این ایم پی :اثاثوں کی ملکیت منتقل کیے بغیر نجکاری کی نئی اسکیم

معاشی مضبوطی کے لیے ساٹھ کھرب روپے حاصل کرنے کاہدف

ڈاکٹر سید فرحت حسین، اتراکھنڈ

اپوزیشن نے بنایا تنقید کا نشانہ۔ ماہرین کو بھی ہیں خدشات
مرکزی وزیر خزانہ سیتا رمن نے سرکاری اور عوامی شعبہ کی جائیدادوں کو نجی شعبہ کی کمپنیوں کو کرایہ یا لیز پر دینے کی اسکیم کا خاکہ پیش کیا ہے۔ اس اسکیم کا نام نیشنل مونیٹائزیشن پائپ لائن (NMP) یعنی قومی حصول زر منصوبہ ہے۔ وزیر خزانہ نے بنیادی ڈھانچہ کی مضبوطی کے لیے سالانہ بجٹ کی تجاویز میں اسے رکھا تھا اور اب نیتی آیوگ کے تعاون سے اس شکل میں پیش کیا جارہا ہے۔ اس اسکیم کے ذریعہ چار سال میں یعنی 2025تک چھ لاکھ کروڑ روپیہ حکومت کے فنڈ میں وصول ہونے کا ہدف ہے۔
آزادی کے بعد بھارت میں ملی جلی معیشت کے نظام (Mixed Economic System) کو اختیار کیاگیا تھا جس میں بنیادی اور مفاد عامہ کی معاشی سرگرمیوں کو سرکاری زمرہ میں رکھا گیا اور ساتھ ہی نجی سرمایہ داروں کو سرمایہ کاری کا موقع دیا گیا البتہ پنج سالہ منصوبوں اور معاشی و مالیاتی پالیسیوں نیز ٹیکس کے نظام کے ذریعہ ان کو ملک کے معاشی مقاصد سے جوڑے رکھنے کی کوشش کی گئی تاکہ ملک ایک فلاحی ریاست کے راستہ پر گامزن ہو۔ ریل، ڈاک تار، زندگی بیمہ، بنیادی اور دفاعی ساز و سامان کی کمپنیاں، ایر لائنس، مرکزی بینک وغیرہ اسی مقصد کے تحت سرکاری زمرہ میں رہے سال دو سال ان میں اضافہ بھی ہوا ۔ یہاں تک کہ 1956میں اسٹیٹ بینک پبلک سیکٹر بنک کے طور پر وجود میں آیا پھر جولائی 1969میں 14پرائیوٹ سیکٹر کے بنکوں کو قومی تحویل میں لیا گیا۔ بعد میں مزید کئی بینکوں کا نیشلائزیشن عمل میں آیا۔ ان بینکوں کو سماج کے کمزور طبقات کو ترجیحی بنیاد پر قرض فراہم کرنے کے فرمان بھی جاری کیے گئے اور بنکوں نے اس کے مطابق اپنی سرگرمیوں میں خاطر خواہ تبدیلی بھی کی۔ 1991میں اسی پالیسی میں تبدیلی کی شروعات ہوئی اور خسارہ میں چل رہی پبلک سیکٹر کی کمپنیوں کو نجی ہاتھوں میں سونپنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس تبدیلی کے پیچھے ملکی معیشت کی کمزور صورتحال کے علاوہ عالمی اداروں کی پالیسیوں، لبرلائزیشن، پرائیوٹائیزیشن اور گلوبلائزیشن کا بھی اہم دخل تھا۔ بعد کے برسوں میں نجی سیکٹر کی مزید حوصلہ افزائی ہوئی۔ بینکنگ، بیمہ، ٹیلی کمیونی کیشن وغیرہ شعبہ جات میں پرائیویٹ سیکٹر کو بہت ترقی ملی۔ غیرملکی سرمایہ کاری کی نہ صرف اجازت دی گئی بلکہ اس میں اضافہ کی کوششیں کی گئیں۔
موجودہ اسکیم نجی زمرہ کی کمپنیوں کومعاشی سرگرمیوں میں زیادہ حصہ داری دینے کی پہل ہے مگر املاک اور جائیدادوں کو فروخت کرنے کی بجائے انہیں ایک قسم کے کرایہ یا پٹے (Lease) پر دینے کی اسکیم ہے۔ اس کو مونیٹائزیشن (Monetisation) کا نام دیا گیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ غیر منقولہ املاک کو فروخت کیے بغیر حصول زر یا آمدنی کا ذریعہ بنایا جائے جسے آسان زبان میں کرایہ یا پٹہ (Lease) کہہ سکتے ہیں، حالانکہ یہ الگ الگ شعبوں میں الگ الگ ناموں سے پکارا جاتا ہے۔
اسکیم کا اجرا کرتے ہوئے کہا گیا کہ ایسی املاک جن پر پہلے ہی خاصی سرمایہ کاری ہوچکی ہے مگر فی الوقت ان سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا جارہا ہے یا ان کی قوت وصلاحیت (Capacity) کا بھرپور استعمال ممکن نہیں ہو پا رہا ہے یا ان کی کارکردگی (Efficiency) اطمینان بخش نہیں ہے۔ ان کو کرایہ پر دے کر معقول اور مناسب رقم وصول کی جائے۔ اس طریقہ کار کا سب سے مثبت پہلو یہ ہے کہ اس میں اثاثوں (Assets) کی ملکیت سرکار ہی کی رہے گی۔ کرایہ کے معاہدے کی مدت کے خاتمہ کے بعد یہ پھر سرکار کی تحویل میں واپس آجائیں گی۔
اس اسکیم کے تحت چار سو ریلوے اسٹیشن، 90 پیسنجر ٹرینیں 1400 کلو میٹر ریلوے ٹریک، 741کلو میٹر کوکن ریلوے نجی سرمایہ کاری کے لیے پیش کیے جائیں گے۔ ریلوے کے ہی 265 مال گودام اور 15 اسٹیڈیم بھی اس اسکیم کے تحت ہیں۔ اس طرح صرف ریلوے کے شعبہ کے ذریعہ ہی ڈیڑھ لاکھ کروڑ روپیہ کی آمدنی کا تخمینہ ہے۔ ملک کی 27 فیصد یعنی 26700 کلو میٹر شاہراہوں کو بھی اس پلان کے تحت لایا جارہا ہے جس سے 1.6 لاکھ کروڑ روپیہ وصول ہونے کا اندازہ ہے۔ ٹیلی کام شعبہ میں 2.06 لاکھ کلو میٹرکے بھارت نیٹ فائبر کے علاوہ بی ایس این ایل او رایم ٹی این ایل کے 14917 سگنل ٹاوروں کو بھی مونیٹائزیشن پلان میں لایا جائے گا۔ اس کے علاوہ بجلی کی لائنیں، قدرتی گیس کی پائپ لائن، فوڈ کارپوریشن کے گودم، کانیں، بندرگاہیں اور ایرپورٹ بھی اسی میں شامل ہیں۔
اسکیم کو لانچ کرتے ہوئے حکومت کی طرف سے کہا گیا ہے کہ جن املاک اور اثاثوں کا خاطر خواہ استعمال نہیں ہورہا ہے یا ان کی کارکردگی غیر اطمینان بخش ہے ان کو اس منصوبہ کے تحت لاکر حصولِ زر کا ذریعہ بنایا جائے گا۔ اس سے ملک کی معاشی صورتحال بہتر ہوسکے گی۔ کووڈ سے متاثر ملکی معیشت کو سہارا دینے اور ملک کے بنیادی ڈھانچے کی بہتری کے لیے یہ ناگزیر ہے۔ حکومت
اپنے اثاثوں کو فروخت نہیں کررہی ہے بلکہ صرف کرایہ یا پٹے پر دے گی اور معاہدہ کی مدت کے خاتمہ کے بعد یہ املاک حسب سابق حکومت کی تحویل میں واپس آجائیں گی۔
دوسرا رخ
12 مرکزی وزارتوں سے وابستہ اثاثوں کو اس نئی اسکیم کے تحت لایا گیا ہے۔ ایک اہم دلیل یہ دی گئی ہے کہ نجی کمپنیوں کے انتظام میں آنے کے بعد ان اثاثوں کی کارکردگی (Efficiency) میں اضافہ ہوگا۔ یہ صحیح ہے کہ بسا اوقات سرکاری زمرہ میں انتظام و انصرام میں ڈھیل یا کمزوری دیکھنے کو ملتی ہے مگر یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے گزشتہ چند برسوں میں بہت سی نجی کمپنیاں خسارہ کا شکار ہوئی ہیں اور دیوالیہ قرار دی گئی ہیں۔ مزید یہ کہ اسے حکومت کے انتظام و انصرام میں کمزور ہونے کی دلیل کے طور پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
یہ درست ہے کہ اس اسکیم میں سرکاری املاک اور اثاثہ جات کو فروخت نہیں کیا جائے گا اور نہ ملکیت منتقل ہو گی۔ صرف حقِ تصرف یعنی استعمال کا حق منتقل ہو گا۔ مگر خاصی طویل مدت کے لیے ان کے حق استعمال کی منتقلی کو نجکاری کی طرف ایک قدم ہی تصور کیا جاسکتا ہے۔
ملازمین کو سردست نکالا نہیں جائے گا، ہوسکتا ہے کہ دوسرے مقامات پر ان کی خدمات لی جائیں۔ مثال کے طور پر جس ریلوے اسٹیشن کو کسی نجی کمپنی کو دیا جائے اس اسٹیشن کے سرکاری اسٹاف کا کسی دوسرے اسٹیشن یا شعبہ میں تبادلہ کردیا جائے۔ چونکہ پرائیویٹ انتظامیہ کم سے کم ملازمین اور کم سے کم اجرتوں سے کام چلاتا ہے اور وہ ریزرویشن کی قومی پالیسی پر بھی گامزن نہیں ہوتا اس لیے روزگار کی صورتحال اور اس کے موجودہ ڈھانچہ پر منفی اثر پڑسکتا ہے۔
یہ بھی اندیشہ ہے کہ ہائی ویز کے ٹول، ریلوے کے ٹکٹوں اور دوسرے چارجز میں من مانا اضافہ کردیا جائے گا۔ حکومت کو اسکیم کے نفاذ کے وقت اس طرح کے اندیشوں کے سد باب کو یقینی بنانا ہوگا۔ یہ بات اس وقت خوش کن لگ رہی ہے کہ جن جائیدادوں سے خاطر خواہ سرمایہ یا آمدنی نہیں حاصل ہورہی ہے ان کو چند برسوں کے لیے کرایہ پر دے کر حصول زر (Monetisation) کا ذریعہ بنایا جائے گا۔ اب یہ تو بعد میں معلوم ہو گا کہ جو اسٹیشن ریلوے لائنس ایرپورٹ اور بندرگاہیں وغیرہ کرایہ پر دی جارہی ہیں وہ خاطر خواہ فائدہ پہنچا رہی تھیں یا نہیں۔
حکومت کے سابق سکریٹری مالیات جناب سبھاش چندر گرگ کی رائے میں اسکیم عمدہ ہے تاہم اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اس کے ذریعہ چند سرمایہ داروں کی اجارہ داری (Monopoly)قائم نہ ہو۔ ان کے خیال میں حکومت نے کچھ زیادہ بڑا ہدف طے کرلیا ہے۔ اسی کا صرف دس فیصد ہی حاصل ہونے کا امکان ہے یعنی 60 ہزار کروڑ روپیہ کی وصولی ممکن ہے۔ (اکنامک ٹائمس ، 26 اگسٹ2021)
کانگریس نے اسکیم پر تنقید کرتے ہوئے اسے دوستوں کو فائدہ پہنچانے کا ذریعہ بتایا ۔ ماہر معاشیات پروفیسر ارن کمار بھی اسکیم کو سود مند نہیں مان رہے ہیں۔
آر ایس ایس سے وابستہ ٹریڈ یونین بھارتیہ مزدور سنگھ کے جنرل سکریٹری بی کے سنہا نے مرکزی حکومت کے اثاثوں کو مونیٹائز کرکے آئندہ چار برسوں میں 6 لاکھ کروڑ روپیہ کمانے کی اسکیم کی مخالفت کرتے ہوئے اس کے خلاف احتجاج کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ روزنامہ ہندو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن کے ذریعہ دوشنبہ کو جاری کی گئی اسکیم خاندانی زیورات کو فروخت کرنے کے مترادف ہے۔ ’’It is akin to selling the family silver‘‘
دی سنٹر آف انڈین ٹریڈ یونین (CITU)نے بھی سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ جنرل سکریٹری تپن سین کے مطابق این ایم پی (NMP) بدعنوانی کی پائپ لائن ہے۔ اس سے ملکی معیشت تباہ ہو سکتی ہے اور ملازمین نیز دوسرے طبقات پریشانی کا شکار ہوں گے۔ (دی ہندو 25؍اگسٹ 2021)
بہرحال ابھی اسکیم کی تفصیلات آنا باقی ہیں۔ اصل امتحان اسکیم کو عملی جامہ پہنانے کے وقت ہوگا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ملک اس وقت معاشی مشکلات کے دور سے گزر رہا ہے۔ اب یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ یہ اسکیم اس کے حل میں کتنی معاون ثابت ہو گی۔
***

 

***

 آر ایس ایس سے وابستہ ٹریڈ یونین بھارتیہ مزدور سنگھ کے جنرل سکریٹری بی کے سنہا نے مرکزی حکومت کے اثاثوں کو مونیٹائز کرکے آئندہ چار برسوں میں 6 لاکھ کروڑ روپیہ کمانے کی اسکیم کی مخالفت کرتے ہوئے اس کے خلاف احتجاج کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ روزنامہ ہندو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن کے ذریعہ دوشنبہ کو جاری کی گئی اسکیم خاندانی زیورات کو فروخت کرنے کے مترادف ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 5 ستمبر تا 11 ستمبر 2021