انیس الرحمٰن خان کا قتل۔’ لہو پکارے گا آستیں گا‘

سی پی ایم کے لیے ’نندی گرام‘ کی طرح ممتا کے لیے ’انیس قتل کامعاملہ ‘ گلے کی ہڈی!

ڈاکٹر سلیم خان ، ممبئی

ممتا کے دامن پرخون کی چھینٹیں؟ انصاف کی یقین دہانی کے باوجود لوگ ناامید
کائناتِ ہستی میں ہر عروج کو زوال سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ یہ قدرت کا کرشمہ ہے کہ عروج کے دوران ہی زوال اس طرح دبے پاوں داخل ہوتا ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتا اور جب تک اس کے اثرات نمایاں ہوتے ہیں تب تک بہت تاخیر ہوچکی ہوتی ہے۔ مغربی بنگال تقریباً تیس سالوں تک کانگریس کا ایک مضبوط قلعہ رہا لیکن دیکھتے دیکھتے وہ ریت کے محل کی مانند بکھر گیا۔ اس کے بعد اشتراکی آئے اور انہوں نے بھی پینتیس سالوں تک بلا شرکت غیرے راج کیا ۔ ایک زمانے میں مغربی بنگال کے اشتراکی ناقابلِ تسخیر ہوا کرتے تھے اور ان کے وزیر اعلیٰ جیوتی باسو کو لوگ وزیر اعظم کی کرسی پر دیکھنے کے خواہشمند تھے لیکن ہرکشن سنگھ سرجیت کے اڑیل رویے نے ان کی آرزوؤں پر پانی پھیر دیا۔ جس کے بعد پارٹی نے فیصلہ کیا کہ وہ دوسروں کا سہارا تو بنے گی لیکن دوسروں کے سہارے اقتدار نہیں سنبھالے گی کیونکہ ایسا کرتے ہوئے اسے اپنے اصول وضوابط سے مصالحت کرنا پڑے گا۔ یہ اصولی موقف غالباً اس امید میں اختیار کیا گیا ہو گا کہ جلد یا بدیر وہ خود اپنے بل بوتے پر اقتدار حاصل کر لے گی حالانکہ اب یہ دیوانے کا خواب بن گیا ہے۔ مغربی بنگال کے بعد سی پی ایم تریپورہ میں بھی اقتدار گنوا چکی ہے اور کیرالا ان کی امید کا آخری چراغ ہے؎
داغِ فراقِ صحبتِ شب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے
مغربی بنگال میں اشتراکی اتحاد کے زوال کی ابتدا نندی گرام سے ہوئی ۔ سی پی ایم کے وزیر اعلیٰ بدھا دیو بھٹا چاریہ نے اپنے روایتی نظریہ اور طریقہ کار سے انحراف کرتے ہوئے ایک اسپیشل اکانامک زون بنانے کا فیصلہ کیا ۔ یہ اقدام بظاہر ریاست کی ترقی وخوشحالی کے لیے تھا مگر اس کے لیے زمین حاصل کرنا بہت بڑا چیلنج تھا ۔ ٹاٹا کار نانو کا پلانٹ لگوانے کے لیے نندی گرام کا انتخاب کیا گیا اور گاوں والوں سے زمین حاصل کرنے کے لیے مہذب رویہ اختیار کرنے اور سوویت یونین کے لیڈر اسٹالن کی پیروی میں گاوں والوں کو مناسب معاوضہ دے کر خوش کرنے کے بجائے انہیں بزور قوت ان کے اپنے کھیتوں سے بے دخل کرنے کی کوشش کی گئی۔ کانگریس سے بغاوت کر کے وزیر اعلیٰ کا خواب دیکھنے والی ترنمول کانگریس کی رہنما ممتا بنرجی کو اس جبر واستحصال میں ایک بہترین موقع نظر آگیا، وہ نندی گرام کے لوگوں کی خاطر احتجاج کرنے کے لیے میدانِ عمل میں کود گئیں۔ انہوں نے وہی سب کیا جو اشتراکیوں نے کانگریس کے خلاف کر کے اس کو اقتدار سے بے دخل کیا تھا اور کامیاب ہوگئیں۔
اشتراکیوں نے اپنے جائز حقوق کی خاطر لڑنے والے عوام کے خلاف اپنے کارکن چھوڑ دیے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نندی گرام کی آگ پورے صوبے میں پھیل گئی اور سی پی ایم کا چراغ ایسا گلُ ہوا کہ اب وہ ’پہلے رام پھر بام‘ نعرہ لگا رہے ہیں۔ ممتا کو ہٹانے کی خاطر اشتراکیوں نے ڈھکے چھپے انداز میں فسطائیوں کا بھی تعاون کردیا۔ ایک طرف بی جے پی کا دباو اور دوسری جانب اشتراکیوں کی منافقت نے ریاست کے مسلمانوں اور امن پسند ہندووں کو ممتا کے پیچھے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنادیا اور انہوں نے بی جے پی کو ایسی دھول چٹائی کہ اس کو دن میں تارے نظر آنے لگے۔ اس میں شک نہیں کہ ممتا کے حامیوں میں بڑی تعداد میں ہندو بھی شامل تھے لیکن ان کی خاصی تعداد ممتا کے خلاف بھی تھی اس کے برعکس مسلمانوں نے یکمشت ووٹ دے کر وزیر اعلیٰ کو ایک تاریخی کامیابی سے ہمکنار کیا۔ یہ پس منظر اس لیے بیان کیا گیا کیونکہ اب ممتا بنرجی بھی وہی عظیم غلطی کررہی ہیں جو سی پی ایم سے سرزد ہوئی تھی اور بعید نہیں کہ وہ اسی انجام سے دوچار ہو جائیں جو اشتراکیوں کا ہوا تھا۔ وہ غلطی انیس الرحمٰن خان کا بہیمانہ قتل ہے۔
سیاسی جماعتیں عام طور پر اس وقت بڑی بڑی غلطیاں کرتی ہیں جب ان کے اقتدار کو سنگین خطرات لاحق ہو جاتے ہیں لیکن ممتا کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ ممتا نے ایک ایسے وقت میں اپنے پیر پر کلہاڑی چلانے کی حماقت کی ہے کہ جب انہیں اس کی مطلق ضرورت نہیں تھی۔ صوبائی انتخابات میں زبردست کامیابی درج کرانے کے بعد انہیں کولکاتا کے بلدیاتی انتخابات میں غیر معمولی کامیابی ملی ۔ وہاں بی جے پی نے اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بچانے کے لیے سارا زور لگا دیا مگر وہ پانچ سال قبل کے 7 اور 5 ماہ پہلے کے 11 سے اتر کر 3 کونسلرس پر آگئی۔ عام طور پر ایسے میں سنگھ پریوار سیٹ کے بجائے ووٹ کا تناسب بتا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ اس کی حالت بہتر ہوئی ہے لیکن اس بار یہ بھی ممکن نہیں ہو سکا۔ بی جے پی کے ووٹ کا تناسب کمیونسٹ محاذ سے بھی نیچے اتر گیا ۔ٹی ایم سی نے 144 میں 134 حلقوں میں کامیابی حاصل کی جو اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے۔ بی جے پی کے زخموں پر نمک چھڑکنے اور مسلمانوں کو خوش کرنے کےلیے ممتا بنرجی نے فرہاد حکیم کو کولکاتہ کا میئر بنا دیا۔
اس کے بعد مغربی بنگال کے بلدیاتی انتخابات میں ترنمول کانگریس نے ایسی زبردست کامیابی درج کرائی کہ خود انہیں بھی اس کی توقع نہیں رہی ہوگی۔ جملہ ۱۰۸؍ میں سے ۱۰۲؍ میونسپلٹیوں پر قبضہ کر لینا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ بی جے پی اور کانگریس کا اس طرح صفایا ہوا کہ وہ ایک بھی میونسپلٹی میں بورڈ قائم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ دارجلنگ میونسپلٹی میں ہمرو پارٹی نے ترنمول کانگریس کو کراری شکست سے دوچار کر دیا اور طاہر پور میونسپلٹی میں بایاں محاذ محض بورڈ بنانے میں کامیاب رہا لیکن دیگر مقامات پر ترنمول کے سوا کچھ نظر نہیں آیا۔ ترنمول کانگریس نے اس بار کانتی میونسپلٹی میں کامیابی حاصل کرکے قائد حزب اختلاف اور نندی گرام سے بی جے پی کے ممبر اسمبلی شوبھندو ادھیکاری سے بدلہ لے لیا کیونکہ وہ ان کا گڑھ مانا جاتا ہے۔ ممتا بنرجی نے اس شاندارجیت کا کریڈٹ ماں، ماٹی اور مانش (انسان) کو دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا انیس الرحمٰن کسی ماں کا بیٹا نہیں تھا؟ کیا اس انسان کا تعلق اس دھرتی سے نہیں تھا؟ اگر تھا تو اس کے خون کی چھینٹیں ممتا کے دامن پر کیوں نظر آرہی ہیں؟ دنیا الفاظ کے ساتھ کردار کو بھی دیکھتی ہے اور جب دونوں میں تضاد پاتی ہے تو اسے واپس منہ پر دے مارتی ہے۔ ایسا ہی کچھ فی الحال ممتا بنرجی کے ساتھ ہو رہا ہے۔
ناحق کسی کو قتل کرنے کا کوئی جواز نہیں ہوتا لیکن موجودہ جمہوری سیاست میں جن مقاصد کے تحت قتل وغارتگری کو جائز قرار دے دیا گیا ہے اس کی کسوٹی پر انیس الرحمٰن کا قتل پورا نہیں اترتا۔ اس کا کوئی سیاسی جواز سرے سے موجود ہی نہیں تھا لیکن ہر اقتدار کے زوال کی شروعات اسی طرح ہوتی ہے اور اگر ممتا اس کے قاتلوں کو سزا دلانے میں آنا کانی کرتی ہیں تو وزیر اعظم کا خواب بہت دور کی بات ہے وزارت اعلیٰ کی کرسی بھی چھن جائے گی۔ اقتدار کے نشہ میں چور لوگ کبھی اپنے پیش رو کے انجام سے عبرت نہیں پکڑتے۔ کانگریس کے سدھارتھ شنکر رے نے یہ نہیں کیا تو جیوتی باسو کا ستارہ چمکا۔ بدھا دیو بھٹا چاریہ نے وہی غلطی کی تو ممتا بنرجی کو موقع ملا اور اب وہ خود چونکہ اسی تباہی کے راستے پر چل پڑی ہیں اس لیے کس کو موقع ملے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا؟ یہ یقین ہے کہ انیس خان کا خون ناحق ایک دن رنگ لائے گا ۔ بقول امیر مینائی ؎
قریب ہے یارو روز محشر چھپے گا کشتوں کا خون کیوں کر
جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا
اس پس منظر کے بعد اس سوال کا ذہن میں آنا لازمی ہے کہ آخر انیس الرحمٰن خان کون تھا؟ کولکاتہ سے قریب ساردا دکھن گاؤں کا یہ نوجوان وہاں کے سارے باشندوں کی امیدوں کا مرکز تھا کیونکہ وہ ہر مصیبت میں ان کے ساتھ کھڑا رہتا تھا۔ انیس الرحمن کی ماں کا تین سال قبل انتقال ہو گیا تھا۔ اس کے دو بھائیوں میں سے ایک سعودی عرب میں ملازم ہے جب کہ سب بڑا بھائی کولکاتا میں اے سی کی مرمت کا کام کرتا ہے۔ اتفاق سے قتل کی رات وہ اپنے کمرے میں بچوں کے ساتھ سو رہا تھا۔ وہ نہیں جان سکا کہ اس کا چھوٹا بھائی کس طرح خونی بھیڑیوں کا شکار ہو گیا ورنہ اسے بچانے کی خاطر اپنی جان لڑا دیتا۔ بڑے بھائی کے علاوہ دوسرے کمرے میں بھانجی بھی سورہی تھی۔ قاتلوں نے جب اپنے ناپاک ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر نصف شب میں دروازے پر دستک دی تو اس کے بد نصیب والد نے دروازہ کھولا تھا۔
اس منحوس رات میں گاوں کے اندر میلاد کا جلسہ تھا انیس الرحمٰن سمیت سارے مرد اس میں شریک تھے۔ اس رات انیس الرحمٰن کے تعاقب میں صرف پندرہ منٹ بعد وردی میں قاتل اس کے گھر پہنچ گئے۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری مدرسہ کے مدرس کلیم اللہ نے اس اندیشے کا اظہار کیا کہ ممکن ہے کہ انیس کا پیچھا کرتے ہوئے وہ لوگ جلسہ گاہ سے اس کے گھر آئے ہوں۔ دروازہ کھولنے پر جب انیس کے والد نے کہا کہ وہ گھر میں نہیں ہے تو ان لوگوں نے کہا کہ وہ گھر آیا ہے اور اس کو تلاش کرتے ہوئے اوپر والی منزل پر چلے گئے۔ یہ قتل کے منصوبہ بند ہونے کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ کلیم اللہ نے یہ بھی بتایا کہ گاوں کی سیاست اور تنازعات سے اس کا کوئی واسطہ نہیں تھا۔ انیس کے ہم مدرسہ کلیم اللہ کے مطابق وہ اپنے گاوں کی تصویر بدلنا چاہتا تھا۔ وہ کولکاتا اور ہوڑہ کے الوبیڑیا میں این آر سی اور شہری ترمیمی ایکٹ مخالف تحریکوں میں حصہ لیا کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے خلاف ایک دو مقدمات بھی درج ہوئے تھے۔
اپنی مادرِ تعلیم عالیہ یونیورسٹی کو بچانے والی تحریک میں بھی وہ پیش پیش تھا کیونکہ وہیں سے اس نے پانچ سالوں تک ایم بی اے کی تعلیم حاصل کی تھی۔ اس کے بعد وہ کلیانی یونیورسٹی میں کمیونیکشن کی تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ انیس کی پھوپھی حلیمہ کے مطابق انیس بچپن سے ہی تعلیم میں تیز تھا۔ وہ اپنے گاوں اور خاندان کے بچوں کو بھی اعلیٰ تعلیم دلانا چاہتا تھا۔ گاوں کے کسی بچے کا داخلہ کرانا ہو یا پھر کسی کو کتاب کاپی فراہم کرنی ہو تو وہ پیش پیش رہتا تھا۔ گاوں کے لوگوں نے اس سے امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں کہ وہ پورے علاقے کی ترقی کے لیے کام کرے گا۔ پولیس نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ ساردا دکھن پارہ چار پانچ سو گھروں پر مشتمل ایک چھوٹا سا پسماندہ گاوں ہے جس کی 80 فیصد آبادی مسلمان ہے۔ یہاں کے زیادہ تر باشندے کھیتی باڑی کرتے ہیں ۔جب سے نوجوانوں نے ملک کے دیگر شہروں میں کام کرنا شروع کیا ہے گاوں کے اندر کچھ پختہ مکانات نظر آنے لگے ہیں۔
اپنی تعلیم کے علاوہ وہ دیگر فلاح وبہبود کی سرگرمیاں انجام دیا کرتا تھا مثلاً چھ مہینے قبل اس نے اپنے گاوں میں بلڈ ڈونیشن کیمپ منعقد کیا تو ترنمول کانگریس نے اسے رکوادیا تھا۔ اس کے خلاف انیس الرحمن نے پولیس میں شکایت بھی درج کرائی تھی۔ اس سے ممتا کا وہ دعویٰ کھوکھلا ثابت ہوتا ہے کہ جس میں اسے حکمراں جماعت کا حامی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ بھرم کسی اور نے نہیں خود ممتا بنرجی نے پھیلایا کہ ترنمول کانگریس کے انیس کے ساتھ کافی اچھے تعلقات تھے۔ انہوں نے کہا کہ انیس کے ساتھ ہماری اچھی بات چیت تھی۔ الیکشن کے دوران انیس نے ہماری بہت مدد کی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ سیاسی لیڈر اس سے ناراض رہتے تھے کیونکہ وہ کسی کی خوشامد نہیں کرتا تھا۔ وہ مظلومین کی بے لوث مدد کرتا تھا۔ سوشل میڈیا پر انیس خان کا ایک پوسٹ وائرل ہورہا ہے جس میں اس نے لکھا کہ وہ دھمکیوں سے خوف زدہ ہونے والا نہیں ہے۔ وہ لوگوں کی مدد اور یہاں کے عوام کے لیے آواز بلند کرتا رہے گا۔
انیس الرحمٰن نے چونکہ چند ماہ قبل عباس صدیقی کی سیاسی جماعت انڈین سیکولر فرنٹ میں شمولیت اختیار کی تھی اس لیے ترنمول کا اس سے خفا ہونا قابلِ فہم ہے لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ اپنے مخالف کو قتل ہی کر دیا جائے۔ بی جے پی کے رہنما جب ترنمول کانگریس پر یہ الزام لگاتے تھے کہ اس کے غنڈے اپنے مخالفین کا قتل کردیتے ہیں تو ہم یقین کرنے میں تامّل کرتے تھے مگر اب تو یہ خود ہمارے ساتھ ہوا ہے۔ اس پر زیادہ افسوس اس لیے بھی ہے کیونکہ مسلمانوں نے کمل کو نہیں بلکہ ترنمول کے پتوں کو اپنے خون سے سینچا ہے ۔مسلم مجلس مشاورت کے ریاستی جنرل سکریٹری عبدالعزیز اور قمرالدین ملک پر مشتمل وفد نے انیس الرحمٰن کے والد سالم خان سے ملاقات کے بعد کہا کہ ان کے بیٹے کو انصاف دلانے کی لڑائی میں مشاورت ہمیشہ کھڑی رہے گی ۔عبدالعزیز نے واضح کیا کہ انیس الرحمن کا قتل یہ بتاتا ہے کہ حکمراں جماعت کسی بھی ابھرتی ہوئی آواز کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔انہوں نے ریاستی پولیس اور سی آئی ڈی پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان سے انصاف کی توقع نہیں ہے۔ حیدر علی آتش کے مطابق؎
دوستوں سے اس قدر صدمے اٹھائے جان پر
دل سے دشمن کی عداوت کا گلہ جاتا رہا
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ پولیس سیاسی رہنماوں کے دباؤ میں کام کرتی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ مغربی بنگال کے مسلمان ممتا بنرجی کے خلاف مرکزی حکومت کے تحت کام کرنے والی بدنام زمانہ ادارہ سی بی آئی کے ذریعہ تفتیش کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ غیر بی جے پی ریاستوں میں گورنر کا مرکزی حکومت کی کٹھ پتلی ہونا جگ ظاہر ہے اور بی جے پی کی مسلم دشمنی بھی کھلا راز ہے اس کے باوجود بنگال کے گورنر جگدیپ دھنکر نے انیس خان کے قتل کو انتہائی تشویش ناک بتاتے ہوئے کہا ہے کہ اس واقعہ کی وجہ سے نوجوانوں میں غم و غصہ ہے ۔ اصحافیوں کے پوچھنے پر انہوں نے کہا کہ انیس خان کے قتل معاملے کا نوٹس لے کر انہوں نے کئی مختلف نامور شخصیات سے معلومات حاصل کی ہیں۔ اس طرح بنگال میں اس بابت غم کے ماحول کا اعتراف کرنے کے بعد انہوں نے اسے تشویشناک، غصے اور ہمدردی کے لائق بتایا ۔ ایسے میں یہ شعر یاد آتا ہے؎
اے دوست تجھ کو رحم نہ آئے تو کیا کروں
دشمن بھی میرے حال پہ اب آب دیدہ ہے
انیس کے قتل پر احتجاج کرتے ہوئے انڈین سیکولر فرنٹ نے رکن اسمبلی نوشاد صدیقی کی قیادت میں کولکاتا کے سیالدہ ریلوے اسٹیشن سے دھرم تلہ تک جلوس نکالا تو اس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ 2021ء میں تشکیل شدہ آئی ایس ایف کا کولکاتا میں یہ پہلا سیاسی پروگرام تھا۔ جلوس سے خطاب کرتے ہوئے نوشاد صدیقی نے عالیہ یونیورسٹی کے سابق طالب علم وسماجی کارکن انیس خان کا تعارف ایک ابھرتے ہوئے نوجوان کی حیثیت کروایا اور کہا کہ وہ ناانصافیوں کے خلاف جد وجہد کرتا تھا۔
این آر سی اور شہری ترمیمی ایکٹ کے خلاف تحریک میں وہ بنگال کا نمایاں چہرہ تھا۔ وہ ممتا بنرجی کی حکومت اور ترنمول کانگریس کی غنڈہ گردی کے خلاف بھی آواز بلند کرتا تھا۔ صدیقی کے مطابق انیس خان کا قتل شاہد ہے کہ اس کے پس پشت سینئر پولیس اہلکار اور سیاست داں ملوث ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انیس خان کے والد نے کہا کہ ان کو بنگال کی پولیس پر بھروسہ نہیں ہے ۔
سڑکوں اور تعلیم گاہوں میں جاری احتجاج نے وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کو خود سامنے آ کر نقصان کی بھر پائی کے لیے مجبور کردیا۔ ابتدا میں انہوں نے انیس خان کے والد کو اپنے دفتر میں طلب کیا مگر اس خوددار باپ نے ملاقات سے انکار کر دیا اور کہا کہ اگر ممتا ضروری سمجھتی ہیں تو مجھ سے ملاقات کے لیے آسکتی ہیں۔ اس رسوائی کے بعد ممتا بنرجی نے غیرجانبدارانہ جانچ کی یقین دہانی کراتے ہوئے اعلیٰ سطحی ایس آئی ٹی تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے کمیٹی کو پندرہ دنوں میں تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی اور انکوائری کمیٹی میں ڈی جی، چیف سکریٹری، ہوم سکریٹری اور سی آئی ڈی کے افسروں کو شامل کیا۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ’’میں جان واپس نہیں دلا سکتی لیکن میرا یقین کرو کہ میں جو کچھ بھی کر سکتی ہوں وہ ضرور کروں گی۔ حکومت غیر جانبدارانہ تحقیقات کرے گی اور انیس الرحمن کے ساتھ انصاف ہو گا۔ یہ ایک انتہائی افسوسناک واقعہ ہے اس میں جو بھی قصوروار پایا جائے گا اس کو سزا مل کر رہے گی۔ اس کے لیے کوئی معافی نہیں ہے‘‘۔ کاش کے اس وعدے پر عمل در آمد ہو۔
ممتا بنرجی کے اس بیان پر یقین کرنا اس لیے مشکل ہے کیوں ان کے تحت کام کرنے والی پولیس کا موقف مسلسل بدلتا جا رہا ہے، اس نے انیس الرحمٰن کے کردار کشی کی بہت کوشش کی ہے۔ پہلے کہا گیا کہ چار افراد میں سے ایک شخص پولس آفیسر اور تین سیوک پولیس کے لباس میں جبرا داخل ہوئے اور انیس خان کو تیسری منزل کی چھت سے نیچے دھکیل دیا۔ ان چاروں نے خود کو پولیس کے طور پر متعارف کرایا تھا۔ گویا کہ وہ پولیس والے نہیں تھے لیکن اب یہ حقیقت کھلی کہ وہ پولیس والے ہی تھے ۔انیس خان کی موت کے تیس گھنٹوں کے بعد فارنسک ٹیم کا گھر پہنچنا حیرت ناک ہے۔ اس سازش میں پولیس آفیسر نے انیس کے والد سالم خان کو باتوں میں مصروف رکھا، اس دوران تین اہلکاروں نے اوپر جا کر انیس الرحمن کو گھر کی تیسری منزل سے نیچے دھکیل دیا۔سالم خان کے مطابق انہوں نے اچانک اوپر سے نیچے گرنے کی زوردار آواز سنی تو دیکھا کہ وہ انیس تھا۔ اس دوران اوپر جانے والے تین افراد نے پولیس آفیسر سے کہا کہ ’’سر! کام ہو گیا ہے‘‘ اور اس کے بعد یہ تینوں گھر سے نکل گئے۔ یہ مختصر سا جملہ سارے راز فاش کرنے کے لیے کافی ہے۔ بقول حفیظ بنارسی؎
دشمنوں کی جفا کا خوف نہیں
دوستوں کی وفا سے ڈرتے ہیں
ممتا بنرجی کے دس سالہ دور اقتدار میں پہلی مرتبہ دیہی مسلمانوں کے احتجاج کی ایک وجہ یہ ہے کہ پہلے تو پولیس نے اپنی موجودگی کو مشکوک بنایا اس کے بعد اس سانحہ کو خود کشی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہاں تک کہا گیا کہ موت کے وقت انیس الرحمن نے شراب پی رکھی تھی۔ اس کے برخلاف سالم خان کا کہنا ہے کہ میرے بیٹے نے کبھی شراب تو کیا تمباکو کا استعمال بھی نہیں کیا۔ یہ معاملہ جب بگڑ گیا تو کلکتہ ہائی کورٹ نے ازخود نوٹس لے کر ریاستی حکومت کو انیس خان قتل معاملے سے متعلق تمام تحقیقاتی دستاویزات پیش کرنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد کاشی ناتھ بیرا نامی ہوم گارڈ اور پریتم بھٹا چاریہ نام کے پولیس سیوک کو گرفتار کیا گیا۔ اس معاملے میں کلکتہ ہائی کورٹ نے دوسری مرتبہ پوسٹ مارٹم کے لیے انیس کی لاش کو اہل خانہ کی موجودگی میں قبر سے نکال کر پوسٹ مارٹم کرنے اور پورے عمل کی ویڈیو گرافی کرانے کا حکم دیا تاکہ مجرموں کو قرار واقعی سزا دلائی جاسکے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ اب ممتا بنرجی کے گلے کی ہڈی بن گیا ہے اور مسلمانوں کے درمیان ممتا کی ساکھ کو تباہ کر رہا ہے۔ ممتا بنرجی کو معلوم ہونا چاہیے کہ مسلمان جس کے خلاف ہو جاتے ہیں اس کے دن لد جاتے ہیں اور مسلم مخالفین پر آخر کار یہ شعر صادق آ کر رہتا ہے؎
عجب حریف تھا میرے ہی ساتھ ڈوب گیا
مرے سفینے کو غرقاب دیکھنے کے لیے
(ڈاکٹر سلیم خان ماحولیاتی سائنس میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***

 

***

 بلا قصور کسی کو قتل کرنے کا ویسے بھی کوئی جواز نہیں ہوتا لیکن موجودہ جمہوری سیاست میں جن مقاصد کے تحت قتل و غارتگری کو جائز قرار دے دیا گیا ہے اس کی کسوٹی پر انیس الرحمٰن کا قتل پورا نہیں اترتا۔ اس کا کوئی سیاسی جواز سرے سے موجود ہی نہیں تھا لیکن ہر اقتدار کے زوال کی شروعات اسی طرح ہوتی ہے اور اگر ممتا ان قاتلوں کو سزا دلانے میں آنا کانی کرتی ہیں تو وزیر اعظم کا خواب بہت دور کی بات ہے وزارت اعلیٰ کی کرسی بھی چھن جائے گی ۔ اقتدار کے نشہ میں چور لوگ کبھی اپنے پیش رو کے انجام سے عبرت نہیں پکڑتے ۔ کانگریس کے سدھارتھ شنکر رے نے یہ نہیں کیا تو جیوتی باسو کا ستارہ چمکا ۔ بدھو دیو بھٹا چاریہ نے وہی غلطی کی تو ممتا بنرجی کو موقع ملا اور اب وہ خود چونکہ اسی تباہی کے راستے پر چل پڑی ہیں اس لیے کس کو موقع ملے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا؟ لیکن اس میں شک نہیں کہ انیس خان کا خون ناحق رنگ لائے گا ۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  13 تا 19 مارچ  2022