آنکھیں اشکبار لیکن دل مرضی الٰہی پر مطمئن
عملی زندگی میں اسوہ ابراہیمی کی ایک ہلکی سی جھلک
ام مسفرہ مبشرہ، کھوت
وہ پیر کا دن تھا۔ صبح کے کوئی گیارہ بج رہے تھے۔ میری بیٹی کھیلتے کھیلتے اچانک بے ہوش ہو گئی۔ جب میں نے اس کے چہرے پہ پانی چھڑکا تو اس کے منہ سے خون بہنے لگا۔ میں فوری بیٹی کو اس کی دادی جان کے سپرد کر کے ضروری چیزیں لانے کے لیے سیڑھیوں سے کمرے کی طرف بھاگی۔ موبائل، بیگ، دوائیاں سب نظر کے سامنے سے اوجھل ہو گئے۔ مجھے کچھ نہیں سجھائی دیا۔ مامتا بیٹی کی طرف کھینچی چلی جا رہی تھی اور عقل ماؤف ہونے لگی تھی۔ خرد اور جنوں کی کشمکش کی دھند میں دل ڈوبنے لگا تھا۔ میری ہنستی کھیلتی بٹیا رانی پل بھر میں زندگی سے دور محسوس ہونے لگی۔ شفقت سے سرشار دل بجھنے لگا۔ دل نے پھر سعی کے لیے اکسایا۔ امید کی طاقت نے نہ جانے کتنے چکر اوپر نیچے کروائے۔ اس کو ہاسپٹل ایمرجنسی کے لیے رخصت کرتے وقت آنکھوں سے آنسوؤں کی قطار رواں ہونے لگی کہ خدانخواستہ کہیں یہ دائمی جدائی تو نہیں؟ یہ سوچ کر دل بہت زور سے دھڑکا، ریڑھ کی ہڈی میں خوف کی سرد لہر دوڑ گئی۔
اس ساری غیر متوقع صورتحال میں مجھے بارہا ابراہیم علیہ السلام کی یاد آئی۔ ضمیر سوال اٹھاتا رہا کہ ابراہیم علیہ السلام نے کس طرح اس صورتحال کا سامنا کیا ہوگا جب ایک طویل انتظار، بے شمار دعاؤں اور امیدوں کے بعد فرزند نصیب ہوا تھا۔ صرف اور صرف دین اسلام کی سربلندی کی خاطر ہی تو انہوں نے اپنی نسل نو مانگی تھی اور اللہ کا حکم بھی ان کے آرزو میں شامل تھا۔ انہوں نے اللہ سے یہ سوال تک نہ کیا کہ میں نے تو اسے اقامت دین کے لیے مانگا تھا، میری تو اس سے محبت بھی تیرے ہی لیے تھی پھر میں اسے کیسے ذبح کردوں؟ اور حقیقت بھی یہی تھی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس کوئی محلات اور جاگیریں نہیں تھیں کہ وہ فکر کرتے کہ میرے بعد ان کا وارث کون ہوگا؟ انبیاء کی اصل میراث تو نبوت ہوتی ہے۔ بس اسی کی وراثت کا خواب لیے اسماعیل علیہ السلام کی محبت پروان چڑھ رہی تھی۔ پہلے پہل تو حضرت اسماعیل اور ہاجرہ علیہم السلام کو رب کے حکم پر بے آب و گیاہ صحرا میں تنہا چھوڑ آئے۔ جب مدتوں بعد ملے اور بچہ بھاگ دوڑ کی عمر کو پہنچ گیا تب ان کی آنکھیں امید سے چمکنے لگیں تھیں۔ پھر خداوند کریم نے انہیں ایک بار پھر آزمانا چاہا۔ کیا اس وقت ان کی پدرانہ شفقت ذرا بھی نہیں کانپ اٹھی ہوگی جب انہوں نے اپنے لخت جگر کو زمیں پر لٹایا تھا؟ کیا اس وقت ایک بوڑھے باپ کے ہاتھ جذبات نہ لرز اٹھے ہوں گے جب انہوں نے چھری چلائی تھی؟ یہ خدا سے کیسی محبت کی معراج تھی کہ انہوں نے قربانی کے عمل میں کسی بھی طرح کی رکاوٹ سے بچنے کے لیے آنکھوں پر پٹی باندھ لی تھی۔ یہ ایمان کی کیسی حلاوت تھی جس نے ان کو دنیا وما فیہا سے بے نیاز کر دیا تھا؟ ہزاروں بار قصہ ابراہیم زیر نظر رہا، زیر سماعت، زیر لب و زیر قلم رہا مگر جب خود کے جگر کے ٹکڑے کو جان کنی کی حالت میں دیکھا ۔۔۔۔۔۔ تو زبان سے بے اختیار نکلا: سَلَٰمٌ عَلَىٰٓ إِبۡرَٰهِيمَ سَلَٰمٌ عَلَىٰٓ إِبۡرَٰهِيمَ -ہم تو ان کے نقوش پا کے پیچھے نماز پڑھنے والے ہیں ہمارا کہاں ایسا امتحان اور کہاں ایسا ایمان …ہاں! لیکن قرآن کہتا ہے ’’اولاد فتنہ ہے آزمائش ہے‘‘ جبکہ ہم روزآنہ سورہ فاتحہ میں دعا کرتے ہیں ’’اللہ ہمیں ان لوگوں کے راستے پر چلا جن پر تو نے انعام فرمایا ہے‘‘۔ اسی لیے تو قرآن خصوصیت کے ساتھ ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کو اسوہ کے طور پہ پیش کرتا ہے۔ اب مجھے بھی اسپتال لے جایا جا رہا تھا۔ راستے میں ضمیر کے ساتھ تکرار سے سیرت ابراہیم سے سبق مل رہا تھا۔ ضمیر سوال کرتا زندگی اور موت کس کے ہاتھ میں ہے؟ جواب خود بخود آ جاتا: اللہ کے ہاتھ میں۔ پھر ضمیر کہتا پھر تو اس سے اچھی ہی امید رکھنا۔ ذبح کرتے وقت ابراہیم علیہ السلام کے قلب سلیم میں ذرہ برابر بھی خیال نہیں آیا کہ بیٹے سے دوبارہ ملاقات ہوگی بھی یا نہیں۔ ان کے یقین کامل اور عمل پیہم پر خدا خوش ہو کر مہربان ہو گیا چنانچہ حضرت سماعیل علیہ السلام زندہ بھی رہے اور نبی بھی بنے۔ ابراہیم علیہ السلام ایک بیٹے کے آرزومند تھے دو کی خوشخبری ملی، دونوں سے نبیوں کا سلسلہ چلا اس طرح آپ ابو الانبیاء بھی بنے۔ آزمائش میں کامیابی اس لیے ملی کہ وہ اس آزمائش کے مقصد کو پا گئے تھے۔ ساری محبتوں اور جذباتی تعلقات کو پیچھے چھوڑ کر خالص حنیفیت اختیار کی تھی۔ ان کا قلب منیب تھا جو زندگی بھر اللہ کی طرف رجوع ہوتا رہا اور اللہ رب العزت کی ذات کو وہ مقام دیا کہ دنیا کی عزیز ترین شئے بھی اس ذات کی محبت و اطاعت کے درمیان حائل نہ ہوسکی۔ ورنہ انہیں خلیل اللہ کا خطاب بھلا یوں ہی کیسے مل جاتا؟
ضمیر نے سرگوشی کی کہ اللہ کی رضا میں ہی بھلائی ہے۔ یوں بے قرار دل کو قرار آ گیا۔ اور اس کی آنکھوں سے کب میری آنکھیں ٹکرائیں پتہ بھی نہ چلا۔ وہ معصوم سی خاموش سی نگاہیں اپنی ممّا کی تلاش میں تھیں اور یہ اشکبار لیکن مطمئن و مسرور نگاہیں اپنے رب کی شکرگزار۔
***
ضمیر نے سرگوشی کی کہ اللہ کی رضا میں ہی بھلائی ہے۔ یوں بے قرار دل کو قرار آ گیا۔ اور اس کی آنکھوں سے کب میری آنکھیں ٹکرائیں پتہ بھی نہ چلا۔ وہ معصوم سی خاموش سی نگاہیں اپنی ممّا کی تلاش میں تھیں اور یہ اشکبار لیکن مطمئن و مسرور نگاہیں اپنے رب کی شکرگزار