آواز دبائی تو دیا شور سنائی!
(فواز جاوید خان ، [email protected])
25 مئی کو امریکہ کے مینیاپولس کی ایک دل دہلادینے والی ویڈیو وائرل ہوئی۔ جارج فلائڈ نامی ایک کالے شخص کو پولیس نے محض بیس ڈالر کے فراڈ کے سلسلے میں گرفتار کرنے کی کوشش کی، ویڈیو بتاتی ہے کہ اسے پولیس کی گاڑی کے باہر سڑک پر دونوں ہاتھ باندھ کر گرایا گیا، ایک پولیس آفیسر نے اس کے پیر پکڑے، دوسرااس کی پیٹھ پر سوار ہوا اور تیسرا گھٹنا اس کی گردن پر رکھ کر چڑھ گیا۔ وہ لاچار چیختا رہا، چلاتا رہا، دہائیاں دیتا رہا ’’میرا دم گھٹ رہا ہے‘‘، ’’ میں سانس نہیں لے پارہا ہوں ‘‘، ’’میری جان نہ نکل جائے ‘‘ اس کی دل خراش فریاد کا بھی سنگ دل پولیس والے پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ حد تو یہ ہے کہ جارج فلائڈ کے بے ہوش ہونے کے بعد بھی دو سے تین منٹ تک پولیس والا اس کی گردن پر سوار رہا۔ اس دوران چوتھا پولیس آفیسر وہاں کھڑا لوگوں کو مداخلت کرنے اور اس کی جان بچانے سے روکتا رہا۔
یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی چلی گئی۔ اگلے دن سے مظاہرات شروع ہوئے اور دن بدن شدت پکڑتے گئے۔ مظاہرین وہائٹ ہاوس تک پہنچ گئے۔ تاریخی سینٹ جانس چرچ جسے ’’چرچ آف پریسیڈنٹس‘‘ بھی کہتے ہیں، توڑ پھوڑ اور آگ زنی کا شکار ہوگیا، حالت اس قدر ابتر ہوئی کہ صدر ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس کے حفاظتی بنکر میں پہنچا دیا گیا۔
اس دوران’میلکم ایکس ‘کا نام تمام ہی زبانوں پر چڑھا ہوا تھا۔ میلکم ایکس (اسلام قبول کرنے کے بعد الحاج ملک الشہبازنام اختیار کیا) بہت چھوٹے تھے جب گوروں نے ان کے والد کو قتل کر دیا۔ والدہ کا ذہنی توازن بگڑ گیا اور ان کو ایک مینٹل ہاسپٹل میں بھرتی کر دیا گیا۔ اب سارے بھائی بہن دوسروں کے رحم و کرم پر جینے پر مجبور تھے۔ میلکم ایکس نہ تو تعلیم حاصل کر سکے، نہ کسی نے ان کی تربیت کی۔ ایک دوست کے ساتھ مل کر کہیں چوری کرتے پکڑے گئے اور دس سال کے لیے جیل بھیج دئے گئے۔ وہاں ان کو پڑھنے کا شوق ہوا اور انھوں نے جیل کی لائبریری کھنگال ڈالی۔ ستائیس سال کے تھے جب جیل سے باہر آئے اور نیشن آف اسلام میں شامل ہوئے۔ جلد ہی وہ نیشن آف اسلام (Nation of Islam) کا سیاسی چہرہ بن گئے۔ بعد میں کچھ فکری اختلافات کی وجہ سے نیشن آف اسلام سے الگ ہو گئے۔ انھوں نے کالوں کے حقوق کے تحفظ کو انٹرنیشنل مدعا بنانے کی غرض سے مڈل ایسٹ اور افریقہ کے بہت سے ممالک کا دورہ کیا جس کا مقصد ان ممالک کے سربراہان کو اپنے کاز میں شامل کرنا تھا۔ نیشن ٓف اسلام سے الگ ہونے کے بعد وہ حج ادا کرنے مکہ گئے، وہاں ان کا تعارف حقیقی اسلام سے ہوا۔ ان کو یہ احساس ہوا کہ امریکہ میں اسلام کی اشاعت کی کوششیں تو ہو رہی ہیں لیکن وہ درحقیقت اسلام نہیں ہے۔ وہ واپس آنے کے بعد اسلام کی صحیح صورت سے لوگوں کو روشناس کرانے میں لگ جاتے ہیں۔
میلکم ایکس کی زندگی کے دو عظیم پہلو ہیں۔
ایک سیاسی پہلو: جہاں وہ سیاہ فام لوگوں کو سفید فام لوگوں کے پنجہ سے نکالنے کے لیے تگ و دو کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
دوسرا دعوتی پہلو: ان کوجب اسلام کی حقانیت کا یقین ہوا اور انھوں نے یہ دیکھا کہ یہ واحد مذہب ہے جو تمام انسانوں کو ایک درجہ میں رکھتا ہے تو انھوں نے عیسائیت کی بنیادوں پر تیشہ زنی شروع کر دی اور سیاہ فام لوگوں کو اسلام سے قریب کرنے میں جٹ گئے۔
میلکم ایکس کی سیاسی زندگی
بیسویں صدی کے درمیان میںخصوصا پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں امریکہ میں کالوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے دو آوازیں بہت زور و شور سے سنائی دے رہی تھیں۔ ان میں ایک آواز میلکم ایکس کی، دوسری مارٹن لوتھر کنگ کی تھی۔
مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کا تعلق (Southern Christian Leadership Conference)سے تھا۔ وہی اس تنظیم کے بانی اور صدر بھی تھے۔ کافی تعلیم یافتہ، مذہب سے لگاؤ رکھنے والے اور بہترین عوامی مقرر تھے۔ کالج اسٹوڈنٹ یونین کے پریسیڈنٹ رہ چکے تھے، حالانکہ کالج میں کالے بہت کم تعداد میں تھے۔ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کالوں کے ساتھ ساتھ گورے بھی بڑی تعداد میں کنگ لوتھر کے ساتھ تھے۔ وہ گاندھی کے افکار سے کافی متاثر تھے۔ اسی سلسلے میں ہندوستان کا دورا کیا، نہرو سمت دیگر سیاسی و سماجی اہم شخصیتوں سے تفصیلی گفتگو بھی ہوئی۔
میلکم ایکس اورکنگ لوتھر کے مقاصد گرچہ ایک ہوں لیکن ان کے افکاربالکل مختلف تھے۔ کنگ لوتھر کا کہنا تھا :
ہنگامہ آرائی کے ذریعہ نسلی تعصب کو ختم کرنے کی کوشش کرنا نہ یہ کہ غیر اخلاقی ہے، بلکہ غیر حقیقت پسندانہ بھی ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ کبھی کبھار ہنگامہ آرائی سے مثبت نتائج بھی نکلتے ہیں۔ بہت سے ملکوں نے جنگیں لڑ کر بھی آزادی حاصل کی ہے۔ لیکن وقتی کامیابیوں کے باوجود ہنگامہ آرائی کسی کے لیے بھی امن و سکون کا باعث نہیں ہو سکتی۔
ایک جگہ انھوں نے کہا کہ
نفرت کا جواب نفرت سے دینے سے صرف نفرتیں ہی بڑھ سکتی ہیں، یہ ایسا ہے جیسے اندھیری رات میں اور اندھیرا کر دینا۔ اندھیرا کبھی اندھیرے سے دور نہیں ہوتا، یہ کام صرف روشنی کر سکتی ہے۔ نفرت کرنے سے نفرت کبھی ختم نہیں ہوگی، یہ تو صرف پیارہی کر سکتا ہے۔ ہنگامہ آرائی سے صرف ہنگامہ ہی بڑھ سکتا ہے۔ تشدد تشدد کو جنم دیتا ہے۔
28 اگست 1963 کو امریکہ کی تاریخ کا سب سے بڑا اور تاریخی پروٹسٹ تھا، جس میں ڈھائی لاکھ سے زیادہ لوگ لنکن میموریل ہال واشنگٹن سٹی کے سامنے اکٹھا تھے۔ کنگ لوتھر کی تاریخی تقریر ’’ میرا ایک خواب ہے ‘‘ وہیں ہوئی۔ اس میں بھی انھوں نےعدم تشدد ہی پر پورا زور دیا۔
’’ میرا ایک خواب ہے کہ ایک دن آئے گا جب افریقی غلاموں کے بیٹے اور ان غلاموں کے مالکوں کے بیٹے ایک ساتھ ایک ہی ٹیبل پر اکٹھے بیٹھیں گے۔ یہ میرا خواب ہے!‘‘
دوسری طرف میلکم ایکس کا مشہور جملہ ہے By any means کہ ’’ (ہم اپنا حق لے کر رہیں گے) ، چاہے اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے۔‘‘ 27 اپریل 1962 امریکہ کے مشہور شہر لاس اینجلس میں کچھ پولیس والے نیشن آف اسلام کے لوگوں پر فائرنگ کر دیتے ہیں، ایک کی موت ہو جاتی ہے اور سات دیگر شدید زخمی ہو جاتے ہیں۔ میلکم ایکس اس وقت نیشن آف اسلام کے اسپوک پرسن تھے۔ وہ کہتے ہیں’’میرا یہ ماننا ہے کہ گورے بہت سمجھ دار ہیں۔ آپ کو اب ان کو سمجھانا ہی ہوگا۔ آپ کو یہ سمجھانا ہوگا کہ آپ کس قدر پریشان ہوچکے ہیں۔ آپ کو یہ بتانا ہوگا کہ ان کے بارے میں آپ کے کیا خیالات ہیں۔ اب میٹھی میٹھی باتیں کرنا بند کردیجیے۔ مصالحت کے نام پر بیٹھے مت رہیے۔ ان کو بتایئے کہ اگر وہ اپنا گھر صاف کرنے کو تیار نہیں توانھیں گھر رکھنے کا بھی کوئی حق نہیں۔ اس گھر کو آگ لگا دینی چاہیے۔ ۔‘‘ کنگ لوتھر وغیرہ کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’’ مظلوم کو ہاتھ پر ہاتھ دھرے ظلم برداشت کرنے کی تلقین کرنا بھی جرم ہے، چاہے وہ کوئی بھی کیوں نہ ہو۔ ‘‘
اب سوال یہ ہے کہ امریکہ میں کالوں کے مسائل آخر حل ہوئے کیسے؟ کیا محض مصالحت اور امن پسندی سے مسائل حل ہو گئے؟ یا یہ کہ طاقت کے استعمال اور ہنگامہ آرائی نے کالوں کو گوروں کے پنجے سے آزاد کروالیا؟
جنوری 1965 میں کنگ لوتھردیگر لیڈرس کے ساتھ مل کر ایک پر امن مارچ نکالتے ہیں اور ووٹنگ رائٹس کے خاطرمستقل مظاہرات شروع ہو جاتے ہیں۔ کنگ لوتھر کی موجودگی کا مطلب ہے کہ وہ مظاہرات پر امن مظاہرات ہی ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود پولیس تشدد کا راستہ اپناتی ہے۔ لیکن جب اس سے بھی بات بنتی دکھائی نہیں دی تو فروری کی پہلی تاریخ کو کنگ لوتھر کے ساتھ اور بھی سیکڑوں لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ بہت کوششوں کے بعد بھی جب رہائی کی کوئی سبیل پیدا نہیں ہوئی، تو میلکم ایکس ایک زوردار خطاب کرتے ہیں ’’سارے افریقن امریکنس کنگ لوتھر کی عدم تشدد کی کوششوں سے متفق نہیں ہیں (بہت سے بزور بازو اپنی بات منوانے پر بھی یقین رکھتے ہیں) ‘‘ ان کی اسپیچ کے اگلے دن ہی کنگ لوتھر و دیگر کو رہا کر دیا جاتا ہے۔ ایک نان وائلنس کے علم بردار کو رہا کروانے کے لیے بھی کسی قدر ’وائلنس ‘ کی ضرورت پڑتی ہی ہے۔
4 اپریل 1968 مارٹن لوتھر کنگ کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ سخت حفاظتی انتظامات کے باوجود اگلے ہی دن سو سے زائد مقامات پر تشدد بھڑک اٹھا۔ اسٹوکلی کارمیکائیل جو کہ ’اسٹوڈنٹ نان وائلنس کو آرڈینیشن کمیٹی‘کے عرصے تک ذمہ دار رہنے کے باوجود یہ بیان دیتے دکھائی دیے :
’’گوروں نے پچھلی رات کنگ کو مار ڈالا، انھوں نے ہمارے لیے اب کام کو بہت آسان بنا دیا ہے۔ اس موضوع پر اب ڈسکشن کی کوئی گنجائش باقی نہیں بچی۔ کالوں کو اس بات کا احساس ہو چکا ہے کہ اب بندوقیں اٹھانی ہی ہوں گی۔ اگر وہ مجھے مار دیتے تو بھی برداشت کیا جا سکتا تھا لیکن کنگ لوتھر کو مار کر انھوں نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔‘‘
کنگ لوتھر دراصل عدم تشدد اور مصالحت پسندی کی ایک علامت تھے۔ ان کو مارڈالنے کا مطلب یہ ہے کہ عدم تشدد سے مزید اب کوئی امید وابستہ نہیں کی جا سکتی۔ خود ان کی تنظیم کے بھی کئی لیڈرس نے یہ بیان دیا کہ’’ کنگ کے خاتمہ کے ساتھ نان وائلنس کی اسٹریٹجی بھی ختم ہو جانی چاہیے۔ ‘‘
18 مارچ 2018 کی شام اسٹیفن کلارک نام کے بائیس سالہ ایک کالے لڑکے کو پولیس نے اس شک پر، سات آٹھ گولیاں مار کر ہلاک کر دیا، کہ اس کے ہاتھ میں بندوق ہے جو وہ ان پر تانا ہوا ہے۔ مارنے کے بعد دیکھا تو اس کے ہاتھ میں صرف ایک موبائیل تھا۔ بیشتر گولیاں اس کو پیٹھ میں لگی تھیں، جسکا صاف مطلب ہے کہ اس کو دیکھے بنا ہی مجرم سمجھا گیا اور مار ڈالا گیا۔ اسٹیفن کلارک کے قتل کے بارے میں نہ تو صدر ٹرمپ کا کوئی بیان آیا، نہ ان پولیس والوں کو خلاف کوئی کارروائی کی گئی۔
17 جولائی 2014 نیو یارک ڈی سی کی سڑک پر دن دہاڑے’ارک گارنر ‘ نام کے ایک کالے شخص کو کچھ گورے پولیس والوں نے گلا دبا کر جان سے مار دیا۔ وہ پولیس والوں سے گہار لگا تا رہا کہ ’’میں سانس نہیںلے پا رہا ہوں‘‘ لیکن وہ اس کی گردن پر سوار رہے۔ جارج فلائڈ کی طرح اس کی بھی ویڈیو وائرل ہوئی، لیکن نہ تو امریکن صدر کا کوئی بیان آیا نہ ہی پولیس والوں کے خلاف کوئی سخت کارروائی کی گئی۔
لیکن جب جارج فلائڈ کا قتل ہوا تو ایک بڑا ہنگامہ برپا ہو گیا۔ لوگ کرونا جیسی وبائے عام کے باوجود ہمت کرکے سڑکوں پر نکل آئے۔ جگہ جگہ آتش زنی کی جانے لگی۔ لوگ وہائٹ ہاوس تک پہنچ گئے۔ پولیس والوں نے بھی گھٹنے ٹیک دیے۔ صدر ٹرمپ کے ’’مجھے بہت افسوس ہوا ‘‘ ’’وہ بہت ہیبت ناک منظر تھا ‘‘ جیسے بیانات بھی اس کے بعد ہی سامنے آئے۔ ’شارپتون‘ جو کہ ایک معروف سماجی کارکن ہیں ان کا کہنا ہے کہ’’نسلی تشدد کا یہ پہلا مسئلہ ہے جس پر ٹرمپ نے زبان کھولی ہے۔‘‘ سوال یہی ہے کہ آخر آج ایسا کیا ہوا کہ ٹرمپ زبان کھولنے پر مجبور ہو گیا۔ مینیا سوٹا اسٹیٹ (جہاں جارج فلائڈ کا قتل ہوا ہے) کی تاریخ میں چاون پہلا گورا پولیس آفیسر ہے جس کے خلاف کسی کالے کو مارنے کے الزام میں چارجز لگائے گئے ہوں۔ آخر ایسا کیوں؟ انصاف اور ہم دردی سب کچھ صرف جارج فلائڈ کے لیے ہی کیوں؟
’’جن کی آوازدبائی جاتی ہے وہ شور مچا کر کر آواز سنانے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔‘‘ (A Riot is the voice of unheard (جارج فلائڈ کا یہ کیس کنگ لوتھر کے ان الفاظ کی صداقت پر دلالت کرتا ہے۔ میلکم ایکس نے بھی یہی بات کہی تھی کہ’’جب بھی آپ کسی ایسے سماج میں رہتے ہوں جہاں کہنے کو تو قانون کی حکم رانی ہو لیکن آپ کے کالے رنگ کی وجہ سے آپ کو انصاف نہ مل رہا ہو، تو آپ انصاف حاصل کرنے کے لیے جو راستہ چاہیں اختیار کریں ۔‘‘
یہ اس پوری تصویر کا ایک پہلو تھا کہ کس طرح ہنگامہ آرائی کبھی کبھار ضروری ہو جاتی ہے۔ یہاں ایک اور سوال جو قابل غور ہے وہ یہ کہ آخر کنگ لوتھر کی باتوں کا کیا حاصل تھا؟ نان وائلنس کی اسٹریٹجی کا نتیجہ کیا نکل کر آیا؟ کیا جو میلکم ایکس نے کہا تھا صرف وہی صحیح تھا؟ کیا سب کچھ ہنگامہ آرائی کے ذریعہ ہی حاصل ہوا؟ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ پچھلی صدی کی پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں میں چاہے جتنے بھی ہنگامے، مظاہرات اور فسادات کیوں نہ ہوئے ہوں کالوں کو جو کچھ بھی راحت ملی وہ درحقیقت کچھ قوانین بننے سے ملی۔
سول رائٹس ایکٹ 1957، سول رائٹس ایکٹ 1960، سوال رائٹس ایکٹ 1964، ووٹنگ رائٹس ایکٹ 1965، فیئر ہاوزنگ ایکٹ 1968مختلف ہیومن رائٹس کمیشن، ایکول امپلائمینٹ کمیشن، سول رائٹس ڈویژن وغیرہ کا بننا، بہت سے تعصب پر مبنی قوانین کا ختم کیا جانا، ان تمام کا کریڈٹ میلکم ایکس کی آئیڈیالوجی سے زیادہ کنگ لوتھر کی آئیڈیالوجی کو جاتا ہے۔ اگرسول رائٹ کی اس پوری تحریک میں صرف طاقت کا استعمال کیا گیا ہوتا تو شائدطاقت کے ذریعہ اس تحریک کو دبا بھی دیا گیا ہوتا۔ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اگر میلکم ایکس نہ ہوتے تو گورے اتنی آسانی سے کنگ لوتھر کی بات سننے والے نہیں تھے۔ وہ ان عدم تشدد کے علم برداروں کو تر لقمہ سمجھ کر نگل گئے ہوتے۔ دراصل مالکو م ایکس نے گوروں کو مصالحت کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کیا اور کنگ لوتھر نے موقعہ کا استعمال کیا۔
خلاصہ کلام، یہ دو رویے ہیں جو کسی بھی مظلوم قوم کے رہ نما اور ان کے پیچھے چلنے والے لوگ عموما اختیار کرتے ہیں۔ میں نے کنگ لوتھر، میلکم ایکس اور سول رائٹس مومنٹ کا ذکر صرف اس لیے کیا تاکہ یہ اہم بحث جو عموما تصوراتی انداز میں کی جاتی ہے وہ عملی انداز میں کی جاسکے۔
مصالحت کے نام پر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے اور ظلم سہتے رہنے کی تلقین کوئی نہیں کرتا۔ نوبیل پیس پرائز ونر ’کنگ لوتھر‘ جن کو بارہا ان کی مصالحت پسندی کے حوالہ سے نشانہ بنایا گیا خود وہ بھی نہیں۔ ’’ گاندھی نے بھی کبھی ذاتی دفاع سے نہیں روکا، چاہے اس میں ہتھیاروں کا استعمال ہی کیوں نہ کرنا پڑے، خون خرابہ ہی کیوں نہ ہو ۔‘‘ یہ کنگ لوتھر کے الفاظ ہیں۔
بدلہ کے نام ہر بے گناہ اور سڑک چلتے انسان کو مارنے کی اجازت بھی کوئی نہیں دیتا۔ خود میلکم ایکس بھی نہیںدی، جن کو ان کی جذباتی تقریروں کی بنیاد پر، بارہا تنقیدوں کا نشانہ بنایا گیا۔ ’’ ہم امن پسندوں کے ساتھ امن کے ساتھ ہی رہنا چاہتے ہیں۔ میں اس وقت تک تشدد کی اجازت نہیں دے سکتا جب تک سامنے والا خود تشدد نہ اختیار کر لے۔ ‘‘ یہ میلکم ایکس کے الفاظ ہیں۔
سمجھنے کی بات بس اتنی ہے کہ جب بھی آواز دبائی جائے تو شور اٹھ جانا چاہیے۔ ظلم کے سامنے گھٹنے نہ ٹیکنے کا نام ہی انصاف پسندی ہے۔ ہو سکتا ہے دیکھنے میں میلکم ایکس اور کنگ لوتھر کے راستے الگ لگیں لیکن ان میں کچھ زیادہ فرق نہیں۔
ہندوستان کی آزادی میں بھگت سنگھ کا بھی اتنا ہی ہاتھ ہے جتنا گاندھی کا۔ تحریک شہیدین کے قائدین اور ابوالکلام آزاد ونوں کا ہونا ہندوستان کی آزادی کے لیے اتنا ہی ضروری تھا۔ کالوں کو ان کے حقوق دلانے میں میلکم ایکس کا بھی اتنا ہی حصہ ہے جتنا مارٹن لوتھر کنگ کا۔ اور یہی اس مضمون کا خلاصہ ہے۔
غلطی تب ہوتی ہے جب ہم ان دونوںفکروں کے حامل لیڈران کا ہی ایک دوسرے سے موازنہ کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ اپنی کوتاہ فہمی کے باعث کسی ایک کو صحیح اور دوسرے کو غلط سمجھ کر ایک کی موافقت اور دوسرے کی مخالفت میں اپنی صلاحیت برباد کرنے لگتے ہیں۔ اصل مقصد بہت دور کہیں چھوٹ جاتا ہے۔ وقت برباد، موقعہ ضائع اور دولت رائیگاں جاتی ہے۔
مختار مسعود کا کہنا ہے:
جو قومیں اپنی ترجیحات متعین نہیں کرتیں اور اپنی روایات کی حفاظت کرنے کے بجائے کھیل کود اور ہنسی مذاق کو آزادی کا حاصل سمجھ لیتی ہیں ان سے سرزمین کا حق ملکیت، ان کی حکومت سے حق حکم رانی اوربالآخر لوگوں سے زندہ رہنے کا حق بھی چھین لیا جاتا ہے۔
میلکم ایکس کی دعوتی زندگی
میلکم ایکس جیل میں ہی تھے جب ان کے بھائی نے ان کو نیشن آف اسلام نامی تنظیم سے متعارف کروایا اور وہ اس کے باقاعدہ رکن بن گئے۔ ’نیشن آف اسلام‘ کی بنیاد ’ فرد محمد‘ نامی ایک شخص نے 4جولائی1930کو ڈیٹرائٹ میں رکھی تھی۔ تنظیم گرچہ اسلام کے نام پر بنائی گئی تھی لیکن سوائے چند نظریات کے جن میں سے بیشتر اخلاقیات سے متعلق ہیں، تنظیم کا اسلام سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ فرد محمد نے مہدی موعود ہونے کا دعویٰ کیا تھا اور اس کے بعد تنظیم کا جو سربراہ بنا ’علی جاہ محمد ‘ اس نے نبی ہونے کا بھی دعویٰ کر دیا۔ اللہ تعالی کی ہستی کے متعلق بھی ان کے عقائد انتہائی گمراہ کن تھے۔ نما زکا بھی کوئی ایسا تصور نہیں تھا وہ انگلش میں ہی کچھ الفاظ کی آدائیگی کو کافی سمجھتے تھے۔ مردوں کی تکفین و تدفین کے بھی ان کے اپنے طور طریقے تھے۔ فرد محمد کا کہنا یہ تھا کہ جنت جہنم کا تعلق اس دنیا سے ہی ہے۔ جو اس دنیا میں خوشحال رہا گویا اس نے جنت کو پا لیا جو یہاں ظلم وستم کا شکار رہا گویا اس کی زندگی جہنم میں گزری۔ مرنے کے بعد کی زندگی کا ان کے درمیان کوئی تصور نہیں تھا۔ ان کے مطابق سیاہ فام لوگ ہی اللہ تعالی کی محبوب مخلوق ہیں۔ سفید فام توشیطان ہیں جنھیں جہنم کے لیے بنایا گیاتھا اور پھر ان کو سیاہ فام لوگوں پر مسلط کر دیا گیا۔
سیاہ فام لوگوں کو ان کے حقوق دلانے اور ان کو سفید فام کے ظلم و ستم سے بچانے میں اس تنظیم نے بڑا کردار ادا کیا۔ ان کا ایک مثبت رول یہ تھا کہ انھوں نے بہت سے لوگوں کو عیسائیت سے نکال کر نام نہاد ہی صحیح لیکن اسلام میں داخل کر دیا۔ انھوں نے اسلام کی عدل و مساوات سے متعلق تعلیمات کو اپنی بنیاد بنائے رکھا اور اس طرح سیاہ فام لوگ بڑی تعداد میں ان کے ساتھ شامل ہونے لگے۔ تنظیم میں اخلاقی پابندیاں بہت سخت تھیں۔ کسی بھی رکن کو سگریٹ پینے یا جنسی بداعمالیوں میں مبتلا ہونے پر فوراً ہی تنظیم سے باہر نکال دیا جاتا تھا۔
میلکم ایکس نے اپنی زندگی نیشن آف اسلام کے لیے وقف کردی تھی۔ اس دوران ’علی جاہ محمد ‘ تنظیم کے روحانی رہ نما اور ان کے مطابق اللہ تعالی کی طرف سے بھیجے گئے ایک نبی تھے۔ شامل ہونے کے بارہ سال بعد 1964 ء میں میلکم ایکس کے علی جاہ محمد سے کچھ اختلافات ہوئے اور میلکم ایکس کو نیشن آف اسلام سے نکال دیا گیا۔ میلکم ایکس کے ساتھ علی جاہ محمد نے اپنے ایک بیٹے ’والیس محمد ‘ کو بھی نکال دیا جو کہ بعد میں تنظیم کا سربراہ بنا اور اس نے تنظیم میںاسلام کی بگڑی ہوئی صورت کو سدھارنے کی کوشش کی لیکن ’فراکان‘ (نیشن آف اسلام کا موجودہ سربراہ) نے دھیرے دھیرے کرکے والیس محمد کو ہی ہٹنے پر مجبور کر دیا اور ایک مرتبہ پھر وہ ساری خرافات تنظیم میں داخل کر دیں۔
نیشن آف اسلام سے نکلنے کے بعد میلکم ایکس حج کرنے مکہ مکرمہ گئے۔ ان کے سیاہ فام ہونے کے باوجود لوگوں نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا جس سے وہ بہت متاثر ہوئے۔ وہ اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں ’’ اگر صرف حج کے پیغام کو ہی ہم صحیح معنوں میں باہر کی دنیا تک پہنچانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ہر سال خود بہ خود ملینوں کی تعداد میں لوگ دین اسلام میں شامل ہونے لگیں گے۔ لیکن اس کے لیے ہم کو ماڈرن دنیا کی سائیکلوجی کو سمجھنا ہوگا۔ ‘‘وہ آگے لکھتے ہیں ’’اسلام ہی وہ مذہب ہے جو تمام طبقات اور رنگوں کے لوگوں کو ایک درجہ میں رکھتا ہے۔ حج اس کی شاندار مثال ہے۔‘‘ مدینہ کے بارے میں وہ لکھتے ہیں ’’ایسا بھائی چارہ ہے کہ ہر رنگ اور نسل کے لوگ، دنیا کے کونے کونے سے آئے ہوئے لوگ بالکل گھل مل گئے ہیں۔ ایک خدا کی عبادت کی طاقت آج مجھ پر واضح ہوئی۔ مجھے یہاں کھل کر امریکہ کی اونچ نیچ اور اس سے پیدا ہونے والی برائیوں کو سمجھانے کا موقعہ ملا۔ ‘‘
میلکم ایکس بے شمار سیاہ فام لوگوں کو عیسائیت سے نکال کر اسلام میں لانے کا سبب بنے۔ وہ ایک عوامی تقریر میں عیسائیت پر بھر پور نقد کرتے ہوئے کہتے ہیں’’ میرے بھائیو اور بہنو! ہمارے ان گورے آقاوں کا یہ مذہب (عیسائیت) ہم کالوں کو تو یہ سکھاتا ہے کہ تم اس دنیا میں ظلم برداشت کر لو مرنے کے بعد تم کو پر لگ جائیں گے اور تم اڑتے ہوئے جنت میں پہنچ جاوگے جہاں خدا نے تمہارے لیے خصوصی انتظام کر رکھا ہوگا۔ یہ کہہ کر وہ ہمیں بہلا پھسلا دیتے ہیں۔ ہم نے اس مذہب کو قبول کیا۔ ہم نے اس مذہب پر بھروسا کیا۔ لیکن اس دوران یہ گورے خود اس مذہب کا نام لے کر ہمارے اوپر سوار رہے۔ ہم کو تو جنت کے خواب دکھا کر خوش کرتے رہے لیکن خود اس دنیا میں ہی جنت کے مزے لوٹتے رہے۔ ان گورے مذہب کے رکھوالوں نے اپنے حساب سے حضرت عیسی کا ایک سفید مجسمہ بنایا اور ہم کو اس کی عبادت کرنے میں لگا دیا اس طرح خود بخود ہم ایک ایسے مجسمہ کی عبادت کرنے لگے جو ہماری طرح نہیں بلکہ ان کی طرح دکھتا ہے۔ وہ اس کا سہار ا لے کر ہمارے خدا بن بیٹھے اور ہم ان کے غلام۔ ‘‘
میلکم ایکس مسلمانوں کے اس رویے پر بھی سخت تنقید کرتے ہیں کہ ہم مسجد کے ایک کونے میں بیٹھ کر دعا تو کر تے ہیں کہ اللہ تعالی لوگوں کو اسلام میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائے، لیکن اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کوئی جدوجہد نہیں کرتے۔ وہ لکھتے ہیں ’’مسجدوں میں شکست خوردہ بیٹھے خدائی مدد کی راہ تکنا لا حاصل ہے۔ میرا ماننا یہ ہے کہ خدا بھی اس کی مدد کرتا ہے جو خود اپنے بل بوتے پر اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں لگ جاتا ہے۔‘‘ میلکم ایکس کا یہی طریقہ تھا وہ بے جھجک سڑکوں پر نکل کھڑے ہوتے، جو ملتا اس کو سمجھانے بجھانے کی کوشش کرتے۔ سڑک پر کوئی نہیں ملتا تو شراب خانوں اور کھیل تماشوں کے اڈوں پر پہنچ جاتے۔ وہاں ان کو بہکے ہوئے سیاہ فام لڑکے ملتے جو اپنی ذلت کی زندگی میں مگن ہوتے وہ ایک ایک کو پکڑتے اور اسے عزت کی زندگی گزارنے پر اکساتے، کوشش کرتے کہ سمجھا بجھا کر اسے مسجد لے آئیں اور پھر وہاں اس کی تربیت کا نظم کرتے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ خدائی مدد بھی شامل حا ل ہوئی، جب وہ نیشن آف اسلام میں داخل ہوئے تھے تو اس کے ارکان کی تعداد چار سو تھی جو بارہ سال بعد ان کے نکلتے وقت بڑھ کر چالیس ہزار ہو گئی تھی۔ یہاں مجھے حسن البنا شہید کا بھی ایک جملہ یاد آتا ہے کہ ’’ یہ سڑک پر پھرتے آوارہ نوجوان ہی وہ خام مال ہیں جو تیار ہو جائیں تو اسلام کی خدمت کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر سکتے ہیں۔ ‘‘
میلکم ایکس حج سے واپس آنے کے بعد سے اسلام کی صحیح تصویر امریکہ میں پیش کررہے تھے۔ نیشن آف اسلام والے چونکہ بہت کٹر اور متشدد تھے لہذا ان کی طرف سے بار بار میلکم ایکس کو دھمکیاں ملتی رہیں۔ وہ جان کی پرواہ کیے بنا پھر بھی اپنے مقصد میں لگے رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ میں اس دن ہی مر گیا تھا جب میں نے اسلام کی صحیح تعلیمات کو امریکہ میں پھیلانا شروع کیا تھا۔ اب روزانہ مجھے یہ لگتا ہے کہ کام کرنے کا ایک نیا موقعہ ملا ہے اور میں اس کا بھر پور استعمال کر نے کی کوشش کرتا ہوں۔ جب تک زندگی رہی میں اپنے مقصد میں لگا رہوں گا ۔‘‘ بالآخر وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ 21 فروری 1965 ء وہ اسٹیج پر تھے جب نیشن آف اسلام کے ارکان نے گولی چلادی اور ایک عظیم قائد، ایک عظیم داعی اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔■