امریکہ کی سرمایہ دارانہ جمہوری قوم پرستی بے نقاب

اقوام میں مخلوقِ خدا بٹتی ہے اس سے

ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی

امریکی ریاست منیاپولس میں افریقی نژاد جارج فلائیڈ کا پولیس کے ہاتھوں بہیمانہ قتل ہوا۔ اس پر مقامی میئر جیکوب فرے کا ردعمل تاریخ کے صفحات پر سیاہ حروف میں لکھا جائے گا کہ ’’امریکہ میں سیاہ فام ہونا سزائے موت (کا نعم البدل) نہیں ہونا چاہیے‘‘۔ میئر کو یہ جملہ اس لیے کہنا پڑا کہ فلائیڈ کا اصل قصور ۲۰ ڈالر کا مبینہ جعلی نوٹ دینا نہیں بلکہ سیاہ فام ہونا تھا۔ اس کے بعد ملک بھر میں احتجاج کا آتش فشاں پھٹ پڑا۔ امریکہ بہادر کے ستارے آج کل گردش میں ہیں۔ کورونا وائرس کا لاک ڈاون ختم ہوا تو ملک کے پچیس شہروں میں احتجاج کی وجہ سے کرفیو لگ گیا۔ مظاہروں کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یکم جون تک 4 ہزار سے زائد افراد کو کرفیو کی خلاف ورزی کرنے اور املاک کو نقصان پہنچانے کے الزامات کے تحت گرفتار کرنا پڑا۔ مظاہرین میں شدید غم وغصے کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مقتول سے ہمدردی اور مظاہرین کی دادرسی کرنے کے بجائے انہیں غنڈے اور بد معاشوں کا ٹولہ کہہ دیا، دوم یہ خبر کہ حکام نے قاتل پولیس افسر ڈریک چیون کو پانچ لاکھ ڈالر کی ضمانت پر رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
امریکی انتظامیہ ایک طرف ڈریک کے تئیں نرمی دکھا رہا ہے تو دوسری جانب مظاہرین کی خبر رسانی کرنے والوں کو خوفزدہ کر رہا ہے۔ اس نے سی این این کے نامہ نگار عمر جمے نیز کو اس کے ساتھیوں سمیت گرفتار کر کے اپنی سفاکیت کا ثبوت پیش کیا۔ عمر بھی فلائیڈ کی مانند سیاہ فام ہے۔ پولیس نے عمر کو گرفتار کرتے وقت اس کے ساتھ موجود سفید فام جوش کیمپ بیل کو گرفتار نہیں کیا حالانکہ صدر ٹرمپ کا سی این این سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ امریکی حکومت ساری دنیا میں اظہار رائے کی آزادی کا شور مچاتی ہے اور حقوق انسانی کی وکالت کر تی ہے مگر خود اپنے ملک میں سیاہ فام نامہ نگاروں کا گلا گھونٹتی نظر آتی ہے۔ یہ دراصل امریکہ کے اندر موجود نسل پرستی کو چھپانے اور اس کی بنیاد پر ہونے والے جرائم کی پردہ پوشی کرنے کی کوشش ہے۔ وہاں پر سفید فام لوگوں کو اظہار رائے کی تھوڑی بہت آزادی تو حاصل ہے لیکن سیاہ فام کو یہی کرنے پر عمر کی طرح سیدھے جیل بھیج دیا جاتا ہے۔
امریکہ میں وقوع پذیر ہونے والے اس شرمناک سانحہ کی تفصیل یہ ہے کہ 25 مئی 2020 کی رات پولیس کو ایک پرچون کی دوکان سے فون آیا کہ مقامی ہوٹل میں چوکیداری کرنے والے 46 سالہ جارج فلائیڈ نے جعلی 20 ڈالر کے نوٹ سے ادائیگی کی ہے۔ پولیس کے مطابق جب اسے گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تو اس نے مزاحمت کی۔ فلائیڈ کی ایک ویڈیو ذرائع ابلاغ میں منظر عام پر آئی جس میں پولیس افسر چیون کا گھٹنا اس کی گردن پر نظر آ رہا ہے جبکہ فلائیڈ کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ پلیز میں سانس نہیں لے پا رہا اور ’مجھے ہلاک نہ کرو‘۔ اسپتال کے طبّی معائنہ کار کی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق پولیس افسر نے آٹھ منٹ 46 سیکنڈ تک اپنے گھٹنے سے مقتول کی گردن کو دبائے رکھا جبکہ تقریباً تین منٹ بعد فلائیڈ بے ہوش ہو چکا تھا اس لیے کسی بے حس وحرکت فرد کا گھٹنے سے گلا گھونٹنا اگر عمداً قتل نہیں ہے تو اور کیا ہے؟
اس دوران وہاں موجود دوسرے افسران نے چیون کو ہٹانے کے بجائے فلائیڈ کی دائیں کلائی کو نبض کے لیے چیک کیا مگر ناکام رہے۔ یہی وجہ ہے کہ مقتول کے اہل خانہ ان تین افسران کی بھی گرفتاری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ویسے انتظامیہ نے فی الحال دباؤ میں آ کر ڈریک چیون سمیت چار پولیس اہلکاروں کو ملازمت سے برخاست کر دیا ہے۔اس کے باوجود دنیا کی عظیم ترین جمہوریت کے اندر ابتدائی پوسٹ مارٹم میں ’ گلا گھونٹنے‘ کا ثبوت ندارد ہے۔ اس میں درج ہے کہ فلائیڈ کے موت دل کی کمزور حالت، نشے کے اثر اور افسر کی جانب سے روکے جانے کے باعث ہوئی۔ کیا یہ مقدمہ کمزور کرنے کی سازش نہیں ہے؟ آگے چل کر ہنیپن کاؤنٹی کے اٹارنی، مائیک فریمین نے باضابطہ فرد جرم کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس اقدام قتل کا جرم ثابت کرنے کے لیے کافی شہادتیں موجود ہیں مگر تفصیل بتانے کے بجائے یہ کہہ کر ٹال گئے کہ اس کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔
فلائیڈ کے قتل کی ویڈیو کے وائرل ہوتے ہی مشتعل مظاہرین کا احتجاج شروع ہو گیا اور انہوں نے شہر منیاپولس کے مقامی پولیس اسٹیشن کو سب سے پہلے نذر آتش کیا۔ انتظامیہ کے لیے یہ عین توقع کے مطابق تھا اس لیے تین روز قبل ہی اسے خالی کیا جا چکا تھا۔ ریاستی گورنر ٹم والز نرمی برت رہے تھے لیکن صدر ٹرمپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے اسے منیاپولس کی سیاسی قیادت کی کمزوری قرار دیتے ہوئے فوج کے ذریعہ صورتِ حال سے نمٹنے کا مشورہ دیا۔ صدر ٹرمپ نے ٹوئٹ میں اپنے سیاسی حریف پر نام لے کر اس طرح تنقید کی کہ ’’میں امریکہ کے ایک عظیم شہر، منیاپولس میں یہ سب کچھ ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔ کمزور، بائیں بازو کے قدامت پسند میئر، جیکب فرے شہر کو کنٹرول کرنے کے لیے اقدام کریں ورنہ میں صورت حال کو معمول پر لانے کے لیے نیشنل گارڈ روانہ کردوں گا ‘‘۔ صدر ٹرمپ کو اس وقت اندازہ نہیں تھا کہ احتجاج کے شعلے ملک کے مختلف شہروں سے ہوتے ہوئے قصر ابیض تک پہنچ جائیں گے اور خود ان کو دو دن کے اندر اپنا محل خالی کرکے کیمپپ ڈیوڈ میں پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑے گا۔
نام نہاد عالمی سپر پاور کے صدر کی یہ درگت ان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ ٹرمپ نے شروع میں تو یہ کہا کہ مسٹر فلائیڈ کی موت نے امریکیوں کو ’خوف، غصے اور غم سے بھر دیا ہے۔‘ لیکن پھر وہ بہک گئے اور فلوریڈا سے ٹیلی ویژن خطاب میں کہہ دیا کہ میں ناراض ہجوم کو غلبہ حاصل کرنے کی اجازت نہیں دوں گا۔ ایسا نہیں ہوگا. وائٹ ہاؤس کے حفاظتی دستے کی تعریف میں تو بالکل ہی پٹری سے اتر گئے۔ انہوں نے اپنے محافظوں کو شیطانی کتوں، اور انتہائی بدترین ہتھیاروں کا حامل کے خطابات سے نواز کر مظاہرین کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی۔ اس تشدد کا مذاق اڑاتے ہوئے وہ بولے کہ (سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ) یہ بظاہر ’جارج فلائیڈ کی موت کے بارے میں ہے یا عدم مساوات ہے یا ہمارے مختلف طبقات میں تاریخی صدمے کے بارے میں ہے‘‘۔ کوئی سربراہ مملکت ملک کی نازک گھڑیوں میں ایسی بہکی بہکی باتیں کرنے لگے تو اس کی دماغی حالت پر شک ہونا فطری بات ہے۔ ویسے ڈونالڈ ٹرمپ کو تو دنیا کہ بہت بڑی آبادی مخبوط الحواس جنونی تسلیم کر ہی چکی ہے۔
امریکہ میں یہ انتخابی سال ہے اس لیے حزبِ اختلاف اس موقع کو کیسے گنوا سکتی ہے۔ اس نے امریکی محکمہ انصاف کو خط لکھ کر مذکورہ واقعہ کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے نیز پولیس کے طریقہ کار میں غیر قانونی اقدام کو متعین کرنے پر زور دیا ہے۔ ڈیمو کریٹک پارٹی نے تحقیق کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے رواں سال فروری میں مبینہ طور پر سابق پولیس اہلکار اور اس کے بیٹے کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے سیاہ فام احمد آربری کو بھی اس میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ پارٹی کی عدالتی کمیٹی نے ان واقعات کو انصاف کی فراہمی سے متعلق عوام کے اعتماد کو دھچکا لگانے والا اور نسلی تعصب کو تقویت دینے والا قرار دیا ہے۔ امریکہ میں چونکہ سیاہ فام اور سفید فام شہریوں میں امتیاز برتنا خلافِ قانون ہے اس لیے سیاسی جماعتوں کے علاوہ شہری حقوق کی بحالی کا کام کرنے والی تنظیموں نے بھی سیاہ فام طبقے کے خلاف نسلی تعصب پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان سب کے باوجود امریکہ میں ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں اور سفید فام دہشت گردوں کے علاوہ پولیس کے ہاتھوں بھی افریقی نسل کے نہتے امریکیوں پر تشدد ہوتا رہتا ہے۔
امریکی گوروں اور انتظامیہ کے نسلی امتیاز کی طویل تاریخ ہے۔ امریکہ میں افریقی لوگوں کو غلام بنانے کے خلاف 1840ء سے 1845ء تک ایک خانہ جنگی ہو چکی ہے اور اس میں لاکھوں لوگ مارے گئے۔ اس پُرتشدد بغاوت کے بعد صدر ابراہم لنکن کو غلامی کے خاتمے کا اعلان کرنا پڑا۔ اس طرح آئین کے اندر تو غلامی ختم ہو گئی لیکن عوام کے ذہنوں میں وہ خناس اب بھی باقی ہے۔ تمام تر دستوری تحفطات کے باوجود وقتاً فوقتاً تفریق وامتیاز کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ دنیا کی اس عظیم ترین جمہوریت میں آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اس اونچ نیچ کو انسان کی فطرت کے مطابق بتا کر اس کو جائز ٹھہراتے ہیں۔ اس ذہنیت کے حاملین کو جب پولیس کی وردی اور اختیارات حاصل ہو جاتے ہیں تو دل کھول کر اس کا من مانی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ اکثر قانونی موشگافیوں کا سہارا لے کر سنگین الزامات سے بری بھی ہو جاتے ہیں۔
اقوام متحدہ نے اس سانحہ سے متعلق اپنے بیان میں اسی پہلو پر توجہ دلائی ہے۔ یو این میں انسانی حقوق کے کمشنر مائیکل بِچلٹ نے اپنے بیان میں فلائیڈ کے قتل پر فوری اقدام کرنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ امریکی حکام اس طرح کے قتل کو روکنے کی خاطر ٹھوس اقدام کریں۔ اس کے باوجود اگر ارتکاب ہو جائے تو قرار واقعی انصاف کو یقینی بنایا جائے۔ بچِلٹ کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے ضابطے تبدیل کیے جائیں۔ اس کے ساتھ طاقت کا بے جا استعمال کرنے والے پولیس افسران پر مقدمہ چلا کر ان کو جرائم کی سخت سزا دی جائے۔ اس بیان کے بین السطور خاطی پولیس افسران کے سزا سے بچ نکلنے پر فکر مندی کا اظہار موجود ہے۔ اس حوالے سے امریکہ میں فی الحال مایوسی کا یہ عالم ہے کہ سیئاٹل یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر ڈاکٹر طیب محمود کہتے ہیں کہ کسی بھی ملک کی پولیس کو حدود وقیود میں رکھنا ممکن نہیں ہے۔ ان کے مطابق چونکہ امریکہ میں بھاگ نکلنے والے غلاموں کو پکڑنے کے لیے پولیس وجود میں آئی تھی اور اس میں اقلیتی طبقات کی تعداد نہیں کے برابر ہے اس لیے وہ زیادہ منہ زور ہے۔ پولیس کے علاوہ وہاں کے جیوری سسٹم میں بھی اقلیتوں کی نمائندگی نہیں ہے اس لیے یہ لوگ چھوٹ جاتے اور ظلم و جور کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
امریکہ کی تاریخ میں ایک اہم موڑ اس وقت آیا جب ایک افریقی-امریکن براک اوباما نے دو انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے صدرات کا عہدہ سنبھالا اور ۸ سالوں تک اس پر فائز رہے لیکن افسوس کہ وہ بھی نسلی بھید بھاؤ کو ختم کرنا تو دور کم بھی نہیں کر سکے۔ اوباما کے دورِ حکم رانی (2012) میں ٹریون مارٹن نامی نوجوان کو فلوریڈا کے اندر چوری کے شک پولیس نے گولی مار دی۔ 2014 میں شہر نیویارک کے اندر ایرک گارنر نامی شخص کو پولیس نے گلا گھونٹ کر مار ڈالا کیونکہ وہ سڑک پر ممنوعہ سگریٹ بیچ رہا تھا۔ وہ فلائیڈ کی مانند روتا گڑگڑاتا رہا مگر پولیس نے اس کی ایک نہ سنی اور جان سے مار ڈالا۔ اسی سال تامر رائز نامی نوخیز کو نقلی بندوق سے باغ میں کھیلتے ہوئے دو پولیس والوں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ ان پولیس والوں پر سرے سے الزام ہی نہیں لگایا گیا۔ 2016 میں پولیس نے فلانڈو کاسٹیلے کو گاڑی کے اندر پانچ گولیوں سے بھون دیا۔ اس کا جواز یہ پیش کیا گیا کہ فلانڈو کے مشکوک انداز میں ہاتھ ہلانے سے پولیس حوالدار نے اپنی جان کو خطرہ محسوس کیا۔ 2014 میں میسوری کے اندر ایک نوجوان کو اس وقت گولی ماری گئی کہ جب وہ اپنے ہاتھ ہوا میں اٹھائے ہوئے تھا۔ پولیس اہلکار کا یہ بیان کہ اس کی جان کو خطرہ تھا جیوری نے تسلیم کر کے اسے رہا کر دیا۔ یہ سلسلہ اسی لیے دراز ہوتا چلا جاتا ہے کیونکہ پولیس افسران کو قرار واقعی سزا نہیں دی جاتی اور وہ بہ آسانی بچا لیے جاتے ہیں۔
جون 2015 میں دو واقعات نے امریکہ میں ہنگامہ برپا کر دیا تھا۔ بوسٹن میں پولیس نے ایک ایسے شخص کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا جو انسداد دہشت گردی کے مقدمے میں 24 گھنٹے سے زیر نگرانی تھا۔ اس قتل کے بعد یہ کہانی بنائی گئی کہ 24 سالہ اسامہ رحیم کا جب ایف بی آئی اور بوسٹن پولیس نے تعاقب کیا تو اس نے ایک بڑی چھری کے ساتھ ان پر حملہ کر دیا تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے انتہائی تربیت یافتہ، گلے تک اسلحہ سے لیس پولیس اہلکار اسے گرفتار نہیں کر سکے اور اس پر گولی چلا دی؟ دہشت گردی کے حوالے سے مشکوک اسامہ رحیم کی گرفتاری کا وارنٹ تک پولیس کے پاس نہیں تھا۔ مقتول کے بھائی ایمان ابراہیم رحیم سان فرانسسکو میں مذہبی رہنما ہیں۔ انہوں نے پولیس کے الزام کی تردید میں فیس بک پر لکھا کہ اسامہ کو جب گولی ماری گئی تو وہ ملازمت پر جانے کے لیے بس کے انتظار میں اپنے والد سے فون پر گفتگو کر رہا تھا اور اس کے آخری الفاظ باپ کے فون میں محفوظ ہیں۔
اسی ماہ (2015) میں امریکہ کی ریاست جنوبی کیرولینا کے شہر چارلسٹن میں ایک افریقی امریکی گرجا گھر پر فائرنگ کر کے نو افراد کو ہلاک کر دیا گیا۔ چارلسٹن کا ایمینوئل افریقی میتھوڈسٹ کا شمار سرزمینِ امریکہ پر سیاہ فام امریکیوں کی قدیم ترین عبادت گاہوں میں ہوتا ہے۔ پولیس کے مطابق حملہ آور لیگزنٹن فائرنگ سے پہلے ایک گھنٹے تک چرچ میں بیٹھا رہا تھا۔ رات نو بجے کے قریب جب گرجا گھر میں لوگ عبادت کے لیے جمع ہوگئے تو اس درندے نے اچانک گولیوں کی بوچھاڑ کر دی ۔ وہ حملہ آور فیس بک پر شائع شدہ ایک تصویر میں کنفیڈریٹ کا پرچم اٹھائے ہوئے نظر آیا۔ امریکی خانہ جنگی کے دوران یہ پرچم جنوبی ریاستوں نے اس وقت استعمال کیا تھا جب انہوں نے غلامی کے خاتمے کے خلاف علیحدہ ہونے کی کوشش کی تھی۔ اس طرح گویا وہ غلامی کو قائم رکھنے کی ایک علامت ہے۔ یہ پرچم ساؤتھ کیرولینا کے دارالحکومت میں اب بھی لہرا رہا ہے۔ اس واقعہ کے بعد سے ریاست میں یہ بحث پھر سے چھڑ گئی تھی کہ آیا اس جھنڈے کو لہرانے دیا جائے یا اسے اتار لیا جائے۔امریکہ میں اس وقت انتخابی گہما گہمی کا آغاز ہو چکا تھا اس لیے مذکورہ سانحہ کا فائدہ اٹھانے کے لیے ریپبلیکن جماعت کے سابق صدارتی امیدوار مٹ رومنی نے جنوبی کیرولینا کے دارالحکومت کی عمارت کے باہر کنفیڈریشن کے لہراتے جھنڈے کو اتارنے کا مطالبہ کرنے والے مظاہروں میں شرکت کی تھی۔ ریپبلیکن جماعت کے مقامی نمائندے ڈگ برانن نے کیرولینا سے کنفیڈریشن جھنڈے کو اتارنے کے لیے قانون سازی کی تجویز پیش کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ اس کے برعکس ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن نے چارلسٹن شوٹنگ کے بعد ملک میں بندوق کے حوالے سے مزید سخت قوانین بنانے کی ایک جذباتی اپیل پر اکتفاء کیا مگر اپنے رائے دہندگان کی ناراضگی کے خوف سے پرچم پر تنقید کرنے سے گریز کر گئیں۔ صدر براک اوباما نے بھی اسلحے کے بارے میں سخت قوانین نہ بنانے پر کانگریس پر تنقید کی اور بلا واسطہ یہ کہا کہ اس قسم کے پرچم عجائب گھروں میں ہونے چاہئیں۔ وہ بھی پارٹی کے سیاسی مفادات کا خیال رکھتے ہوئے غلامی کی اس علامت پر پابندی لگانے کی جرأت نہیں کر سکے۔
صدر براک اوباما نےان واقعات کے بعد ایک انٹرویو میں تسلیم کیا تھا کہ امریکی تاریخ پر سیاہ فاموں کو غلام بنانے کا سایہ چھایا ہوا ہے اور بقول ان کے ’یہ اب بھی ہمارے ڈی این اے میں موجود ہے۔‘ اس تاریخی اعتراف کے ساتھ انہوں نے تسلیم کیا تھا کہ ’نسلی امتیاز سے ہمیں چھٹکارا نہیں ملا۔ معاملہ صرف یہی نہیں کہ عوام کے سامنے لفظ ’’نِگر‘‘ نہ بولا جائے کیونکہ یہ لفظ بد تمیزی کے زمرے میں آتا ہے (واضح رہے کہ ’نِگر‘ سیاہ فام افراد کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس لفظ کے استعمال کو توہین آمیز سمجھا جاتا ہے) انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’یہ محض واضح امتیاز کا مسئلہ نہیں ہے۔ معاشرے میں 200 یا 300 سال قبل پیش آئے واقعات کو راتوں رات نہیں مٹایا جا سکتا۔‘ اس انٹرویو کے بعد نومبر میں اسی شہر منیاپولس میں ایک سیاہ فام شخص جمر کلارک کو پولیس نے ہلاک کر دیا۔جمر کلارک کے قتل پر بھی حالیہ مظاہروں کی مانند امریکہ کے مختلف شہروں فرگوسن، میسوری، نیویارک وغیرہ میں کرسمس کی خریداری کے موقع پر ’بلیک لائیوز میٹر‘ یعنی ’سیاہ فاموں کی زندگیاں اہم ہیں‘ نامی گروپ نے احتجاج کیا اور مظاہرین گرفتار بھی کیے گئے۔ اس بار پھر وہی نعرہ گونج رہا ہے۔ امریکی عوام اور ان کے مداحوں کو اس بات پر بڑا فخر ہے کہ وہاں احتجاج کرنے کی مکمل آزادی ہے لیکن وقت آگیا ہے ان کے نتائج کا بھی جائزہ لے کر دیکھا جائے کہ وہ کس قدر نتیجہ خیز ثابت ہوتے ہیں؟ اس احتجاج کے بعد والے سال 2016 میں سیاہ فام شخص فیلینڈو کاسٹائل کو مظاہروں کے مرکز سے قریب ٹریفک میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ اس کو بین الاقوامی توجہ تو ملی لیکن تھوڑے بہت شور شرابے کے بعد پھر معاملہ ٹائیں ٹائیں فش ہو گیا۔
امریکہ کے اندر افریقی نژاد امریکی باشندوں کو جس معاشرتی اور معاشی عدم مساوات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کی شدت کا اندازہ لگانے کے لیے جولائی 2015 میں کیے گئے ایک سروے کا مطالعہ مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ اس جائزے کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ یہ سروے صدر براک اوباما کے دورِ اقتدار میں کرایا گیا تھا۔ اس کے مطابق صرف بیس فیصد افراد نے کہا تھا کہ ملک میں نسلی تعلقات بہتر ہو رہے ہیں، جبکہ چالیس فیصد نے کہا تھا کہ نسلی تعلقات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس جائزے نے یہ ثابت کر دیا کہ امریکہ میں پہلے سیاہ فام صدر کے انتخاب سے وابستہ توقعات کے برعکس ملک نسلی تعصب سے پاک ’’ ہم آہنگی کی دنیا‘‘ میں داخل نہیں ہو سکا۔ اس عوامی جائزے میں انکشاف ہوا کہ دس میں سے چھ کے قریب امریکیوں کا خیال ہے کہ ملک میں نسلی تعلقات کی موجودہ صورتحال خراب ہے۔ جائزے کے دوران سیاہ فام اور سفید فام امریکیوں سے سوالات کیے گئے تھے۔اس مشق کے دوران چالیس فیصد لوگوں کے ذریعہ یہ خوفناک پہلو بھی سامنے آیا تھا کہ ملک میں نسلی تعلقات مزید خراب ہو رہے ہیں کیونکہ ۶ سال قبل براک اوباما کا انتخاب ہونے پر دو تہائی امریکیوں نے کہا تھا کہ ان کے خیال میں نسلی تعلقات کی صورتحال ’’عمومی طور پر اچھی‘‘ ہے۔ یہ مثبت تبدیلی تھی کیونکہ 2008 میں اوباما کی پہلی صدارتی مہم کے دوران تقریباً 60 فیصد سیاہ فام امریکیوں نے نسلی تعلقات کی صورتحال کو ’’عمومی طور پر خراب‘‘ قرار دیا تھا۔ ان کے انتخاب کے بعد یہ تعداد نصف ہو گئی تھی لیکن وہ ایک عارضی احساس تھا اس لیے کہ ۷ سال بعد 68 فیصد سیاہ فام امریکیوں کی رائے بدل گئی اور انہوں نے کہا کہ نسلی تعلقات خراب ہو گئے ہیں۔صدر اوباما کے دور اقتدار میں یہ رپورٹ بھی آئی کہ سیاہ فام آبادی میں عدم اطمینانی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے اور 1992 میں روڈنی کنگ کی مارپیٹ کے ملزم پولیس افسروں کی رہائی کے بعد شروع ہونے والے فسادات کے بعد ریکارڈ کی گئی بے اطمینانی کی سطح کے قریب ہے۔‘‘ سروے میں شریک نصف تعداد نے کہا کہ سیاہ فام صدر کے انتخاب سے مختلف نسلوں کے آپسی تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑا، جبکہ ایک تہائی نے کہا کہ اس سے فاصلہ مزید بڑھا ہے۔ صرف پندرہ فیصد نے کہا تھا کہ نسلی تعلقات بہتر ہوئے ہیں۔ براک اوباما کے بعد رعونت زدہ نسل پرست ڈونالڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالا اور اس کے بعد کیا حالت ہوئی ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے لیکن یہ مسئلہ فرد کا نہیں بلکہ وہاں رائج نظام سیاست کا ہے۔ انسانی تفریق وامتیاز کو اس طرح ختم کرنا کہ محمود وایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہو جائیں، قوم پرستی کی بنیاد پر قائم ودائم لا مذہبی سرمایہ دارانہ جمہوریت کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس کے متعلق شاعر مشرق علامہ اقبال نے جو پیشنگوئی کی تھی اس کا نظارہ امریکہ جیسی عظیم ترین جمہوریت میں بسر وچشم کیا جا سکتا ہے ؎
خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے


 

2008 میں اوباما کی پہلی صدارتی مہم کے دوران تقریباً 60 فیصد سیاہ فام امریکیوں نے نسلی تعلقات کی صورتحال کو ’’عمومی طور پر خراب‘‘ قرار دیا تھا۔ ان کے انتخاب کے بعد یہ تعداد نصف ہو گئی تھی لیکن وہ ایک عارضی احساس تھا اس لیے کہ ۷ سال بعد 68 فیصد سیاہ فام امریکیوں کی رائے بدل گئی اور انہوں نے کہا کہ نسلی تعلقات خراب ہو گئے ہیں۔(2015 کی سروے رپورٹ )