ایودھیا پر فیصلہ کن شواہد :تاریخی حقائق پر ایک اہم بحث

عرفان وحید

 

کتاب : ایودھیا پر فیصلہ کن شواہد(انگریزی)
مصنف : عبد الرشید اگوان
مبصر : عرفان وحید
ضخامت : 292 صفحات
قیمت : 325 روپے
ناشر : انٹیمیٹ پبلیکیشنز، اے ۵۸/۳
شاہین باغ، جامعہ نگر، نئی دہلی ۲۵
جناب عبدالرشید اگوان ایک سرگرم سماجی کارکن اور مصنف ہیں جو گوناگوں میدانوں میں دل چسپی رکھتے ہیں۔ جناب اگوان نباتیات میں ایم ایس سی ہیں اور کچھ برسوں تک اودے پور یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ اس کے علاوہ آپ نے ماضی میں دلی کے مؤقر علمی ادارے انسٹیٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز میں ڈائرکٹر کی حیثیت سے بھی فرائض انجام دیے ہیں۔ موصوف کی متعدد کتابیں انگریزی زبان میں شائع ہوکر قبولِ عام حاصل کرچکی ہیں جن میں ’انسائیکلو پیڈیا آف ہولی قرآن‘، ’گائیڈ ٹو اپلفٹ مائنارٹیز‘ اور ’اسلام اِن ٹوینٹی فرسٹ سنچری‘ قابلِ ذکر ہیں۔ آپ کی تحقیقی و علمی خدمات کے اعتراف میں سینٹ مدر ٹیریسا ورچوئل یونیورسٹی کی جانب سے آپ کو اعزازی ڈی لٹ کی ڈگری سے بھی سرفراز کیا گیا ہے۔ زیرِ بحث کتاب ’’کلنچنگ ایویڈنس آن ایودھیا‘‘ میں فاضل مصنف نے نہایت عرق ریزی سے راماین میں مذکور ایودھیا کے محلِ وقوع پر دادِ تحقیق دی ہے۔
بابری مسجد کی شہادت کا سانحہ (6 دسمبر، 1992) وہ خنجر تھا جسے جمہوریت و سیکولر نظام کے ہوتے ہوئے مسلمانانِ ہند کے سینے میں گھونپا گیا۔ ستائیس برس تک انصاف کی ایک طویل و صبرآزما جدوجہد کے بعد مسلمانانِ ہند اور تمام انصاف پسند حلقوں کو یقین تھا کہ شواہد و قرائن کی رو سے فیصلہ مظلوم مسجد ہی کے حق میں آئے گا۔ لیکن ملک کی سب سے بڑی عدالت نے جو فیصلہ سنایا وہ کسی بھی طرح مسجد کی شہادت سے کم بڑا سانحہ نہیں تھا۔ فیصلے کی بوالعجبی ملاحظہ کیجیے کہ مسجد کا وجود تسلیم، کسی مندر کو منہدم کرکے مسجد کی تعمیر کیا جانا بے ثبوت، مسجد کی شہادت خلافِ قانون، اس میں مورتیاں نصب کیا جانا غلط، مسجد کا انہدام اور اس کی توہین جرم، حقِ ملکیت میں کسی عقیدت یا آستھا کو بنیاد بنانا غیر اصولی، لیکن پھر بھی پرنالہ وہیں گرا۔ معزز عدالت کے محترم ججوں نے آستھا کو بنیاد بنا کر نہ صرف فیصلہ مندر کے حق میں دے دیا بلکہ فیصلے پر نظرِثانی کی تمام درخواستوں کو بھی ناقابلِ سماعت قرار دے کر داد رسی کے تمام امکانات مسدود کر دیے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس غیر منصفانہ فیصلے کے بعد بھی معاملہ ختم نہیں ہوا بلکہ ملک کی عدالتی تاریخ اور ہندوستان کے اجتماعی حافظے میں ایک سیاہ باب بن کر ثبت ہو چکا ہے۔
سترہویں صدی کے اوائل میں اوَدھ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے قبضے کے بعد ہی سے ایودھیا متنازعہ اور فرقہ وارانہ طور پر نازک مقام رہا ہے۔ ہندو و مسلم فریقین کے بیچ مسجد و مندر کا تنازعہ سیکڑوں سال تک طول پکڑتا رہا۔ اس دوران مسجد میں عبادت موقوف ہوئی، مسجد کو قفل ڈال دیا گیا، منبر کے قریب مورتیاں رکھ دی گئیں، مسجد کے احاطے میں چبوترے پر دوسرے فریق کو ”درشن“ کے لیے اجازت دی گئی اور پھر آخر کار مذہبی پرچارکوں، سادھوؤں، کارسیوکوں اور پولیس اور میڈیا کی موجودگی میں تاریخی بابری مسجد کو شہید کردیا گیا۔ یہ سب آئین، انصاف، عدالت، جمہوریت اور سیکولر اقدار کے حامل ملک میں ہوا۔
فاضل مصنف نے زیرِ نظر کتاب میں اس تنازعے کے قانونی پہلوؤں سے قطع نظر اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے کہ آیا فیض آباد کا ایودھیا وہی تاریخی ایودھیا ہے جہاں رام پیدا ہوئے تھے۔ مصنف کہتے ہیں کہ یہ سوال انتہائی اہمیت کا حامل اور بنیادی نوعیت کا ہے کہ جس ایودھیا کو لاکھوں افراد رام کی جائے پیدائش تصور کرکے اسے مقدس مانتے ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ اصل مقام ہی نہ ہو جہاں رام کی پیدائش ہوئی تھی!
آثارِ قدیمہ اور تاریخ سے جڑی باتوں کے حقائق تک پہنچنے کے لیے قدیم متون کے ساتھ آرکیالوجی، علوم عمرانیات، ارضیات، جغرافیہ، لسانیات، جینیالوجی نیز جینومکس جیسے علوم سے مدد لی جاتی ہے۔ جس ایودھیا کا ذکر مذہبی صحیفوں میں ہے وہ انسان کے ظہور سے بہت پہلے کا زمانہ ہے۔ مثلاً بالمیکی کی راماین میں منو کو ایودھیا کا بنیاد گزار قرار دیا گیا ہے، چنانچہ ضروری ہو جاتا ہے کہ ایودھیا کے جغرافیائی محل وقوع کے ساتھ منو کے عہد کا بھی تعین کیا جائے۔ رگ وید کی رو سے یُگ دو ہیں، جب کہ منو سمرتی اور وایو پران چار یُگوں کے قائل ہیں۔ کریتا یُگ جو 4800 برس کا ہے، تریتا یُگ 3600 سال، دواپر یُگ 2400 سال اور کلیُگ 1200 سال پر محیط ہے۔ اس طرح یہ مجموعی طور پر 12000 الوہی برس بنتے ہیں جو 38 کروڑ 66 لاکھ بیس ہزار انسانی برسوں کے برابر ہیں۔ یہ پورا عرصہ ایک مہا یُگ کہلاتا ہے۔ بھگوت پران کے مطابق ایک ہزار مہا یُگوں سے ایک کلپ بنتا ہے اور ہر کلپ کو چار منونتروں میں تقسیم کیا جاتا ہے جس پر کسی منو کی حکومت ہوتی ہے۔ یوں ایک منونتر 85 ہزار انسانی برسوں پر محیط ہوتا ہے۔ دیگر روایات میں منونتر کی تشریح 24000 اور 12000 برس بھی کی گئی ہے۔ یہ بات سائنسی تحقیقات سے پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہےکہ جدید انسان ’’ہومو سیپیئنس‘‘کی آفرینش آج سے دو لاکھ برس پہلے افریقہ میں ہوئی۔ ہندوستان میں نسلِ انسانی کی آمد آج سے پچاس تا ستر ہزار سال قبل ہوئی۔ فاضل مصنف مزید لکھتے ہیں کہ انسانی تہذیب کا ظہور اس سے بھی بہت بعد کے زمانے میں یعنی آج سے 6000 سال قبل ہوا، جب انسان نے اپنی تمدنی زندگی کا آغاز کیا اور قبیلوں اور گروہوں میں مل کر رہنا شروع کیا۔ انسانی تہذیب کے قدیم ترین ریکارڈ مصر سے ملتے ہیں جو 3100 قبل مسیح کے ہیں۔ حتیٰ کہ ہندوستان کی قدیم ترین معلومہ تہذیب وادی سندھ کی ہڑپہ تہذیب کے نقوش بھی محض ساڑھے چار ہزار برس پرانے ہیں۔ ملک میں اس سے پہلے کی کسی تہذیب کا کوئی ریکارڈ اب تک دریافت نہیں ہوا ہے۔ ویدوں کے مطابق ایودھیا ایک وسیع شہر تھا جس کا طول 12 یوجن تھا جو موجودہ تقریباً 140 کلومیٹر کے برابر ہے، اور عرض 3 یوجن یا 35 کلومیٹر تھا۔ انسان کی ابتدا اور انسانی تہذیب کے طلوع ہونے سے کروڑوں برس پہلے ایسی میگا سٹی کا وجود نہ تاریخی و زمانی اعتبار سے قرین عقل ہے اور نہ تہذیبی، عمرانی اور سائنسی مطالعات کی رو سے کسی طرح قابلِ اعتبار ہو سکتا ہے۔
بابری مسجد کے فیصلے کے بعد آج اس کتاب کی اہمیت اس لیے دو چند ہو جاتی ہے کہ جس دعوے کی بنیاد پر ملک کی سب سے بڑی عدالت نے ایک فریق کے حق میں فیصلہ دے دیا، وہ دراصل اساطیری روایات پر مبنی دعویٰ ہے۔ فاضل مصنف نے اپنی کتاب میں 17ابواب باندھے ہیں جن میں جغرافیائی، سائنسی، ڈی این اے اور انسانی جینوم میں جدید تحقیقات، علم ارضیات، عمرانیات، آثار قدیمہ کی نو بہ نو تحقیقات اور دیگر دلائل سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ موجودہ ایودھیا وہ ایودھیا ہے ہی نہیں ہے جو رام کی جائے پیدائش تھا۔
قدیم ایودھیا کے محل وقع کے سلسلے میں جدید مؤرخین میں اختلاف رہا ہے۔ 1990میں اس وقت کے وزیر اعظم چندر شیکھر کے ذریعے تشکیل کردہ مؤرخین کے ایک پینل نے، جس میں آر ایس شرما، ڈی این جھا، اطہر علی اور سورج بھان جیسے مؤرخین شامل تھے، رام کی جائے پیدائش کے آٹھ متبادل مقامات کے دلائل دیے تھے۔ یہ مقامات نیپال سے مصر تک پھیلے ہوئے ہیں۔ 1992 میں شیام نرائن سنگھ نے دعویٰ کیا کہ قدیم ایودھیا افغانستان کے ہرات میں واقع ہے۔ اگوان صاحب نے زیرِ نظر کتاب میں ایسی بیس ایودھیاؤں کا ذکر کیا ہے اور مختلف مورخین کے دلائل اور دعوے بھی پیش کیے ہیں۔ یہاں صرف ایک مثال پیش کی جاتی ہے۔ راماین میں مذکور ہے کہ ایودھیا سریو ندی کے کنارے واقع تھا جس کا بہاؤ مشرق سے مغرب کی جانب تھا۔ لیکن فیض آباد کی ایودھیا کے سریو کا بہاؤ مغرب سے مشرق کی جانب ہے۔ مورخ شیر سنگھ اپنی کتاب آرکیالوجی آف ایودھیا میں لکھتے ہیں کہ ایودھیا نیپال میں سریو ندی سے جنوب میں تقریباً 24کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے، جب کہ تپن سانیال اور سریندر کور کا خیال ہے کہ یہ نیپال میں اس جگہ سے 20سے 30کلومیٹر مغرب کی سمت میں واقع ہے جہاں سے سریو کا رخ مغرب کی جانب مڑ جاتا ہے۔چینی سیاح فاہیان اور ہیون سانگ جب ہندوستان آئے تھے تب انہوں نے مشرقی ہندوستان میں لمبنی، پاٹلی پتر وغیرہ کا سفر کیا تھا۔ اپنے سفرنامے میں انہوں نے رام کی ریاست ساکیت اور رام استوپ کا ذکر بھی کیا ہے۔ آج بھی نیپال میں نول پرسائی میں رام گرام نامی مقام پر بین الاقوامی ہیریٹیج کی اہمیت کا حامل ایک رام استوپ موجود ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری کے عہدے پر فائز رہے عبدالرحیم قریشی مرحوم نے اپنی کتاب“فیکٹ آف ایودھیا ایپی سوڈ ” میں لکھا ہے کہ قدیم دور میں دو ایودھیائیں تھیں: ایک کو راجا رگھو نے قائم کیا تھا اور دوسری کو خود رام نے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ دونوں ایودھیائیں موجودہ پاکستان کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے ”رحمان ڈھیری“ میں تھیں۔ ایک اور مؤرخ کا خیال ہے کہ یہ بات قرین قیاس ہے کہ قدیم ایودھیا ملتان میں واقع ایک پرانا شہر ”اجودھن“ ہو جس میں مشہور صوفی بزرگ شیخ فرید الدین شکرگنج نے سکونت اختیار کرلی تھی اور اسی مناسبت سے اس کا نام پاک پٹن پڑ گیا۔
قصہ مختصر، فاضل مصنف نے اپنی کتاب میں درجنوں شواہد اور دلائل پیش کیے ہیں جن کی روشنی میں قاری بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ قدیم ہندو مذہبی صحائف میں جس ایودھیا کا ذکر آیا ہے، موجودہ فیض آباد کا ایودھیا نہ صرف تاریخی اور سائنٹفک شواہد کی بنیاد پر وہ مقام نہیں ہے بلکہ خود مذہبی صحیفوں کے متن پر یہ ایودھیا پورا نہیں اترتا۔ اس کتاب کا مطالعہ ہر اس حق پسند قاری کے لیے مفید ہے جو بے بنیاد سینہ بہ سینہ روایات کے بجائے علمی و تاریخی حقائق پر اپنا موقف رکھتا ہے۔
عدالت عالیہ نے اپنے اکثریت پسندانہ فیصلے میں بابری مسجد اراضی کا جو فیصلہ کیا سو کیا، لیکن خود عدالت عالیہ کا مسجد کے انہدام کو ناپسندیدہ اور جرم قرار دینا اور پھر حالیہ سی بی آئی عدالت کی جانب سے ان تمام ملزمین کو بری کیا جانا، جنہوں نے گزشتہ ربع صدی سے ملک کی سیاست میں اپنا کیریئر محض اس بنا پر چمکایا ہے کہ وہ مسجد کی شہادت میں براہ راست یا بالواسطہ شریک تھے، ملک عزیز کی عدلیہ پر ایک ایسا داغ ہے جسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکے گی۔ سچ تو یہ ہے کہ اس بے داد کی خلش نسلوں تک باقی رہے گی تا آنکہ تاریخ کی کوئی کروٹ اس صورتِ حال کو بدل دے۔ اس میں بھی ملتِ مظلوم کے لیے خیر اور عبرت کا پہلو ہے اگرچہ ہمارا شعور و ادراک ابھی اس کی رسائی سے قاصر ہے۔ امید ہے کہ وقت کا دھارا جلد ہی اس راز سے پردہ اٹھائے گا۔
***

قصہ مختصر، فاضل مصنف نے اپنی کتاب میں درجنوں شواہد اور دلائل پیش کیے ہیں جن کی روشنی میں قاری بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ قدیم ہندو مذہبی صحائف میں جس ایودھیا کا ذکر آیا ہے، موجودہ فیض آباد کا ایودھیا نہ صرف تاریخی اور سائنٹفک شواہد کی بنیاد پر وہ مقام نہیں ہے بلکہ خود مذہبی صحیفوں کے متن پر یہ ایودھیا پورا نہیں اترتا۔ اس کتاب کا مطالعہ ہر اس حق پسند قاری کے لیے مفید ہے جو بے بنیاد سینہ بہ سینہ روایات کے بجائے علمی و تاریخی حقائق پر اپنا موقف رکھتا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 11-17 اکتوبر، 2020