ابوفہد، نئی دلی
یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ کون کس وجہ سے پڑھا جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ کچھ لوگ لابنگ سسٹم، پروپیگنڈہ فیکٹر اور تنازعات کے استاد ہونے کی وجہ سے بھی پڑھے جاتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو ان کا علم، تحقیق وجستجو ،زرخیز قلم اور توانا اسلوب ثانوی چیز ہوکر رہ جاتے ہیں۔مادہ پرست دنیا میں تو یہ عام بات ہے بلکہ یہ بھی ایک طرح کا علم اور فن ہے ۔ اور بہت سے ناول انہی سب منفی صفات اور باقاعدہ روپیہ پیسہ صرف کر کے پیدا کیے گئے پروپیگنڈے اور تنازع کے زور پر ہی پڑھے اور پڑھوائے جاتے ہیں۔ اسی پروپیگنڈہ فیکٹر کو فلموں، ڈراموں اور سیریلز میں جان بوجھ کر رکھا جاتا ہے تاکہ تنازعہ پیدا ہو اور لوگوں کے جذبات میں منفی ومثبت جوش واُبال آئے اورفلمیں ہٹ ہوجائیں اور سیریلز مشہور سے مشہور تر۔
مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ روش صرف مادہ پرست دنیا کے ساتھ ہی خاص نہیں، مذہبی رجحان رکھنے والے بھی چوری چھپے ایسے سب ہتھکنڈے اختیار کرتے ہیں اور انہی کے زور پر خود کو آگے بڑھاتے ہیں۔ بے شک ان میں سے بہت سارے افراد کے اندر صلاحیتیں بھی ہوتی ہیں اور ان کا کام قابل تعریف بھی ہوتا ہے مگر ان سب کے ساتھ ساتھ مذکورہ منفی صفات اور عملیات بھی زیریں لہروں میں موجود رہتی ہیں۔
بعض قلم کار بھی سیاسی لیڈروں کی طرح اپنی ایک مضبوط لابی پیدا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور اس کے ذریعہ وہ قاری کی توجہ حاصل کر لیتے ہیں، جبکہ بعض دوسروں کو اداروں اور تنظیموں سے وابستگی توجہ دلا دیتی ہے اور بعض کے ہزاروں کی تعداد میں پھیلے ہوئے شاگرد انہیں آگے بڑھانے میں مددگار بن جاتے ہیں۔ کہیں انہیں پروموٹ کرنے کے لیے تجدد پسندی آگے آجاتی ہے، کیونکہ بہت سارے لوگ مذہبیات میں بھی تجدد کے متلاشی ہوتے ہیں۔ کہیں روایتی فکر انہیں پر پرواز عطا کر دیتی ہے کیونکہ بہت سارے لوگوں کو آج بھی روایتی فکر اور قدامت پسندی متاثر کرتی ہے اور کہیں گروپ بازی اس معاملے میں بڑی کام کی چیز بن جاتی ہے۔ گروپ بازی اور خیمہ گردی تو ہر دور میں بڑی کارگر چیز رہی ہے مگر آج کے دور میں اس کی بڑی اہمیت ہے اور اسی کا نام لابنگ ہے۔ بے شک ان سب چیزوں کو بیک قلم غلط کہنا یقیناً غلط ہوگا، تاہم یہیں سے اس شخص کی اہمیت واضح ہوتی ہے جس کے پاس ان میں سے کچھ بھی نہیں ہوتا، نہ لابنگ، نہ ادارے اور نہ ہی تنظیمیں ہوتی ہیں، نہ ہی پروپیگنڈے اور تنازعات ہوتے ہیں۔ انہیں صرف اور صرف ان کا حلم، ان کا علم، ان کی عقلیت، ان کا فن، ان کا محبت نما اسلوبِ حیات اور ان کا زرخیز اسلوب نگارش ہی انہیں قاری نصیب کرتا ہے اور انہیں لوگوں کی آنکھوں کا تارا بناتا ہے۔ تو خوش قسمت ہیں ایسے قلم کار اور ایسے اہل علم اور خاص کر ہمارے وہ نوجوان اہل علم اور قلم کار جو خود کو اسی دائرے میں رکھنا چاہتے ہیں۔
جب میں یہ سطر لکھ رہا تھا تبھی مجھے ایک مختصر سی تحریر ملی جس نے میرے مقدمے کی تفہیم آسان بنا دی۔
’’آخر میں ایک اہم بات کا ذکر کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا، وہ یہ کہ یہ دور نارنگیوں، فاروقیوں، عثمانیوں اور حنفیوں کا ہے۔ آج بہت سے فنکار نارنگیوں (گوپی چند نارنگ، ساقی نارنگ) فاروقیوں (شمس الرحمٰن فاروقی، اطہر فاروقی، زبیر فاروقی، ساقی فاروقی) عثمانیوں (شمس الحق عثمانی، انجم عثمانی) اور حنفیوں (شمیم حنفی، عمیق حنفی، مظفر حنفی) کے پرستار ہیں اور ان گروہوں سے جڑ کر رہنے میں عافیت سمجھتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ تنقید میں ہی نہیں بلکہ تخلیقی وتحقیقی میدان میں بھی اگر مقام حاصل کرنا ہے تو کسی نہ کسی گروہ سے تعلق رکھنا اور جڑ کر رہنا ناگزیر ہے ورنہ پوچھنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ ادب میں گروپ ازم کسی بھی نقطہ نظر سے ٹھیک نہیں۔ ادب میں ایک ساز گار ماحول ہونا چاہیے اور اس پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہونی چاہیے۔‘‘
ایک اطلاع کے بموجب یہ تحریر ڈاکٹر داؤد محسن کی ہے، گرچہ یہ شرارتی نفسیات کے زیر اثر لکھی گئی تحریر معلوم ہوتی تاہم اس کو اگر بڑے منظر نامے میں دیکھیں اور اس میں مذکور ناموں سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف اس کے میسیج کو پیش نظر رکھیں تو اس میں کئی حقائق بھی مل جائیں گے۔ ایک تو وہی جو میں نے اپنے مقدمے میں بیان کرنا چاہا یعنی گروہ بندی اور لابنگ سسٹم۔
اگر میرا مقدمہ اب بھی سمجھ میں نہ آیا ہو تو اسے ایک مثال سے سمجھیں کہ بعض پراڈکٹ اشتہارات کے زور پر بکتے ہیں جبکہ بعض دوسرے پراڈکٹ اپنی کوالٹی اور اچھے فیچرس کی وجہ سے۔ بعض مٹھائیاں اس لیے بکتی ہیں کہ ان کا نام چل گیا ہے جبکہ بعض دوسری مٹھائیاں آپ محض اس لیے خریدنا پسند کرتے ہیں کہ آپ کو ان کا ذائقہ پسند آگیا ہے۔
اس سادہ و بے غرض سی عرضِ تمنا سے درویش کی غرض یہی ہے کہ گروہ بندی، عصبیت پسندی، لابنگ گردی اور من ترا و تو مرا حاجی بگویم کے اوچھے ہتھکنڈوں سے ہر قلم کار، فن کار، ادیب اور عالم دین کو اپنی زبان وقلم کو آلودہ ہونے سے بچانے کی شعوری کوشش ضرور کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ درویش کی نہ کوئی صدا ہے اور نہ کوئی خواہش۔
***
بعض قلم کار بھی سیاسی لیڈروں کی طرح اپنی ایک مضبوط لابی پیدا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور اس کے ذریعہ وہ قاری کی توجہ حاصل کر لیتے ہیں، جبکہ بعض دوسروں کو اداروں اور تنظیموں سے وابستگی توجہ دلا دیتی ہے اور بعض کے ہزاروں کی تعداد میں پھیلے ہوئے شاگرد انہیں آگے بڑھانے میں مددگار بن جاتے ہیں۔ کہیں انہیں پروموٹ کرنے کے لیے تجدد پسندی آگے آجاتی ہے، کیونکہ بہت سارے لوگ مذہبیات میں بھی تجدد کے متلاشی ہوتے ہیں۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 19 ستمبر تا 25 ستمبر 2021