امریکی تاریخ کے سنسنی خیز صدارتی انتخابات

ٹرمپ نے دنیا کی ’قابل فخر‘جمہوریت کے انتخابی نظام پرہی سوال کھڑے کردیے

مسعود ابدالی

امریکی تاریخ کے دھماکہ خیز ’عام‘ انتخابات اپنے انجام کو پہنچے۔ تا دمِ تحریر صدر ٹرمپ نتائج تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہیں اور وہ ڈیموکریٹک پارٹی پر انتخاب چوری کرنے کا الزام لگا رہے ہیں۔ ہم نے انتخابات سے پہلے قوسین میں عام اس لیے لکھا ہے کہ 3 نومبر کو جو اعصاب شکن معرکہ برپا ہوا اس کی کوئی آئینی حیثیت نہیں اور اصل انتخاب 14 دسمبر کو ہوگا۔ ’اصل‘ انتخابات کی تفصیل مضمون کے اختتام پر پیش کی جائیں گی۔
جہاں تک انتخابی نتائج پر تنازعے کا تعلق ہے تو یہ امریکہ میں پہلا واقعہ نہیں ہے۔ 2000 کے انتخابات میں بھی اسی قسم کا ہنگامہ کھڑا ہوا تھا لیکن اُس بار معاملہ صرف ریاست فلوریڈا تک محدود تھا جب 85 فیصد ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے پر ریپبلکن پارٹی کے امیدوار جارج بش کو اپنے حریف ایلگور پر ایک لاکھ ووٹوں کی برتری حاصل تھی۔ رات دس بجے ابلاغ عامہ کے اداروں نے فلوریڈا سے جارج بش کی کامیابی کا اعلان کر دیا۔ اس وقت فلوریڈا کے لیے مختص الیکٹورل ووٹوں کی تعداد 25 تھی چنانچہ جارج بش کا مجموعی اسکور 271 ہو گیا جو کامیابی کے ہدف یعنی 270 سے 1 زیادہ تھا۔ نتائج دیکھ کر ایلگور نے اپنی شکست تسلیم کرلی اور جارج بش کے رقص کرتے حامی سڑکوں پر آگئے۔ دوسری طرف گنتی جاری رہی اور صبح چار بجے جب یہ مرحلہ مکمل ہوا تو جارج بش کی برتری صرف 2000 رہ گئی جبکہ ڈاک سے آنے والے ووٹوں کی گنتی ابھی باقی تھی۔ اس اطلاع پر ایلگور نے اعترافِ شکست واپس لے لیا اور دونوں طرف سے کامیابی کے دعوے شروع ہو گئے۔ باقی ماندہ ووٹ شمار کرنے پر فرق 500 سے بھی کم رہ گیا۔ انتخابی ضابطے کے تحت اگر ووٹوں کا فرق نصف فیصد سے کم ہو تو دوبارہ گنتی، ہارنے والے امیدوار کا حق ہے۔ اس حق کو استعمال کرتے ہوئے ایلگور نے چار کاونٹیز کے ووٹوں کی ہاتھ سے دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا جبکہ جارج بش کا موقف تھا کہ ساری ریاست کے ووٹ دوبارہ شمار کئے جائیں اور وقت بچانے کے لیے گنتی مشین سے کی جائے۔ معاملہ ریاستی سپریم کورٹ میں گیا۔ قانون کی رو سے دسمبر کی 12 تاریخ تک نتائج کا مکمل ہونا ضروری تھا۔ عدالتی کھینچ تان میں 10 تاریخ آگئی اور ایلگور نے یہ کہہ کر دوبارہ گنتی کی درخواست واپس لے لی کہ اگر ایلگور صدر نہ بن سکا تو کوئی قیامت نہیں آجائے گی لیکن امیدواروں کے درمیان جھگڑے اور بے ایمانی کے الزامات سے اگر امریکی نظامِ انتخابات مشکوک قرار پایا تو دنیا کا امریکی جمہوریت پر سے اعتماد ختم ہوجائے گا ’سرکاری نتائج کے مطابق جارج بش نے فلوریڈا کا معرکہ 537 ووٹ یا 0.0009 فیصد سے جیت لیا۔
حالیہ انتخابی تنازعہ اس اعتبار سے بہت سنگین ہے کہ معاملہ صرف گنتی کا نہیں بلکہ صدر ٹرمپ کو ووٹنگ کے سارے نظام پر ہی اعتراض ہے۔ اس بار کورونا وبا کی وجہ سے تقریباً 40 فیصد رائے دہندگان نے ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالے۔ ساری دنیا کی طرح ضعیف، معذور اور ملک سے باہر رہنے والے امریکی شہریوں کو ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہے جس کے لیے ووٹروں کو معقول وجہ کیساتھ درخواست دینی ہوتی ہے۔ لیکن وبا کے پیش نظر ڈاک ووٹنگ کے لیے اکثر ریاستوں میں شرائط ساقط کردی گئیں اور کئی ریاستوں نے درخواست کے تکلف کے بغیر تمام رجسٹرڈ ووٹروں کو بیلٹ پیپر ڈاک کے ذریعے بھیج دیے۔
صدر ٹرمپ کو اس بندوبست پر سخت اعتراض تھا۔ امریکی صدر نے خدشہ ظاہر کیا کہ ڈیموکریٹک پارٹی کے زیر انتظام ریاستیں بڑے پیمانے پر خالی بیلٹ پیپر بھیج کر جعلی ووٹ بھگتائیں گی۔ انہوں نے صاف صاف کہا کہ مجرم پیشہ لوگوں اور غیر قانونی تارکین وطن کو بیلٹ پیپر بھیجے جارے ہیں۔ ریاستوں کی انتظامیہ نے صدر کے ان اعتراض کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ بیلٹ یپپر ووٹر رجسٹریشن کی شناخت کے بعد بھیجے جارہے ہیں اور واپس آنے والے ہر لفافے کو رائے دہندہ کے دستخط کی تصدیق کے بعد کھولا جائے گا۔ دستخط کی تصدیق اور پرچہ انتخاب کی گنتی مشاہدین (observers) کی موجودگی میں ہوگی۔ صدر ٹرمپ کو ایک اور اعتراض پوسٹل بیالٹ کی وصولی پر تھا۔ امریکی صدر کا اصرار تھا کہ صرف انہیں پوسٹل بیلٹ کو شمار کیا جائے جو روزِ انتخاب یعنی 3 نومبر تک متعلقہ کاونٹی کے انتخابی دفتر پہنچ جائیں۔ صدر کے اس مطالبے کو تمام ریاستوں نے مسترد کر دیا۔ انکا کہنا تھا کہ جو پرچہ انتخاب 3 نومبر کو شام سات بجے سے پہلے حوالہ ڈاک کر دیا گیا ان سب کو شمار کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں گزشتہ انتخابات کی مثال دی گئی جہاں بیرون ملک تعینات امریکی فوجی اور سفارتی عملے کے پوسٹل بیالٹ کے لیے ایک ہفتہ انتظار کیا جاتا ہے۔ اپنی فریاد لے کر صدر ٹرمپ سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ صدر نے اپنی درخواست میں خدشہ ظاہر کیا کہ ڈاک کے ذریعے انتخابات سے بڑے پیمانے پر دھاندلی کا خطرہ ہے لہٰذا اس پر پابندی لگائی جائے۔ عدالت عظمیٰ نے صدر کی درخواست کوقبل ازمرگ واویلا قرار دیتے ہوئے کہا کہ ریاستوں نے رائے دہندگان کی تصدیق کی جو ضمانتیں دی ہیں ان سے عدالت مطمئن ہے۔ اگر گنتی کے دوران درخواست گزار کو بے ضابطگی کا مشاہدہ ہو تو وہ عدالت کو شکایات کی بروقت سماعت کے لیے تیار پائیں گے۔ اسکے باوجود صدر ٹرمپ ڈاک کے ذریعے انتخاب پر خدشات کا اظہار کرتے رہے اور انتخابی جلسوں میں انہوں نے اپنے حامیوں سے کہا کہ وہ پوسٹل بیلٹ کے بجائے پولنگ اسٹیشن جاکر ووٹ ڈالیں اور ڈیموکریٹس کی متوقع بے ایمانی پر نظر رکھنے کے لیے پولنگ اسٹیشن کے باہر کھڑے رہیں۔
سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ بد عنوانی کے خدشے کے علاوہ صدر ٹرمپ پوسٹل بیلٹ کے اس لیے بھی خلاف تھے کہ انتخاب کے دن پولنگ مراکز کے ویران ہونے سے کورونا وبا کی شدت کا احساس ہوگا۔ ان کا موقف ہے کہ مخالفین نے انہیں ہرانے کے لیے کووڈ-19 کا ہوّا کھڑا کر رکھا ہے ورنہ حکومت کی شاندار حکمت عملی کے نتیجے میں یہ وبا خاتمے کے قریب ہے۔ اپنی تقریروں میں انہوں نے یہ الزام بھی لگایا کہ طبیب و معالج پیسے کمانے کے لیے کورونا سے مرنے والوں کی تعداد بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں۔
اکتوبر کے وسط میں قبل از وقت یا Early ووٹنگ کا آغاز ہوا۔ کچھ ریاستوں میں یہ سلسلہ ستمبر کے آخر سے شروع کر دیا گیا۔ اس بار معمول سے بہت زیادہ انتخابی مراکز قائم کئے گئے تھے بلکہ کئی جگہ Drive-in پولنگ کا بھی انتظام تھا جہاں ووٹر ATM مشین کی طرح اپنی گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ووٹ ڈال سکتے تھے۔ اکثر گرجا گھروں، مساجد، مندروں اور گورداروں کو پولنگ مرکز بنایا گیا۔ کئی مقامات پر 24 گھنٹے ووٹ ڈالنے کی سہولت بھی موجود تھی۔ اس بار پوسٹل بیلٹ اور قبل از وقت ووٹنگ میں زبردست جوش و خروش دیکھا گیا اور 3 نومبر سے پہلے ہی گیارہ کروڑ ووٹروں نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرلیا جن میں پوسٹل بیلٹ کا تخمینہ ساڑھے چھ کروڑ تھا۔ 2016 میں کل 13 کروڑ 50 لاکھ ووٹ ڈالے گئے تھے۔
اب آتے ہیں امریکہ کے سیاسی و نظریاتی جغرافیہ کی طرف جس سے قارئین کو متحارب جماعتوں کی حمکت عملی سمجھنے میں مدد ملے گی۔ امریکی سیاست روایتی نوعیت کی ہے اور اکثر ریاستوں میں کسی ایک جماعت کو کئی دہائیوں سے برتری حاصل ہے۔ صدارتی انتخاب چونکہ الیکٹورل کالج کے ذریعے ہوتے ہیں اس لیے جن ریاستوں میں فتح یقینی ہو وہاں ووٹ بڑھانے کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی کہ الیکٹورل ووٹ کے لیے بس جیتنا ضروری ہے ووٹوں کے تناسب سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اگر آپ امریکہ کے نقشے پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ بحر اوقیانوس کے کنارے شمال میں کینیڈا کی سرحد پر ریاست مین سے جنوب میں ورجینیا تک ڈیموکریٹک پارٹی کا زور ہے۔ ان ریاستوں میں نیویارک، نیوجرسی، میسیچیوسیٹس، امریکی دارالحکومت واشنگٹن، میری لینڈ، نو منتخب صدر جو بائیڈن کی ریاست ڈیلویئر، وورمونٹ وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح مغرب میں بحر الکاہل کا ساحل بھی ڈیموکریٹس کا گڑھ ہے جہاں کیلیفورنیا، اوریگن، ریاست واشنگٹن اور اسی کے ساتھ جوّے کا عالمی مرکز نواڈا ہے۔
دوسری طرف خلیج میکسیکو کے ساحل سے شمال میں کینیڈا تک کا وسطی علاقہ نیو میکسیکو اور کولوریڈو کے استثنٰی کے ساتھ ریپبلکن کا قلعہ ہے۔ گرم مرطوب موسم کی بنا پر جارجیا سے ٹیکساس تک کے جنوبی حصے کو سن بیلٹ Sun Belt کہا جاتا ہے۔ نظریاتی شناخت کے حوالے سے اس علاقے کو بائیبل بیلٹ Bible Belt بھی کہتے ہیں۔ شمال میں وسط مغرب کا علاقہ نظریاتی اعتبار سے لبرل و آزاد خیال ہے۔
امریکی انتخابات میں عام طور سے فلوریڈا، شمالی کیرولینا، اوہایو، ورجینیا اور نیوہیمپشائر میدان جنگ بنتا ہے۔ شمال مشرق میں نیویارک سے وسط مغرب تک پینسلوانیا، مشی گن اور وسکونسن کی ریاستیں ڈیموکریٹک پارٹی کا گڑھ سمجھی جاتی ہیں جنہیں ڈیموکریٹس فخر سے نیلی دیوار کہتے ہیں۔ 2016 میں صدر ٹرمپ نے یہ تینوں ریاستیں جیت کر نیلی دیوار کو زمیں بوس کر دیا تھا اور ان تین ریاستوں میں کامیابی ہی نے جناب ٹرمپ کے لیے قصرِ مرمریں کا دروازہ کھولا تھا یا یوں کہیے کہ ہاتھی، ڈیموکریٹک قلعے کی نیلی دیوار کو روندتا ہوا وہائٹ ہاوس پہنچ گیا تھا۔
بوسیدہ نیلی دیوار کی تعمیرِ نو 2020 کے لیے ڈیموکریٹس کا بنیادی ہدف تھا۔ اسکے علاوہ انکی نظریں جنوبی سن بیلٹ میں فلوریڈا، جارجیا اور شمالی کیرولینا پر بھی تھیں۔ صدر ٹرمپ کی حکمت عملی یہ تھی کہ 2016 میں جیتی جانے والی ریاستوں پر گرفت مضبوط رکھی جائے چنانچہ انکی پوری توجہ نیلی دیوار اور فلوریڈا پر تھی۔
انتخابی مہم کے دوران جو بائیڈن نے کورونا وائرس کے بے قابو پھیلاؤ کو صدر ٹرمپ کی نااہلی کا شاخسانہ قرار دیا۔ اس نامراد وائرس سے ڈھائی لاکھ امریکی ہلاک ہوچکے ہیں اور ایک کروڑ کے قریب افراد اس موذی مرض میں مبتلا ہیں۔ خود صدر ٹرمپ بھی اس مرض میں مبتلا ہوئے لیکن علاج کے بعد جلد شفایاب ہوگئے جس کے بعد انہوں نے اپنی مثال دیتے ہوئے امریکی عوام کو تسلی دی کہ کورونا ایسا بھی مہلک نہیں جیسا یہ سائنسدان بیان کر رہے ہیں۔ اسے سر پر سوار کر لینے کے بجائے اس ناسور کو میری طرح حوصلے سے شکست دو۔تاہم عام امریکی صدر کی طفل تسلی سے مطمئن نہ ہوئے بلکہ اکثریت نے صدر کے رویے کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیا۔
کورونا کے بعد دوسرا بڑا انتخابی نکتہ سیاہ فاموں اور رنگ دار امریکیوں سے پولیس کا امتیازی سلوک ہے جسے عمرانیات کے علما ادارہ جاتی نسل پرستی یا Systemic Racism کہتے ہیں۔ صدر ٹرمپ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں رنگ داروں کے خلاف منظم تعصب کا مسلسل انکار کرتے رہے۔ اسی طرح ہسپانوی تارکین وطن سے بد سلوکی اور معصوم بچوں کو والدین سے علیحدہ کر کے پنجرے نما حراستی مراکز میں ٹھونسنے پر بھی صدر کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
صدر ٹرمپ کی شکست میں بہت سے عوامل نے کردار ادا کیا ہے لیکن غالب خیال ہے کہ ٹرمپ سرکار کو کورونا چاٹ گیا۔ رائے عامہ کے جائزوں سے یہ بات سامنے آئی کہ امریکیوں کی اکثریت کووڈ-19 سے نبٹنے کے لیے امریکی حکومت کی حکمت عملی کو غیر موثر اور اس معاملے میں صدر کو غیر سنجیدہ سمجھتی ہے۔ امریکیوں کا خیال ہے کہ کورونا سے زندگی اور اسباب زندگی کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ لوگوں کو یہ بھی ڈر ہے کہ مستقبل قریب میں وبا مزید مہلک ہو جائے گی۔
کورونا کے حوالے سے عوام کا اضطراب ان کے ووٹ ٖڈالنے کے انداز سے بھی نمایاں تھا کہ رائے دہندگان کی اکثریت نے پوسٹل بیلٹ کی سہولت استعمال کی اور ہجوم سے بچنے کے لیے early voting کے مراکز کا رخ کیا۔ نتائج کے تجزیے سے یہ دلچسپ مشاہدہ بھی سامنے آیا کہ پوسٹل بیلٹ استعمال کرنے والے ستر سے اسی فیصد لوگ جو بائیڈن کے حامی تھے اور اسی تفاوت کو جناب ٹرمپ دھاندلی کے ثبوت کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔
ٹیکسس اور اوہایو میں پوسٹل بیلٹ پہلے گنے گئے اور جو بائیڈن نے صدر ٹرمپ پر واضح برتری حاصل کر لی لیکن جب 3 نومبر کو ڈالے جانے والے ووٹوں کی گنتی شروع ہوئی تو جو بائیڈن کی برتری بتدریج ختم ہوگئی اور امریکی صدر نے ان دونوں ریاستوں میں کامیابی حاصل کرلی۔ اس کے برعکس پنسلوانیہ، مشیگن، ایریزونا اور وسکونسن میں پہلے 3 نومبر کو ڈالے جانے والے ووٹوں کے نتائج جاری ہوئے اور صدر ٹرمپ نے لاکھوں ووٹوں کی برتری حاصل کرلی۔ منگل کو نصف شب تک ایسا لگ رہا تھا کہ گویا ان ریاستوں سے ڈیموکریٹس کا صفایا ہو گیا ہے۔ لیکن رات تین بجے کے بعد جب پوسٹل بیلٹ کی گنتی شروع ہوئی تو پانسہ ایک دم پلٹ گیا۔ پہلے صدر ٹرمپ کی برتری ختم ہوئی اور آخر کار ان تمام ریاستوں میں جو بائیڈن نے کامیابی حاصل کرلی۔ پنسلوانیا کے شہر فلاڈیلفیا میں کاونٹی کے مرکزی انتخابی مرکز کے باہر اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے صدر کے فرزند ایرک ٹرمپ نے کہاکہ 80 فیصد ووٹوں کی گنتی مکمل ہونے تک پنسلوانیا میں میرے والد کو 5 لاکھ ووٹوں کی سبقت حاصل تھی اور اب ہر نئے اعلان میں 80 سے 85 فیصد ووٹ جو بائیڈن کے حق میں نکل رہے ہیں۔انہوں نے سوال کیا کہ پوسٹل بیلٹ پنسلوانیا کے شہریوں کے ہیں یا نئے ووٹ آسمان سے نازل ہو رہے ہیں کہ ٹریند ہی تبدیل ہوگیا ہے؟ نتائج کی ایسی کایا پلٹ ہمیں بھی مشکوک لگ رہی ہے۔ ایرک ٹرمپ نے یہ الزام بھی لگایا کہ پوسٹل بیلٹ گنتے وقت ریپبلکن پارٹی کے مشاہدین کوگنتی کی میز سے 20 فٹ دور جانے کے لیے کہا گیا۔ کاونٹی حکام کا کہنا ہے کہ اسکی وجہ کورونا کے حفاظتی اقدامات تھے۔
انہیں شکوک و شبہات کی بنیاد پر صدر ٹرمپ نے نتائج کو تسلیم نہیں کیا۔ وہ مشیگن، وسکونسن، جارجیا اور ایریزونا میں دوبارہ گنتی کی درخواست دے رہے ہیں۔ انکے قانونی مشیروں کا کہنا کہ پانچ ریاستوں میں انتخابی عذر داری داخل کی جا رہی ہے جن میں انتخابی نظام کی شفافیت پر سوال اٹھائے جائیں گے۔ اسی کے ساتھ صدر کے وکلا نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے کا عندیہ بھی دیا ہے جہاں پورے انتخابی مرحلے کی عدالتی چھان بین کی درخواست کی جائے گی۔ صدر ٹرمپ نے اپنے قریبی رفقا سے کہا ہے کہ دھاندلی اور فراڈ کے خلاف وہ عوامی مہم چلانے کے بارے میں بھی غور کر رہے ہیں۔ دوسری طرف جو بائیڈن نے نومنتخب صدر کی حیثیت سے انتقال اقتدار کے عبوری بندوبست پر کام شروع کر دیا ہے اور وہ اپنی کابینہ کے انتخاب کے لیے رفقا سے مشورہ کر رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ کی عذر داریوں کا کیا نتیجہ نکلے گا اس کا جواب تو علمائے قانون ہی دے سکتے ہیں لیکن ضابطے کی رو سے تمام تنازعات کا 8 دسمبر سے پہلے تصفیہ ضروری ہے جس کے چھ دن بعد وہ ’اصل‘ انتخاب ہونا ہے جس کا ذکر ہم نے مضمون کے آغاز میں کیا اور گفتگو ختم کرتے ہوئے اسی موضوع پر چند سطور پیش ہیں۔
امریکہ پچاس ریاستوں پر مشتمل وفاق ہے اور صدر کا چناؤ ایک کلیہ انتخاب یا Electoral College سے ہوتا ہے۔ الیکٹورل کالج میں وفاق کی تمام اکائیوں یعنی ریاستوں کو ان کی آبادی کے مطابق نمائندگی دی گئی اور ہر ریاست سے ایوان نمائندگان اور سینیٹ کے لیے جتنے رکن منتخب کیے جاتے الیکٹرل کالج میں وہی اس ریاست کی نمائندگی کا حجم ہے۔ انتخابات سے پہلے سیاسی پارٹیاں جب اپنے صدارتی امیدواروں کے انتخاب (ٹکٹ) کے لیے سالانہ اجتماع منعقد کرتی ہیں اسوقت کلیہ انتخاب کے ارکان بھی نامزد کر دیے جاتے ہیں جنھیں Electors کہا جاتا ہے۔ عام انتخابات کے دوران ریاست میں زیادہ ووٹ لینے والے امیدوار کے electors انتخابی کالج کے ارکان تصور ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر پنسلوانیا میں ڈیموکریٹس نے میدان مار لیا ہے لہٰذا اسکے تمام کے تمام 20 نامزد نمائندے ریاستی الیکٹرز ہیں۔ 14 دسمبر کو ریاستوں کے صدر مقامات اور وفاقی دارالحکومت واشنگٹن میں الیکٹرز صدر و نائب صدر کے لیے ووٹ ڈالیں گے۔ ووٹنگ خفیہ رائے شماری سے ہوگی۔ 33 ریاستوں میں الیکٹورل اسی امیدوار کو ووٹ دینے کے پابند ہیں جس نے انہیں نامزد کیا ہے جبکہ دوسری ریاستوں میں الیکٹرز اپنی مرضی سے ووٹ دے سکتے ہیں لیکن یہ امریکہ کی قابل فخر جمہوری روایت ہے کہ گزشتہ 244 سال کے دوران ایک بار بھی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا کہ جب الیکڑرز نے خیانت کی ہو۔
ریاستوں کے کلیہ ہائے انتخاب سے پولنگ اور گنتی کے مصدقہ نتائج بند لفافے میں چیئرمین سینیٹ (نائب صدر) کو بھیج دیے جائیں گے۔ واشنگٹن میں ان نتائج کی وصولی کی آخری تاریخ 23 دسمبر ہے۔ چند دہائی پہلے تک ریاستوں سے الیکٹورل کالج کے منقش بیلٹ بکس خصوصی بگھیوں کے جلوس میں وفاقی دارالحکومت پہنچائے جاتے تھے۔ اب یہ تکلف ختم ہو گیا ہے اور ڈاک کے ذریعے لفافے بھیج دیے جاتے ہیں۔
6 جنوری 2021 کو کانگریس کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس ہوگا۔ نائب صدر مائک پینس جو سییٹ کے سربراہ بھی ہیں، ہر ریاست کے لفافے کھول کر الیکٹرل کالج کے ووٹوں کی تفصیل سنائیں گے۔ ایک ایک ریاست کے ووٹ گننے کے بعد نائب صدر نتائج کا اعلان کریں گے جو صدارتی انتخاب کا سرکاری اور حتمی اعلان ہوگا اور 20 جنوری کو واشنگٹن کے عظیم الشان جلسہ عام میں امریکی سپریم کورٹ کے سینئر جج نائب صدر اور قاضی القضاۃ نو منتخب صدر سے حلف لیں گے۔
[email protected]

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020