آزادیٔ صحافت اور حق گوئی کی قیمت

قومی سلامتی کی آڑ میں غداری قانون کی من مانی تشریح اور غلط استعمال

ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی

پیگاسس تنازعہ اور اسرائیل سے بھارت کی بڑھتی قربت۔مودی اپنے ملک سے زیادہ بیرون ملک میں مقبول کیسے؟
وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندوستانی سیاسی رہنماوں سے زیادہ دوستی غیر ملکی سربراہوں سے ہے۔ کورونا کی وبا کے دوران کسی طرح انہوں نے دل پر پتھر رکھ کر بین الاقوامی دورے منسوخ کردیے تھے مگر اب وہ بند ٹوٹ چکا ہے ۔ وزیر اعظم نے امریکا کے بعد برطانیہ کا بھی دورہ کر لیا ہے۔ اس دوران دنیا بھر کے کئی رہنماوں سے ان کی ملاقات ہوئی مگر صرف ایک نے انہیں دیوالی کی مبارکباد دی اور وہ ہیں اسرائیل کے وزیراعظم نفتالی بینیٹ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پڑوسی ملک نیپال کے وزیر اعظم کو تو مبارکباد دینے کا خیال نہیں آیا لیکن اسرائیلی وزیر اعظم کو آ گیا۔ انہوں نے لکھا ’ہیپی دیوالی ٹو مائی فرینڈ نریندر مودی، نیز ہندوستان اور ان تمام لوگوں کوجو دنیا بھر میں دیوالی منا رہے ہیں۔‘ اس پر وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی جواباً دیوالی کی مبارکباد کے لیے شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا ’’میرے عزیز دوست نفتالی بینیٹ، آپ کی جانب سے دی گئی مبارکباد کا شکریہ۔ آپ کو بھی پرمسرت دیوالی کی مبارکباد پیش کرتا ہوں‘‘۔ اس پیغام رسانی سے دنیا کی سب سے وسیع جمہوریت اور اسمارٹ ترین جمہوریت کے درمیان گہرے رشتوں کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ سے وزیر اعظم نریندر مودی کی آخری ملاقات دیوالی سے دو دن قبل گلاسگو میں موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کی جنرل کانفرنس ’سی اوپی-26‘ کے موقع پر ہوئی تھی ۔ اس ملاقات میں نفتالی نے مودی کو اپنی پارٹی میں شامل ہونے کی دعوت دیتے ہوئے ان کی تعریف میں کہا کہ آپ اسرائیل میں بہت مقبول ہیں۔آپ میری پارٹی میں شامل ہوجائیں۔اس پر مودی نے خوش ہوکر ان کا شکریہ ادا کیاکیونکہ ان الفاظ نے مودی جی کا دل باغ باغ کردیا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ محض تین ماہ قبل انگریزی نیوز چینل انڈیا ٹوڈے کے موڈ آف دی نیشن پول میں یہ چونکانے والا انکشاف ہوا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی مقبولیت ایک سال میں 66 فیصد سے کم ہو کر 24 فیصد ہوگئی ہے۔ جس وزیر اعظم کی خود اپنے ملک میں مقبولیت اس قدر کم ہوگئی ہو اس کا کسی غیر ملک میں اتنا مقبول ہوجانا کہ وہاں کا وزیر اعظم اسے اپنی پارٹی میں شمولیت کی دعوت دے حیرت انگیز ہے۔ اس سے اسرائیل کے عوام اور حکمرانوں کی سیاسی نادانی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم کے اس عبقری بیان سے ہندوستانی عوام اور بی جے پی کے اندر خوشی کی لہر دوڑ گئی کیونکہ دونوں کے لیے وزیر اعظم بے مصرف ہوگئے ہیں ۔ مغربی بنگال کی شکست کے بعد یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ وہ بی جے پی کو انتخاب میں کامیابی نہیں دلاسکتے ۔ اسی لیے آر ایس ایس نے انہیں ریاستی انتخابات سے دور رہنے کا مشورہ دیا تھا۔ جہاں تک ملک کے عام لوگوں کا سوال ہے ان کے نزدیک مودی جی کی کوئی افادیت نہ پہلے تھی اور نہ اب ہے۔ اپنی تقاریر کے ذریعہ تفریح فراہم کرنے کا کام مودی جی اسرائیل میں بیٹھ کر بھی کرسکتے ہیں ۔ اسرائیل کی اس آفر کی بابت اگرعوامی جائزہ لیا جائے تو ملک کی اکثریت یہ کہے گی کہ دیوالی کا سیزن ہے ۔ ہر جگہ سیل لگی ہوئی ہے اور ایک قمیص کے ساتھ ایک قمیص مفت میں دی جاتی ہے اس لیے ہم اپنی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مودی جی کے ساتھ اسپیشل آفر کے طور پر دو فری افراد دیں گے تاکہ شاہ جی اور یوگی جی سے بھی نجات مل جائے اور پردیس میں ان کا دل بھی لگ جائے گا۔ سربراہی اجلاس میں اپنے ہم منصب کے ساتھ پہلی ہی ملاقات کے دوران اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے یہ احمقانہ بیان دے کر یہ ثابت کردیا کہ وہ مودی جی سے کم نہیں ہیں بلکہ ان دونوں پر غالب کا یہ شعر (معمولی ترمیم کے ساتھ) صادق آتا ہے؎
مودی بھارت میں اکیلا ہے اسے آنے دو
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
اس ملاقات سے قبل وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے اسرائیل کا پہلا دورہ کیا۔ اس موقع پر اسرائیلی وزیر اعظم بینیٹ نے اپنے ہندوستانی ہم منصب وزیر اعظم نریندر مودی اور جے شنکر کا اسرائیل اور ہندوستان کے درمیان شراکت داری کے لیے ذاتی وابستگی کے لیے شکریہ ادا کیا ۔بینیٹ نے جے شنکر کو مشترکہ اجلاس کے آغاز پر بتایا تھا کہ ’’میں اسرائیلیوں کی طرف سے بات کرتا ہوں۔ ہم بھارت سے محبت کرتے ہیں۔ ہم بھارت کو ایک بہت بڑے دوست کے طور پر دیکھتے ہیں اور ہم تمام شعبوں اور تمام جہتوں میں اپنے تعلقات کو وسعت دینے کے منتظر ہیں۔ میں ایک بہت ہی نتیجہ خیز ملاقات کا منتظر ہوں۔‘‘ حالیہ ملاقات میں ہندوستان اور اسرائیل کے سربراہان مملکت نے حالیہ برسوں میں دو طرفہ تعلقات میں غیرمعمولی ترقی پر اطمینان کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم مودی نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ہندوستان زراعت، پانی، دفاعی اور سائبر سیکورٹی جیسے شعبوں میں اسرائیل کے ساتھ اپنے مضبوط تعاون کو بہت اہمیت دیتا ہے۔
وزیر اعظم مودی کے بیان میں اسرائیل کے حوالے سے دفاعی اور سائبر سیکورٹی جیسے شعبوں کا ذکر آئے تو لا محالہ پیگاسس کا خیال آجاتا ہے اس لیے اسرائیلی کمپنی این ایس او دفاعی تحفظ کی آڑ میں جاسوسی کا سافٹ ویئر فروخت کرتی ہے۔ یہ اس قدر بدنامِ زمانہ شئے ہے کہ اب بی جے پی کا نیا نام ’بھارتیہ جاسوس پارٹی‘ پڑ گیا ہے۔ یہ لقب اسرائیل سے گہری دوستی کی بدولت ہے۔ پیگاسس کی خطرناکی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے خلاف سات ممالک کے سترہ صحافیوں نے، ان کے حقوق کی خاطر مصروفِ کار مؤقر تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) کے ساتھ مل کر پیرس اور اقوام متحدہ میں باضابطہ شکایت درج کرانے کا اعلان کیا ہے۔ پیگاسس کے ذریعہ جاسوسی کا شکار ہونے والے ان صحافیوں نے پیرس میں پراسیکیوٹرز کے سامنے این ایس او گروپ اور اسے استعمال کرنے والوں کے خلاف مقدمات دائر کیے ہیں۔آر ایس ایف نے اقوام متحدہ میں بھی اپنا مقدمہ درج کرایاہے ۔ ان میں سب سے بڑی تعداد یعنی پانچ کا تعلق میکسیکو اور ہندوستان سے ہے۔ اس کے علاوہ دو آذربائیجان اور ہنگری سے نیز ایک اسپین، مراکش اور ٹوگو سے ہے۔یہ ان دو سو سے زائد صحافیوں میں شامل ہیں جن کی جاسوسی کی گئی اور ان میں چالیس سے زیادہ ہندوستانی ہیں۔
پیگاسس کے ذریعہ صحافیوں کی جاسوسی پچھلے کئی سالوں سےجاری آزادی صحافت پر حملوں کا ایک حصہ ہے۔ آرایس ایف کے ’ ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس 2020‘ میں ہندوستان پچھلے سال کے مقابلے مزیددو پائیدان نیچے پہنچ گیا اور اس سال یعنی 2021میں بھی اسی مقام پر بنا ہواہے۔سال 2019میں ہندوستان’ آزادیٔ صحافت ‘ کے معاملے میں 140ویں نمبرپر تھاجبکہ 2016 میں اس کا درجہ133تھا۔ سن 2019میں کشمیر کی دفعہ 370ختم کرنے کے بعد وہاں طویل عرصے تک آزادی صحافت کا گلا گھونٹا گیا جو ہنوز جاری ہے۔ ملک بھر میں شہریت ترمیم قانون کے خلاف جو تحریک چلی اس میں بھی پولیس اور دوسرے ریاستی اداروں نے صحافیوں کے خلاف پرتشدد کارروائی جاری رکھی حتیٰ کہ ان پر حملہ کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ تشویشناک بات یہ ہے کورونا کی وجہ سے تحریک رک گئی مگر صحافیوں کو سکون کا سانس لینے کا موقع نہیں ملا ۔ اس معاملے میں اسرائیل کی حالت بھی بہت خراب ہے گوکہ وہ فی الحال 88ویں مقام پر ہے۔ مئی کے اندر غزہ پر حملوں کے دوران اس نے نہ صرف بے شمار صحافیوں کو نشانہ بنایا بلکہ عالمی خبررساں ایجنسیوں مثلاً اے پی اور الجزیرہ کے دفاتر کی حامل عمارت کو بھی بمباری کرکے نیست و نابود کردیا تاکہ اسرائیل کی شکست کو چھپایا جاسکے۔ اس کے خلاف بھی عالمی سطح پر احتجاج ہوا لیکن کسی کے کان پر جوں نہیں رینگی۔ غالباً یہی قدرِ مشترک ہند اسرائیل دوستی کی بنیاد ہے۔
نیویارک کی غیر سرکاری تنظیم پولیس پراجیکٹ نے ہندوستان کے اندر صحافیوں پر ہونے والے حملوں پرجو تحقیقاتی رپورٹ شائع کی ہے اس میں مئی 2019 ء سے لے کر امسال اگست تک صحافیوں پر سرکاری ظلم و ستم کی تفصیل درج ہے۔ یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ صحافیوں کو جھوٹے مقدمات میں گرفتار کرنے سے لے کر قتل تک کے معاملات میں تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ اس جائزے کے مطابق جموں و کشمیر میں 51، متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے دوران 26، دہلی میں فروری 2020 ء میں ہونے والے فسادات کے دوران 19 اور کووڈ کے کیسز کی کوریج کے دوران صحافیوں پر تشدد کے 46 واقعات رونما ہوئے ۔ متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف کسان تحریک کے دوران صحافیوں کے خلاف تشدد کے اب تک دس واقعات پیش آچکے ہیں جبکہ 104واقعات ملک بھر میں دیگر موضوعات کی کوریج کرتے ہوئے پیش آئے۔اس طرح دو سالوں میں صحافیوں پر جملہ 256 حملے ہوئے۔ اس ابتلاء و آزمائش نے صحافت جیسے مقدس فریضے کو ایک خطرناک پیشے میں بدل کر رکھ دیا ہے۔
اس عرصہ میں حکومت کی بدنامی کا سب سے بڑا سبب کیرالا کے معروف صحافی صدیق کپّن کی گرفتاری بنا۔ ان کو پچھلے سال اکتوبر میں یو پی کے ضلع ہاتھرس میں ہونے والی اجتماعی عصمت دری کے بعد قتل ہونے والی ایک دلت خاتون کی رپورٹنگ کے لیے جاتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا۔ صدیق کپّن پر ریاستی حکومت نے مختلف فرقوں کے درمیان منافرت پیدا کرنے، مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے، سازش اور ملک سے غداری جیسے سنگین الزمات لگائے نیز ان کی 90 سالہ والدہ کے انتقال پر بھی پیرول نہیں دیا گیا۔ کسان تحریک کی رپورٹنگ کرنے والے مندیپ پونیا کو رواں برس 30 جنوری کو سندھو بارڈر سے گرفتار کر کے ان پر سرکاری کام میں رخنہ ڈالنے، سرکاری اہلکاروں پر حملہ کرنے،سرکاری اہلکار کو چوٹ پہنچانے جیسے تعزیرات کے تحت مقدمات درج کیے گئے۔ صحافتی برادری اور سول سوسائٹی کی مخالفت کے باوجود انہیں ضمانت نہیں ملی۔
لکھیم پور کھیری کے اندر کسانوں کےمظاہرہ میں جو آٹھ لوگ مارے گئے ان میں ایک 35سالہ صحافی رمن کشیپ بھی تھا۔ ان کے اہل خانہ نے اس قتل کے خلاف شکایت میں الزام لگایا کہ رمن کو ‘وی آئی پی’ قافلے کی گاڑیوں سے کسانوں کے کچلے جانے کا ویڈیو شوٹ کرنے کے سبب گولیوں سے بھون دیا گیا ۔رمن کے والد رام دلارے کشیپ نے عینی شاہدین کے حوالے سے بتایا کہ گاڑی کی کوریج ہونےپرصحافی پر فائرنگ کی گئی۔ اس کے فوٹیج میں گولیوں کی آواز بھی موجود ہے۔ اس قتل و غارتگری میں مقامی رکن پارلیمان اور وزیر مملکت برائے داخلہ اجئے مشرا ’ٹینی‘ کا بیٹا آشیش مشرا ملوث ہے۔ یو پی کی پولیس نے کسانوں کی شکایت پر آشیش مشرا اور دوسرے پندرہ تا بیس لوگوں کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 302 (قتل)، 120-بی (مجرمانہ سازش)، 147 (دنگا کرانا)، 279 (جلدبازی میں گاڑی چلانا) سمیت آٹھ دفعات میں کیس درج کیا ہے۔ اجئے مشرا نے رمن کشیپ کو بی جے پی کارکنوں میں شامل کرنے کی مذموم کوشش کی مگر اس کے اہل خانہ نے اس بیان کو سرے سے خارج کر دیا۔ رام دلارے کے مطابق رمن کشیپ وہاں مظاہرہ میں شامل ہونے یا کسی کی حمایت کرنے نہیں گیا تھا اسے وہاں ایک نامہ نگار کے طور پر اپنی ذمہ داری ادا کرتے وقت مارا گیا ۔
آنجہانی رمن کے بھائی پون نے وزیرکے بیٹے آشیش کوصحافی کی موت کے لیے ذمہ دارٹھیراتے ہوئے بتایا کہ رمن کے جسم اور سر پر چوٹ کے کئی نشان تھے۔ پون کا یہ بھی الزام ہے کہ ان کے بھائی کی موت لاپرواہی کی وجہ سے ہوئی ہےکیونکہ اسے ضروری علاج نہیں مل سکا۔ پولیس نے متاثرین کووقت پر طبی امداددےکرانسان کی حیثیت سے اپنافرض نہیں نبھایا۔ رمن کے والد رام دلارے نے بتایا کہ ان کا پورا خاندان زندگی بھر بی جے پی کو ووٹ دیتا رہا ہے۔ ان کے مطابق وہ پارٹی کے فعال کارکن تو نہیں رہے مگر کسان ہونے کے باوجود بی جے پی کے خاموش حامی رہے ہیں ۔ کسان خاندان سے تعلق رکھنے والا رمن نہ صرف صحافی تھا بلکہ ایک مقامی اسکول میں پڑھاتا بھی تھا۔ رمن کشیپ کے پسماندگان میں بیوہ ارادھنا کے علاوہ تین سالہ بیٹا ابھینو اور گیارہ سالہ بیٹی ہیں۔
پون کشیپ تو خیر ایک گمنام صحافی تھے مگر فی الحال توسرکاری غنڈوں کے عتاب سے ملک کے اہم ترین اعزاز پدم شری یافتہ معروف صحافی ونود دووا تک محفوظ نہیں ہیں ۔ ان پر امسال جون میں دہلی کے فسادات پرایک رپورٹ نشر کرنے کا الزام لگا کر بی جے پی کے ایک لیڈر نے ملک سے غداری کا مقدمہ دائر کر دیا تھا۔ ونود دووا پر فرضی خبریں پھیلانے، عوام میں افراتفری پیدا کرنے، اہانت آمیز مواد شائع کرنے اور حکومت کو بدنام کرنے والے بیانات دینے جیسے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ بی جے پی رہنما کو شکایت ہے کہ ونود دووا نے اپنے پروگرام میں وزیر اعظم نریندر مودی پر ووٹ حاصل کرنے کے لیے ”ہلاکتوں اور دہشت گردانہ حملوں‘‘ کا استعمال کرنے کاالزام لگایا تھا۔ اس معاملے میں معمر صحافی کو عدالت عظمیٰ سے رجوع کرنا پڑا جہاں ان کے خلاف دائر مقدمہ منسوخ کر دیا ۔فاضل ججوں نے ایک انتہائی اہم فیصلے میں کہا کہ ہر صحافی کو غداری جیسے الزامات سے تحفظ حاصل ہے۔
سپریم کورٹ کے مطابق، ”ملک سے غداری کے حوالے سے 1962ء کے کیدار ناتھ سنگھ کیس کے فیصلے میں تمام صحافیوں کو تحفظ دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود صدیق کپن جیسے لوگ قیدو بند کی صعوبتیں سہہ رہے ہیں ۔ صحافیوں کی ملک گیر تنظیم ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا کے جنرل سکریٹری سنجے کپور کے مطابق یہ فیصلہ کافی نہیں ہے کیونکہ حکومت قومی سلامتی کی آڑ میں غداری کے قانون کی من مانی تشریح اور غلط استعمال کرتی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ اس قانون کو بھارتی تعزیرات سے حذف کردیا جائے۔ سنجے کپور کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے پچھلے سات برسوں میں صحافیوں کے خلاف غداری اور انسداد دہشت گردی جیسے سخت قوانین کے تحت مقدمات کی تعداد میں تیزی آ گئی ہے۔حکومت پر تنقید کرنے والے صحافیوں کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق قانون (یو اے پی اے)، قومی سلامتی قانون(این ایس اے) اور پبلک سکیورٹی ایکٹ(پی ایس اے) جیسے سخت قوانین کے تحت مقدمات درج کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں کسی قانونی چارہ جوئی کے بغیر مہینوں ضمانت سے محروم رکھا جاسکے ۔
وطن عزیز میں حق گوئی کی سزا صحافیوں کے علاوہ حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والے جہد کاروں کو بھی ملتی ہے۔ اس کی تازہ مثال تریپورہ پولیس کے ذریعہ سپریم کورٹ کے چار وکلاء پر غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ( یوپی اےپی) کے تحت مقدمہ درج کیا جانا ہے ۔ اس بابت ان وکلا کو نوٹس بھیج کر انہیں دس نومبر کو تفتیش کے لیے طلب کیا گیا ہے۔ پی یو سی ایل سے منسلک سپریم کورٹ کے وکیل احتشام ہاشمی، امت سریواستو، انصار اندوری، مکیش کمار کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے تریپورہ کا دورہ کرکے حق و انصاف پر مبنی ایک رپورٹ تیار کی اور اسے شائع کر دیا۔ اس رپورٹ میں چونکہ سرکاری دعووں کی تردید ہوتی ہے اس لیے پولیس ان پر برہم ہے۔ یہ سب ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جبکہ چند دن قبل اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیریش نے دنیا بھر میں صحافیوں کی آزادی کے حق میں کہا تھا ،” کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک آزاد نہیں رہ سکتا جب تک کہ اُس میں صحافیوں کو ارباب اختیار کے غلط اقدامات کی تفتیش کرنے اور سچ بولنے کی اجازت نہ ہو۔” لیکن اس بیان سے مودی جی کو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ فی الحال ان کا نام آر ایس ایف کے ذریعہ جاری کردہ 37 آزادی صحافت کے ’دشمن‘ سربراہان مملکت میں کیا گیا ہے مگر ان کی سرکارکو اس کی کوئی پروا نہیں جو اقتدار کے نشے میں مست جھوم جھوم کر آزادی صحافت کا گلا گھونٹ رہی ہے ۔
***

 

***

 اس ملاقات میں نفتالی نے مودی کو اپنی پارٹی میں شامل ہونے کی دعوت دیتے ہوئے ان کی تعریف میں کہا کہ آپ اسرائیل میں بہت مقبول ہیں۔آپ میری پارٹی میں شامل ہوجائیں۔اس پر مودی نے خوش ہوکر ان کا شکریہ ادا کیاکیونکہ ان الفاظ نے مودی جی کا دل باغ باغ کردیا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ محض تین ماہ قبل انگریزی نیوز چینل انڈیا ٹوڈے کے موڈ آف دی نیشن پول میں یہ چونکانے والا انکشاف ہوا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی مقبولیت ایک سال میں 66 فیصد سے کم ہو کر 24 فیصد ہوگئی ہے۔ جس وزیر اعظم کی خود اپنے ملک میں مقبولیت اس قدر کم ہوگئی ہو اس کا کسی غیر ملک میں اتنا مقبول ہوجانا کہ وہاں کا وزیر اعظم اسے اپنی پارٹی میں شمولیت کی دعوت دے حیرت انگیز ہے۔ اس سے اسرائیل کے عوام اور حکمرانوں کی سیاسی نادانی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  14 نومبر تا 20 نومبر 2021