٹے پبلشرز کے ذریعہ اب تک لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوچکی ہے۔ پہلی مرتبہ جب یہ کتاب شائع ہوئی تھی تبھی گاندھی جی نے اس پر اعتراض کیا تھا اس کے بعد ان کے اور امبیڈکر کے درمیان اس مسئلہ کو لے کر ہمیشہ جنگ برپا رہی تھی۔
زیر تبصرہ کتاب گاندھی اور امبیڈکر کی کاسٹ سسٹم کے متعلق کی گئی کوششوں کا جائزہ ہے۔ گاندھی اسے باقی رکھنا چاہتے تھے جبکہ امبیڈکر اسے ختم کرنا چاہتے تھے۔ گاندھی کی شخصیت ہندوستان اور مغرب میں ایک تاریخی حیثیت کی حامل شخصیت ہے۔ دنیا انہیں مہاتما کے نام سے جانتی ہے لیکن اگر کتاب کے دلائل کو درست مانا جائے (اور انھیں غلط ماننے کی کوئی وجہ بھی نظر نہیں آتی) تو گاندھی کو مہاتما کے بجائے امیت شاہ کے الفاظ میں ’’چتُر بنیا‘‘ کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ کتاب کا بیانیہ یہ کہتا ہے کہ امبیڈکر کی دلتوں کے حقوق کے لیے کی گئی جدوجہد کو گاندھی نے بہت عیاری اور چالاکی سے ختم کردیا۔ دلت نہ ہندو فولڈ سے باہر جا سکے اور نہ ہی ان کی ذلت بھری زندگی کا خاتمہ ہو سکا۔
مغربی ممالک میں ہندوستان کی عمومی تصویر، روحانیت، اہنسا، تحمل، مذہبی رواداری، جمہوری اقدار، سبزی پسند، غیر توسیع پسند اور پر امن ملک سے مشہور ہے۔ہندوستان کی اس صورت گری کا بہت بڑا کریڈٹ گاندھی جی کو جاتا ہے۔ ہندوستان اس امیج کو مستقل بنائے رکھتا ہے۔ اروندھتی رائے کے مطابق اس امیج کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر دلتوں پر ہو رہے مظالم کے خلاف کبھی آواز نہیں اٹھتی اور انھیں اندرونی معاملات کہہ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
رائے نے امبیڈکر، گاندھی اور دلتوں کے تعلق سے ان کی کوششوں کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔
کتاب کو چار حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
پہلے حصے میں گاندھی جی کی افریقہ میں کی گئی کوششوں کا تنقیدی جائزہ ہے۔ دوسرا حصہ گاندھی کے ہندوستان واپسی سے مہاتما بننے تک کی کہانی بیان کرتا ہے۔ تیسرے حصّے میں امبیڈکر کی درد بھری جد وجہدکا بیان ہے۔ چوتھا اور آخری حصہ امبیڈکر اور گاندھی کے ٹکراؤ کو بیان کرتا ہے۔ اس حصہ میں گاندھی کی کاسٹ سسٹم کے خلاف امبیڈکر کی لڑائی کو زائل کرنے کی کوششوں سے لے کر پونہ پیکٹ تک کی جد وجہد کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔
عمومی طور پر گاندھی جی کے بارے میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ وہ بھید بھاو یا تفریق کے خلاف تھے لیکن رائے ثابت کرتی ہیں کہ ایسا نہیں تھا۔ افریقہ میں گاندھی کی کوششوں کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے وہ ثابت کرتی ہیں کہ گاندھی خود نسل پرست تھے۔
1893 میں افریقہ میں گاندھی جی کو سفید فاموں کے لیے بنے فرسٹ کلاس ٹرین کے ڈبے سے باہر پھینک دیا گیا تھا۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ گاندھی جی رنگ کے بھید بھاو کے خلاف تھے لیکن گاندھی جی کا اصل اعتراض یہ نہیں تھا کہ انگریزوں نے انہیں سیاہ فام ہونے کی بنیاد پر باہر پھینکا تھا بلکہ اعتراض یہ تھا کہ انہیں اور افریقی حبشیوں کو ایک جیسا سمجھ لیا گیا جبکہ ہندوستانی تاجر مقامی افریقیوں سے بہتر ہیں۔ ڈربن پوسٹ آفس میں دو دروازے تھے ایک سیاہ فام لوگوں کا دوسرا سفید فام لوگوں کا۔ ہندوستانیوں کو سیاہ فام لوگوں کے لیے بنا دروازہ ہی استعمال کرنا ہوتا تھا۔ گاندھی نے برٹش حکومت کو خط لکھ کر اس کی شکایت کی کہ ہندوستانیوں کے ساتھ مقامی افریقیوں جیسا برتاؤ کیا جا رہا ہے انھیں یا تو سفید فام کے دروازے سے داخل ہونے کی اجازت دی جائے کیونکہ وہ بھی برٹش ہی کی طرح آریا نسل سے تعلق رکھتے ہیں یا پھر ان کے لیے الگ سے تیسرا دروازہ بنایا جائے۔ اسی طرح جب انھیں افریقہ میں مقامی افریقی باشندوں کے ساتھ قید کیا گیا تب بھی ان کا یہی اعتراض تھا کہ ان اجڈ اور گنوار لوگوں کے بیچ ہم ہندوستانی کیسے رہ سکتے ہیں؟ ہمارے لیے جیل میں بھی الگ سے انتظامات ہونے چاہئیں۔
گاندھی کے متعلق یہ تصور بھی درست نہیں کہ وہ سامراج مخالف تھے۔ افریقی زندگی سے اروندھتی رائے نے دو واقعات بتائے جس میں گاندھی جی نے خود برٹش سامراج کے لیے جنگ میں حصہ لیا تھا۔ 1886 کی انگلو بور وار جس میں برٹش حکومت نے بڑے پیمانے پر افریقیوں کا قتل عام کیا تیس ہزار سے زیادہ بڑے، بچے، بوڑھے اور عورتوں کو قتل کیا گیا۔ کھیتیوں کو جلایا گیا اور کئی ہزار لوگ بھوک پیاس سے تڑپ کر مر گئے۔ اس جنگ میں برٹش حکومت نے ہندوستانیوں کو بھی شامل کیا، ہتھیاروں اور ٹریننگ کی کمی کے سبب انھیں مزدوروں کی طرح جنگ میں استعمال کیا گیا۔ گاندھی جی کے ذمہ ایمبولنس سروس دی گئی۔ اہنسا کے ماننے والے گاندھی نے اس جنگ میں اپنی پوری خدمات سامراجی برٹش کے لیے پیش کیں، اور نہ صرف پیش کیں بلکہ جنگ میں فتح کے بعد برٹش حکومت نے اپنے فوجیوں کو انعامات سے نوازا تو گاندھی نے برٹش حکومت کو خط لکھ کر اعتراض جتایا کہ اس انعام میں وہ خود بھی برابر کے حقدار ہیں۔
اسی طرح زولو جنگ میں بھی گاندھی جی خود شریک ہوئے بلکہ مقامی ہندوستانیوں کو بھی اکسایا کہ انھیں برٹش حکومت کا ساتھ دینا چاہیے۔ وہ ہندوستانیوں کو مشورہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں ’’جنگ کے دوران ہماری ذمہ داری کیا ہوگی؟ ہمیں یہ نہیں دیکھنا ہے کہ زولو حق پر ہیں یا نہیں۔ ہم نٹل میں برٹش حکومت کے رحم وکرم پر ہیں۔ اس لیے ہماری ذمہ داری ہے کہ جو کچھ ہم ان کی مدد کرسکتے ہیں کرنی چاہیے۔ یہ گفتگو چل رہی ہے کہ ہندوستانی جنگ کے دوران کیا کردار ادا کریں گے۔ ہم وہی کریں گے جو اس سے پہلے بور جنگ میں کر چکے ہیں‘‘
جنگ میں برٹش حکومت کو فتح حاصل ہوئی اور ہزاروں کی تعداد میں زولو مارے گئے قتل وغارت گری اتنی بڑھی کہ ونسٹن چرچل، جو جنگ کے اصل ذمہ دار تھے خود پریشان ہوگئے اور انھوں نے قتل و غارتگری روکنے کی کوششیں شروع کیں لیکن گاندھی جی کی طرف سے کوئی شرمندگی یا اظہار افسوس نہیں سنا گیا۔
گاندھی جی نے ستیہ گرہ کا پہلا تجربہ افریقہ میں ہی کیا تھا۔ لیکن یہ ستیہ گرہ غریب ہندوستانی مزدوروں کے بجائے دولت مند ہندوستانی تاجروں کے لیے تھی۔ گاندھی کی تمام تر کوششیں یہی تھیں کہ ہندوستانی تاجروں کو بھی تجارت کی وہی سہولیات دستیاب ہوں جو انگریز تاجروں کو دستیاب تھیں۔حالانکہ یہ ستیہ گرہ ویسی کچھ کامیاب نہیں رہی لیکن اس سے گاندھی جی کو ذاتی طور پر بہت فائدہ ہوا۔ گاندھی جی کے بزنس مین دوست نے انھیں 1100 ایکر کا پھلوں کا فارم تحفے میں دیا جس میں ایک ہزار سے زائد مختلف پھلوں کے درخت تھے ۔اسی فارم میں انہوں نے روحانیت اور پاکیزگی کے تجربات کیے تھے۔ افریقہ میں گاندھی جی کی ستیہ گرہ برٹش کے خلاف نہیں تھی وہ برٹش حکومت سے کوئی جھگڑا نہیں چاہ رہے تھے بلکہ وہ ان سے دوستانہ تعلقات چاہ رہے تھے تاکہ ہندوستانی تاجروں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات دستیاب ہوں۔
اروندھتی رائے کے نزدیک گاندھی جی کا غریبوں سے ہمدردی ایک ڈرامہ یا ایک ڈھونگ تھا۔ وہ کتاب کے صفحہ 62 پر لکھتی ہیں ’’گاندھی ہمیشہ کہتے تھے کہ میں غریبوں سے زیادہ غربت میں جینا چاہتا ہوں۔ کیا غربت دکھانے یا اپنانے کی چیز ہے؟ غربت پیسے یا ملکیت نہ ہونے کا نام نہیں ہے بلکہ غربت کسی چیز پر قدرت نہ ہونے کا نام ہے۔ ایک سیاستدان کے طور پر گاندھی کو طاقت چاہیے تھی اور وہ انہوں نےبہترین طریقے سے حاصل کی۔ اگر آپ طاقتور ہیں تو آپ سادگی کے ساتھ رہ سکتے ہیں لیکن غریب بن کر نہیں رہ سکتے۔ افریقہ میں گاندھی جی کو غریب بننے کے لیے فارم اور ہزاروں پھولوں کے درخت درکار تھے۔جس وقت گاندھی ٹالسٹائی فارم میں غریبی کی رسومات ادا کر رہے تھے اس وقت وہ دولت کی غیر منصفانہ تقسیم پر آواز نہیں اٹھا رہے تھے۔ وہ غریب مزدوروں کے حقوق کے لیے نہیں لڑ رہے تھے اور نہ ہی ان مجبور لوگوں کے لیے جن کی زمینوں پر غاصبانہ قبضہ کرکے انھیں بے گھر کر دیا گیا تھا بلکہ وہ امیر ہندوستانی تاجروں کے لیے لڑ رہے تھے تاکہ انھیں ٹرانسوال میں بزنس کی اجازت مل جائے۔‘‘
افریقہ اور ہندوستان دونوں جگہ گاندھی جی کے کارپوریٹس سے بہترین تعلقات رہے۔ بلکہ ہندوستان میں بڑے کارپوریٹس سے پیسے لے کر غیر سرکاری تنظیمیں چلانے کا کلچر گاندھی نے ہی شروع کیا تھا۔ رائے لکھتی ہیں 1915میں گاندھی جی لندن ہوتے ہوئے ہندوستان آئے جہاں انھیں برٹش کی خدمات کے لیے کیسر ہند گولڈ میڈل سے نوازا گیا۔ وہ ہندوستان میں مہاتما (عظیم روح) کے طور پر آئے جو افریقہ میں برٹش سامراج اور اس کے بھید بھاو کے خلاف لڑے۔ جو ہندوستانی مزدوروں کے ساتھ کھڑے رہے۔ واپس آئے ہوئے ہیرو کی عزت افزائی کے لیے جی ڈی برلا، ہندوستانی تاجر نے کلکتہ میں شاندار پارٹی دی۔ برلا کے برٹش کے زمانے میں بھی بڑے کاروبار تھے۔ وہ گاندھی کا سب سے بڑا اسپانسر بن گیا۔ گاندھی کے آشرم کے تمام اخراجات کے علاوہ برلا کانگریس کو بھی ڈونیشن دیتا تھا۔ برلا کے علاؤہ دوسرے بھی اسپانسر تھے لیکن برلا ان میں سب سے ممتاز تھا۔ برلا کے اخبار ہندوستان ٹائمز میں گاندھی کا بیٹا منیجنگ ڈائریکٹر کے طور پر کام کرتا تھا۔
مہاتما جس گھریلو کھادی اور چرخے کو پروموٹ کر رہے تھے وہ ایک مل مالک کے ذریعے اسپانسر کی گئی تھی۔ وہ آدمی جو مشین کے خلاف تھا انڈسٹریلسٹ کے پیسے لے کر اپنا مشن چلا رہا تھا۔ یہ کارپوریٹس سے پیسے لے کر چلنے والی غیر سرکاری تنظیموں کی شروعات تھی۔
گاندھی کے مہاتما بننے کی کہانی بھی دلچسپ ہے۔ رائے نے پورے حالات بہترین انداز میں قلمبند کیے کہ کس طرح گاندھی نے اپنی مہاتما والی امیج بنائی۔ گاندھی خود کو سناتنی ہندو کہتے تھے اور عیسائی دنیا میں خود کو مسیح کا اوتار کہلوانا پسند کرتے تھے۔ بہت جلد لوگ انھیں مہاتما کے نام سے جاننے لگے۔ جہاں بھی وہ سفر کرتے لوگ ان کے درشن کے لیے ریلوے اسٹیشن پر پہنچ جاتے۔ ڈی جی تنڈولکر نے مہاتما گاندھی کے ساتھ اس زمانے میں سفر کیا، لکھتے ہیں:
’’یہ سادہ مذہب لاکھوں ہندوستانیوں کے دلوں میں بس گیا۔ وہ جہاں بھی جاتے مہاتما گاندھی کی جے کے نعرے لگائے جاتے۔ براسیل کی سیکس ورکرز، کلکتہ کے مارواڑی تاجر، اریا کے قلی، ریلوے کے مزدور ہر کوئی انھیں کھادی اور چادر پیش کرنا چاہتا تھا۔ وہاں جہاں بھی جاتے محبتوں کی بارش ہوتی‘‘ ۔ ہندوستان سے نکل کر گاندھی کی شہرت بیرون ملک تک سفر کرنے لگی۔ نیویارک کے کمیونٹی چرچ نے گاندھی کو موجودہ دنیا کا سب سے عظیم انسان قرار دے دیا۔ کنگ مارٹن لوتھر جونیر نے یہاں تک کہہ دیا ’’مسیح نے روح اور جذبہ دیا تھا گاندھی نے طریقہ کار دیا ‘‘

۔ یہ شہرت یہاں تک بڑھی کہ نوبل انعام یافتہ فرانسیسی ڈرامہ نویس نے گاندھی جی کی تعریف میں کتاب لکھ دی
Mahatma Gandhi : "The man who become one with the universal being
یہ کتاب یورپ میں ہزاروں کی تعداد میں شائع ہو کر فروخت ہوئی ۔کتاب کے تیسرے حصہ میں اروندھتی رائے نے امبیڈکر کی درد اور جدوجہد بھری زندگی کو بہترین انداز میں قلمبند کیا ہے ۔ گاندھی جی کو امتیازی ذلت کا احساس افریقہ میں اس وقت ہوا تھا جب انھیں سفید فام والے فرسٹ کلاس ڈبے سے باہر پھینک دیا گیا تھا لیکن امبیڈکر کو یہ احساسِ ذلت اسکول کے پہلے ہی دن ہوگیا تھا۔
امبیڈکر کا جنم مہار فیملی میں ہوا تھا۔ مہار اچھوتوں میں شامل ہوتے تھے اس لیے انھیں زمین خریدنے کی اجازت نہیں تھی۔ سترہویں صدی میں یہ لوگ شیواجی کی فوج میں شامل تھے۔ شیواجی کی موت کے بعد یہ لوگ پیشوا کے لیے خدمات انجام دینے لگے۔ پیشوا کے زمانے میں مہار کمیونٹی پر بدترین مظالم ہوئے۔ پیشوا نے ان پر لازمی کیا کہ گلے میں برتن لٹکائے جائیں اور پیچھے جھاڑو باندھی جائے تاکہ انکا تھوک زمین پر نہ گر سکے اور ان کے منحوس قدموں کو جھاڑو صاف کرتی چلے۔ اس ظلم سے تنگ آکر مہار، انگریزوں کے وفادار ہوگئے اور 1818میں انگریزوں کے ساتھ مل کر کورے گاؤں کے میدان میں پیشوا کو شکست دی۔ تبھی سے برٹش نے مہار رجمنٹ قائم کی جو اب تک موجود ہے۔
اسی مہار سماج میں امبیڈکر کا جنم ہوا تھا۔ امبیڈکر کو عام ہندووں کے اسکول میں جانے کی اجازت تو تھی لیکن اسے اپنے ساتھ بیٹھنے کے لیے پٹسن کی بوری لے جانی ہوتی تھی تاکہ اسکول کا فرش اس کے نجس وجود سے ناپاک نہ ہو جائے۔ اسے اسکول میں دن بھر پیاسا رہنا ہوتا تھا کیونکہ اسکول کے نل سے اسے پانی لینے کی اجازت نہیں تھی۔ ستارا کے حجام اس کے بال نہیں کاٹتے تھے حتیٰ کے بکریوں بھینسوں کے بال کاٹنے والے حجاموں تک نے اسے منع کر دیا تھا۔ امبیڈکر کے ساتھ ہر اسکول میں یہی سلوک ہوتا رہا۔امبیڈکر نے سخت حالات میں اپنی تعلیم جاری رکھی اعلیٰ تعلیم کے لیے پہلے ممبئی پھر بیرون ملک سفر کیا۔امبیڈکر یونیورسٹی آف کولمبیا، نیویارک سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے واپس آئے۔ لیکن ان کی واپسی گاندھی کی طرح شاندار نہیں تھی۔ نہ کوئی شاندار استقبالیہ تھا اور نہ ہی کوئی دولت مند اسپانسر بلکہ انہیں اپنی اسکالر شپ لوٹانے کے لیے نوکری تلاش کرنی تھی۔ نوکری کے دوران بھی امبیڈکر کے ساتھ امتیازی سلوک جاری رہا۔ آفس کے کلرک اس ڈر سے کہ کہیں امبیڈکر انھیں چھو نہ لے فائل انہیں پھینک کر دیا کرتے تھے۔ پورے بروڈہ میں انہیں رہنے کے لیے کسی نے مکان نہیں دیا بالآخر وہ ممبئی واپس آگئے۔
کاسٹ سسٹم کے خلاف امبیڈکر کی کوششیں مستقل جاری رہیں اور انھیں بہت جلد احساس ہوگیا کہ ہندو دھرم میں رہتے ہوئے کاسٹ سسٹم سے نجات ممکن نہیں ہے۔ 1936میں امبیڈکر نے اعلان کیا ’’ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم ہندو کہلاتے ہیں اس لیے ہمارے ساتھ یہ سلوک ہوتا ہے، ہمیں اپنی غلطی کی اصلاح کرنی ہوگی۔ میری بدقسمتی کہ میں اچھوت پیدا ہوا لیکن اس میں میری غلطی نہیں ہے۔ لیکن میں ہندو نہیں مروں گا کیونکہ یہ میری قدرت میں ہے‘‘۔
ہندوستان اس زمانے میں بڑی سیاسی تبدیلیوں سے گزر رہا تھا۔ بہت جلد وہ ایک نیشن اسٹیٹ بننے والا تھا اور اس اسٹیٹ میں حکومت تعداد کی بنا پر طے ہونا تھی۔ ہندو احیاء پرستوں کا احساس تھا کہ نئی ریاست میں انہیں مسلمانوں کے جبر واقتدار سے آزادی ملے گی لیکن امبیڈکر کے اس اعلان نے انھیں پریشان کر دیا۔ دلتوں کو اپنے ساتھ ملائے رکھنے کے لیے ہندو لفظ کا استعمال ہونے لگا۔ اس سے پہلے مسلمان اور برٹش یہ لفظ استعمال کرتے تھے اور ہندووں کی شناخت مختلف ذاتوں کی بنا پر ہوتی تھی۔ ہندو احیاء پرست شردھا نند، دیانند سرسوتی، وویکانند وغیرہ نے یہ لفظ استعمال کرنا شروع کردیا۔ یہی سیاسی ہندوازم بعد میں ہندتوا کہلایا۔ اعلیٰ ذات کے ہندووں کے لیے اب کوئی چارہ نہیں تھا کہ کاسٹ سسٹم کو ختم کرنے کی بات کرکے دلتوں کو اپنے ساتھ بنائے رکھے۔ ورنہ اگر دلتوں نے اسلام ،عیسائیت یا سکھ ازم قبول کرلیا تو ہندووں کی حکومت کا خواب ادھورا رہ جاتا۔ہندو احیاء پرست مستقل کوششیں کررہے تھے کہ کسی طرح دلتوں کو اپنے فولڈ میں لے لیں لیکن کوششیں زیادہ کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی تھیں ۔امبیڈکر نے خود کو ہندو احیاء پرستوں کی ان کوششوں سے بالکل الگ رکھا۔ وہ ان کوششوں کے پیچھے کے مقاصد کو خوب سمجھ رہے تھے۔لیکن ہندو احیاء پرستوں کے علاوہ ایک اور شخص بھی تھا جو دلتوں کو ہندو فولڈ میں رکھنا چاہتا تھا اور شاید اسے روکنا امبیڈکر کے بس میں نہیں تھا کیونکہ اس کی حیثیت ہندوستان میں کسی سیاسی رہنما کی نہیں بلکہ سنت اور مہاتما کی تھی۔