اوپن اور فاصلاتی تعلیم میں ہائر ایجوکیشن کو عوامی بنانے کی بے پناہ صلاحیت

کم خرچ ہونے کے ساتھ ساتھ ہر جگہ اور ہروقت دستیاب۔پروفیسر محمد اسلم سابق وائس چانسلر اگنو سے انٹرویو

محمد نوشاد خان، دلی

پروفیسرمحمد اسلم سابق وائس چانسلر اندرا گاندھی اوپن یونیورٹی (اگنو) آئی سی ایس ایس آر کے تشکیل کردہ کالجیمس آف ایمیننٹ سوشل سائنٹسٹ کے رکن ، ورلڈ بینک کے ای ڈی آئی، اگراسری، تروپتی اے پی کے فیلو اور ہوپ فاونڈیشن وڈودرا گجرات کے سرپرست ہیں۔ انہیں سات قومی اور بین الاقوامی ایوارڈس سے نوازا جاچکا ہے۔ وہ آٹھ کتابوں کے مصنف ہیں اور دنیا کے ۳۵ ممالک کا دورہ کرچکے ہیں۔ محمد نوشاد خان کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ اوپن اور فاصلاتی تعلیم ، اعلیٰ تعلیم تک عوام کی رسائی کا بے پناہ امکان رکھتی ہے۔
آپ نے اگنو میں ۲۶ سال سے زائد عرصہ گزارا ہے جو ایک بڑا اوڈی ایل (اوپن اینڈ ڈسٹنس لرننگ انسٹی ٹیوشن) ہے۔ بحیثیت پروفیسر ڈائرکٹر اور بالآخر اس کے وائس چانسلر کی حیثیت سے براہ کرم اس پر کچھ روشنی ڈالیے کہ آخر یہ او ڈی ایل کیا ہے ؟
اوپن اور فاصلاتی تعلیم بنیادی طور پر اس فہم کا نتیجہ ہے کہ دنیا بھر میں بالغ آبادی کو تمام سطحوں پر تعلیم کے موقعوں کی ضرورت ہے۔ اس فکر کو تکنالوجی کی تیز رفتار تبدیلیوں اور بازار کی بدلتے حالات کی وجہ سے مزید تقویت حاصل ہوئی ہے۔ تعلیمی نظام کو بجٹ میں اضافہ کیے بغیر یا جسمانی طور پر کسی منتقلی کا باعث بنے بغیر کثیر تعداد میں اضافی تعلیمی موقعوں کی فراہمی کا چیلنج درپیش ہے۔
فاصلاتی تعلیم بذات خود کوئی دریافت نہیں ہے بلکہ یہ نئے چیلنجوں اور تقاضوں کے مد نظر تعلیمی نظام ہی کا ایک ردعمل ہے ۔ یہ ان لوگوں کو تعلیم یا دوبارہ تعلیم کا موقع فراہم کرتا ہے جو موقع کھوچکے ہوں یا جومنظم روایتی نظام سے انسلاک کے متحمل نہیں ہوتے۔ اوپن ایجوکیشن کا ایک نفسیاتی نکتہ یہ ہے کہ یہ حصول تعلیم اور ترسیل تعلیم میں حائل ان تمام رکاوٹوں کو ہٹانے کی وکالت کرتا ہے جو برسہا برس سے کھڑی کی گئی ہیں اور انہیں ادارہ جاتی آہنگ حاصل ہوا ہے جبکہ فاصلاتی تعلیم صرف فراہمی تعلیم کی ایک شکل ہے۔ اس کے کھلے پن کی واحد خصوصیت طالب علم سے یہ نہیں کہتی کہ وہ جسمانی طور پر کلاس روم میں حاضر رہے۔ فاصلاتی تعلیم کے ذریعے کھلے طور پر سیکھنے کے طریقہ کو فی زمانہ ہمارے سماج کے ابھرتے ہوئے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے موزوں اور ضروری تعلیم و تربیت کے ایک مسلمہ طریقے کے طور پر قبول کیا گیا ہے۔ اوپن لرننگ سسٹم کے کھلے پن اور لچک کی وجہ سے ۱۵۰سے زائد ممالک پہلے ہی اپنے اوپن ایجوکیشن انسٹیٹیوشنس قائم کرچکے ہیں۔
آپ بھارت میں اوپن اور فاصلاتی تعلیم کی اصل کہاں پاتے ہیں مختصراً بتائیے گا؟
بھارت میں فاصلاتی تعلیم کی اصل اس ادراک کا نتیجہ ہے کہ آبادی کے ایک بڑے حصہ تک جو یونیورسٹی سسٹم کے باہر رہتی ہے کس طرح سے معیاری تعلیم فراہم کی جاسکتی ہے۔ اس تشویش سے نمٹنے کے لیے وزارت اطلاعات ونشریات اور یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے ۱۹۹۰ میں پروفیسر وی کے آر وی راو کی زیر سربراہی ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ پالیسی سازوں کو کمیٹی کی رپورٹ پر سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کے لیے کچھ وقت لگا۔ بالآخر ۱۹۸۲ میں حیدرآباد میں پہلی سرکاری اوپن یونیورسٹی کے طور پر ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اوپن یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا۔ اس کے بعد ایک پارلیمنٹ ایکٹ کے ذریعہ ۱۹۸۵میں اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی قائم کی گئی۔ آج اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی قومی سطح پرہے اور ۱۴اسٹیٹ اوپن یونیورسٹیاں ریاستی سطحوں پر قائم ہیں۔ علاوہ ازیں روایتی یونیورسٹیوں میں سینکڑوں کی تعداد میں نظامت فاصلاتی تعلیم موجود ہیں جو اوپن اور فاصلاتی طریقہ سے تعلیمی پروگراموں کی پیشکش کررہے ہیں۔ ہمارے ہاں اسکولی سطح کی مداخلتوں کے لیے ایک نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوپن اسکولنگ (این آئی او ایس) بھی ہے۔
او ڈی ایل ادارہ جات کے اس گروپ کی کار گزاری کیا رہی ہے اختصار سے بتائیے گا؟
یہ حقیقت اپنی جگہ برقرار ہے کہ اوپن اور فاصلاتی طرز تعلیم ایک ایسی شکل ہے جو نہ صرف تعلیم حاصل کرنے والی آبادی کو بے شمار فائدے فراہم کرتی ہے بلکہ بحیثیت مجموعی سماج کو بھی فائدہ پہنچاتی ہے۔ او ڈی ایل ادارہ جات کے مذکورہ گروپ کا مظاہرہ ملاجلا رہا ہے۔ این آئی او ایس نے جب باقاعدہ کورسیس جیسے انجینرنگ و ٹکنالوجی، زراعت، کامرس، صحت کے ساتھ ساتھ جب ووکیشنل تعلیم شروع کی تو یہ خوش آئند تبدیلی تھی اور مساوی طور پر یہ بات بھی حوصلہ افزا رہی کہ غیر روایتی شعبوں میں اسٹیٹ اوپن یونیورسٹیوں نے پروگراموں کی پیشکش کی مثلاً ناسک میں وائی سی ایم او یو نے گھریلو باغبانی، پھلوں کی پیداوار ، پھول بانی، لینڈ اسکیپ گارڈننگ جیسے شعبوں میں پروگراموں کا آغاز کا ہے۔ بی آر امبیڈکر اوپن یونیورسٹی مشروم کی کاشت میں اور یوپی ٹی آر او یو ڈیسک ٹاپ پبلشنگ میں پروگراموں کی پیشکش کررہی ہے۔ اگنو نے قومی سطح پر خاص طور پر ابھرتے ہوئے شعبوں جیسے کمپیوٹرس، نرسنگ، دیہی ترقی ، سیاحت ، اطلاعاتی تکنالوجی، شراکت پر مبنی جنگلاتی تباہی سے نمٹنے کے انتظام ، ایچ آئی وی ایڈس وغیرہ پر بڑی تعداد میں پروگرامس تیار کیے ہیں۔ اگنو کو پنچایتوں کے منتخب ارکان کی تعلیم و تربیت کا ایک پراجکٹ روبہ عمل لانے کا امتیاز حاصل ہے جس کے تحت ۷۰ ہزار منتخب ارکان کو مدھیہ پردیش کے چار اضلاع میں فاصلاتی طریقہ کے ذریعہ تربیت فراہم کی گئی ہے۔ اسے ۱۹۹۹میں برونی دارالسلام میں منعقدہ دوسری پان کامن ویلتھ کانفرنس کے دوران ’’کامن ویلتھ آف لرننگ پریسڈنٹس ایوارڈ آف ایکسیلنس‘‘ عطا کیا گیا ہے۔ ترقی کے اس طویل عمل میں استقلال اور سمت کو چھوٹتا ہوا محسوس کیا گیا ہے اور وہ شاید اس لیے سنٹر آف ایکسلینس کے طور پر ابھرنے کے قابل نہیں رہے کہ شاید پالیسی ساز روایتی نظام کے موثر نفاذ اور اسی کے تتمہ کے طور پر اوپن اور فاصلاتی تعلیم کی صلاحیت کے تعلق سے قائل نہیں ہوئے تھے۔ اپنے مالیہ کا خیال رکھنے کے مقصد سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے تعداد اور کارروائی (process)کے معاملے میں کوالیٹی پر سمجھوتہ کرلیا ہے۔ حال ہی میں او ڈی ایل، کورونا لاک ڈاون کی وجہ سے درپیش چیلنج کا موثر طریقہ سے سامنا نہیں کرپایا۔ او ڈی ایل کے پاس اپنے طور پر سیکھنےکے بعد مواد کے ذریعہ کلاس روم کی تدریس کو پورا کرنے کا ایک میکانزم ہے۔ میرے اندازے کے مطابق او ڈی اداروں کے اس گروپ کے لیے کثیر نوعی مداخلت کے ذریعہ تدریس کے نئے ماڈل کو فروغ دینے کا ایک سنہری موقع تھا۔
کیا مارکٹ میں او ڈی ایل کوئی قدر و قیمت رکھتا ہے؟
یہ سوال ان لوگوں کے سامنے رہتا ہے جو او ڈی ایل ماڈل کے ذریعہ تعلیم / قابلیتیں حاصل کرنا چاہتےہیں۔ اگر اوپن یونیورسٹیوں ، اوپن اسکولوں اور دنیا بھر کے تمام او ڈی ایل ادارہ جات میں داخلوں سے اگر کوئی اشارہ ملتا ہے تو یہ اس تعلیمی نظام کی مارکٹ ویلیو کو ظاہر کرتا ہے۔ لہذا اس بارے میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ اس کی مارکٹ قدر موجود ہے۔ البتہ جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ یہ تعلیم کا طریقہ کار نہیں ہے بلکہ ہنرمندیوں اور مثبت رویہ کی ایک شکل ہے جو سیکھنے کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے اور جس کی لیبر مارکٹ کو ضرورت ہوتی ہے۔ تعلیم کی کوئی بھی شکل جو سیکھنے والوں کو ان خوبیوں سے لیس کرتی ہو، اس کی مارکٹ میں قدر و قیمت رہے گی۔ فاصلاتی تعلیم اس بنیادی ضابطے سے کوئی استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔
کیا یہ کم خرچ ہے؟ کیا یہ باقاعدہ کورسیس سے بہتر ہے؟
او ڈی ایل یقینی طور پر مختلف وجوہ کی بنا پر دوبدو تعلیم کے مقابلے میں کم خرچ ہے۔ یو کے او یو میں قبل ازیں کیے گئے جائزوں میں دکھایا گیا ہے کہ او ڈی ایل نظام میں فی طالب علم خرچ دوبدو نظام کے مقابلے میں ایک تہائی کم ہے۔ یقیناً او ڈی ایل کی جانب سے پیشکش کردہ خرچ میں مناسب کمی کے فائدہ کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ اس میں تکنالوجی کا کس حد تک دخل ہے۔ لیکن مجموعی طور پر یہ پیسے کے ساتھ ساتھ وقت کے معاملے میں زیادہ قابل دسترس ہے۔ اس کا دوسرا معاشی فائدہ یہ ہے کہ او ڈی ایل سسٹمس طلبا کو معاشی طور پر مفید برقرار رہنے کا کا موقع فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ قابلیتیں پیدا کرنے کے لیے تعلیم دیتے ہیں۔ کیایہ باقاعدہ کورسیس سے زیادہ بہتر ہے؟ یہ سوال فاصلاتی تعلیم کی کوالٹی کے سوال سے پوری طرح مربوط ہے۔
سیکھنے والوں کی آبادی کے لئے فاصلاتی تعلیم میں ایسا کیا ہے جو اس نظام کی انفرادیت ہے؟
اوپن اور فاصلاتی تعلیم نہ صرف سیکھنے والی آبادی کو بلکہ پورے سماج کو بے پناہ فوائد فراہم کرتی ہے۔ یہاں میں ان اہم چیزوں کی طرف اشارہ کرسکتا ہوں جو واضح طور پر موجود ہیں۔
(1) یہ سیکھنے والوں کی تمام چار جدید قسموں کی ضرورت کو پورا کرتا ہے۔ روایتی کم عمر اسکول ترک کرنے والے بچے جن کی مدد ان کے خاندان یا ریاست کرتی ہے،وہ کم عمر بچے جو لیبر مارکٹ جانے پر مجبور کردیے جاتے ہیں اور جو مدد چاہتے ہیں جنہیں تعلیم کی ضرورت ہوتی ہے، نئے سیکھنے والے جو بالغین کے طور پر اپنے شرائط پر افقی یا عمودی نقل و حرکت کے لیے تعلیم / تربیت چاہتے ہیں اور ڈیجیٹل مقامی لوگ (digital natives) جو چار دیواری والے طرز تعلیم پر فاصلاتی طریقہ کو ترجیح دیتے ہیں۔ میں اس میں تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمندوں کے ایک اور زمرہ کا اضافہ کرسکتا ہوں۔ وہ طبقہ جس کی تعلیم تک رسائی نہیں ہے۔ یعنی روایتوں کی اسیر خواتین کے ساتھ ساتھ بھارتی سماج کے وہ دیگر طبقات جن تک پہنچا نہیں جاسکا ہے۔
(2)اس میں سماج کی ضرورتوں کا اندازہ کرنے اور لیبر مارکٹ و سماجی ترقی کا مقصد پورا کرنے کے لیے کورسیس وضع کرنے کی لچک فراہم کی گئی ہے۔
(3)اپنی وسیع تر رسائی کے ذریعہ یہ کسی کو اس کے وقت ، مقام اور جگہ پر تعلیم فراہم کرتا ہے۔
(4)عام طور پر یہ دو بدو طریقے سے نسبتاً زیادہ قابل دسترس اور صارف دوست ہوتا ہے۔
(5)یہ سرحد پار کے ساتھ ساتھ ترسیل کے مختلف النوع اختیارات (trans-model delivery options) وغیرہ فراہم کرتا ہے۔
جیسا کہ آپ نے ذکر کیا ہے کہ معیار کسی بھی او ڈی ایل وسیلہ کی کامیابی میں ایک اہم عنصر ہے تو پھراو ڈی ایل تعلیمی وسیلوں میں معیار اور کوالٹی کو کیسے برقرار رکھا جائے؟
پہلے یہ نوٹ کیا جانا چاہیے کہ تعلیم کے مبحث میں معیار کا تصور فاصلاتی تعلیم کے پورٹلز کے ذریعہ در آیا ہے۔ پہلے ہم تعلیم کے معیار کی بات کرتے تھے نہ کہ تعلیم کے معیار کی۔ یہ فاصلاتی تعلیم کے طریقہ کار کے معیار کے تعلق سے فاصلاتی تعلیم کے ماہرین کی تشویش ہی تھی جس نے معیار کے تصور کو تعلیمی نظام کے سنٹر اسٹیج تک پہنچایا۔ فاصلاتی تعلیم کے ادارے انٹر پرائز کے اجزا پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے جو کچھ وہ فراہم کرتے ہیں اس کی کوالٹی کی ضمانت دیتے ہیں :(i)پروڈکٹس- یہ سبھی کو معلوم ہے کہ فاصلاتی تعلیم کے ادارے خود سے پڑھنے کے لیے اسٹڈی مٹیر یل تیار کرتے ہیں یہ مٹیریل (چاہے وہ پرنٹ پر مبنی ہو یا الیکٹرانک مٹیریل،تجرباتی کٹس، اسٹڈی گائیڈز ہوں یا کچھ بھی) ان کی مطابقت، معیار اور استعمال کو یقینی بنانے کے لیے انہیں معیاری قواعد و ضوابط اور کوالٹی کنٹرول کے طریقہ کار کے بعد تیار کیا جاتا ہے۔ (ii) پراسیسز- ان آپریشنزکا تعلق تعلیمی تقسیم یعنی پوسٹل سسٹم کے ذریعے مواد کی فراہمی اور سیکھنے والوں کی مدد، نشریات، آن لائن اور/یا آمنے سامنے ٹیوٹوریلز/مشاورت سے ہے اور اس کے لیے جائزوں اور اس کے جواب کے ایک طریقہ کار کے ذریعے جامع تدریسی مواصلات کا ایک مضبوط انتظام ہوتا ہے۔ iii) نتائج۔یہ ان گریجویٹس کو دیتے ہیں جو اوڈی ایل کے ذریعے قابلیت حاصل کیے ہوں۔
گریجویٹ کے طور پر ان کے معیار کو ایک سخت تشخیصی نظام کے ذریعے یقینی بنایا جاتا ہے جس میں داخلی (تشکیلی) اورخارجی (مجموعی) تشخیص شامل ہوتی ہے۔ فاصلاتی تعلیم کے اداروں کے لیے معیار کی یقین دہانی کے نظام کا خاکہ پیش کرنے کے بعد انسانی عنصر اس نظام میں معیار کو برقرار رکھنے میں انتہائی اہمیت کا حامل بن کر ابھرتا ہے۔ اگر آپریشن کے مختلف مراحل میں کوالٹی کو برقرار رکھنے میں شامل لوگ اپنی ادائیگیوں کو نظر انداز کرتے ہیں تو یقینی طور پر معیار پر سمجھوتہ کیا جائے گا۔ اور کل وقتی تعلیمی نظام کو اس سے استثنیٰ نہیں ہے- یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہے کہ کچھ اساتذہ باقاعدگی سے کلاس نہیں لیتے، اپنی کلاس کے لیے تیار نہیں ہوتے اور اس طرح کی اور بھی باتیں ہیں۔
آپ اپنے دور میں اگنو کی کن حصولیابیوں کوبعض بڑی کامیابیوں کے طور پر دیکھتے ہیں؟
مجھے پختہ یقین ہے کہ اگنو جیسی اوپن یونیورسٹیوں کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ اس کی ترسیل کا طریقہ کار کتنا موثر ہے۔ اگنو کے لیے، ترسیل کے طریقہ کار کا مطلب علاقائی اور مطالعاتی مراکز کا نیٹ ورک تھا۔ میں نے اس نیٹ ورک کو مضبوط کرنے پر بہت توجہ دی ہے۔ ہر ہفتے میں ان کے ساتھ ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے 2-3 گھنٹے بات چیت کرتا تھا۔ میں ملک بھر میں پھیلے اس نیٹ ورک کے لیے اپنی کامیابیوں (اگر کوئی ہے) کا مرہون منت ہوں۔ میرے مختصر دور میں کچھ کارنامے یہ تھے:
جنوری اور جولائی، 2014 کے داخلہ سائیکلوں کے لیے اندراج کے اعداد و شمار تازہ اور دوبارہ رجسٹریشن کے ذریعے 7,22,000 سے تجاوز کر گئے، جو اپنے آپ میں ایک ریکارڈ تھا۔ اس نے ہماری مالی طاقت کو بہتر کیا۔
اگنو نے کیندریہ ودھیالیہ سنگھٹن (KVS) کے لیے تقریباً 24,000 حاضر سروس اساتذہ اور 5 شمال مشرقی ریاستوں کے تقریباً 36,538 اساتذہ کو تربیت دینے کا کام لیا اور اروناچل پردیش، منی پور، میزورم، سکم اور تریپورہ کی ریاستی حکومتوں کے ساتھ یادداشت مفاہمت پر دستخط کیے۔ہمارے ناگپور ریجنل سنٹر کی طرف سے ملک کے قبائلی علاقوں جیسے گڈچرولی میں اگنو کے طلباء کی ملازمت کے لیے اہم اقدامات کیے گئے۔ جنوری، 2014 میں گڈچرولی کے دسویں پاس 48 قبائلی طلباء کے لیے ڈسٹرکٹ جنرل اسپتال میں صد فیصد پلیسمنٹ حاصل کی گئی، جنہوں نے جولائی، 2013 میں متعارف کردہ چھ ماہی ہوم بیسڈ ہیلتھ کیئر (CHBHC) کورس کا سرٹیفیکیٹ حاصل کیا تھا۔
IGNOU کے جیلوں میں 94 خصوصی مطالعاتی مراکز ہیں۔ ان میں سے 34 کو2012-14 کے دوران شامل کیا گیا۔ اگنو شاید دنیا کی واحد یونیورسٹی ہے جس میں جیل کے قیدیوں کے لیے مفت تعلیم اور تربیت کے وسیع پروگرام ہیں۔اگنو پہلی بار فوڈ اینڈ نیوٹریشن (CFN)/DNHE پروگرامس میں سرٹیفکیٹ پروگراموں کے لئے ضلع کھنڈوا میں 200 سے زیادہ دیہی طلباء کا اندراج کرنے میں کامیاب رہا۔ ’’سنگوٹ‘‘ نام کا ایک خاص گاؤں ہے جہاں سے اگنو نے ہمارے سرٹیفکیٹ ان فوڈ اینڈ نیوٹریشن (CFN) پروگرام کے لیے 50 طلباء (زیادہ تر لڑکیاں) کا اندراج حاصل کیا۔
اگنو نے اپنے فلیگ شپ انڈرگریجویٹ پروگرام (B.A./B.Com) پر کام کرنا شروع کیا تاکہ اس کے نصاب کو ہنر پر مبنی جزو سے ہم آہنگ کیا جاسکے تاکہ گریجویشن کے ساتھ ساتھ، طلباء کو وزیراعظم کے اقدام کے مطابق اپنی ملازمت کو بڑھانے کے لیے کچھ مہارت کی اہلیت کا سرٹیفیکیشن مل سکے۔
اس نظام کا مستقبل کیا ہے؟
اوپن اور فاصلاتی تعلیم میں بہت زیادہ قوت ہے بشرطیکہ اسے صحیح طریقے سے سمجھا گیا ہو، اوراوڈی ایل وسیلے کی باریکی سے منصوبہ بندی کی جائے اور بھرپور طریقے سے عمل میں لایا جائے۔ ابتداء میں، یہ سب سے اہم ہے کہ جو لوگ اوڈی ایل تعلیمی واسطوں کی منصوبہ بندی، انتظام اور نفاذ میں مصروف ہیں، ان کے پاس اوپن اور ڈسٹنس لرنننگ کے بارے میں تصوراتی وضاحت ہو۔ فی الحال اوڈی ایل جزوی طور پر تعلیمی اداروں کے کووڈ۔۱۹ لاک ڈاون کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال اور جزوی طور پر اوڈی ایل اور دیگر آن لائن سیکھنے کے طریقوں کے بارے میں تصوراتی وضاحت کی کمی کی وجہ سے دوراہے پر ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ کووڈ۔۱۹ نے تعلیم کو ہمیشہ کے لیے بدل دیا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ:
حکومت تعلیمی اہداف سے متعلق اپنی پالیسیوں خاص طور پر تعلیمی مقاصد کے لیے آئی سی ٹی ٹیکنالوجیز کے استعمال کے سلسلے میں متعلقہ پالیسیوں پر نظرثانی کرتی ہے۔
اے آئی سی ٹی اے اور یو جی سی جیسے دیگر ریگولیٹری اداروں کو بھی اپنے مشن پر نظر ثانی کرنے اور ریگولیٹری رہنما خطوط کو از سر نو تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔
قومی اور ریاستی اوپن یونیورسٹیوں کے تعلیمی اداروں کو علمی ترقی کو مدنظر رکھتے ہوئے سیکھنے اور سکھانے کے عمل میں اپنے آپریشنز اور ٹیکنالوجیز کے اطلاق کو از سر نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ عام طور پر اساتذہ اور خاص طور پر اوڈی ایل اساتذہ کو ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی میں اضافہ شدہ تدریسی لین دین کی بنیاد پر سیکھنے اور سکھانے کے عمل کی منصوبہ بندی اور نظم کو از سر نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔
یہ ضروری ہے کہ فیکلٹی اور معاون ڈویژن دونوں کے لیے احتساب کے معیارات کو برقرار رکھا جائے۔
پیشہ ورانہ ڈومینز (Domains)میں فعال طور پر داخل ہونے کی فوری ضرورت ہے، جیسے اساتذہ کی بڑے پیمانے پر تربیت ۔
اوپن اور فاصلاتی تعلیم میں اعلیٰ تعلیم کو جمہوری بنانے کی زبردست صلاحیت ہے۔ پالیسی سازوں کے ذریعہ اسے ایک مؤثر متبادل طریقہ کار کے طور پر تسلیم کرنے اور اس کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔
(انٹرویو نگار ریڈیئنس ویوز ویکلی سے وابستہ صحافی ہیں)

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  21 نومبر تا 27 نومبر 2021