انفارمیشن ٹکنالوجی۔قسط۔9

گوگل کی معلومات :’’ونڈوز‘‘ اور ’’لی نیکس‘‘ میں فرق

شفیق احمد آئمی، مالیگاؤں

پچھلی قسط میں ہم نے آپ کی خدمت میں ’’گوگل آپریٹنگ سسٹم‘‘ کے بارے معلومات پیش کیں تھیں اور ’’موبائل آپریٹنگ سسٹم، گوگل اینڈرائیڈ آپریٹنگ سسٹم اور اینڈرائیڈ آپریٹنگ سسٹم کی شروعات کے بارے میں بتایا تھا۔ اُس قسط میں معلومات مکمل نہیں ہوسکی تھیں اِس لئے باقی اِس قسط میں لیکر حاضرِ خدمت ہوئے ہیں۔اِس وقت دنیا میں جتنے بھی ’’اسمارٹ موبائل فون‘‘ استعمال ہورہے ہیں اُن میں سے زیادہ تر میں ’’گوگل اینڈرائیڈ آپریٹنگ سسٹم‘‘ استعمال ہوتا ہے جو کمپیوٹر آپریٹنگ سسٹم کی طرح ہی ہوتا ہے۔ زیادہ تر کمپیوٹر میں ’’ونڈوز آپریٹنگ سسٹم‘‘ استعمال ہوتا ہے جبکہ گوگل نے ’’ونڈوز‘‘ کے مقابلے میں اپنا آپریٹنگ سسٹم ’’لی نیکس‘‘ کو بازار میں متعارف کرایا تھا لیکن وہ کمپیوٹر آپریٹنگ سسٹم کے طور پر کامیاب نہیں ہوسکا۔ اِس لئے گوگل نے موبائل آپریٹینگ سسٹم میں ’’لی نیکس‘‘ کا ہی استعمال کیا ہے۔ ’’ونڈوز‘‘ کی خرابی یہ ہے کہ اُس میں وائرس بہت زیادہ گھستے ہیں اور ’’ونڈوز آپریٹنگ سسٹم‘‘ چلانے والے اگر ’’انٹرنیٹ‘‘ بھی چلاتے ہیں تو اُنہیں ’’اینٹی وائرس‘‘ ضرور رکھنا پڑتا ہے کیونکہ ’’ونڈوز آپریٹنگ سسٹم‘‘ انٹرنیٹ سے آنے والے وائرس کو روکنے کی طاقت نہیں رکھتا ہے۔ ہاں اگر آپ ’’انٹر نیٹ‘‘ نہیں چلاتے ہیں اور اپنے کمپیوٹر کو صرف گھریلو استعمال کے لئے رکھتے ہیں تو اُس میں کوئی وائرس نہیں آئے گا لیکن ایک خطرہ تب بھی بنا رہے گا۔ وہ خطرہ یہ ہے کہ اگر آپ کے ’’پین ڈرائیو‘‘ یا ’’یو ایس بی کارڈ‘‘ میں وائرس ہے تو ’’ونڈوز آپریٹنگ سسٹم‘‘ اُس وائرس کو نہیں روک پائے گا اور جیسے ہی آپ اُسے اپنے کمپیوٹر سے کنکٹ کریں گے تو وہ وائرس آپ کے پورے ’’آپریٹنگ سسٹم‘‘ میں گھس جائے اور اُسے ’’کرپٹ‘‘ کردے گا۔ جبکہ گوگل کا ’’لی نیکس آپریٹنگ سسٹم‘‘ ایسا ہے کہ اُس کی دفاعی قوت اتنی زیادہ ہے کہ اُس میں وائرس گھس ہی نہیں سکتا ہے، چاہے آپ انٹر نیٹ چلائیں یا نہ چلائیں۔
گوگل اینڈرائیڈ سسٹم کی مقبولیت
اِس وقت پوری دنیا میں سب سے زیادہ مقبول ’’موبائل آپریٹنگ سسٹم‘‘ گوگل اینڈرائیڈ سسٹم ہے۔ یہ ’’آپریٹنگ سسٹم‘‘ لی نیکس کی بنیاد پر بنایا گیا ہے جس کا سورس بھی گوگل نے جاری کررکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِس وقت ’’گوگل اینڈرائیڈ آپریٹنگ سسٹم‘‘ دنیا بھر میں موبائل فونز بنانے والی کمپنیوں اور ڈیویلپرز کا پسندیدہ تر ’’آپریٹنگ سسٹم‘‘ ہے۔ اِس کی مقبولیت کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ’’گوگل پلے‘‘ Google Play پر جون 2012 ؁ء تک چھ لاکھ سے زائد ’’ایپلی کیشنز‘‘ ڈاؤن لوڈنگ کے لئے موجود تھے اور اگست 2012 ؁ء تک صرف دو مہینے میں 20 ارب سے زیادہ مرتبہ مختلف ایپلی کیشنز ’’گوگل پلے‘‘ سے ڈاؤن لوڈ کی جاچکی تھیں۔ سال 2012 ؁ء کی پہلی سہ ماہی میں گوگل ’’اینڈرائیڈ اسمارٹ فون مارکیٹ‘‘ میں 59% اُنسٹھ فیصد حصے کا مالک تھا جبکہ اِسی سال کی دوسری سہ ماہی میں دنیا بھر میں 400 ملین ڈیوئسس ’’اینڈرائیڈ‘‘ پر چل رہی تھیں اور اُن میں روزآنہ ایک ملین مزید ڈیوائسس کا اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ اِس کے بعد کے آٹھ سالوں میں گوگل اینڈرائیڈ سسٹم نے اتنی مقبولیت حاصل کی کہ آج دنیا کے لگ بھگ 95% پچانوے فیصد لوگ اسی کا استعمال کررہے ہیں۔
گوگل اینڈرائیڈ ورژنز
گوگل نے اب تک ’’اینڈرائیڈ‘‘ کے کئی ’’ورژنز‘‘ جاری کئے ہیں۔ اس کا ’’پہلا ورژن‘‘ ستمبر 2008 ؁ء میں جاری کیا گیا تھا اور اُس پر مبنی پہلا موبائل فون ’’ایچ ٹی سی ڈریم‘‘ HTC Dream تھا۔ ابتدائی ورژن ہونے کے باوجود ’’اینڈرائیڈ‘‘ کا یہ ’’ورژن‘‘ اُس وقت کے دستیاب دوسرے مشہور ’’موبائل آپریٹنگ سسٹم‘‘ کے مقابلے میں کہیں بہتر تھا۔ اِس کے بعد ’’کیک اپ، ڈونٹ، ای کلئیر، فرویو، جنجر بریڈ، ہنی کومب، آئس کریم سینڈوچ اور جیلی بینز‘‘ نامی ’’ورژن‘‘ جاری کئے گئے۔ ’’جیلی بینز‘‘ کو 9 جولائی 2012 ؁ء میں جاری کیا گیا تھا اور ’’سیمسنگ نیکسس‘‘ وہ پہلا موبائل فون تھا جو ’’جیلی بینز‘‘ کا حامل تھا۔ گوگل اینڈرائیڈ کا ’’جنجر ورژن‘‘ بھی کافی مقبول ہوا اور کافی دنوں تک چلا۔ اِس کے بعد ’’آئس کریم سینڈوچ‘‘ بھی بہت مقبول ہوا۔ اس کے بعد تو بہت سارے نئے نئے ورژن مارکیٹ میں آئے۔
گوگل اینڈرائیڈ ایپلی کیشنز
’’اینڈرائیڈ‘‘ پر چلائی جانے والی ’’ایپلی کیشنز‘‘ عام طور سے ’’جاوا‘‘ میں لکھی جاتی ہیں جنہیں ’’اینڈرائیڈ سافٹ وئیر ڈیویلپمنٹ کٹ‘‘ کی مدد سے تیار کیا جاتا ہے لیکن دیگر دستیاب ’’ٹولز‘‘ اور ’’ڈیویلپنٹ کٹس‘‘ کی مدد سے پروگرامنگ جاوا کے بجائے ’’سی، سی پلس پلس‘‘ میں بھی کی جاسکتی ہے۔ اِس کے علاوہ ’’ایپ انوینٹر فار اینڈرائیڈ‘‘ کی مدد سے بھی ’’ایپلی کیشنز‘‘ بنائی جاسکتی ہیں۔ ’’ایپ انوینٹر‘‘ www.appinventor.mit.edu ایک ’’آن لائن ایپلی کیشن‘‘ ہے جسے استعمال کرنے کے لئے پروگرامنگ سے واقفیت ضروری نہیں ہے۔ حالانکہ ’’گوگل اینڈرائیڈ آپریٹنگ سسٹم‘‘ کو بنیادی طور پر ’’موبائل فونز‘‘ اور ’’ٹیبلیٹس‘‘ کے لئے تیار کیا گیا ہے لیکن اس کے ’’اوپن سورس‘‘ ہونے کی وجہ سے اِسے کئی دوسرے مقاصد کے لئے بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ ’’گوگل ٹی وی‘‘ Google TV میں بھی ’’اینڈرائیڈ‘‘ کا ہی تبدیل شدہ ’’ورژن‘‘ استعمال ہورہا ہے جسے ’’انٹل‘‘ کے x86 پروسیسرز کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ بنیادی طور پر ’’اینڈرائیڈ‘‘ ARM آرکیٹیکچرر کے لئے تیار کیا گیا تھا لیکن اب اسے x86 اور MIPS آرکیٹکچر پت بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ لیپ ٹاپس، کمپیوٹرز،اسمارٹ بکس، ای بک ریڈر جیسے آلات بھی اب گوگل اینڈرائیڈ پر چلائے جارہے ہیں اور وہ دن دور نہیں کہ جب فریج، اے سی، گھڑیاں، گاڑیاں، کیمرے، گیم کنسولز وغیرہ بھی عام طور سے گوگل اینڈرائیڈ پر چلتے نظر آئیں گے۔

اِس وقت پوری دنیا میں سب سے زیادہ مقبول ’’موبائل آپریٹنگ سسٹم‘‘ گوگل اینڈرائیڈ سسٹم ہے۔ یہ ’’آپریٹنگ سسٹم‘‘ لی نیکس کی بنیاد پر بنایا گیا ہے جس کا سورس بھی گوگل نے جاری کررکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِس وقت ’’گوگل اینڈرائیڈ آپریٹنگ سسٹم‘‘ دنیا بھر میں موبائل فونز بنانے والی کمپنیوں اور ڈیویلپرز کا پسندیدہ تر ’’آپریٹنگ سسٹم‘‘ ہے۔