انشائیہ: منھ چھپا کے جیو

محمد اسد اللہ، ناگپور

 

مشہور شاعر ساحر لدھیانوی نے اپنے ایک فلمی نغمے میں زندگی گزارنے کے چند زرین اصول بتائے تھے ان میں سے ایک یہ تھا:
نہ منھ چھپا کے جیو اور نہ سر جھکا کے جیو!
ان دنوں وبائے کورونا اور لاک ڈاؤن میں وہ سارے طریقے اوندھے پڑ گئے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ مصیبت آئی ہی اسی لیے ہے کہ دنیا بھر میں انسان بہت زیادہ سر اٹھا کے چلنے لگے تھے۔ خدا کے آگے سر کشی کا یہ چلن ترقی یافتہ ممالک میں زیادہ پنپ رہا تھا چنانچہ اس بلائے ناگہانی نے اپنے اس نا مبارک سفر کی ابتدا بھی وہیں سے کی۔ بہر حال جو بھی ہو اس وبا کے آنے سے پہلے زندگی کا نعرہ تھا کچھ کرو، یہ کرو، وہ کرو۔ اب دفتروں اور دکانوں پر تالے پڑے ہیں سارے کام کاج ٹھپ ہیں تو زندگی ’’کچھ نہ کرو ‘‘ یعنی ’’کرونا ‘‘ سے عبارت ہو گئی ہے۔ گویا ایک مصیبت ہمارے سر پر کھڑی قہقہے لگار ہی ہے کہ تم ہی تو کہا کرتے تھے کارِ جہاں دراز ہے، بڑے کار آمد بنتے تھے، سر اٹھانے کی فرصت نہ تھی۔ اب کر ونا کام! وبا نے سب کو نکما کر دیا۔ سمجھ میں آ گیا کہ غالبِ خستہ کے بغیر کون کون سے کام بند ہیں۔
اس وبا نے جہاں سارے کام چھوڑ کر ’’اوپر والے‘‘ کی طرف دیکھنے پر مجبور کر دیا ہے وہیں یہ بات بہت اچھی طرح سمجھا دی ہے کہ ہم نے اپنی زندگی میں ٹھونس ٹھونس کر فضولیات بھر رکھی تھیں۔ کتنے کام تھے جو قطعی ضروری نہ تھے لیکن ہم نے انہیں فرضِ عین قرار دیا تھا۔ دلہن اپنے میکے سے اور آدمی اس دنیا سے اس وقت تک رخصت نہیں ہو سکتا تھا جب تک سارا شہر جمع نہ ہو جائے۔ اب ان دونوں کاموں کے لیے دس سے پچاس افراد سے زیادہ کی بھیڑ لگانے کی اجازت نہیں ہے۔ پہلے آدمی آدمی سے ملتا تب ہی کاروبارِ حیات چلتا تھا اب یہ ملنا جلنا موقوف ہو گیا ہے۔ لاک ڈاؤن نے سب کو ایک ’’وبائی مراقبے‘‘ میں بٹھا دیا تو نبضِ حیات رک نہیں گئی۔ زندگی ماسک لگائے ہوئے ایک نئے چہرے کے ساتھ نمودار ہو گئی۔ زندگی کے اس انقلاب کی کئی توجیہات بیان کی گئی ہیں ان میں سب سے زیادہ پاور فل توجیہ یہ ہے کہ یہ قہرِ الٰہی ہے۔ سب کے منھ پر ماسک چڑھے ہیں گویا اپنے کرتوت کے سبب انسان کسی کو منھ دکھانے کے لائق نہیں رہا۔ ہمارے لیے تو یہ اس لیے بھی مفید ثابت ہوا کہ اسے پہن کر ہم قرض داروں کے سامنے سے دندناتے ہوئے گزر جاتے ہیں کیا مجال جو کوئی پہچان لے۔ لاک ڈاؤن میں یوں بھی کئی لوگوں کی ادائیگی رک گئی تھی، وہ بھی اس قابل نہ رہے کہ ہمارے گھر آ کر وصولی کے لیے دروازہ کھٹکھٹائیں۔ ہمیں بھی لگتا ہے ہے کہ ہم کورونا وائرس سے نہیں ان قرضداروں سے منھ چھپا کے جیے جار ہے ہیں۔
ایک دن خیال آیا کہ یہ کورونا وائرس بھی کیا کوئی سود خوار مہاجن ہے جس سے ہم نے کوئی بڑی رقم ادھار لے رکھی ہے؟ یاد آیا کہ اپنی زندگی کا کتنا ہی قرض ہم پر باقی تھا جس کی ادائیگی کا ہمیں خیال تک نہ تھا، یہ کورونا وائرس اسی کا بھیجا ہوا آدمی ہے جو ہمارے دروازے پر کھڑا قرض کا مطالبہ کر رہا ہے۔ خدا کا حق تو اپنی جگہ، گن گن کر بندوں کے حقوق دبانے میں ہم نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پرائے تو تھے ہی اس غاصبانہ قبضے کے شکنجے میں اپنے بھی محفوظ نہ رہے۔ اب گھر میں قیدی بنے پڑے ہیں تو سوچنے کی مہلت ملی کہ ہمارے اندر موجود باہر کے آدمی نے اندر کے
آدمی کا گلا دبا رکھا تھا۔ گھٹن تو تب بھی محسوس کر رہے تھے مگر سمجھ نہیں پائے کہ کوئی وجود ہمارے اندر اپنی آخری سانسیں گن رہا ہے۔ باہر کے کاموں نے ہمیں اس قدر نکما کر رکھا تھا کہ بیوی، بچے، ماں باپ اور رشتے داروں کے حقوق کا قرضہ دن بہ دن ہم پر چڑھتا رہا۔ اب کورونا وائرس نے آ کر ان سب کا بقیہ بل ہمارے ہاتھوں میں تھما دیا ہے۔ گھر سے باہر نکلتے ہوئے ماسک کے استعمال کا مشورہ دیا جاتا ہے، گھر میں ہمہ وقت منھ چھپائے رہنا ضروری نہیں گویا اس لاک ڈاؤن میں گھر والوں کے چند حقوق ادا کر نے کے بعد اب جا کر ہم کسی حد تک گھر والوں کو منھ دکھانے کے قابل ہوئے ہیں۔
اس بلائے ناگہانی کی آمد سے چند ماہ پیشتر یورپی ممالک سے یہ خبر آئی تھی کہ کسی ملک میں بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں ، تو حکومت نے چونکہ ان کی’’غیرتِ قومی‘‘ مشرق سے ذرا مختلف ہے بجائے خود زمین میں گڑنے کے ان پاکباز خواتین کو زمین میں دفن کر نے کا فیصلہ کیا یعنی ان پر جر مانہ عائد کردیا۔ کچھ ہو نہ ہو اہلِ مشرق کورونا وائرس سے خوش ہیں کہ ان حکومتوں کو منھ کی کھانی پڑی۔ اب وہاں اسی تھوکے ہوئے قانون کو چاٹا جا رہا ہے کہ جو سر راہ بے نقاب دکھائی دے گا سزا کا مستحق ہوگا۔
کتنی ہی حقیقتوں سے خود منھ چھپانے کے باوجود ہمارے اکثر اہلِ وطن اس رسم پردہ داری کو پسند نہیں کرتے۔ جہاں کسی برقعہ پوش خاتون کو دیکھا ناک بھوں چڑھانے لگے۔ ہمارے پڑوسی الطاف صاحب ایک دن فرمانے لگے جناب! میں اپنے شہر کی غیر مسلم لڑکیوں کو اسکارف سے منھ ڈھانپے ہوئے دیکھتا ہوں تو مجھے خوشی محسوس ہوتی ہے۔
اسکول اور کالج میں پڑھنے والی یہ لڑکیاں پردے میں اچھی لگتی ہیں۔ (اس موقع پر شاید انہوں نے یہ کہنا مناسب نہیں سمجھا کہ بے پردہ کچھ اور زیادہ اچھی لگتی ہیں) میں نے پوچھا کیوں؟ کہنے لگے ’’انہیں دیکھ کر لگتا ہے چھوٹے پیمانے پر ہی سہی کسی نہ کسی سطح پر اسلام پھیل تو رہا ہے‘‘ ابتدا میں ان کی اس معصومانہ خوشی میں بہت دنوں تک ہم بھی شریک رہے مگر جلد ہی اس نقاب پوشی کا پردہ فاش ہوگیا کہ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ۔ ان میں بعض ’’جز وقتی پردہ دار دوشیزائیں‘‘ تو وہ تھیں جو اپنے گھر سے بظاہر اسکول، کالج یا ٹیوشن کلاس جانے کے لیے نکلی تھیں مگر راستہ بھٹک گئیں اور کسی ریستوران یا گارڈن میں، منھ چھپا کر کتابِ محبت کے سبق کا آموختہ یاد کرتی ہوئی پائی گئیں( یا جن سے منھ چھپانا تھا ان میں سے کوئی بھی ان کو پا نہ سکا) ۔چہرہ اس لیے چھپا رکھا تھا کہ کوئی دیکھ نہ لے۔ کوئی دیکھ نہ لے اور لڑکیوں کے چکر میں لڑکوں نے بھی پردہ کرلیا تھا۔ ’اس طرح ’جمالِ ہم نشیں در من اثر کرد‘‘ اور مساواتِ مرد و زن کا یہ ایک نیا روپ سامنے آیا ۔
یہ ہر نقاب پوش خاتون کی کہانی نہیں ہے کیونکہ ان میں سے اکثر خواتین راستے کی گرد اور بری نظروں سے خود کو بچانے کے لیے بھی اپنا چہر ہ چھپاتی ہیں۔ اب نہ صرف عورتیں بلکہ مرد بھی فضائی آلودگی سے منھ چھپاتے ہیں۔ اسی لیے چہرہ ڈھانپنا اب ایک فیشن کی شکل اختیار کر گیا ہے اور ہر فیشن میں کوئی نہ کوئی ضرورت کہیں نہ کہیں پوشیدہ ضرور ہوتی ہے خواہ وہ انسان کی خود نمائی کی فطری ضرورت ہی کیوں نہ ہو۔ شاید یہ دنیا کا واحد فیشن ہے جس میں اصل ضرورت ’’خود نمائی‘‘ نہیں بلکہ ’’خود چھپائی‘‘ ہے۔ اس کے علاوہ اس فیشن کے چند مزید پہلو بھی ہیں جس کے تحت گھر سے باہر نکلنے والی خواتین کے چہروں پر اب تک پردہ پڑا ہواتھا۔ ان تمام عوامل کے ساتھ ایک سبب یہ بھی رہا ہے کہ عورت فطرتاً حیا پسند ہے۔ اس کا سماج، مذہب، عوامی رجحانات یا آزاد خیالی اسے خواہ کچھ بھی مشورے دے خواتین نے اس فیشن کی آڑ میں اپنی فطری ضرورت یعنی پردہ داری کو پا لیا اور چہرے کو ڈھانپ لینا ہی منا سب سمجھا اور اس فیشن کو اپنی فطرت کے موافق پایا۔ سوشل میڈیا یعنی ذرائع ترسیل و ابلاغ نے ہمیں ساری دنیا سے جوڑ رکھا تھا لیکن کرونا نے آ کر ہمارے منھ پر ماسک لگا دیا اور سمجھایا کہ باہر کی دنیا سے رشتے استوار کرنے کے ساتھ اب اپنے آپ سے بھی رشتہ جوڑ لو۔ اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی۔ خود ہمارے گھر میں کتنے رابطے کولڈ اسٹوریج میں پڑے ہوئے ہیں انہیں باہر نکالو اور ان کی سینت سنبھال کرو۔ اب تک تم آپے سے باہر ہوئے جا رہے تھے اب اپنے ماسک میں رہو۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 20-26 ستمبر، 2020