آسام کے خوفناک تجربے کا پورے بھارت پر نفاذ!
اعجاز ذکا سید
جب سے نیو یارک کا ایک پراپرٹی ڈیولپر دنیا کے سب سے طاقتور عہدے کے لیے منتخب ہوا ہے تب سے جارج اورویل کی پیشین گوئی پر مبنی ناول ‘انیس سو چوبیس’۱۹۲۴ کی فروخت میں دس ہزار گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ ہمارے لیے یہ جاننا دلچسپ ہوگا کہ گجرات کی شخصیت کے دہلی منتقل ہونے کے بعد سے ہندوستان میں اس کتاب کی فروخت میں کتنا اضافہ ہوا ہوگا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جار ج اورویل جن باتوں سے خوف زدہ تھا یا اس نے جن امور سے خبردار کیا تھا وہ آزاد یا مغربی دنیا سے زیادہ موجودہ حکومت کے تحت ہندوستان میں سچ ثابت ہو رہی ہیں۔
جارج اورویل کی اس کتاب کو آمرانہ نظام ہائے حکمرانی اور ان کو جنم دینے والی ذہنیت پر اب تک کی سب سے سخت تنقید کہا جاتا ہے۔ جب بھی لوگوں کی آزادی کو کچلنے اور شہری حقوق کو دبانے کی کوشش ہوگی تو جارج اورویل کی انیس سو چوراسی اور اسی کی دوسری کتاب اینمل فارم کی مانگ میں اضافہ ہوتا رہے گا۔
شاید کافکا کو چھوڑ کر کوئی دوسرا مصنف ایسا نہیں ہے جس کے نام کے ساتھ ہی اس طرح کے طاقتور جذبات ابھر آتے ہوں اور کرہ ارض پر قارئین کی پوری دنیا اس کے ساتھ اس طرح جڑ جاتی ہے۔
دنیا میں جب بھی مطلق العنان افراد ریاستوں اور نظریات کی جانب سے فکر و عمل کی آزادی، بنیادی حقوق اور انسانی وقار و احترام پر حملہ ہوتا ہے تو اس وقت اورویل کے افکار و خیالات کو یاد کیا جاتا ہے۔ بلکہ خود ‘اورولیئن’ کی اصطلاح ہی کئی چیزوں کی نشاندہی کے لیے وضع کی گئی ہے جیسے ظلم، جبرو استبداد، جابر حکومتوں اور کلیت پسندانہ نظاموں کا جبر اور شدت پسندی کا خوف وغیرہ وغیرہ ۔
یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ مذکورہ بالا انگریز مصنف اور جہد کار جس نے برطانوی سامراج کے ساتھ ساتھ اسٹالن کے سوشلزم اور آمریت کے خلاف بغاوت کی تھی وہ بہار کے موتیہاری میں پیدا ہوا۔ اورویل نے ایک بار لکھا "مکر و فریب کے زمانے میں سچ کہنا ایک انقلابی عمل ہے۔”
میں یہ سوچ کر حیران ہوجاتا ہوں کہ مودی کے موجودہ بھارت اور اس کی خرابیوں کے متعلق اور اس حکومت کے تحت قوم پرستی، شہریت، نقل مکانی اور شناخت وغیرہ کے نام پر لوگوں کو الگ تھلگ کرتے دیکھ کر اورویل کے خیالات کیا ہوتے اور ان پر اس کا ردعمل کیا ہوتا۔
میرا قیاس ہے کہ ہندوستان میں صدیوں اور نسلوں سے زندگی گزارنے کے بعد راتوں رات لوگوں کو ’بے وطن‘ اور ’غیرقانونی‘ قرار دیے جانے کے اس نئے تصور پر ارول شاید اپنا سر پیٹ لیتا۔
آسام سے تعلق رکھنے والی زبیدہ بیگم کے معاملے کو دیکھیں جو اپنے آپ کو ہندوستانی شہری ثابت کرنے کتنے دفتروں کا چکر کاٹ رہی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ اپنی ہندوستانی شناخت ثابت کرنے کے لیے زبیدہ کے پاس کوئی دستاویزات موجود نہیں ہیں۔ اس کے پاس 15 سے زیادہ دستاویزات موجود ہیں جن کی بنیاد پر یہ ثابت کرسکتی ہیں کہ وہ وزیر داخلہ امیت شاہ کے الفاظ میں بنگلہ دیشی ’درانداز‘ یا ’دیمک‘ نہیں ہیں۔
خوفناک این آر سی (نیشنل رجسٹر آف سٹیزن شپ) کی تیاری کے تکلیف دہ عمل کے بعد اس کی والدہ اور اس کے دو بھائیوں کو ہندوستانی تسلیم کرلیا گیا ہے۔ اس کے باوجود بدنام زمانہ فارن ٹریبونل کے ذریعے ۲۰۱۸ میں اسے "غیر قانونی” قرار دے دیا گیا۔ بکسا ضلع کے دور دراز گاؤں سے گوہاٹی کے ٹربیونل تک اس کے بار بار چکروں کے باوجود وہ ان بے رحم عہدیداروں کو قائل کرنے میں ناکام رہی۔
زبیدہ بیگم یومیہ اجرت پر مزدوری کرتی ہے۔ اس کا شوہر مریض ہے اور بستر پر پڑا ہے اور بیٹی پانچویں جماعت کی طالبہ ہے۔ زبیدہ بیگم نے گوہاٹی ہائی کورٹ میں اس مقدمے کی پیروی کے لیے اپنا تمام اثاثہ خرچ کر دیا اور اب ہائی کورٹ نے بھی ٹریبونل کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے کوئی”قطعی ثبوت” موجود نہیں ہیں جن سے یہ ثابت ہوسکے کہ وہ ہندوستانی شہری ہیں!
این ڈی ٹی وی، جس نے پہلی بار 50 سالہ زبیدہ بیگم کی دل دہلانے والی کہانی کی خبر دی، اس کے مطابق زبیدہ نے ٹریبونل کے سامنے 15 دستاویزات پیش کیں جن میں 1966، 1970 اور 1971 کی فہرست رائے دہندگان میں اپنے والد کے نام کا ریکارڈ بھی شامل ہے۔ لیکن عہدیداروں نے ان سب دستاویزات کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا کہ اس نے والد کے ساتھ اپنے تعلق کا کوئی "اطمینان بخش ثبوت” پیش نہیں کیا۔
اسے ہائی کورٹ کے قابل احترام ججوں سے انصاف کی توقع تھی۔ لیکن عدالت نے نہ جانے اپنی کونسی دانش مندی سے اس کی اپیل خارج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان تمام دستاویزات کو مسترد کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ وہ ‘‘شہریت کا حتمی ثبوت’’ نہیں ہیں جب کہ اس نے اراضی کے محصول کی رسیدیں، بینک کے گوشوارے اور پین کارڈ وغیرہ پیش کیے تھے۔
اب اس کی آخری امید ہندوستان کی سپریم کورٹ ہو سکتی ہے۔ لیکن زبیدہ اپنا سارا اثاثہ خرچ کرچکی ہے اور اب اس کے پاس کچھ بھی نہیں بچا ہے۔ اس نے بہتے ہوئے آنسووں کے ساتھ نامہ نگار رتنادیپ چوہدری کو بتایاکہ ’’اب اس قانونی جنگ کے لیے میرے پاس مزید وسائل نہیں ہیں۔‘‘
جو بھی ہو اب سپریم کورٹ سے بھی کسی اصلاح کی امید بہت کم ہے، کیوں کہ اسی عدالت عظمیٰ نے، جسٹس رنجن گوگوئی (جو اب ریٹائر ہوچکے ہیں) کی قیادت میں آسام کو حکم دیا تھا کہ وہ این آر سی کے اس تباہ کن عمل کو اولین ترجیح کے ساتھ انجام دے جس کے نتیجے میں بیس لاکھ افراد غیرقانونی ہوگئے اور ان کا مستقبل غیر یقینی کے اندھیروں میں ڈوب گیا۔ ہزاروں لوگوں کو آسام اور دیگر مقامات پر واقع حراستی مراکز میں بدترین حالات میں ڈالا جا رہا ہے جن کو دیکھ کر جرمن یہودیوں کے حراستی کیمپوں کی یاد آجاتی ہے۔
دنیا بھر کی جمہوریتوں میں جہاں کہیں بھی ریاست یا اقتدار کے نشے میں چور سیاست دانوں کے ذریعے لوگوں کے حقوق اور آزادیوں کو خطرہ لاحق ہوتا ہے تو وہاں کی عدالتیں شہریوں کی نجات کے لیے سامنے آتی ہیں۔ لیکن بدقسمی سے ہندوستان کی عدالتیں غریبوں اور پسماندہ اقلیتوں کے حقوق پر ہونے والےغیر معمولی حملوں ہی کو زیادہ تر قانونی جواز فراہم کرنے کا کام کر رہی ہیں۔
زبیدہ بیگم کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے وہ ایک عظیم اور کافکائی استبدادی نظام کی شگافوں سے باہر نکلنے والا کوئی ایک آدھ واقعہ یا کسی ایک فرد کا استثنائی معاملہ نہیں ہے۔ اگر بی جے پی اور اس کا جنونی پریوار ملک بھر میں شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی و این پی آر (نیشنل پاپولیشن رجسٹر) جیسے خطرناک قوانین کو لاگو کرتے ہیں تو یہ صورت حال ہم میں سے کسی کے ساتھ بھی پیش آسکتی ہے۔
اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ اس پورے شیطانی چکر کا شکار صرف ہندوستان کے مسلمان ہوں گے جنہیں اس کا اصل ہدف بتایا جا رہا ہے تو اسے اپنی رائے پر دوبارہ غور کرلینا چاہیے۔ ملک میں سب کو اس آزمائش سے گزرنا پڑے گا حالانکہ اس سے ملک کے غریب ترین افراد ہی سب سے زیادہ پریشانی اور مشکلات کاسامنا کریں گے۔
ملک بھر کے بینکوں نے اپنے گاہکوں سے این آر سی کا مرحلہ اول سمجھے جانے والے این پی آر کی تعمیل کا مطالبہ کیا ہے۔ میرے آبائی شہر حیدرآباد میں 127 افراد کو اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے نوٹس جاری کیے جانے کے بعد خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ ان کا کہنا کہ ان کا ‘آدھار’ (شناختی) کارڈ ان کی ہندوستانی شہریت کا ثبوت نہیں ہے، گرچہ بعد میں یہ نوٹس واپس لے لی گئی لیکن یہ کب تک؟
آسام میں این آر سی کا مطالبہ اسی لیے کیا جاتا رہا ہے کہ وہاں سے مسلمانوں کو نکال باہر کیا جائے۔ بی جے پی طویل عرصہ سے اس کا مطالبہ کررہی تھی اور اس کا زرخرید میڈیا شمال مشرق پر حملہ آور بنگلہ دیشیوں کے عفریت سے ڈراتے ہوئے پورے جوش و خروش سے اس کی حمایت کرتا رہا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ خزانے پر ہزاروں کروڑ روپے کے بوجھ کے ساتھ ہونے والے اس عمل کے بعد ہندتوا بریگیڈ کو اپنی اس وحشت کا پتہ چلا کہ ‘‘غیرقانونی’’ کی حیثیت سے جن لوگوں کی شناخت ہوئی ہے ان کی اکثریت تو ہندوؤں پر مشتمل ہے جو کہ ان کا اصل ووٹ بینک ہے! یہ ہے غیر ارادی طور پر سامنے آنے والے نتائج !
اور اب بی جے پی آسام میں این آر سی کے اس پورے عمل ہی کو کالعدم قراردینا چاہتی ہے تاکہ اپنے ووٹ بینک، بنگالی ہندوؤں کو بچایا جاسکے۔ این آر سی نے آسام میں جس طرح کی تباہی اور بربادی پھیلائی ہے ان سب کو دیکھنے کے باوجود حیرت اس بات پر ہے کہ حکم راں جماعت باقی ملک پر بھی اسی تباہی کو لادنا چاہتی ہے!
سی اے اے اور ملک کے سیکولر کردار کو تبدیل کرنے کی کوششوں کے خلاف پچھلے دو ماہ سے ملک بھر میں جاری شدید مظاہروں کے باوجود ہمارے وزیر اعظم کا اصرار ہے کہ اس معاملے میں واپس پلٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔
پچھلے دنوں ملک کی راجدھانی میں پارٹی کو جو ذلت آمیز شکست ہوئی ہے اس کے باوجود ان کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ واقعی رائے عامہ کی توہین اور غیر ضروری و غیر متعلق مسائل سے موجودہ حکومت کی غیر معمولی دل چسپی انتہائی تعجب خیز ہے۔
ایک ایسے وقت میں جبکہ ہندوستانی معیشت کوما میں چلی گئی ہے، ملازمتیں غائب ہو رہی ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں کسان خودکشیاں کر رہے ہیں، موجودہ حکومت اپنے سائے کے ساتھ ایک نہ ختم ہونے والی لڑائی میں مصروف ہے۔ ایک طرف ہم سرمایے کی قلت کے سبب ایئر انڈیا اور ایل آئی سی آف انڈیا جیسے ملک کے بڑے بڑے سرکاری اداروں کو فروخت کرنے کے درپے ہیں تو دوسری طرف این آر سی اور این پی آر جیسے فضول کاموں پر ہزاروں کروڑ روپے خرچ کرنے کے لیے تیار ہیں جو کہ بی جے پی کے فسطائی خوابوں کی تکمیل کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔ بی جے پی کے ان فسطائی خوابوں کو مسلمان کی دیرینہ نفرت ہی سے جِلا ملتی ہے۔
اعجاز ذکا سید ایک صحافی اور سابق ایڈیٹر ہیں۔
ای میل: [email protected]