آسام سول سوسائٹی نے ریاستی حکومت کے ذریعے سرکاری مدرسوں اور سنسکرت اسکولوں کو بند کرنے کے فیصلے کی مخالفت کی

گوہاٹی، فروری 14— آسام میں بی جے پی کی زیرقیادت حکومت نے سرکاری سطح پر چلنے والے مدرسوں اور سنسکرت ٹولس (اسکولوں) کو بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اقدام اس لیے اہم ہے کیونکہ ریاست میں ایک سال کے اندر اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ سیاسی اور سول رہنماؤں دونوں نے اس اعلان کی مذمت کی ہے۔

بدھ کے روز پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آسام کے وزیر تعلیم ہیمنتا بسوا سرمہ نے کہا کہ ریاست میں چلنے والے تمام سرکاری مدرسے اور سنسکرت اسکول بند ہوجائیں گے اور انہیں 4-5 ماہ کے اندر باقاعدہ ہائی اور ہائر سیکنڈری اسکولوں میں تبدیل کردیا جائے گا۔

اس اقدام کا جواز پیش کرتے ہوئے انھوں نے کہا ’’مذہب، مذہبی صحیفے، عربی اور دیگر زبانیں پڑھانا حکومت کا کام نہیں ہے۔‘‘ انھوں نے یہ واضح کرتے ہوئے کہ صرف سرکاری زیر انتظام مدارس اور ٹولوں کو بند کردیا جائے گا، کہا ’’اگر کوئی اپنے پیسوں کے ذریعہ مذہب کی تعلیم دینا چاہتا ہے تو ہمیں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر ریاستی فنڈنگ قرآن کی تعلیم کے لیے استعمال کی جاتی ہے تو ہمیں گیتا کو بھی پڑھانا ہوگا اور بائبل کو بھی۔‘‘ وزیر نے میڈیا کو بتایا کہ اس لیے اب ریاست میں چل رہے سرکاری مدرسوں، اعلی مدرسوں اور سنسکرت ٹولس (اسکولوں) کو جدید اسکولوں کی طرح جدید بنایا جائے گا۔

ہیمنتا بسوا نے یہ بھی واضح کیا کہ مدرسوں اور سنسکرت ٹولس میں کام کرنے والے اساتذہ اپنی ملازمت سے محروم نہیں ہوں گے۔ دینی مضامین کے اساتذہ کو گھر بیٹھے ریٹائرمنٹ تک اپنی تنخواہیں ملیں گی اور دوسرے مضامین کے اساتذہ تبدیل شدہ جنرل اسکولوں میں اپنے مضامین پڑھاتے رہیں گے۔

تاہم غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) یا افراد کے ذریعہ چلائے جانے والے مدرسے اور سنسکرت اسکول حکومت کے فیصلے سے متاثر نہیں ہوں گے۔

وزیر نے یہ بھی اعلان کیا کہ حکومت ریاستی مدرسہ ایجوکیشن بورڈ اور آسام سنسکرت بورڈ کو ختم کر رہی ہے اور ان کے تعلیمی معاملات کو ثانوی تعلیم بورڈ (ایس ای بی اے) سے جوڑ رہی ہے۔ انھوں نے منگل کو ٹویٹ کیا ’’مدرسہ ایجوکیشن کو مرکزی دھارے میں لانے کے لیے ہم مدرسہ ایجوکیشن ڈائریکٹوریٹ کو ختم کر کے سیکنڈری ایجوکیشن ڈائریکٹوریٹ کا حصہ بنارہے ہیں۔‘‘

انھوں نے کہا یہ تمام اقدامات ریاست کے مدرسوں اور سنسکرت ٹولوں کو قومی دھارے میں رکھنے اور جدید بنانے کے لیے اٹھائے گئے ہیں۔ تاہم انھوں نے واضح کیا کہ مدرسوں اور سنسکرت اسکولوں کو بند کرنا مذہبی آزادی میں سرکاری مداخلت کے مترادف نہیں ہے۔

اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ، آسام (ایس ایم ای بی اے) کے سرکاری ذرائع کے مطابق ریاستی حکومت کے ماتحت 1200 تسلیم شدہ مدرسے ہیں اور ان میں چار عربی کالج، 14 ٹائٹل مدرسے، 133 سینئر مدرسے اور 250 پری سینئر مدرسے ہیں۔ مزید یہ کہ ریاست میں 2000 سے زیادہ نجی مدرسے ہیں۔

دوسری طرف آسام سنسکرت بورڈ کے تحت تسلیم شدہ سنسکرت اسکولوں کی تعداد 1000 ہے۔

اے آئی یو ڈی ایف (آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ) نے سرکاری امداد سے چلنے والے مدرسوں کو بند کرنے کے حکومتی اقدام کی مخالفت کی ہے۔

اے آئی یو ڈی ایف کے ایم ایل اے نے کہا ’’جمعہ کے روز مدرسوں کے لیے سرکاری تعطیل کے خاتمے کے بعد، جو آزادی سے پہلے سے ہی عملی طور پر چل رہا تھا، آسام حکومت اب سب سے بڑی اقلیتی برادری کو ان کی مذہبی اور روایتی تعلیم سے دور رکھنے والی ہے۔ یہ ریاست کی اقلیتی برادری کے مذہبی اور ثقافتی رواج کو سیکھنے کے حقوق پر سرکاری تجاوزات کے مترادف ہے اور اس سے ان کے جذبات مجروح ہورہے ہیں۔‘‘

گوہاٹی ہائی کورٹ کے سینئر ایڈوکیٹ نقیب الزمان نے سرکاری طور پر چلائے جانے والے مدرسوں کو بند کرنے کے فیصلے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا ’’آسام حکومت اگلے چار ماہ کے اندر مدرسوں اور سنسکرت ٹولوں کو بند کرنے کا فیصلہ کیسے لے سکتی ہے جب کہ یہ ادارے ریاست میں برطانوی دور سے پہلے سے ہی چل رہے ہیں؟ اگر ان کے نصاب تعلیم میں کوتاہیاں ہیں تو حکومت مدرسوں اور سنسکرت اسکولوں کے روایتی مضامین کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر، سائنس جیسے جدید مضامین کا تعارف کروا کر ان کو اپ گریڈ کرسکتی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو حکومت ان اداروں کو جدید دھارے میں رکھنے اور ان کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے لیے مزید اقدامات کا آغاز کر سکتی ہے۔‘‘

ایڈووکیٹ زمان نے یہ بھی کہا کہ حکومت کو نجی مدرسوں اور سنسکرت اسکولوں کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے اور وہاں پر باقاعدہ فریم ورک نافذ کرنا چاہیے۔