امریکی کمیشن نے ہندوستان میں مذہبی آزادی کو تشویش ناک مراحل میں داخل قرار دیا

نئی دہلی، اپریل 29: اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ہندوستان میں مذہبی آزادی کے حالات 2019 میں ’’انتہائی نیچے گرے ہیں‘‘ اور مذہبی اقلیتوں پر ’’حلموں میں اضافہ‘‘ ہوا ہے، ریاستہائے متحدہ امریکا کے کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) نے منگل کو امریکی حکومت سے ہندوستان کو ایک پاکستان، شمالی کوریا، چین اور سعودی عرب کے ساتھ ’’ایک متعصب تشویش والے ملک‘‘ کے طور پر درجہ بند کرنے کا مطالبہ کیا۔

2004 کے بعد یہ پہلا موقع ہے۔ اس سے پہلے 2002 کے گجرات فسادات کے پس منظر میں ایسا ہوا تھا۔ یو ایس سی آئی آر ایف نے سفارش کی ہے کہ ہندوستان کو ’’متعصب تشویش کا ملک‘‘ کے طور پر نامزد کیا جائے۔

ہندوستانی حکومت نے رپورٹ میں موجود مشاہدات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہندوستان کے خلاف کمیشن کے ’’متعصبانہ اور متنازعہ‘‘ تبصرے ’’نئے نہیں‘‘ ہیں، لیکن اس موقع پر ’’اس کی غلط بیانی نئی سطحوں تک پہنچ چکی ہے۔‘‘

یو ایس سی آئی آر ایف، جو امریکی کانگریس کی ایک مشاورتی تنظیم ہے، نے اپنی 2020 کی سالانہ رپورٹ جاری کی، جس میں اس نے سفارش کی کہ ٹرمپ انتظامیہ ’’ان افراد کے اثاثوں کو منجمد کرکے مذہبی آزادی کی شدید خلاف ورزیوں کے ذمہ دار ہندوستانی سرکاری ایجنسیوں اور اہلکاروں پر خصوصی پابندیاں عائد کرے۔ اور مذہبی آزاکی مخصوص خلاف ورزیوں کا حوالہ دیتے ہوئے، انسانی حقوق سے متعلق مالی اور ویزا حکام کے تحت امریکہ میں ان کے داخلے پر پابندی عائد کردے۔

رپورٹ میں دو بار وزیر داخلہ امت شاہ کا نام بھی لیا گیا ہے۔ ایک بار یہ ذکر کرتے ہوئے کہ شاہ نے تارکین وطن کو ’’دیمک‘‘ کہا، جن کا خاتمہ کرنا ہے۔

یو ایس سی آئی آر ایف نے امریکی انتظامیہ سے ’’بین الاقوامی مذہبی آزادی ایکٹ (آئی آر ایف اے) کے تحت منظم، جاری اور مذہبی آزادی کی متشدد خلاف ورزیوں میں ملوث ہونے اور اسے نہ روکنے کے لیے ہندوستان کو ایک ’’خاص تشویش کا ملک‘‘ یا سی پی سی کے طور پر نامزد کرنے کی سفارش کی ہے۔

کمیشن نے سی اے اے – این آر سی، جموں کشمیر میں دفعہ 370 کے خاتمے اور فروری میں ہوئے دہلی فسادات کو حوالہ دیتے ہوئے انھیں ہندوستان کی تنزلی کی وجوہات قرار دیا۔