انٹرنیٹ بنیادی حق نہیں، جموں و کشمیر انتظامیہ نے عدالت میں دیا بیان

سرینگر، اپریل 30: دی انڈین ایکسپریس کے مطابق جموں و کشمیر انتظامیہ نے بدھ کے روز وادی میں 4 جی انٹرنیٹ خدمات پر پابندی عائد کرنے کے اپنے فیصلے کو جائز قرار دیتے ہوئے کہا کہ انٹرنیٹ تک رسائی کا حق بنیادی حق نہیں ہے۔ اس نے یہ بیان کورونا وائرس کے بحران کے پیش نظر مرکزی علاقے میں 4 جی انٹرنیٹ خدمات کی بحالی کے لیے ہدایات طلب کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ میں داخل ایک ایک درخواست کا جواب دیتے ہوئے دیا ہے۔

حکومت نے اپنے حلف نامے میں کہا ہے کہ انٹرنیٹ کا استعمال پاکستان میں دہشت گردی کرنے والے ’’غلط پراکسی جنگوں کی حمایت‘‘ کے لیے کر رہے ہیں۔ اس نے اس پابندی کو مزید درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’انٹرنیٹ کے ذریعے آزادیِ اظہار اور اظہار رائے کے حق کو استعمال کرنے اور کسی بھی تجارت یا کاروبار کو جاری رکھنے کے لیے رسائی کی نوعیت اور وسعت‘‘ کو ریاست کے تحفظ کے مفاد میں کم کیا جاسکتا ہے۔

حکومت نے کہا کہ اب، جب کہ سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندیوں کو کم کردیا گیا ہے، اگر رفتار کو 2G تک محدود نہیں رکھا گیا، تو تیز رفتار انٹرنیٹ کسی بھی جعلی خبر یا افواہ کے پھیلانے کا ذریعہ بنے گا۔ اس نے مزید کہا کہ ’’(بھاری ڈیٹا فائلوں (آڈیو/ویڈیو فائلوں) کی منتقلی عام ہو جائے گی، جسے دہشت گرد تنظیمیں بھی لوگوں کو بھڑکانے کے لیے اور حملوں کی منصوبہ بندی میں بھی استعمال کر سکتی ہیں۔‘‘

مارچ میں جموں و کشمیر انتظامیہ نے دفعہ 370 کے خاتمے کے لگ بھگ سات ماہ بعد سوشل میڈیا پر پابندی ختم کی تھی۔ اس سے پہلے انتظامیہ نے 2 جی انٹرنیٹ کے استعمال کی اجازت دے دی تھی اور رسائی صرف وائٹ لسٹ شدہ ویب سائٹس تک دی گئی تھی۔

محکمۂ داخلہ میں پرنسپل سکریٹری شیلین کبرا کی جانب سے دائر حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ انٹرنیٹ کی رفتار پر پابندی عائد کرنے کی ضرورت ہے۔

انتظامیہ نے یہ بھی نشان دہی کی کہ واٹس ایپ اور فیس بک جیسی ڈیٹا سروسز اور ایپلی کیشنز کے غلط استعمال سے بڑے پیمانے پر تشدد، عوامی نظم و ضبط کو خراب کرنے اور ’’حقیقت میں ملک کی سلامتی کو خطرہ‘‘ پیدا کرنے کا امکان ہے۔

اس میں مزید کہا گیا کہ وائس اوور آئی پی یا خفیہ پیغام رسانی جیسی خدمات بھی جو لائن آف کنٹرول کے ذریعے دراندازی کے لیے استعمال ہوتی ہیں، تیز رفتار انٹرنیٹ پر ہی انحصار کرتی ہیں۔