انفارمیشن ٹیکنالوجی۔آئی ، ایف ، آئی مائیکرو چپ

شفیق احمد ابن عبداللطیف آئمی

 

ٹیکنالوجی کی دنیا میں ہر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ نئی نئی ایجادات ہوتی جارہی ہیں۔ تقریباً 72 سال پہلے دنیا کا پہلا کمپیوٹر جب ایجاد ہوا تو وہ ایک کمرے کے برابر تھا ۔ ٹیکنالوجی ماہرین کمپیوٹر کی جسامت چھوٹی کرنے میں تب سے مسلسل مصروف ہیں اور انہیں کامیابی بھی ملی ہے۔ ہر گزرتے وقت کے ساتھ کمپیوٹر کی ’’چِپ‘‘ چھوٹی ہوتی گئی اور آج تقریباً 72 سال بعد ماہرین نے اتنی چھوٹی ’’چپ‘‘ ایجاد کرلی ہے کہ کمپیوٹر نے موبائل کی شکل اختیار کرلی ہے اور ایک بڑے کمرے سے لوگوں کی جیبوں میں آگیا۔ ٹیکنالوجی ماہرین ابھی بھی چھوٹی سے چھوٹی ’’چِپ‘‘ بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور اِس میں ’’آئی بی ایم‘‘ کمپنی نے ایک نئی ایجاد کی ہے۔ یہ ایجاد ’’آئی ایف آئی‘‘(الیکٹرانک فوٹونک انٹیگریٹیڈ) مائیکرو چِپ ہے۔
سب سے تیز رفتار مائیکرو چِپ
’’آئی بی ایم‘‘ کمپنی نے دنیا کا سب سے پہلا تجارتی کمپیوٹر متعارف کرایا تھا اور اب اِس کمپنی نے دنیا کی پہلی ایسی ’’مائیکرو چِپ‘‘ تیار کرلی ہے جس میں برقی اور بصری آلات کو ایک ہی جگہ ’’90 نینو میٹر سیمی کنڈکٹر فیبری کیشن پروسس‘‘ کے ذریعے سمو دیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسا سنگ میل ہے جو ٹیکنالوجی کی دنیا میں انقلاب لاسکتا ہے۔ یہ ’’مائیکرو چِپ‘‘ کمپیوٹر سے کمپیوٹر اور چِپ سے چِپ ہونے والی کیمونی کیشن کی رفتار کو ہزاروں گنا بڑھا سکتی ہے۔ اِس وقت یہ رفتار ’’گیگا بائٹس فی سکینڈ‘‘ میں ناپی جاتی ہے جبکہ نئی ’’مائیکرو چِپ‘‘ میں یہ رفتار پہلے ہی ’’ٹیرا بائٹس فی سکینڈ‘‘ کو چھو چکی ہے اور اِسے ’’پیٹا بائٹس‘‘ اور ’’ایکزا بائٹس‘‘ فی سیکنڈ جیسی عظیم رفتار تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ (تقریباً ایک ہزار ’’بٹ‘‘ کا ایک ’’بائٹس‘‘ ہوتا ہے، کم و بیش ایک ہزار ’’بائٹس‘‘ کا ایک ’’میگا بائٹس‘‘ MB ہوتا ہے ۔ کم و بیش ایک ہزار ’’میگا بائٹس‘‘ کا ایک ’’گیگا بائٹس‘‘ GB ہوتا ہے ۔ اِسی طرح کم وبیش ایک ہزار ’’گیگا بائٹس‘‘ کا ایک ’’ٹیرا بائٹس‘‘ TB ہوتا ہے اور کم و بیش ایک ہزار ’’ٹیرا بائٹس‘‘ کا ایک ’’پیٹا بائٹس‘‘ PB ہوتا ہے اور ایک ہزار ’’پیٹا بائٹس‘‘ کا ایک ’’ایکزا بائٹس‘‘ AB ہوتا ہے)
’’ڈیٹا ترسیل‘‘ کے لیے روشنی کا استعمال
اِس ’’مائیکرو چِپ‘‘ کی تیاری میں تقریباً ایک دہائی کا عرصہ لگا اور اِس ’’مائیکرو چِپ‘‘ کا پہلا پروٹو ٹائپ 2010 میں بنایا گیا تھا۔ اِس سارے تحقیقی عمل کے نتیجے میں ’’آئی بی ایم‘‘ کے ماہرین ریسرچ ایک نئی ٹیکنالوجی ’’سلیکان نینو فوٹونکس‘‘ Silicon Nanophotonics کو بنانے میں کامیاب ہوگئے جس میں ’’ڈیٹا کی ترسیل‘‘ کے لیے بجلی کے بجائے روشنی استعمال کی جاتی ہے۔ 90 نینو میٹر چپ فیبری کیشن پروسس پر تیاری سے ’’آئی بی ایم‘‘ نے ثابت کیا کہ وہ اِن ’’جدید مائیکرو چِپس‘‘ کو تجارتی پیمانے پر بنا کر اگلے چند سالوں میں مارکیٹ میں فروخت کے لیے پیش کرسکتا ہے۔ یہ خبر ’’سوپر کمپیوٹنگ‘‘ اور ’’کلاؤڈ کمپیوٹنگ‘‘ کے میدان میں کام کرنے والوں کے لیے باعث مسرت ہے کیونکہ اِن دونوں میں ہی میں ’’سرور ٹو سرور‘‘ اور ’’چِپ ٹو چِپ‘‘ ڈیٹا ٹرانسفر کرنے کی محدود رفتار سب سے بڑا درد سر ہے۔ اِس ’’مائیکرو چِپ‘‘ کی تیاری میں ’’آئی بی ایم‘‘ نے دو اہم سنگ میل عبور کیے ہیں۔ پہلا یہ کہ آئی بی ایم نے ’’مونو لیتھک سلیکان چِپ‘‘ میں برقی اجزاء (ٹرانسسٹر ، کیپیسٹر ، رزسٹر) اور بصری اجزاء (موڈیولیٹر ، فوٹو ڈیٹیکٹر ، ویوو گائیڈ) نصب کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔ ’’مونو لیتھک چِپ‘‘ کا مطلب ہے کہ اِس میں برقی اور بصری اجزاء بیک وقت بنائے گئے ہیں اور یہ دونوں الگ الگ حصوں کے بجائے ایک ہی جگہ پر ایک دوسرے کے ساتھ ضم ہیں۔ دوسرا سنگ میل جو ’’آئی بی ایم‘‘ نے عبور کیا وہ اِس ’’مائیکرو چِپ‘‘ کو اُس ’’فیبری کیشن پروسس‘‘ پر تیار کرنا جس پر ps3,*box360 وغیرہ کی ’’چِپس‘‘ تیار کی جاتی تھیں یعنی 90 نینو میٹر ایس او آئی (سلیکان آن انسولیٹر) پروسس۔ یہ شاید سب سے مشکل کام تھا کیونکہ تجربہ گاہ میں نئی قسم کی ’’مائیکرو چِپ‘‘ تیار کرنا ایک الگ بات تھی اور اِسے پہلے سے زیر استعمال ایک تجارتی طور پر کامیاب پروسس کی طرح بنانا ایک مختلف بات ہے کیونکہ تجارتی طور پر زیر استعمال 90 نینو میٹر پروسس صرف برقی اجزاء تیار کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔
کمپیوٹر سسٹم اور نیٹ ورک رفتار میں کئی گنا اضافہ
اِس ’’مائیکرو چِپ‘‘ میں بصری موڈیولیٹرز اور جرمینیئم فوٹو ڈیٹیکٹر نصب جو 25 ’’گیگا بائٹس فی سکینڈ‘‘ کی زبردست رفتار سے ’’ڈیٹا‘‘ بھیج اور وصول کرسکتے ہیں۔ 5*5 ملی میٹر کی ڈائی پر محققین ایسے 50 ٹرانسیورز نصب کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ اگر ایسی دو ’’ڈائیوں‘‘ کو ساتھ جوڑ دیا جائے تو دونوں کے درمیان 1.2 ’’ٹیرا بائٹس فی سکینڈ‘‘ کی ’’بینڈ وڈتھ‘‘ ہوگی۔ ’’آئی بی ایم‘‘ محققین کی دس سال سے زائد عرصے کی محنت آخرکار رنگ لے آئی ہے اور اب اُن کے پاس ایک ایسی سستی ’’مائیکروچِپ‘‘ موجود ہے جو ’’کمپیوٹر سسٹم‘‘ کی رفتار کو یکایک کئی گنا بڑھا سکتی ہے۔ ’’اسٹینڈرڈ فیبری کیشن پروسس‘‘ کی تیاری کی وجہ سے اُمید کی جارہی ہے کہ اِس ’’مائیکروچِپ‘‘ کی قیمت چند ڈالرز سے زیادہ نہیں ہوگی۔ اِسی لیے اِس کے استعمال سے کمپیوٹر اور دوسرے کیمونی کیشن سسٹم کی قیمت پر کچھ خاص فرق نہیں پڑے گا لیکن یہ فائدہ ضرور ہوگا کہ ’’ڈیٹا ترسیل‘‘ کرنے کی رفتا کئی گنا بڑھ جائے گی۔ خاص طور پر ’’سوپر کمپیوٹر‘‘ اور ’’کلاؤز کمپیوٹر‘‘ کے مختلف ’’نوڈز‘‘ کے درمیان ہونے والی کمیونی کیشن جو اِس وقت ’’گیگا بائٹس فی سیکنڈ‘‘ ہوتی ہے وہ انتہائی کم قیمت میں ’’ٹیرا بائٹس فی سیکنڈ‘‘ یا ’’پیٹا بائٹس فی سیکنڈ‘‘ کی رفتار تک لے جائی جا سکتی ہے۔ محققین کے مطابق نظریاتی طور پر یہ ’’مائیکرو چِپس‘‘ مستقبل کے کمپیوٹر سی پی یو اور ’’سسٹم آن چِپ‘‘ SoC میں استعمال کی جاسکیں گی۔ مستقبل کے ’’ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر‘‘ اور ’’لیپ ٹاپ‘‘ میں ’’سی پی یو، ریم اور جی پی یو‘‘ کے درمیان ہونے والی کمیونی کیشن اِسی ’’مائیکرو چِپ‘‘ کے ذریعے ہوسکتی ہے۔ اگر اِس ’’مائیکرو چِپ‘‘ کا استعمال ہم ’’نیٹ ورک‘‘ میں کریں گے تو ہمارے کمپیوٹر کو براہ راست ’’انٹرنیٹ سروس پراؤڈر‘‘ کے ’’فائبر آپٹک نیٹ ورک‘‘ سے منسلک کرکے ہم ’’ٹیرا بائٹس فی سیکنڈ‘‘ جیسی زبردست رفتار حاصل کر سکتے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ ’’مائیکرو چِپ‘‘ ٹیکنالوجی کی دنیا کو بہت ہی ’’تیز رفتار‘‘ بنا دے گی۔
***

اگر اِس ’’مائیکرو چِپ‘‘ کا استعمال ہم ’’نیٹ ورک‘‘ میں کریں گے تو ہمارے کمپیوٹر کو براہ راست ’’انٹرنیٹ سروس پراؤڈر‘‘ کے ’’فائبر آپٹک نیٹ ورک‘‘ سے منسلک کرکے ہم ’’ٹیرا بائٹس فی سیکنڈ‘‘ جیسی زبردست رفتار حاصل کر سکتے ہیں۔
غرض یہ ’’مائیکرو چِپ‘‘ ٹیکنالوجی کی دنیا کو بہت ہی ’’تیز رفتار‘‘ بنا دے گی۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 17 جنوری تا 23 جنوری 2021