ڈاکٹر محمد کلیم محی الدین
ادب کا انسانی سماج سے گہرا تعلق ہوتا ہے۔ عید پر نظم ونثر میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ شاید زمانے کے نشیب وفراز نے ایسی عید کبھی دیکھی نہ کبھی سنی ہوگی جو اس مرتبہ ہم منا رہے ہیں۔ کوویڈ-19 وبا کی وجہ سے اس مرتبہ مساجد اور عیدگاہیں بند کردی گئیں۔ عید کی خوشیاں تو سب سے مل کرحاصل ہوتی ہیں لیکن ملنے کی پابندی ہے۔ قارئین ہفت روزہ دعوت کے لیے اسی تناظر میں ایک مضمون پیش کیا جا رہا ہے جس میں اشعار عصر حاضر کی عکاسی کرتے ہیں۔ شاعروں نے اگرچہ کسی اور تناظر میں یہ شعر کہے ہیں لیکن یہاں ان کا تذکرہ بے موقع نہیں ہے۔
ماضی کی عید کی عکاسی کرتا ہوا یہ مشہور شعر ملاحظہ کیجیے:
عید کا دن ہے گلے آج تو مل لے ظالم
رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے
قمر بدایونی
اس شعر میں شاعر نے عید کے دن گلے ملنے کو دستور کہا ہے اور یہ دستور ایک زمانے سے جاری وساری ہے لیکن اس مرتبہ سماجی فاصلے رکھنا ضروری ہے۔ گلے آج بھی نہیں مل سکتے نہ جانے کتنے دلوں میں اس دستور پر عمل آوری کی چاہ رہی ہوگی۔
اسی طرح ایک اور شاعر کہتا ہے:
وعدوں ہی پہ ہر روز مری جان نہ ٹالو
ہے عید کا دن اب تو گلے ہم کو لگا لو
مصحفی غلام ہمدانی
عید سے پہلے سے لاک ڈاؤن چل رہا ہے۔ گزشتہ دو مہینوں سے کوئی بھی کسی سے ملنے نہیں جا پا رہا ہے۔ اب بھی اس عید پر ملنے کی کوئی سبیل نظر نہیں آرہی ہے یہاں پر ظفر اقبال کا یہ شعر لگتا ہے کہ اس موقع کے لیے لکھاگیا ہے ؎
تجھ کو میری نہ مجھے تیری خبر جائے گی
عید اب کے بھی دبے پاؤں گزر جائے گی
کورونا وائرس سے لڑائی کے دوران غرباء اور مساکین کا بے حد نقصان ہوا ہے۔ ان کے پاس کھانے کے لیے کھانا نہیں ہے وہ اپنے وطن کے لیے ہزارہا کلومیٹر پیدل نکل پڑے ہیں اور ان کے سر پر چھت بھی نہیں ہے۔ ان کا غم دور کرنا ہی صحیح معنوں میں عید ہوگی۔ شعر ملاحظہ فرمائیں:
اپنی خوشیاں بھول جا سب کا درد خرید
سیفیؔ تب جا کر کہیں تیری ہوگی عید
سیفی سرونجی
اسی طرح ساغر صدیقی کا ایک شعر دیکھیے جس میں غم کی دیوار بھی ہے اور عید کا چاند بھی ہے۔ یہ غم کی دیوار مفلسی اور کم زوری کی بھی علامت ہے۔ ایک جانب اس خطرناک وبا سے کئی بستیاں اب ویران بسیرے بن گئے ہیں۔ دوسری جانب خوشی کا دن ہے۔ اس دن کو کیسے منائیں۔ شعر ملاحظہ کیجیے
دور ویران بسیرے میں دیا ہو جیسے
غم کی دیوار سے دیکھا تو لگا عید کا چاند
حکومت نے ہمیں یہ احکام دیے ہیں کہ سماجی فاصلہ برقرار رکھیں۔ کہیں کوئی کورونا کا مریض نہ مل جائے اور یہ مرض تیزی سے بڑھ نہ جائے۔ ایسے میں دل چاہتا ہے کہ عزیزوں سے ملیں اور حالات ہیں کہ ڈراتے ہیں ملنے سے روکتے ہیں۔ ایسے ہی حالات کی عکاسی کرتا ہوا کسی نامعلوم شاعر کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں۔
مل کے ہوتی تھی کبھی عید بھی دیوالی بھی
اب یہ حالت ہے کہ ڈر ڈر کے گلے ملتے ہیں
عبادت گاہوں کے باہر قفل لگے ہیں۔ اندر اجتماع کی اجازت نہیں ہے۔ ایسے میں گھرمیں خوشیاں کیسے منائی جاسکتی ہے۔ سو شاعر ایسی بے خیالی میں اپنے گھر کو بھی باہر سے مقفل کر دیتا ہے۔
عید کا دن ہے سو کمرے میں پڑا ہوں اسلمؔ
اپنے دروازے کو باہر سے مقفل کر کے
اسلم کولسری
دل میں جن کا خیال بار بار آتا رہا ہے ان کو یاد کرکے شاعر عید کی مبارک باد دیتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
جو لوگ گزرتے ہیں مسلسل رہ دل سے
دن عید کا ان کو ہو مبارک تہ دل سے
عبید اعظم اعظمی
رشتہ داروں، عزیز واقارب کے دیدار کو ہی خوشی اور عید کہا جاتا ہے۔ اگر حالات لاک ڈاؤن کے ہوں تو پھر کیسے خوشی ہوگی۔ دن عید کا ہے لیکن کہیں جاسکتے ہیں نہ کوئی آسکتا ہے ایسے حالات کو شاعر نے اس شعر میں سمونے کی کوشش کی ہے۔
عید تو آ کے مرے جی کو جلاوے افسوس
جس کے آنے کی خوشی ہو وہ نہ آوے افسوس
مصحفی غلام ہمدانی
اکثر رشتہ دار عید کے موقع پر ملاقات کرتے ہیں۔ اپنی ملاقات کو عید تک کے لیے موخر کر دیتے ہیں۔ اس مرتبہ اگر عید پر بھی ملاقات نہ ہوسکتی تو ایک برس اوربیت جائے گا۔ شعر دیکھیے:
عید کو بھی وہ نہیں ملتے ہیں مجھ سے نہ ملیں
اک برس دن کی ملاقات ہے یہ بھی نہ سہی
شعلہؔ علی گڑھ
حسن شاہنواز زیدی کا یہ شعر بھی ملاحظہ کیجیے
رہنا پل پل دھیان میں
ملنا عید کے عید میں
ملک کے حالات کی عکاسی کرتا ہوا یہ قطعہ ملاحظہ کیجیے۔
عید خوشیوں کا دن سہی لیکن
اک اداسی بھی ساتھ لاتی ہے
زخم ابھرتے ہیں جانے کب کب کے
جانے کس کس کی یاد آتی ہے
فرحت احساس
ہجرت کے واقعہ کی تلمیح بیان کرتے ہوئےاختر عثمان نے کیا خوب شعر کہا ہے۔ موجودہ حالات میں چاروں طرف ایسا لگتا ہے کہ شہر خالی ہے۔ شہر حیدرآباد دکن کا سب سے گنجان علاقہ چار مینار جو رمضان المبار ک میں لوگوں کی چہل پہل کی اپنی داستان رکھتا ہے۔ جس شہر کی چار سوسالہ تاریخ میں ایسی خاموشی نہ تھی۔ جس شہر کے لیے قلی قطب شاہ نے دعا کی تھی کہ ’’مرا شہر لوگاں سوں معمور کر‘‘ لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ وہ سارے لوگ کہیں چلے گئے ہیں۔ یہ شعر ملاحظہ کیجیے
شہر خالی ہے کسے عید مبارک کہیے
چل دیے چھوڑ کے مکہ بھی مدینہ والے
اختر عثمان
عید کے دن لوگ ایک دوسرے ملتے ہیں اور ہنستے اور بولتے ہیں۔ یہاں بھی شاعر اکیلے پن سے گھبراتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے
عید کا دن تو ہے مگر جعفرؔ
میں اکیلے تو ہنس نہیں سکتا
جعفر ساہنی
کورونا وائرس نے معاشی نظام کو تہ وبالا کردیا ہے۔ اچھے خاصے کاروبار بھی تباہ ہوگئے ہیں۔ وہ لوگ جو روز مزدوری کرتے تھے وہ دانے دانے کو محتاج ہوگئے۔ وہ لوگ جو نوکری جانے سے قبل منہ ہاتھ دھوتے تھے، اب نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ کئی کارخانے رک گئے اور کئی لوگ بے روزگار ہوگئے۔ ایسے میں مسلمان بچوں کی خوشی کے لیے قرض لے کر عید کا سامان خریدنے کو ترجیح دے رہے ہیں جب کہ برادران وطن اپنا منافع حاصل کر رہے ہیں۔ یہ شعر ملاحظہ کیجیے۔
مسلماں قرض لے کر عید کا ساماں خریدیں گے
جو دانا ہیں وہ بیچیں گے جو ہیں ناداں خریدیں گے
سید محمد جعفری
غرض حالات کیسے بھی ہوں اور آفتیں کتنی برستی کیوں نہ ہو، ہمیں اپنے استقلال کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ لاکھ غم ہیں زمانے میں مگر عید کا دن ہے شکرانے کا اور اس شکرانے کو ادا کرنے میں کوئی کمی نہیں رہنی چاہیے۔ اس دن ہم اپنے رب کی کبریائی بیان کرتے ہیں اور اس کی حمد وثنا کرتے ہیں۔ اسی طرح ہم عید کی خوشی کو مناتے ہیں۔***
عید پر نظم ونثر میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ شاید زمانے کے نشیب وفراز نے ایسی عید کبھی دیکھی نہ کبھی سنی ہوگی جو اس مرتبہ ہم منا رہے ہیں۔ کوویڈ-19 وبا کی وجہ سے اس مرتبہ مساجد اور عیدگاہیں بند کردی گئیں۔ عید کی خوشیاں تو سب سے مل کرحاصل ہوتی ہیں لیکن ملنے کی پابندی ہے۔ قارئین ہفت روزہ دعوت کے لیے اسی تناظر میں ایک مضمون پیش کیا جا رہا ہے جس میں اشعار عصر حاضر کی عکاسی کرتے ہیں۔