فراشا شیخ
لکشدیپ پنچایت ضابطہ 2021کے حالیہ جاری کردہ مسودہ میں کسی امیدوار کی نا اہلیت کے لیےبیان کردہ شرائط میں سے ایک شرط دو سے زائد بچے رکھنا ہے۔ اگرچہ اس مخصوص شرط پر بہت زیادہ ہنگامہ مچا ہے لیکن جہاں تک ہندوستان کا تعلق یہ کوئی نیا نظریہ نہیں ہے ۔ ہندوستان زائد آبادی کے مسئلہ سے نمٹنے کی کوشش کے طور پر انتخابات سے لے کر سرکاری ملازمتوں تک دو بچوں کی پالیسی کو جبری طور پر نافذ کرنے کی تاریخ رکھتا ہے جبکہ موجودہ حکومت میں تواس بیانیہ کو بار بار سنا گیا ہے۔
حالیہ عرصہ میں سامنے آنے والے مطالعات میں وضاحت کی گئی ہے کہ زائد آبادی کے نظریہ کو نہ صرف غلط طور پر پیش کیا گیا ہے بلکہ یہ انتہائی ضرر رساں بھی ہے۔ اصلاً یہ اصطلاح کہاں سے وارد ہوئی، اس کی تحقیق میں جائیں تو اٹھارہویں صدی کے یوروپی ماہر معاشیات تھامس مالتھوس کے نظریات میں اس کا ذکر ملتا ہے جس نے کہا تھا کہ انسانی آبادی میں ہندسی (Geomatrically اضافہ ہوتا ہے جبکہ غذا کی پیداوار میں حسابی (arithmetically) اضافہ ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بڑھتی ہوئی انسانی آبادی کی بقا کے لیے غذا کی پیداوار کی مقدار ناکافی ہوگی۔ یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ مالتھوسین نظریہ کو کئی معروف ماہرین معاشیات نے مسترد کردیا ہے کیونکہ معاملے کی اصل حقیقت یہ ہے کہ حالیہ برسوں میں ٹکنالوجی کا فروغ آبادی کی شرح نمو سے عظیم تر شرح پر غذائی پیداوار میں اضافہ کا سبب بنا ہے۔
لیکن اس خیال کے خطرناک اثرات کو اپنی بدترین شکل میں اس وقت دیکھا گیا جب عالمی بینک اور اقوام متحدہ پاپولیشن فنڈ نے آبادی پر کنٹرول پروگراموں کے لیے کروڑہا ڈالرس کے ذریعہ مملکت ہند کی حوصلہ افزائی کی۔ ان پروگراموں کو خاندانی منصوبہ بندی کے شفیق نام کے ساتھ آگے بڑھایا گیا۔ اس کے نتیجے میں بڑے پیمانہ پر نس بندی پروگرامس چلائے گئے جس کا زیادہ تر مخصوص نشانہ غریب لوگ اور ہندوستانی آبادی کے پہلے سے مفلوک الحال طبقات بنے ۔ نتیجتاً لاکھوں افراد کی جبری نس بندی کی گئی اور قصائی نما آپریشنوں کی وجہ سے ہزارہا اموات ہوئیں۔
یہ قابل اعتراض پروگرام ماضی کے دہے میں بھی جاری رہا جبکہ جبری نس بندی سے صرف غریب عوام متاثر ہوئے اور ان میں بھی زیادہ تر صرف خواتین تھیں۔ مراعات سے محروم طبقات کی سینکڑوں خواتین کی اموات گزشتہ چند برسوں میں رپورٹ کی گئی ہیں۔ ہندوستان کی خاندانی منصوبہ بندی اسکیمات کے تحت سب سے زیادہ خواتین متاثر ہوئی ہیں کیونکہ جبری نس بندی کا90فصید نشانہ خواتین ہی بنیں۔ مسئلہ آبادی کے کے پیچھے حکومت کی منطق کی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ اس کے پس پردہ ایک انتہائی خلل آمیز (مخالف سائنس ، مخالف غریب، مخالف اقلیت اور فطرتاً نسل پرست) ذہنیت کارفرما ہے جس نے سرے سے حکمرانی کے بنیادی تصورات کو ہی بدل دیا ہے۔
آئیے اس مسئلہ کو تفصیل سے سمجھتے ہیں۔
پہلی مثال میں تجرباتی شواہد سے نشاندہی ہوتی ہے کہ زائد آبادی کا خوف پیدا کرنے والے جنونیوں نے ایک بالکل برعکس تصویر پیش کی ہے ۔ 2019کے معاشی سروے کے مطابق ہندوستان کی شرح آبادی میں حقیقتاً ایک تیز تر انحطاط آیا ہے اور اندیشہ ہے کہ ہندوستان 2030کی دہائی تک معمرین کا سماج بن سکتا ہے۔ ٹی ایف آر (جملہ شرح تولید ) اب تک کی سب سے نچلی شرح یعنی 2.2پر ہے۔ حتی کہ گنجان آبادی والی ریاستوں میں بھی آبادی کے شرح نمو میں انحطاط ریکارڈ کیا گیا ہے۔
جب صورتحال یہ ہے تو حکومت زائد آبادی سے اس قدر فکر مند کیوں ہے۔ یہ دلیل دی جارہی ہے کہ ہندوستان جیسا ملک آبادی کے موجودہ حجم کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے مناسب وسائل نہیں رکھتا اور اسی لیے اگر ہم ملک میں لوگوں کی تعداد کم کرسکیں تو وسائل پر کھینچا تانی نہیں ہوگی اور ترقی وپیشرفت ہوگی۔
یہ سوچ اس مفروضہ پر مبنی ہے کہ ہمیں بہ حیثیت ملک وسائل کی شدید قلت کا سامنا ہے اور آگے بڑھنے کے لیے یہ ناکافی ہیں چنانچہ ہمارے راستے میں حائل واحد رکاوٹ لوگوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے اسی لیے اگر ہم اس معاملہ میں کچھ کرسکیں تو وسائل کی تخصیص اور ترقی سے متعلق ہمارے تمام مسائل حل ہوں گے۔
آکسفام انٹرنیشنل کی ایک حالیہ اسٹڈی میں کہا گیا کہ ہندوستانی آبادی کا دس فیصد سب سے اوپر کے لوگ جملہ قومی دولت کا 77فیصد رکھتے ہیں اور 2017میں پیدا شدہ دولت کا 73فیصد ، ایک فیصد امیرترین افراد کے ہاتھوں میں چلا گیا جبکہ آبادی کا غریب ترین نصف حصہ جو ساٹھ لاکھ ستر ہزار نفوس پر مشتمل ہے ان کی دولت میں صرف ایک فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ ایک سے زائد رپورٹس میں مختلف اہم شعبوں میں حکومت کی بجٹ رقومات کا استعمال انتہائی کم کیا گیا ہے اور اہم بات یہ ہے کہ تعلیم اور نگہداشت صحت کے شعبوں میں کم بجٹ استعمال کیا گیا ہے۔ سال بہ سال حکومت (غربت کا خاتمہ، اسکالر شپس اور انفراسٹرکچر پر ) فلاحی اسکیمات اور ترقیاتی پروگرامس متعارف کرتی ہے جو مطلوبہ یا زیر نشانہ افراد تک نہیں پہنچتے جس کی وجوہات میں بے پروا حکمرانی، نا اہل بیوروکریسی سے لے کر حکومت کی رشوت ستانی اور ٹیکس دہندوں کے فنڈ سے اکٹھا کردہ سرکاری وسائل کا تغلب شامل ہے۔ جہاں تک ہندوستان کا تعلق ہے اس امر کی تائید میں کوئی معتبر ثبوت نہیں ہے کہ آبادی میں اضافہ کو کوئی امر مانع سمجھا جائے اور یہ تصویر کوویڈ-19وبا کی ہلاکت خیز دوسری لہر کے تناظر میں اور بھی زیادہ واضح ہوکر سامنے آتی ہے جس نے صحت عامہ کے نظام کو بہتر بنانے میں حکومت کی بنیادی ناکامی کو اجاگر کیا ہے۔ لہذا زاید آبادی پر حکومت کی جانب سے شور وغوغا اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ ہمارے ملک کو درپیش اصل مسائل پر سے توجہ کو ہٹایا جائے ۔ بات یہ نہیں ہے کہ غذا کی کمی ہے اور لوگ بہت زیادہ ہیں بلکہ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ ہر ایک کے لیے کافی سے زیادہ غذا موجود ہے لیکن بہت سارے لوگوں میں سے چند لوگوں نے یہ کنٹرول حاصل کرلیا ہے کہ بہت سارے لوگوں میں غذا کیسے تقسیم کی جائے اور وہ غذا کا بہت زیادہ حصہ اپنے لیے جمع کررہے ہیں جبکہ بہت سارے لوگوں کے لیے بہت کم چھوڑ رہے ہیں۔ یہ لوگ ان لوگوں کو جو بہت بڑی تعداد میں موجود ہیں یہ باور کرارہے ہیں کہ انہیں اپنی تعداد کم کرنی چاہیے تاکہ ہر کوئی غذا سے استفادہ کرسکے۔ حالانکہ آپ اس کا تصور کرسکتے ہیں کہ ہر ایک کو مساویانہ طور پر غذا فراہم کی جائے تو تمام افراد کو مساوی طور پر غذا مل سکتی ہے۔
کوئی ٹھوس بنیاد نہ ہونے کے ساتھ ساتھ زائد آبادی کا نظریہ مخالف غریب اور مخالف اقلیت ہے۔ 2019میں راجیہ سبھا میں آبادی میں باقاعدگی کا بل متعارف کیا گیا تھا۔ اگر یہ منظور ہوجائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ان تمام افراد کو جنہیں دو سے زائد بچے ہیں غذائی سبسیڈیوں میں کمی جیسی سزاوں کا سامنا کرنا پڑے گا یہاں تک کہ وہ انتخابات لڑنے سے بھی نا اہل قرار دیے جاسکتے ہیں جیسا کہ لکشدیپ میں ہوا ہے۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ ایک بڑی زرعی معیشت میں اور شہری غربت کی بڑھتی شرحوں والے ملک میں خاندانوں کی اس بات پر توجہ نہیں ہے کہ زیادہ بچے ہوں گے تو خاندان کی آمدنی بڑھانے کے لیے کام کرنے والے زیادہ ہاتھ مہیا ہوں گے۔ اگر سرکاری وسائل کی مساویانہ تقسیم ہو ، اگر ترقی کے موجودہ نمونوں کی جانچ پرکھ ہو اور اگر قومی معاشی پالیسیاں بے روزگاری کا مسئلہ حل کرنے اور دولت کی دوبارہ تقسیم کی خاطر استعمال کرنے کے لیے وضع کی جائیں تو آبادی کا معاملہ ایک مسئلہ کے طور پر کبھی نہیں ابھرے گا۔ یہ بات بھی پورے وثوق سے کہی جاتی ہے کہ خواتین کی خواندگی میں اضافہ کی شرحیں اور معیاری نگہداشت صحت تک عظیم تر رسائی کا براہ راست تعلق خواتین کی ترقی میں اضافے کے ساتھ ساتھ معتدل تولیدی شرحوں سے ہے ۔ یہاں یہ کہنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے کہ تعلیم اور نگہداشت صحت کے شعبوں میں بہتری کو زائد آبادی کے حل کے طور پر دیکھا جانا چاہیے بلکہ اس کے بجائے حل زیادہ مساویانہ اور ہر ایک کے لیے بالخصوص مراعات سے محروم اور سماج کے مفلوک الحال طبقات کے لیے ترقی یافتہ دنیا ہونا چاہیے ۔
کئی سیاسی جماعتوں کے ارکان عوامی تقریروں میں اقلیتی طبقات کو نشانہ بنا رہے ہیں اور ان پر ایک وسیع سازش کے تحت دانستہ طورپر اپنی تعداد بڑھانے کے لیے زیادہ بچے پیدا کرنے کا الزام عائد کررہے ہیں۔ یہ وہ خیال ہے جسے ماہرین شماریات و سماجیات نے مسترد کردیا ہے کیونکہ حقیقیت میں اس دعوے کی پشت پر کوئی متعبر ثبوت نہیں ہے۔ اس طرح کی سوچ اکثریت پرستی اور نسلی صفائے کا پیش خیمہ ہے۔ لہذا یہ بات نہایت اہم ہے کہ آبادی میں اضافہ کے غلط تصور کو بار بار غلط ثابت کیا جائے ۔یہ ہر شخص کی ذمہ داری ہے جو عام لوگوں کی فکر رکھتا ہو۔
جیسا کہ اوپر کہا جاچکا ہے حکمرانی کے ہمارے موجودہ معیارات میں بہتری، حکمرانی کے اعلیٰ نمونے اور معاشی پالیسیوں میں بہتری ہی آگے بڑھنے کا راستہ ہے۔ دنیا میں بہت سارے لوگ جس طرز پر سوچتے ہیں ہمیں بھی ویسا ہی سوچنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ دنیا کو تمام لوگوں کے لیے جو پہلے سے موجود ہیں اور جو نسلیں مستقبل میں آنے والی ہیں ان سب کے لیے دنیا کو زیادہ مساویانہ اور زیادہ منصفانہ بنانا ہوگا۔ اگر ہمیں اپنی ترجیحات معلوم ہیں تو یہ کام ممکن ہے۔
***
اگر سرکاری وسائل کی مساویانہ تقسیم ہو ، اگر ترقی کے موجودہ نمونوں کی جانچ پرکھ ہو اور اگر قومی معاشی پالیسیاں بے روزگاری کا مسئلہ حل کرنے اور دولت کی دوبارہ تقسیم کی خاطر استعمال کرنے کے لیے وضع کی جائیں تو آبادی کا معاملہ ایک مسئلہ کے طور پر کبھی نہیں ابھرے گا
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 8 اگست تا 14 اگست 2021