اکبر الٰہ آبادي: اپني شکست کي آواز

ظريفانہ شاعري سے اصلاح حال کي تحريک پيدا کرنے والے شاعر پر ايک ناقدانہ کتاب

مصنف: اسيم کاوياني
صفحات256: ، قيمت200: /، اشاعت2021:
ناشر: کتاب دار، ممبئي400008-
تبصرہ: محمد عارف اقبال

اسيم کاوياني (پيدائش: 24 جون 1953) اپني تجارتي ذمہ داريوں کے ساتھ برسوں سے اردو ادب کي خدمت انجام دے رہے ہيں۔ کسي زمانے ميں وہ معروف صحافي شمس کنول (وفات 1995) کے مشہور اردو رسالہ گگن ممبئي سے بھي وابستہ تھے۔ ان کے بعض مضامين ’تحرير نو‘ اور ديگر ادبي رسائل ميں پڑھنے کا موقع ملتا رہا ہے۔ ان کي تحريروں ميں نہ صرف ادبي چاشني اور پختگي محسوس ہوتي ہے بلکہ اپني نگارشات کو وہ اپني مخصوص فکر کي توانائي سے مستحکم کرنے کي ہر ممکن کوشش کرتے ہيں۔ وہ تحقيق کے جلوے بھي بکھيرتے ہيں اور حوالے و حواشي کا اہتمام بھي کرتے ہيں جس سے ان کي تحريروں کو اعتبار کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے۔
’اکبرالٰہ آبادي: اپني شکست کي آواز‘ کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسيم کاوياني نے اس کتاب کو تيار کرنے ميں بڑي محنت اور تلاش وجستجو سے کام ليا ہے۔ کتاب پر تحقيق کا رنگ بھي غالب ہے۔ ايسا لگتا ہے کہ ايک ادبي محقق کے طور پر اسيم کاوياني نے سب سے پہلے يہ طے کرليا کہ ان کو ايک مخصوص چيز کي تلاش ہے، لہٰذا ان کي تحقيق کا دائرہ اسي چيز کے گرد گھيرا تنگ کرنے لگا۔ بالآخر ايک صياد کي طرح وہ مطلوبہ شکار کو پانے ميں کامياب ہو گئے۔ اس کے برعکس اگر ان کي تحقيق افقي (horizontal) ہوتي تو کنکر پتھر کے ساتھ سنہري ريزے بھي ان کو دستياب ہوتے۔ دوسري بات يہ کہ تخليقي ادب پارے کے مطالعے کي کئي جہتيں ہوتي ہيں ليکن شعري تخليق ميں صرف سياسي جہت پر ارتکاز کرنے سے ديگر ادبي پہلو محجوب ہو جاتے ہيں۔ ايسا محسوس ہوتا ہے کہ اسيم کاوياني نے اکبر الٰہ آبادي کي شعري تخليقات کا مطالعہ صرف سياسي نکتہ نظر سے کيا ہے۔ اس کے ساتھ ہي انھوں نے اکبر سے حسن ظن رکھنے والي چار ادبي وعلمي شخصيات کو خاص طور سے مطعون کرنے کي کوشش کي ہے۔ ان ميں اصغر عباس (علي گڑھ)، شمس الرحمن فاروقي، فضيل جعفري اور يونس اگاسکر شامل ہيں۔ ان کے علاوہ اکبر کے مداحوں ميں ماضي کي چند وہ معروف شخصيات بھي ہيں جن ميں خواجہ حسن نظامي، عبدالماجد دريابادي، اشرف علي تھانوي، محمد علي جوہر وغيرہ قابل ذکر ہيں۔ انھوں نے ايک جگہ مشہور کتاب ’پردہ‘ کے حوالے سے علامہ سيد ابوالاعليٰ مودددي پر انگلي اٹھائي ہے۔ (صفحہ 77) علامہ اقبال اور الطاف حسين حالي بھي مصنف کي تنقيد کے نرغے ميں ہيں۔ ايسا لگتا ہے کہ مصنف کو راسخ العقيدہ تعليم يافتہ مسلمانوں سے خاص طور سے کد ہے۔ ايسا کيوں ہے اس کا جواب لبرل مزاج کے حامل مصنف کو دينا چاہيے، خير سے وہ بھي مسلمان ہي ہيں۔ ميں نے مسلمان ہونے کا ذکر قصداً اس ليے کيا ہے کہ مصنف نے اکبر کو اسلامي اقدار کي پاسداري پر ہي لعن طعن کرنے کي کوشش کي ہے۔ اکبر بھي انسان تھے۔ شاعري ميں ظرافت ان کا طرہ امتياز تھا۔ ہندوستان ميں انگريز حکم رانوں کے تسلط اور برصغير ميں پہلي بار انگلش زبان کے عام ہونے پر انھوں نے اپني بيشتر ظريفانہ شاعري ميں انگلش الفاظ کو جس انداز سے شامل کيا ہے، ان سے قبل اردو شاعري ميں اس چاشني کو کبھي محسوس نہيں کيا گيا تھا۔ يہي وجہ ہے کہ اکبر کے گزرنے کے ايک سو سال بعد ملک کے علمائے ادب صدي تقريبات کے انعقاد کا اہتمام کر رہے ہيں۔
اسيم کاوياني ايک جگہ ’ابتدائيہ‘ ميں لکھتے ہيں: ’’ظرافت ميں عموماً ماضي کو نشانہ بنايا جاتا ہے، اس طرح کم سے کم حال اور مستقبل کا کچھ ايسا زياں نہيں ہوتا، ليکن اکبر نے نہ صرف حال اور مستقبل کو نشانہ بنايا ہے بلکہ مخدوش بھي کر ديا ہے… لوگوں کو ماضي پرستي کا نسخہ تھما ديا‘‘۔
فاضل مصنف کي منطق عجيب ہے کہ انھوں نے ظريفانہ شاعري کو ماضي ميں مقيد کرنے کا مشورہ ديا ہے۔ ظريفانہ نثر ہو يا شاعري کيا کوئي ايسي مثال ملتي ہے کہ تخليق کار صرف ماضي تک محدود رہا ہو۔ پھر مصنف کا يہ تاثر کہ ’’اکبر نے ماضي پرستي کا نسخہ تھما ديا۔‘‘ لا يعني ہے۔ آگے يہ بھي لکھا گيا کہ ’’نتيجہ يہ ہوا کہ لوگ حال سے ساز گار ہو سکے نہ مستقبل کے ليے مستعد۔‘‘ (صفحہ 10)
گويا اکبر الہ آبادي ہي اس کے ذمہ دار ہيں کہ انھوں نے قوم کے حال اور مستقبل کو سازگار نہيں ہونے ديا۔ اسيم کاوياني کي اس کتاب کي تصنيف کا محرک درحقيقت کووڈ-19 کے لاک ڈاون کے دوران ميں ان کے فرصت کے اوقات تھے۔ ابتدائيہ کي ابتدا يوں کي گئي ہے: ’’لاک ڈاون کے پہلے پانچ مہينوں ميں جب کاروبار تو برباد ہو ہي چلا تھا، سوچا اپنے وقت کي بربادي کا بھي کوئي حيلہ ڈھونڈلوں، ايسے ميں مجھے فاروقي اور ان کے رفقا کي کوئي ايک دہائي قبل کي وہ مہم ياد آگئي جب ان کا يہ بيان اخباروں ميں چوکھٹے ميں چھپا تھا کہ اکبر الہ آبادي کو اردو کے چار يا پانچ عظيم شاعروں ميں شمار کرتے ہيں اور يہ کہ زمانہ اکبر کو سمجھ نہيں سکا تھا اور پھر انھوں نے اردو دنيا کو اپني بات سمجھانے کے ليے کيا کچھ نہيں کيا تھا۔ عام حالات ميں تو ميں اپنے وقت کے اصراف کو اس پامال موضوع کي نذر ہرگز نہ کرتا مگر لاک ڈاون کے بيٹھنے سے بيگار بھلي نے يہ کتاب لکھوا ڈالي۔ ‘‘(صفحہ : 9)
حيرت ہے کہ لبرل مزاج مصنف نے جديديت کے حامل دو نقاد و اديب (شمس الرحمن فاروقي، فضيل جعفري) کو پوري کتاب ميں اس ليے مطعون کيا ہے کہ انھوں نے اکبر کي ظريفانہ شاعري کي نہ صرف حمايت کي بلکہ ان کاشمار چار يا پانچ عظيم شاعروں ميں کرتے ہيں۔ فرض کيجيے کہ اکبر اپني ظريفانہ شاعري سے ’’سياسي، سماجي و ادبي معصيت کے مرتکب ‘‘ہوئے ليکن اردو کے دو نقاد و اديب تو ’راسخ العقيدہ‘ نہيں تھے (اللّٰہ مغفرت فرمائے) اب دونوں کا شمار مرحومين ميں ہوتا ہے، اس کے باوجود ان کو اکبر الہ آبادي کي ادبي خدمات ميں بنياد پرستي نظر نہيں آتي ہے۔ اس موقع سے مصنف کے ليے اکبر کا ہي ايک مشہور شعر ہے :
ہم آہ بھي کرتے ہيں تو ہو جاتے ہيں بدنام
وہ قتل بھي کرتے ہيں تو چرچا نہيں ہوتا
يہاں اس بات کي وضاحت ناگزير ہے کہ ميرا مقصد اور مقام نہ کسي کي طرف داري ہے اورنہ ہي کسي کي طرف سے مصنف کے اعتراضات کا جواب دينا ہے۔ يہ کام اہل علم وادب بہتر طور سے انجام دے سکتے ہيں۔ البتہ مصنف کے ليے اطلاعاً عرض ہے کہ اکبر الہ آبادي اپني تخليقات کي روشني ميں نفرت اور عصبيت سے کلي طور پر بالاتر تھے۔ ليکن مصنف کا يہ کہنا کہ :
’’…اکبر کے کلام کا بڑا حصہ بغير کسي علامتي ہير پھير کے واضح طور پر مغرب سے نفرت اور عصبيت کا ترجمان ہے اور اس کے ثبوت ميں پانچ دس نہيں سينکڑوں اشعار پيش کيے جا سکتے ہيں‘‘۔
يہ خالصتاً تفہيم کا مسئلہ ہے۔ اکبر کے کسي بھي شعر ميں ’نفرت اور عصبيت‘ کا احساس نہيں ہوتا۔ البتہ تمسخر اور طنز کي شدت بعض اشعار ميں محسوس کي جا سکتي ہے۔ اکبر کي شعري ظرافت ميں سرسيد يا مغربي ايجادات پر طنز کو سمجھنے کے ليے اس زمانے کے حالات پر گہري بصيرت ناگزير ہے۔ محض تاريخي واقعات کے اعداد وشمار سے تہذيبي وتاريخي سنگيني کو محسوس نہيں کيا جا سکتا۔ اکبر جس دور ميں سانس لے رہے تھے اس وقت کئي صديوں کو محيط ايک تہذيب کے مٹنے کے آثار نماياں ہوگئے تھے۔ اس کے ساتھ ہي نئي تہذيب رفتہ رفتہ سماج کے ہر طبقے ميں سرايت کرتي جا رہي تھي۔ مثل مشہور ہے کہ ’عوام بادشاہ کے دين پر ہوتے ہيں‘۔ اکبر اس نزاکت اور اس وقت کے سنگين حالات کو بدرجہ اتم محسوس کر رہے تھے۔ وہ ايک حساس شاعر تھے اور نازک مزاج بھي۔ ايسا لگتا ہے کہ اکبر کے ظريفانہ اشعار عوام اور خواص (دونوں) کے ليے درحقيقت تازيانہ کي حيثيت رکھتے ہيں۔ وہ ايجادات سے خائف نہ تھے اورنہ ہي سائنسي مصنوعات سے نفرت کرتے تھے۔ وہ ان ايجادات سے استفادہ کے بھي قائل تھے۔ البتہ اکبر اس کي سحر انگيزي سے لوگوں کو بچانا چاہتے تھے۔ انھوں نے ديکھا کہ سرسيد جيسي عبقري شخصيت بھي تعليمي تحريک کے ساتھ مغربي تہذيب سے کچھ لينے کے خواہش رکھتے ہيں تو اکبر نے ان کو متنبہ (Warn) کرنے کے ليے شعري ظرافت کا سہارا ليا تاکہ وہ حد سے تجاوز نہ کريں۔ يہي وجہ ہے کہ اکبر نے سرسيد کي تعليمي تحريک کو سپورٹ بھي کيا۔ يہ تضاد نہيں تھا۔ مصنف کا يہ اعتراض کہ ’’اکبر نے واشگاف طور پر يہي پيغام ديا کہ عقل اور دين ايک جگہ جمع نہيں ہو سکتے۔‘‘ (صفحہ 66) خاص پس منظر ميں درست ہے کيونکہ دين اسلام ميں عقيدے کا تعلق عقل پر نہيں چھوڑا گيا ہے۔ اکبر دين اسلام کے بنيادي تقاضے سے خوب واقف تھے۔ اکبر پر يہ الزام بھي ہے کہ انھوں نے اخبار اور پريس کي پذيرائي نہيں کي۔ صحافت کي دنيا کے اسکالرز اکبرؔ کے ايک مشہور شعر کو اکثر دہراتے ہيں۔ کيونکہ يہ شعر دہشت پسندي کے برعکس جمہوريت کے چوتھے ستون (Fourth Pillar) کا غماز ہے۔ ان کا مشہور شعر ہے : (صفحہ 69)
کھينچو نہ کمانوں کو، نہ تلوار نکالو
جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو
اس کے ساتھ ہي اکبرؔ اپنے دور کے ’گودي ميڈيا ‘سے خوب واقف تھے جنھوں نے محض تجارتي مفاد کے ليے ميڈيا کو استعمال کر رکھا تھا۔ اکبر کايہ شعر ديکھيے :
مجھے بھي ديجيے اخبار کا ورق کوئي
مگر وہ جس ميں دواوں کا اشتہار نہ ہو
حيرت ہے کہ مصنف نے اس شعر سے اکبر کي بصيرت کو محسوس کرنے کے بجائے ان کي ذاتي زندگي پر کيچڑ اچھالنے کي کوشش کي ہے۔ (صفحہ 71) حالاں کہ اس شعر سے اکبر کے ذوق انتخاب کا اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے نزديک اشتہار نہيں بلکہ خبروں کي اہميت تھي۔ وہ سماج ميں ايک قابل احترام شخصيت ہي نہيں بلکہ منصف کے عہدے پر فائز تھے۔
فاضل مصنف نے اپني کتاب ميں جگہ جگہ اکبر اور ان کے نقادوں و مداحوں کے بارے ميں جو ’کلماتِ تحقير‘ تحرير فرمائے ہيں، نمونے کے طور پر چند اقتباسات بلا تبصرہ ملاحظہ کيجيے :
1۔ اکبر کو بہر طور نئي چيز کي مخالفت کا خبط تھا اور وہ جوش مخالفت ميں بے عقلي کي باتيں کہہ جاتے تھے۔ (صفحہ 48)
2۔ اکثر ان کے اشعار ميں مغربي علوم اور سائنسي ايجادات کے خلاف نفرت يوں ابلي پڑتي ہے کہ انہيں طنز کے ذيل ميں بھي نہيں رکھا جا سکتا۔(صفحہ 52)
3۔ اکبر کوحسرت تھي کہ ملک ميں تجارتي لين دين ميں بھي ہندوؤں کو سبقت حاصل ہے۔ وہ تجارت کي اہميت کے منکر تھے اور نہ ان کا ’مال گاڑي پر بھروسا‘ اٹھا تھا۔(صفحہ 60)
4۔ فاروقي صاحب نے بہر طور ان کي ہر خرابي ميں خوبي کے پہلو ڈھونڈ نکالنے کا تہيہ کر رکھا ہے۔ (صفحہ 68)
5۔ اکبر مغربي ايجادات، علوم اور سائنس کے علاوہ اخبار کي وجہ سے بھي لوگوں کي مذہب سے دوري پر مضطرب تھے۔
(صفحہ 72)
6۔ سر سيد کي تحريک مغربي تہذيب، ترک پردہ اور تعليم نسواں کي مخالفت ميں اکبر کے يہاں مجموعي طور پر سينکڑوں نہيں ہزاروں اشعار مليں گے۔ ايک طرح سے يہ مخالفت ہي ان کي زندگي کا مشن بن گئي تھي۔ (صفحہ 76)
7۔ دراصل فاروقي کے پير و مرشد اکبر جس جاگيري نظام کے پروردہ تھے وہاں بيرون خانہ عورت کو صرف سامان عيش کي حيثيت سے ديکھا جاتا تھا۔ (صفحہ 81)
8۔ سر سيد کے انتہائي مخالف اکبر نے اپنے ناقدوں سے بچاؤ ميں يہ دہائي بھي دي تھي کہ پردے کے سلسلے ميں سر سيد کا موقف ان سے الگ نہيں تھا۔ (صفحہ 84)
9۔ افسوس کہ اگاسکر صاحب نے اتنا بھي نہيں سوچا کہ اکبر کي شاعري کا بڑا حصہ مغربي مصنوعات (اشيا) اور اختراعات سے ان کي نفرت کا ترجمان ہے…۔ (صفحہ 90)
10۔ ايک دل چسپ اتفاق ہے کہ علي گڑھ يونيورسٹي کے آرکائيوز سے اصغر عباس صاحب جہاں اکبر کي نجات کا سامان ڈھونڈ رہے تھے، شافع قدوائي صاحب وہ شواہد فراہم کر رہے تھے جن سے سر سيد پر عائد کردہ بيشتر الزامات کي حقيقت ثابت ہو جائے۔ (صفحہ 108)
11۔ فضيل جعفري کا مضمون پڑھتے ہوئے راقم کو کئي بار بے اختيار جي بي شاکا يہ قول ياد آگيا کہ ’جھوٹے علم سے بچو، يہ جہالت سے زيادہ خطرناک ہے‘۔ (صفحہ 110)
12۔ مولانا محمد علي کا کہنا تھا کہ اگر مسلمان خلافت کا تحفظ نہيں کر سکتے تو انہيں ہندوستان چھوڑ کر کسي اسلامي ملک ميں چلے جانا چاہيے اور ان کے اس بدبختانہ بيان نے مسلمانوں کي سياست کو ناقابل تلافي نقصان پہنچايا تھا۔ (صفحہ 113)
13۔ قارئين کي اطلاع کے ليے يہ اور عرض کر دوں کہ اکبر کے مداح، متبعين اور تلامذہ ميں سے اکثر تقسيم وطن کے بعد پاکستان پرواز کر گئے تھے۔ وہ چاہے ملا واحدي رہے ہوں يا عبدالسلام رفيقي، اسرار حسن خاں رہے ہوں يا چودھري نذير احمدخاں۔ ظفر علي خاں بھي اکبر کے ذہني تربيت يافتگان ميں سے تھے۔ اکبر کے قريبي دوست سيد جالب دہلوي کا ’ہمدم‘ تو کھلے بندوں مسلم ليگ کا ترجمان اخبار تھا۔ (صفحہ 119)
14۔ تاريخ شاہد ہے کہ اکبري فکر کو پروان چڑھا کر دو قومي نظريے ميں ڈھالنے کا کام اقبال نے کيا اور اس کي تکميل جناح کے ہاتھوں ہوئي۔ (صفحہ 124)
15۔ اکبر سرکاري نوکر نہ بھي ہوئے تو اس بنا پر کہ جدوجہد آزادي کي اگوائي ہندوؤں کے ہاتھوں ميں ہے، وہ اس ميں شريک نہ ہوئے۔ (صفحہ 127)
16۔ اکبر کے آخري دور کے کلام سے جو چند باتيں ابھر کر سامنے آتي ہيں وہ يہ ہيں کہ انہيں مغربي علوم کي قوت و کشش اور اپني زندگي بھر کي مخالفت کي رائيگاني کا احساس ہو گيا تھا۔ (صفحہ 157)
17۔ …اکبر نے جب کبھي بلا تخصيص اور معروضي طور پر مذہب پر غور کيا ہے، وسعت فکر کا ثبوت ديا ہے اور جہاں کہيں ان کے ذاتي عقائد حاوي ہو گئے ہيں وہ تنگ نظري کا شکار ہو گئے ہيں۔
(صفحہ 166)
18۔ وہ زندگي بھر زمانے کي جن تبديليوں کو اپنے طنز واستہزا کا نشانہ بناتے رہے تھے لگتا ہے انہيں احساس ہو گيا تھا کہ وہ کسي کے روکے نہيں رک سکتيں اور اب ان ميں تبديليوں کا سامنا کرنے کي سکت نہيں رہي تھي نتيجتاً ان کا وہ کلام ان کي اپني شکست کي آواز بن گيا ہے۔ (صفحہ 179)
اکبر الٰہ آبادي (پيدائش 16 نومبر 1846) کا جب 72 سال کي عمر ميں انتقال (1921) ہوگيا تو علامہ اقبال نے ايک تعزيتي خط اسي وقت ان کے لڑکے عشرت حسين کو لکھا:
’’زمانہ سينکڑوں سال گردش کھاتا رہتا ہے جب جا کے ايک اکبرؔ اسے ہاتھ آتا ہے۔ کاش اس انسان کا معنوي فيض اس بد قسمت ملک اور اس کي بد قسمت قوم کے ليے کچھ عرصہ اور جاري رہتا۔‘‘ (رجال اقبال، ازعبدالروف عروج، نفيس اکيڈمي کراچي، مارچ 1988)
کتاب پر تبصرہ بہ وجوہ ذرا طويل ہو گيا ہے۔ چند اقتباسات بلا تبصرہ نقل کرنے کي ضرورت کا شدت سے احساس ہوا تاکہ اکبر شناس کتاب کے مصنف کے الفاظ پر غور و فکر کر سکيں۔ کتاب ميں بعض تحقيقي کم زوريوں کا قصداً ترک کرنا مناسب تھا۔ صفحہ 59 اور 86 پر بالترتيب مظفرپور اور چوڑي گراں کي جگہ مظفرنگر اور چوڑي والان ہونا چاہيے۔ پتہ نہيں کيوں مصنف نے بعض الفاظ کے املا ميں بھي اجتہاد سے کام ليا ہے۔ مثلاً جرّت، بلکل، بلترتيب، بلخصوص، مطمع نظر وغيرہ الفاظ ذہن ميں کھٹکتے ہيں۔ کتاب کي ’پرفيکٹ بائنڈنگ‘ بھي قاري کو پريشان کر رہي ہے۔ ناشر توجہ فرمائيں۔

 

***

 ايک ادبي محقق کے طور پر اسيم کاوياني نے سب سے پہلے يہ طے کرليا کہ ان کو ايک مخصوص چيز کي تلاش ہے، لہٰذا ان کي تحقيق کا دائرہ اسي چيز کے گرد گھيرا تنگ کرنے لگا۔ بالآخر ايک صياد کي طرح وہ مطلوبہ شکار کو پانے ميں کامياب ہو گئے۔ اس کے برعکس اگر ان کي تحقيق افقي (horizontal) ہوتي تو کنکر پتھر کے ساتھ سنہري ريزے بھي ان کو دستياب ہوتے۔ دوسري بات يہ کہ تخليقي ادب پارے کے مطالعے کي کئي جہتيں ہوتي ہيں ليکن شعري تخليق ميں صرف سياسي جہت پر ارتکاز کرنے سے ديگر ادبي پہلو محجوب ہو جاتے ہيں۔ ايسا محسوس ہوتا ہے کہ اسيم کاوياني نے اکبر الٰہ آبادي کي شعري تخليقات کا مطالعہ صرف سياسي نکتہ نظر سے کيا ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  05 جون تا 11 جون  2022