آزادی، وطن عزیز اور ہم۔۔۔ ایک جائزہ

حقیقی آزادی کے لیےنفرت کی طاقتوں کو روکنا ضروری

اسا نغنی مشتاق رفیقی،وانم باڑی

   انسانی سماج میں آزادی کا تصور فطری ہے۔ لیکن آزادی کی تعریف اور تفہیم میں وقتاً فوقتاً حالات اور مسائل کی مناسبت سے تبدیلی آتی رہی ہے۔ ایک غلام معاشرے میں آزادی کا تصور اور ہوتا ہے اور ایک آزاد معاشرے میں آزادی کا تصور اور۔ اسی طرح ایک ترقی یافتہ سماج میں آزادی کی جو تعبیر ہوتی ہے وہ ایک جاہل اور نیم خواندہ معاشرے میں نہیں ہوتی ، ان کے یہاں آزادی کا مفہوم اور ہوتا ہے۔ سیاست میں آزادی ایک بہت ہی خوشنما لفظ ہے ۔اگر غور سے دیکھا جائے تو موجودہ دور میں سیاست کی بنیاد ہی اسی لفظ پر قائم ہے ۔ جتنے بھی سیاسی نظام آج کل دنیا میں جاری و ساری ہیں ان کا نعرہ اول آزادی ہے۔
  لفظ آزادی کا زیادہ شور اور استعمال انیسویں صدی کے اواخر میں پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعدتیسری دنیا کے ان ممالک میں جن پر یورپی اقوام برسر اقتدار تھے ، اپنے حاکموں کے خلاف احتجاج کے دوران شروع ہوا اور پھر اس شور میں اتنی شدت پیدا ہوئی کہ ان جابر غیر ملکی حکمرانوں کو اقتدار مقامی افراد کو سونپ کر اپنے اپنے وطن واپس لوٹنا پڑا۔ وطن عزیز میں بھی انگریز وں کو جوایک صدی کے قریب یہاں بر سر اقتدار رہے ، تین دہائیوں پر محیط شدید عوامی احتجاج کے بعد ، پندرہ اگست1947کو ، ملک کو عوام کے نمائندوں کے حوالے کرکے واپس جانا پڑا۔اس اعتبار سے وطن عزیز پر غیر ملکی قبضہ کا خاتمہ ہوئے پچھتر سال ہورہے ہیں اور ہم ان پچھتر سالوں میں ایک آزاد قوم کی حیثیت سے دنیا میں اپنی ایک پہچان بنا چکے ہیں، لیکن کیا واقعی ہم آزاد ہیں؟
  جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں پندرہ اگست 1947 کے دن بھارت آزاد ہوا اور کچھ عرصے بعد اس کو ایک سیکولر جمہوریت بنانے کا اعلان کیا گیا اور اسی نہج پر ایک آئین ترتیب دے کر اس کو ملک میں نافذ کردیا گیا ۔ ملک کے ہر شہری کو آزاد تسلیم کرتے ہوئے اسے ہر قسم کی آزادی دی گئی جو آئین اور قانون کے دائرے میں آتی ہو۔ جیسے تحریر اور تقریر کی آزادی، سوچ اور فکر کی آزادی، تعلیم کی آزادی، مذہب ، زبان اور لباس کی آزادی، طرز معاشرت کی آزادی، حکومت کے خلاف احتجاج کی آزادی ، حق رائے دہی کی آزادی اور ساتھ ہی حکومت کو اس بات کا پابند بھی کیا گیا کہ وہ فرد کی اس آزادی میں بے جا مداخلت نہ کرے۔ اس پر ایسی پابندی نہ لگائے جو آئین اور قانون سے متصادم ہو۔ عدلیہ اور انتظامیہ کو بھی آزاد ادارے تسلیم کرتے ہوئے انہیں اپنے اپنے دائرہ اختیار میں کام کرنے کی مکمل آزادی دی گئی اور ایک عرصے تک ان سب پر عمل بھی ہوتا رہا۔ دنیا بھر میں وطن عزیز کی سیکولر جمہوریت مثالی سمجھی جانے لگی۔ پھر دھیرے دھیرے حالات بدلنے لگے۔ کرسی کا نشہ، اقتدار کی ہوس اور مفاد پرستی عام ہوتی چلی گئی اور آج یہ عالم ہے کہ آزادی ایک خواب بن کر رہ گئی ہے۔
  آزاد بھارت کی گزشتہ پچھتر سالہ تاریخ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اول روز سے ہی یہاں کے عوام کو پھر ایک بار غلام بنانے کی سازش شروع ہوگئی تھی۔ لیکن اس بار اس سازش میں غیر ملکی نہیں بلکہ سب کے سب اپنے ہی شریک تھے۔ مذہب اور ذات پات کے نام پر اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے ایک بساط ترتیب دی گئی، بد قسمتی سے تقسیم نے اس جلتی پر تیل کا کام کیا اور سماج میں انارکی پھیلتی چلی گئی۔ اقتدار پر قابض طبقے نے اس انارکی کا خوب فائدہ اٹھایا اور اپنے مہرے آگے بڑھاتے رہے۔ معاشرے میں پیدا ہونے والا شر اور فساد کا ہر سانحہ ان کے مچانوں کو مضبوط کرتا رہا۔ جھوٹ اور فریب کا ہوّا کھڑا کر کے نفرت اور بغض کی ایسی آندھی اُٹھائی گئی کہ سیکولر جمہوریت کی بنیادیں ہل گئیں۔ کیا عدلیہ ، کیا انتظامیہ ، کیا صحافت اور کیا قانون ساز ادارے سب کے سب حالات کی لہروں میں بہنے لگے۔ نتیجے میں آج ہم ایک ایسے موڑ پرپہنچ چکے ہیں جہاں آگے سوائے گہری تاریکی کے کچھ نظر نہیں آرہا ہے ۔جمہوریت کے جس قلعے پر ہم ناز کرتے تھے ایسا لگتا ہے اس کی بنیادوں میں عداوت کا بارود بھر دیا گیا ہے اور وہ کبھی بھی زمین بوس ہوسکتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جمہوریت کے چار ستون ہوتے ہیں جن پر یہ عمارت ٹکی ہوئی ہوتی ہے ، قانون ساز ادارے، عدلیہ ، انتظامیہ اور صحافت ۔ قانون ساز اداروں پر آج کے قابض طاقتوں کی منشا اور ان کی فکر سے شاید ہی وطن عزیز کا کوئی بندہ ناواقف ہو۔ یہ وہ طاقتیں ہیں جن کی گھٹی میں اقلیت دشمنی ہے۔ یہ سماج کو بانٹ کر اقتدار پر اپنی پکڑ مضبوط رکھنا چاہتی ہیں اور اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی ہیں۔ انہیں فرد کی آزادی سے کوئی دلچسپی نہیں۔ یہ سماج پر اپنی مرضی مسلط کرنے پر یقین رکھتی ہیں۔ سرمایہ داروں کے ایک بڑے طبقے نے اپنی ذاتی مفادات کے حصو ل کے لیے ان سے مفاہمت کر کے ان پر اپنے خزانوں کے دروازے کھول رکھے ہیں ۔ جس کے سہارے انہوں نے عدلیہ ،انتظامیہ اور صحافت کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ جمہوریت کے یہ چاروں ستون اپنی بنیادوں سے ہٹ چکے ہیں ۔ فرد کی آزادی اور اس کی حفاظت جو کبھی ان کا نصب العین ہوا کرتا تھا آج حاشیے پر ہے۔
  زیادہ پیچھے جانے کی ضرورت نہیں۔ گزشتہ دو تین سال کے حالات پر بس ایک طائرانہ نظر ڈال لیں سب سمجھ میں آجائے گا کہ کس چالاکی سے جمہوریت کے بنیادی اداروں کے تاروپود بکھیرنے کا عمل جاری ہے۔ اقلیتوں کو منظم سازش کے تحت کس طرح حاشیے پر ڈالا جا رہا ہے اور انہیں خوفزدہ رکھ کر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کامیاب کوشش ہورہی ہے۔ سی اے اے ، این آر سی کے کرونالوجی کے نام پر کس طرح اقلیتی سماج میں ایک غیر یقینی صورتحال پیدا کی جارہی ہے۔ لو جہاد کا ہوّا کھڑا کر کے ، گئو رکھشا کے نام پر ماب لینچنگ کی راہ ہمورا کر کے کس طرح معاشرے میں انارکی پھیلائی جارہی ہے تاکہ جمہور آپس میں ہی الجھے رہیں۔ دلتوں پر بڑھتے ہوئے مظالم کو کس طرح ان دیکھا کیا جارہا ہے تاکہ اپنے ووٹ بینک میں بے روزگاری اور مہنگائی کے خلاف بڑھتی ہوئی جھنجھلاہٹ کا رخ دوسری طرف موڑدیا جائے ۔ دارالخلافہ میں گزشتہ دنوں ایک دلت نابالغ لڑکی کے ساتھ زیادتی اور پھر اس کا قتل ، پھر تھوڑے دنوں بعد پارلیمنٹ سے قریب اقلیتوں کے خلاف ایک فاشسٹ ہجوم کی نفرت انگیزیاں، اس کرونالوجی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
  اس پچھتر سالہ دورِ آزادی میں یاد رکھے جانے کے قابل اہم بات یہ ہے کہ چھ دہائیوں کی کانگریسی حکومت اور ایک دہائی سے زیادہ موجودہ بی جے پی کی حکومت دونوں میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے۔ آج بی جے پی کی دوسرے اور تیسرے درجے کی لیڈرشپ اور اس کے اراکین کی فوج میں وہی چہروں کی اکثریت ہے جو کبھی کانگریس کی طاقت سمجھی جاتی تھی۔ بس ڈرائیونگ سیٹ پر تبدیلی آئی ہے ۔ کانگریس جب ڈرائیونگ سیٹ پر ہوتی تھی تب وہ دھیمی رفتار سے منزل کی طرف بڑھنے پر یقین رکھتی تھی لیکن اب بی جے پی ڈرائیونگ سیٹ پر ہے تو وہ جلد از جلد منزل پانا چاہتی ہے ۔ یاد رہے دونوں کی منزل ایک ہی ہے۔جمہور جو آزادی کا خوشنما تصور لے کر ان پارٹیوں کے ساتھ شامل ہوتے ہیں انہیں سوائے اس تصور اور خوش فہمی کے کچھ ہاتھ آنے والا نہیں ۔
  ان حالات میں وطن عزیز کی دوسری سب سے بڑی اکثریت ہونے کی حیثیت سے ہمارا رول کیا ہونا چاہیے؟ کیا ہماری حیثیت یہاں صرف ایک تماشائی کی طرح ہو کر رہ گئی ہے یا ایسے مہرے کی جس کے ہونے نہ ہونے سے کھیل کی ہار جیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا!! یا کہانی کے ایسے کردار کی جس کے سر پر تفنن طبع کے لیے کوئی بھی چپت لگا کر گزر جاتا ہے۔اگر ایسا ہے اور یقیناٌ ایسا ہی ہے تو پھر اس کا ذمہ دار کون ہے؟
آزادی کے پچھتر سالوں میں ہم نے وطن عزیز کے لیے کیا کیا۔ آئین اور قانون میں بحیثیت شہری اور بحیثیت اقلیت ہمیں جو حقوق دیے گئے ہیں کیا ہم نے اس سے فائدہ اُٹھا کر اپنے حالات کو سدھارنے اور سنوارنے کی کوشش کی؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ چاہے مرکز میں کانگریس کی حکومت رہی ہو یا بی جے پی کی یا کسی بھی پارٹی کی، ریاستی حکومتوں سمیت سبھوں کا سلوک ہمارے ساتھ ہمیشہ سوتیلا ہی رہا ہے۔ لیکن کچھ میدان ایسے بھی ہیں جہاں ہمیں حکومت کی بیساکھیوں کی ضرورت نہیں پڑتی ، ان میدانوں میں ہم نے کون سا تیر مار لیا؟ جیسے تعلیم کا میدان ، یہ ہر فرد کی قابلیت کا میدان ہے ، کیا ہم نے کبھی اس کے ساتھ مکمل منسلک ہونے کی کوشش کی ہے۔ سچر کمیٹی وغیرہ کی بات رہنے دیں، ہماری تعلیمی قابلیت کیا ہے یہ ہم خود اچھی طرح جانتے ہیں۔ کیا کبھی ہم نے اجتماعی طور پر اپنی تعلیمی قابلیت بلند کرنے کے لیے کوئی لائحہ عمل ترتیب دے کر آگے بڑھنے کی کوشش کی ۔ کیا کبھی کو آپریٹیو سوسائٹیز بنا کراپنی اور اپنے سماج کی معاشی حالات سدھارنے کی کوشش کی ۔ تعلیمی میدان ہو یا معاشی میدان ، ان میدانوں میں آگے بڑھنے سے ہمیں کبھی بھی کسی نے نہیں روکا ،نہ ہم پر کوئی قدغن لگائی پھر بھی ہم ان میدانوں میں کہاں ہیں؟ سچ پوچھیں تو وطن عزیز میں ہماری پہچان ہر چھوٹی بڑی بات پر شکوہ شکایتوں کا انبار لے کر سڑک پر اُتر آنے والی ایک ناکارہ گروہ کی سی ہو کر رہ گئی ہے جس کے پاس لینے کے لیے بڑے بڑے دامن ہیں لیکن دینے کے لیے چھوٹا سا ہاتھ بھی نہیں۔ ہمیں پہلے اپنے اس رویے کو بدلنا ہو گا۔ تعلیمی اور معاشی طور پر ہمیں اتنا مضبوط ہونا ہو گا کہ حکومت کے ایوانوں میں ہماری آواز سنی جائے۔
  اس کے ساتھ ہی بحیثیت ایک ذمہ دار شہری کے ہم کو اگر اپنے وطن کی فکر ہے ،یہاں کے عوام کی فکر ہے ، یہاں کے مظلوموں کی فکر ہے، اگر ہم چاہتے ہیں وطن عزیز میں آزادی کا سورج کبھی غروب نہ ہو۔ یہاں ہرطرف امن و امان کا دور دورہ ہو تو سب سے پہلے اپنے آپ کو بیدار کرنا ہوگا۔ ہر قسم کی سیاست سے اوپر اٹھ کر وطن کے ہر شہری تک یہ بات پہنچانی ہوگی کہ یہاں مذہب اور ذات پات کے نام پر جو کھیل کھیلاجارہا ہے اس سے ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل تباہ ہوسکتا ہے۔ انہیں یہ بات بھی بتانی ہو گی کہ نفرت اور بغض پھیلا کر کبھی کسی قوم کا بھلا نہیں ہو سکتا۔
  وقت کا مورخ ہماری ہر حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ اس لیے اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے ہمیں نفرت پھیلانے والوں کو باز رکھنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ کیونکہ یہی ہمارے پیغمبر کا طریقہ ہے ۔ مکہ کی گلیوں میں وہ یہی کیا کرتے تھے۔اپنے بد ترین مخالفوں کے درمیان جو ان کے اور ان کے ماننے والوں کے جانی دشمن بن گئے تھے پیار اور سلامتی کا پیغام عام کرتے رہے اور پھر ایک دن ایسا بھی آیا کہ وہ تمام جانی دشمن جاں نثار ساتھی بن کر آپؐ کے ساتھ آپؐ کی صفوں میں کھڑے نظر آئے۔۔ حالات کے بدلتے زیادہ دیر نہیں لگتی ۔ اس لیے یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہم امن کے پیغامبر ہیں اور سلامتی ہمارا نعرہ ہے۔
***

 

***

   وقت کا مورخ ہماری ہر حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ اس لیے اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے ہمیں نفرت پھیلانے والوں کو باز رکھنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ کیونکہ یہی ہمارے پیغمبر کا طریقہ ہے ۔ مکہ کی گلیوں میں وہ یہی کیا کرتے تھے۔اپنے بد ترین مخالفوں کے درمیان جو ان کے اور ان کے ماننے والوں کے جانی دشمن بن گئے تھے پیار اور سلامتی کا پیغام عام کرتے رہے اور پھر ایک دن ایسا بھی آیا کہ وہ تمام جانی دشمن جاں نثار ساتھی بن کر آپؐ کے ساتھ آپؐ کی صفوں میں کھڑے نظر آئے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 22 تا 28 اگست 2021