امریکہ میں عوامی بے چینی

گورے کو کالے پر فضیلت نہیں

ش م احمد، کشمیر

امریکہ اس وقت عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں ہے۔ اس لیے نہیں کہ یہاں کئی ماہ سے کووڈ۔۱۹ نے بذات خود سپر پاور کا منصب سنبھالا ہوا ہے، نہ اس لیے کہ جس امریکہ کی چودھراہٹ کا سکہ اقوامِ عالم میں بزورِ بازو چل رہا تھا آج وہ کورونا وبا کے باعث چوپٹ ہے، نہ اس لیے کہ یہاں دنیائے طب وسائنس کورونا وائرس کے سامنے بے دست وپا ہے، نہ اس لیے کہ امریکی اسپتالوں اور قبرستانوں میں ہر گزرتے لمحہ کے ساتھ گنجائشیں ختم ہو رہی ہیں، نہ اس لیے کہ امریکی معیشت کا ستیا ناس ہو رہا ہے اور نہ اس لیے کہ امر یکہ میں بے روزگاروں کی تعداد میں ہوش رُبا اضافہ ہو رہا ہے بلکہ ان سب موضوعات سے ہٹ کر امریکہ اس وقت عالمی شہ سرخیوں میں اس لیے ہے کہ یہاں شہر شہر قریہ قریہ نسل پرستی کے بھوت کو ملک سے مار بھگانے کے لیے لوگ اس کے پیچھے احتجاج کا لٹھ لیے پھرتے ہیں۔ احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں، نعرے لگ رہے ہیں، آگ زنیاں، پتھراؤ اور تخریبی کارروائیاں ہو رہی ہیں۔
امریکہ میں نسل پرستی مخالف جارج فلائیڈ نامی ایک سیاہ فام امریکی کا پولیس کے ہاتھوں سفاکانہ قتل اس احتجاج کا سبب بنا۔ کہانی امریکہ کے شہر مینسوٹا کی ہو یا کسی اور اندھیر نگری کی جہاں جہاں سماج میں جنونیت اور جبریت کا اژدھا پھن پھیلا تا ہے وہاں وہاں چاہے انسانیت سسکتی رہے، قانون وآئین کراہتا رہے، انصاف روتا بلکتا رہے، پھر بھی جبر کے مرتکبین کی گراں گوشی ختم نہیں ہوتی۔ ہمیں شاید یاد نہ ہو کہ ہمارے یہاں بھی’’بلا تاخیرانصاف‘‘ کے لیے ایسے اَن گنت انکاؤنٹروں سے قضیہ زمین برسر زمین کی اچھوتی مثالیں قائم کر دی گئی ہیں۔ ان سے چارہ گرانِ دہر کا مقصود یہ تھا کہ ہمیں باور کرایا جائے کہ نئے دور میں کوتوال ہی گواہ، وکیل اور منصف ہے۔ صحیح تر لفظوں میں اب لوگوں کو انصاف کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کا تکلف کرنے کی ضرورت ہی کیا جب قانون کے محافظ خود ہی خود کو عدالت اور منصفی کی منصب دار ی پر فائز کر چکے ہیں۔ امریکہ میں وقوع پذیر کہانی رہ رہ کے انسانی ضمیر کا گریبان پکڑ کر پوچھتی ہے کہ اگر یہی دورِ جمہور ہوا تو پتھر کا زمانہ کسے کہیں؟ آئینہ دہر میں ایسے اندوہناک سانحات دکھائی دیتے ہیں کہ کس طرح ایک طرف بربریت کے شکار لوگ ماتم کرتے ہیں تو دوسری طرف ’’بلا تاخیر انصاف‘‘ کے داغ دار خوشیاں مناتے ہیں، جھومتے ہیں، ناچتے ہیں، بھنگڑے ڈالتے ہیں، ظلم وتشدد کرنے والے پر پھول پتیاں نچھاور کرتے ہیں، پھول مالائیں پہناتے ہیں۔ دنیا میں جہاں کہیں یہی کج ادائیاں ’’انصاف کا معیار‘‘ ٹھہریں وہاں آدمیت کو ایک طرف چھوڑیے‘ قوانین کے ضخیم پشتاروں کا کام ہی کیا؟ ایسے ظلم شعار اندھے قانون کی رُو سے امریکہ کا ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم کا حملہ ہو، اسرائیل کی فلسطین پر جارحیت کے مسلسل تازیانے ہوں، سعووی نژاد امریکی صحافی جمال خشجوگی کا تُرکی میں ظالمانہ قتل ہو، اب جارج فلایئڈ کی زیر حراست ہلاکت ہو، یا ہجومی تشدد کے مقامی المیے ہوں، یہ ساری کارروائیاں’’ بلاتاخیر انصاف‘‘ کے خراد پر ’’باجواز‘‘ قرار پا تی ہیں۔
امریکہ میں پیش آیا زیر بحث دل خراش واقعے سمیت ایسے تمام الم ناک حالات وحوادث پر ہم سب کے کلیجے پھٹ جانے چاہئیں۔ جارج فلائیڈ کاواقعہ بھی ہر اعتبار سے ہجومی تشدد کے زمرے میں آتا ہے۔ اس کالے امریکی کی ہلاکت کو ناقابلِ دید وائرل ویڈیو سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہٹا کٹا گورا پولیس افسر بڑی بے دردی سے کم نصیب شخص کی گردن پر دونوں گھٹنے پورے زورسے دبا تا جا رہا ہے، یہاں تک کہ بے چارے کا سانس لینا دشوار ہوتا ہے۔ یہ اپنی رُندھی ہوئی آواز میں ظلم کے دیوتا پولیس والے سے رحم کی بھیک مانگتا ہے: سر مجھے چھوڑ دیجیے، میرادم گھٹ رہا ہے، مگر اس مظلوم کی سنتا کون؟ منافرت کا ماؤنٹ ایوریسٹ نو منٹ تک مسلسل اپنے شکار کو گھٹنوں کے شکنجہ میں تڑپاتا رہا کہ آخر بے چارے کی سانسیں اُسے دغا دے گئیں اور وہ ایک مشتِ غبار کی صورت اُسی زمین پر ساکت وصامت دراز ہو گیا جس زمین پر امر لیکہ جمہوریت، مساوات، انسانی حقوق اور مثالی تہذیب ومعاشرت کا جھنڈا گاڑنے کا طبلِ جنگ بجا کر ویت نام، افغانستان اور عراق پر چڑھ دوڑا تھا، اور لکھو لکھا انسانوں کا تاراج کرنے بعد بے آبروئی کے ساتھ گھر واپسی کی مگر اپنے پیچھے ظلم وبر بریت کے مہیب افسانے چھوڑ کر۔ خود امریکہ کے اپنے گھر میں انسانی حقوق اور جمہوری اقدار اور ’’مثالی تہذیب‘‘ کا کیا حال ہے، اُس کی ایک خفیف سی جھلک نسل پرستی کے جنون میں فیل بد مست بنے مذکورہ پولیس افسر کی بہیمانہ خصلت نے پورا آشکارا کیا۔ بہر صورت دلخراش واقعے کی ویڈیو بنانے والے کی کمالِ انسانیت یہ ہے کہ اس نے کیمرے کی آنکھ میں غم انگیز وحشت سے بھرپور قصہ کو نہ صرف قید کر دیا بلکہ ویڈیو کو منٹوں میں وائرل کر کے دنیا کے منصفوں کو زار وقطار رُلا دیا۔ اس واقعہ سے دنیا سمیت امریکی سماج کو وضاحت کے ساتھ معلوم پڑا کہ ان کے یہاں کورونا وائرس سے ہزار گنا زیادہ ایسی زہر ناک جان لیوا وبا۔۔۔ نسلی تعصب ۔۔۔ موجود ہے جس کے لیے قانون وآئین کا ویکسین محض ایک فریب اور ڈھکوسلہ ہے۔ امریکی پولیس کی اس کھلی بربریت کے ردعمل میں سیاہ فام آبادی میں غم وغصہ بھڑک اُٹھنا ظاہر سی بات ہے کہ فطری ہے۔لیکن اس دلدوز واقعے سے پیدا شدہ درد کی ٹیسیں صرف بلیک امریکیوں تک محدود نہ رہیں بلکہ سفید فام آبادی کی رگِ حمیت بھی فوراً پھڑک اٹھی، وہ بھی قانونِ انسانیت کے دفاع میں دیوانہ وار سڑکوں پر واویلا کرنے نکلے۔ اس وقت یہ سارے متحدالفکر لوگ ایک دوسرے کے دوش بدوش نسل پرستانہ ظلم وبربریت کے خلاف مظاہروں میں شریک وسہیم ہیں۔ عوامی مظاہروں کی شدت دیکھ کر امریکی پولیس نے اپنے کیے پر شرمندگی کا اظہار کر کے اسی طرح عوام سے جھک کر معافیاں مانگیں جیسے دلی میں 2012 دسمبر کو تئیس سالہ نربھیا (اصل نام جیوتی سنگھ) کی اجتماعی عصمت دری پر سیخ پا مظاہرین کے خلاف دلی پولیس نے اپنی کارروائیوں پر اظہارِ ندامت کیا۔ امریکہ میں اس معافی اور معذرت خواہی کے باوجود لوگوں کا پیمانہ صبر برابر لبریز ہے۔ ایک موقع پر وائٹ ہاوس کے قریب مظاہرین نے پڑاؤ ڈالا تو صدر ٹرمپ کو اپنی ذاتی حفاظت تک خطرے میں محسوس ہوئی اور وہ بلا تامل قصر ابیض کے تہ خانے میں بنے بنکر میں اہلِ خانہ سمیت جا چھپے۔ ٹرمپ کی قلتِ فہم پر بھی ماتم کیجیے کہ مشتعل مظاہرین کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے بجائے انہوں نے رعونت کی زبان میں انہیں بُرے القاب سے یاد کیا۔ زبان درازی کی اس حرکت نے جلتی پر تیل کاکام کیا۔ اسی لب ولہجہ میں لیبیا کے مقتول سربراہ معمر قذافی نے بھی اپنے آخری ایام میں ہو اکا رُخ دیکھنے کی بجائے اپنے مخالفین کو چوہے کہہ کر اپنے خلاف آگ کے شعلے مزید بھڑکا دیے تھے۔ یاد رکھیے کہ امر یکہ میں ہو رہے احتجاجی مظاہرے، نسل پرستی کے خلاف متحدہ عوامی آواز اکیلے صدر امریکہ کو ہی نہیں بلکہ معاصر دنیا کے ہر حاکمِ جابر کو بین السطور پیغام دیتی ہے کہ مظالم کے خلاف الل ٹپ عوامی غیظ وغضب کا اُبل پڑنا اُن کے لیے شکست وریخت کا بلیغ اشارہ ہے ؎
ظلم پھر ظلم ہے بڑھ جاتا ہے تو مٹ جاتاہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا (ساحرؔ)
واقعی یہ دھماکہ خیز صورت حال خود کو ناقابل تسخیر سمجھنے والی ہر سیاسی ہستی کے لیے ایک تازیانہ عبرت ہے۔ امریکی مظاہرین ’’ہمیں انصاف دو‘‘ کے نعروں تک محدود رہتے تو یہ بہتر اور موزون تر تھا مگر بوجہ فرسٹریشن ان میں تخریب وتشدد اور توڑ پھوڑ کا جو منفی عنصر شامل ہو چکا ہے وہ اس بات کی چغلی کھا رہا ہے کہ نسل پرستوں میں ہی نہیں بلکہ خود اس کے مخالفین کے اندر بھی احترامِ آدمیت مفقود ہے۔ ورنہ اس میں کیا تُک ہے کہ یہ لوگ امریکہ بھر میں توڑ پھوڑ اور آگ زنی پر اُتر آئیں؟ ناراض عوام کی طرف سے اپنی ناراضگی کا ٹھیکرا بے قصور ہم وطنوں کی املاک، دوکانوں، گاڑیوں وغیرہ پر پھوڑنا کسی بھی طرح انصاف طلبی کی عوامی تحریک کے شایانِ شان قرار نہیں پا سکتا۔ شاید ان مبنی بر انصاف مظاہروں کے درمیان تخریب کاری کے پھوٹ پڑنے کی دو وجہیں ہوسکتی ہیں۔ اول یہ کہ ٹرمپ انتظامیہ کورونا وائرس کا موثر سامنا کرنے میں ناکام نظر آ رہی ہے جب کہ مہلک وبا مقابلتاً سیاہ فام مریضوں کی زیادہ جانیں نگلتا جا رہا ہے۔ دوم یہ کہ عالمی وبا کے تناظر میں اگرچہ دنیا بھر میں بے روزگاری بڑھ چکی ہے مگر امر یکہ میں گوروں کے مقابلے میں زیادہ تر سیاہ فام ہی بے روزگاری کی زد میں لائے گئے ہیں۔ ان دو وجوہ سے بھی سماجی انصاف سے محروم طبقہ سرکار سے بدظن ہے اور سمجھتا ہے کہ اس عالمگیر وبا کے دوران بھی اس سے نسلی تفاوت اور امتیاز برتا جا رہا ہے۔تاریخ شاہد عادل ہے کہ امر یکہ کے کالے شہریوں نے سماج میں گوروں کے ساتھ اپنی مساویانہ حیثیت منوانے کے لیے آج تک کافی قربانیاں دی ہیں۔ انہیں برابری کی بنیاد پر جملہ انسانی حقوق دلانے کے لیے عیسائیت کے داعی اور گاندھیائی عدم تشدد کے قائل مارٹن کنگ لوتھر نے بھی اپنی زور دار تحریک 1955ء سے 1968ء تک اسی مقصد کے لیے چلائی تھی۔ ان کی ولولہ انگیز قیادت میں سیاہ چمڑی والے تحریکِ بحالی مساوات میں تن من دھن سے شامل رہے، مگر شومی قسمت کہ بہت جلد مارٹن لوتھر کا اُسی طرح قتل کیا گیا جیسے گاندھی جی کا خون نتھورام گوڈسے کے ہاتھوں ہوا۔ امریکہ میں مارٹن لوتھر کا قتل ہوا مگر قاتل ان کی بپا کردہ تحریک کی معنویت اور عزتِ نفس کا خواب سیاہ فاموں کی آنکھوں سے نہیں چھین سکا۔ لوتھر کی مشہورِ زمانہ تقریر ’’ایک خواب ہے میرا‘‘ دنیا کی مختلف تحاریک آزادی کے لیے برابر قوتِ محرکہ ثابت ہو رہی ہے۔ شاید اس خواب کا یہ بھی ایک ثمرہ ہے کہ پہلی بار ملک کی تاریخ میں سیاہ فام بارک حسین اوباما عہدہ صدارت پر براجمان ہوئے۔ بایں ہمہ امریکہ کے سیاہ طبقے کی قسمت بدل جانے کا چمتکار آج تک نہ ہوا نہ آگے اس کے آثار نظر آتے ہیں۔ ان لوگوں کو چار سو سال قبل افریقہ سے ہانک کر امر یکہ لایا گیا جہاں ان کو عزتِ نفس سے عاری غلامانہ زندگی جینا پڑی۔ اگرچہ یہ لوگ ہمیشہ اپنے تئیں گوروں کے نسلی بھید بھاؤ اور چھوت چھات پر دل ہی دل میں کڑھتے رہے۔ اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ فرقہ پرستی ہو، قوم پرستی ہو، علاقہ پرستی، زبان پرستی ہو یا انسانی ذہن کا تراشیدہ کوئی اور بُت یا جنونیت ہو، یہ انسانوں کو نفرت ومغائرت کی دیواروں میں زندہ چنتی ہے۔ انہیں من وتُو میں منقسم کرتی ہے، سماج میں عدل کا گلا گھونٹتی ہے، ظلم کی تخم ریزیاں کرتی ہے، انسانوں کو ہجومی تشدد اور تنفر کے گہرے زخم دیتی ہے۔ اس مردم آزار بُت اور جنونیت سے ہمیشہ انسانیت کا ہی خون ہوتا رہا ہے۔ امریکہ، جنوبی افریقہ، اسرائیل، برما یا کہیں اور جہاں بھی آبادی کے کسی بیمار ذہن حصے یا ظالم کرسی والوں کی جانب سے جنونیت اور انسان دشمنی کو آشیر واد ملی، اس کے پیچھے ہمیشہ ابلیس کا نظریہ تفوق کار فرما رہا۔ ابلیس نے بھی آدم پر اپنی فوقیت کا فلسفہ تراش کر ایک بڑا فتنہ برپا کیا تھا۔ بہر حال امریکہ میں نسل پرستی کے خلاف جاری پُر تشدد مظاہرے لگ بھگ اسی گھمبیر صورت حال کی غمازی کرتے ہیں جو آج سے نو سال قبل تیونس اور مصر میں چشمِ فلک نے دوسرے انداز سے دیکھی۔ تیونس میں کسی ریڑھی والے کے ساتھ عدم جوابدہی سے شیر بنی پولیس کی ظلم وزیادتی نے وہاں کے لوگوں کو بے انتہا مشتعل کر دیا۔ لوگ اس قدر چراغ پا ہوئے کہ جنوری 2011ء کی یخ بستہ ہواؤں میں زین العابدین بن علی کی آمریت کے خلاف سینہ سپر ہو کر ملکی تاریخ کا ورق پلٹ کر کے ہی دم لیا ۔ ’’یاسمین انقلاب‘‘ کے نام سے شعلہ زن لاکھوں احتجاجیوں نے صرف 28 دن طویل جد وجہد میں بن علی کا تخت وتاج ختم کر ڈالا۔ اسی طرح مصر کے تحریر اسکوائر میں بھی عوامی مزاحمت کاری کی یہی بہادرانہ کہانی حسنی مبارک کو چلتا کر گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ امریکہ کی در پردہ مداخلت سے نہ اہلِ تیونس اپنے اَرمانوں کی نگری بسا سکے نہ مصر کو آمریت کے عفریت سے کوئی گلو خلاصی مل سکی۔ بہر صورت 25 مئی سے امریکہ میں مشتعل عوام کے جوش وجنون سے ٹرمپ کی سیاسی اور انتخابی مشکلیں یقیناً بڑھ گئی ہیں، لیکن اس وسیع البنیاد عوامی شورش سے ملک اور سماج کی نفسیات سے نسل پرستی کھرچ جائے ایسا سوچنا بھی خیال وجنون ہے۔ اصولاً اس ایجی ٹیشن کا منطقی لزوم کسی ایک شخص یا پارٹی کی کرسی چلی جانے میں مخفی نہیں بلکہ اس کے لیے قدرت نے انسانی دنیا کو جو ایک ہی ابدی نسخہ کیمیا دیا ہے اس پر تمام طبقاتِ عوام کا اجماع ہی مسئلے کا دائمی اور منصفانہ حل ہے۔ حق یہ ہے کہ زمانے کو جب کبھی واقعی کثیر مذہبی، کثیرنسلی، کثیر تہذیبی اور کثیر لسانی دنیا میں لوگوں کے درمیان مختلف النوع ناچاقیاں، رقابتیں اور نفرتیں مکمل طور ختم کرکے اُن میں محبتیں، اعتماد اور بھائی چارے کی مٹھاس گھولنا مطلوب ہو تو یہ اس کے لیے صرف اُسی صورت ممکن ہے جب اُسی عالمی چارٹر پر من وعن اور غیر مشروط آمنا وصدقنا کہا جائے جو پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع کے موقع پر انسانیت کے نام خدائے رحمان ورحیم کے آخری نمائندے کی حیثیت سے جاری فرمایا تھا۔ اس عالمی میثاق میں عرب وعجم اور کالے اور گورے کی تفریق کا قلع قمع کرتے ہوئے انسانوں کے مابین امن، عدل وانصاف، مساوات، یکجہتی اور حقوق البشر کی تکریم وتنفیذ کا مکمل نقشِ راہ دیا گیا ہے۔ اسلام کے عالمی چارٹر کی اگر آج بھی مخلصانہ پیروی کی جائے تو پوری دنیا سے تمام امراض، آفات اور بلائیں خود بخود کافور ہوں گی، دنیا نمونہ جنت بن جائے گی۔ امریکہ میں کالے مسلمان کہلانے والے طبقے نے بھی اپنے مربی عالی جاہ محمد کی سر براہی میں اپنا ’’اسلام‘‘ وضع کر کے اسی چارٹر کی خوشہ چینی کرنے کی آدھی ادھوری ہمت کی تھی۔ بہر حال آج کی تاریخ میں ستم رسیدہ دنیا کے لیے اسلام کے اس عالمی میثاق کی معنویت اور زیادہ بڑھ گئی ہے کیونکہ صرف اسی میں عالمِ انسانیت کے ہر زخم کا مرہم ہر مرض کی دوا پوشیدہ ہے۔ بس انسانی دنیا کو تھوڑی ہمت اور عزم کرنے کی ضرورت ہے۔
ش م احمد وادیٔ کشمیر کے آزاد صحافی ہیں


 

امریکہ میں مشتعل عوام کے جوش وجنون سے ٹرمپ کی سیاسی اور انتخابی مشکلیں یقیناً بڑھ گئی ہیں، لیکن اس وسیع البنیاد عوامی شورش سے ملک اور سماج کی نفسیات سے نسل پرستی کھرچ جائے ایسا سوچنا بھی خیال وجنون ہے۔ اصولاً اس ایجی ٹیشن کا منطقی لزوم کسی ایک شخص یا پارٹی کی کرسی چلی جانے میں مخفی نہیں بلکہ اس کے لیے قدرت نے انسانی دنیا کو جو ایک ہی ابدی نسخہ کیمیا دیا ہے اس پر تمام طبقاتِ عوام کا اجماع ہی مسئلے کا دائمی اور منصفانہ حل ہے۔ حق یہ ہے کہ زمانے کو جب کبھی واقعی کثیر مذہبی، کثیرنسلی، کثیر تہذیبی اور کثیر لسانی دنیا میں لوگوں کے درمیان مختلف النوع ناچاقیاں، رقابتیں اور نفرتیں مکمل طور ختم کرکے اُن میں محبتیں، اعتماد اور بھائی چارے کی مٹھاس گھولنا مطلوب ہو تو یہ اس کے لیے صرف اُسی صورت ممکن ہے جب اُسی عالمی چارٹر پر من وعن اور غیر مشروط آمنا وصدقنا کہا جائے جو پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع کے موقع پر انسانیت کے نام خدائے رحمان ورحیم کے آخری نمائندے کی حیثیت سے جاری فرمایا تھا۔