اقبالؔ کے ریاض سخن کی فضاے جاں پرور

فکر وفن کے افق سے معنیٰ کا جہاں آباد کرنے والا شاعر

ڈاکٹر صفدر، امراوتی ،مہاراشٹر

 

اقبالؔ کہتے ہیں:
خدائی اہتمام خشک و تر ہے
خداوندا خدائی درد سر ہے
ولیکن بندگی استغفر اللہ
یہ درد سر نہیں درد جگر ہے
درد سر سے دستبرداری اور درد جگر کی پاسداری اس بات کا اشارہ ہے کہ اقبالؔ دیگر مصروفیتوں پر شاعری کو ترجیح دیتے ہیں کہ شاعری بھی درد جگر کا ایک مظہر ہے۔ بقول شاعر:
خشک سیروں تن شاعر کا لہو ہوتا ہے
تب نظر آتی ہے اک مصرع تر کی صورت
تمام علمی کمالات میں اقبال کاانتخاب’شاعری‘ ہے۔سائنس، فلسفہ، طب، اخلاقیات، مذہبیات اور جملہ علوم ہوش وحواس کے متقاضی ہیں جبکہ شاعری سوتے جاگتے کاقصہ ہے۔ تمام سائنسی اور سماجی علوم اعیان کی مادی ماہیت مہیا کرتے ہیں جبکہ شاعری کی مہیا کردہ ماہیت ان علوم کے لیے ناقابل قبول ہوتی ہیں۔ علمی بیان کسی شئے کا بیان واقعہ ہے جبکہ شعرکااظہار خلاف واقعہ ہوتا ہے۔ مثلاً یہ شعر ملاحظہ فرمائیے:
کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا تیرا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرا تیرا
کلی پہ بیلے کی کس ادا سے پڑا ہے شبنم کا ایک موتی
نہیں یہ ہیرے کی کیل پہنے کوئی پری مسکرا رہی ہے
چودھویں کاچاند دیکھ کر کوئی یہ کہے کہ سرآسماں حسینۂ عالم جلوہ آراء ہے تویہ بیان خلاف واقعہ ہوگا۔ یابیلے کی کلی پرقطرہ شبنم کی حقیقت یہ ہے کہ ایک پری ہیرے کی کیل پہنے مسکرارہی ہے۔
چودھویں کاچاند یکھ کر کوئی یہ کہے کہ سرآسماں حسینۂ عالم جلوہ آراء ہے تویہ بیان تویہ بیان خلاف واقعہ ہے یہ شاعرانہ پیرایہ اظہارہے۔ یہ طریقہ اظہار تبلیغ دین، پند و نصیحت اور تعلیم و تعلم کے لیے کارآمد نہیں ہے اسی لیے یہ دعویٰ کہ ’شاعری جزویست ازپیغمبری ‘ غلط دعویٰ ہے۔ کچھ لوگ قرآن کی فصاحت، بلاغت اور مقفیٰ عبارت کے پیش نظر قرآن کوشاعری خیال کرتے تھے۔ مگراللہ تعالیٰ نے ان صفات کوشعر کی ماہیت سے خارج کردیا۔ فرمایا: وَمَاعَلّمْنٰہْ الشِّعْرَ۔
ہم نے رسول ﷺ کوشاعری نہیں سکھائی۔ نہ اللہ کاکلام شاعری ہے نہ رسول اللہ ﷺ کافرمان شاعری ہے۔ ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: مَاکَانَ حَدِیْث یُّفْترا۔
یہ کوئی گڑھی ہوئی بات نہیں ہے۔
شاعرتو بات گڑھتا ہے۔ اس کاکلام پندونصیحت، فہمائش، تبلیغ وسماج سدھار کے کام نہیں آتا۔ تمام علوم کاموضوع موجودات ہے۔ شاعر’عالم ناموجود‘ کی بات کرتا ہے۔ یہ دیکھیے کہ شاعر کس دنیا کی بات کرتاہے اور کس کیفیت میں شعر کہتا ہے۔
پھر لہو تڑپ اٹھا
اندھے راستوں پہ بے تکان اڑان کے لیے
بندآنکھ کی بہشت میں
سب دریچے کواڑکھل گئے
اپنی خلق کی ہوئی بسیط سرزمین پر
دھند بن کے پھیلتا سمٹتا جارہاہوں میں
خدائے لم یزل کے سانس کی طرح (قاضی سلیم)
’شاعراپنی خلق کی ہوئی بسیط سرزمین‘ پرعجیب نظارے دیکھتااور ہمیں بھی دکھاتا ہے۔ ہمارا آپ کاپسندیدہ شاعراقبالؔ بھی ’اپنی خلق کی ہوئی بسیط سرزمین‘ کی سیرکرتا ہے اور ہمیں بھی سیرکراتا ہے۔ یہ شاعر کے تخیل کاکمال ہے اسی تخیل کی پروازسے شاعر کی عظمت قائم ہوتی ہے۔ مگر پندونصیحت، وعظ وبیان، اخلاقیات، دینیات، جنت کا شوق، دوزخ کا خوف، اللہ کی ربوبیت، بندگی کے سربستہ راز، بندگی کی اخلاقیات وغیرہ ناک کی سیدھ میں چلنے کاتقاضہ کرتے ہیں۔ یہ کام تخیل کی بے پناہ اڑان کی اجازت نہیں دیتا۔ فلسفہ تواور بھی غور و خوض اور ہوش وحواس چاہتاہے۔ اس لیے میں اقبالؔ کوبڑاشاعر تومانتاہوں علامہ، حکیم مشرق، کامریڈ، فلسفی، مصلح قوم اور مفسرقرآن وغیرہ کہناپسندنہیں کرتا۔ فلسفیانہ اظہار کے لیے علم فلسفہ میں راست بحث کرنی چاہیے۔ کامریڈ کوکمیونزم پراظہارخیال کرناچاہیے۔ مصلح قوم کی اصلاحی تحریک چلانی چاہیے۔ ان سب کاموں کے لیے شعر کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جس طرح اصلاحی تحریک چلانے والامصلح کہلاتا ہے پندونصیحت کرنے والا واعظ کہلاتا ہے۔ علوم تفسیر کی روشنی میں قرآن کی تفسیر لکھنے والا مفسر قرآن کہلاتا ہے۔ اسی طرح تخیل کی بے پناہ اڑان کے ذریعے اپنی خلق کی ہوئی بسیط سرزمین کی سیرکرنے والا شاعر کہلاتا ہے۔ جو بات شاعر کے تخیل کو ’اندھے راستوں پہ بے تکان اڑان‘ کی تحریک نہیں دیتی وہ شاعری نہیں بن پاتی۔ وہ منظوم سپاٹ بیان ہوکر رہ جاتی ہے۔ بقول بلراج کومل:
’’خط مستقیم شاعری کادشمن ہے۔‘‘
حالی اپنے مقدمے میں ’شعرکامقابل علم وحکمت کوٹھہراتے ہیں‘ کہ علم وحکمت خط مستقیم کاسفر ہے، ناشاعرہے۔ اب کچھ مثالیں اقبالؔ کے یہاں سے خط مستقیم کے منظوم بیانات کی ملاحظہ فرمالیں۔ فرماتے ہیں:
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امراء کے در و دیوار ہلا دو
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روٹی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
قوت فکر و عمل پہلے فنا ہوتی ہے
پھر کسی قوم کی شوکت پہ زوال آتا ہے
یہ راست بیان ہے۔ یہاں اچھی باتیں کرنے کی کوشش ضرور ہے۔ مگرہراچھی بات شعر نہیں ہوتی۔ وزن اور قافیہ کاالتزام بھی بیانات کوشعر نہیں بناسکتا۔ اقبال کے یہاں ایسے منظوم بیانات بہت ہیں۔ سادہ لوح لوگ ان بیانات سے اقبال کا شعری مرتبہ متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے اقبال کوکوئی فلسفی کہتاہے، کوئی مفسر قرآن کہتا ہے، کوئی حکیم مشرق اور نہ جانے کیا کیا خطابات سے نوازا جاتا ہے۔ کم لوگ ہیں جواقبال کو ’شاعر‘ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب توعلامہ ان کااسم ثانی ہوکر رہ گیا ہے۔
بات یہ ہے کہ اقبال کثیرالمطالعہ شاعرہیں۔ وہ علوم جدیدہ کے ماہر ہیں۔ ان کا ذہنی پس منظربہت وسیع ہے۔ اس علمی پس منظر نے اقبال کو فائدہ ہی پہنچایاہے۔ مگر اقبالؔ کے قارئین کو بے سمت کردیاہے۔ اقبالؔ کے ناقدین اقبالؔ کی علمیت سے اتنے مرعوب ہیں کہ ان کے اصل کمال یعنی شاعری تک پہنچے کی جستجو ہی نہیں کرتے۔ اقبالؔ کادماغ فلسفی ہے اور دل شاعر ہے۔ اقبالؔ نے اپنے انتخاب میں شاعر کومنتخب کیاہے جبکہ ناقدین اقبالؔ نے ان کی شاعری سے صرف نظر کرتے ہوئے ان کے علم کامول بھاؤ شروع کردیا ہے۔ وہ مولویان کرام کے لیے علیہ الرحمتہ ہیں، سماج سدھارکوں کے لیے مصلح قوم ہیں، یونیورسٹی کے اساتذہ کے لیے فلسفی ہیں۔ مگرخوداقبال اپنے انتخاب میں شاعرہیں۔ اقبال کی ایک مختصر سی نظم ہے’عقل ودل‘ اقبال ؔکے یہاں مکالمات بہت ہیں۔ یہ نظم بھی ایک مکالمہ ہے۔ عقل اپنی لن ترانیاں سناچکی تودل یوں گویا ہوتا ہے:
راز ہستی کو تو سمجھتی ہے
اور آنکھوں سے دیکھتا ہوں میں
ہے تجھے واسطہ مظاہر سے
اور باطن سے آشنا ہوں میں
علم تجھ سے تو معرفت مجھ سے
تو خدا جو خدا نما ہوں میں
شمع تو محفل صداقت کی
حسن کی بزم کا دیا ہوں میں
تو زمان و مکاں سے رشتہ بپا
طائر سد رہ آشنا ہوں میں
کس بلندی پہ ہے مقام مرا
عرش رب جلیل کا ہوں میں
اس نظم کوپڑھ کر میں اس نتیجے پرپہنچا ہوں کہ عقل فلسفی اقبالؔ ہے اور دل شاعر اقبالؔ ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ فلسفی آگہی چاہتا ہے، شاعرمعرفت آشناہے۔ فلسفی کا تعلق مظاہر سے ہیں، شاعرکاواسطہ باطن سے ہے۔ فلسفہ اقبالؔ کوبے چین رکھتا ہے۔ شاعری اقبالؔ کی بے چینی کا علاج ہے فلسفی، صداقت کی تلاش میں ہے۔ شاعراقبال ؔحسن کامتوالا ہے۔ فلسفی فرش سے عرش تک سرگرداں ہے، شاعر معراج بکنار یعنی سدرہ آشنا ہے۔ فلسفی خدا کی تلاش میں ہے۔ شاعرخدا کے حضورمیں ہے۔ فلسفی اقبالؔ عقل کے خانے کے مندرجات سے علاقہ رکھتاہے۔ شاعراقبالؔ ’دل‘ کے خانے کے مندرجات سے متعلق ہے۔ اس لیے کلیم الدین احمدکہتے ہیں کہ جہاں اقبال راہ نجات دکھانے کی کوشش کرتے ہیں، شاعری کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے۔
اب مشتے از خروارے اقبال کے یہاں شاعرانہ تخیل کی کار فرمائیاں ملاحظہ فرمائیں۔ ہم پھولوں بھری وادی یاغروب آفتاب کامنظردیکھتے ہیں۔ مگراس تجربے کے حسن کے اظہار سے عاجز ہیں ہم کہتے ہیں اتناخوبصورت منظرتھاکہ میں بیان نہیں کرسکتا۔ اقبال اپنے کرشمہ ساز تخیل کی مددسے اسے یوں بیان کرتے ہیں:
پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار
اودے اودے نیلے نیلے پیلے پیلے پیرہن
وادی کوہسار میں غرق شفق ہے سحاب
لعل بدخشان کے ڈھیر چھوڑ گیا آفتاب
غروب آفتاب کاایک منظر تواقبال ایسابیان کرتے ہیں کہ تحیر خیز ڈرامہ کا لطف آتا ہے:
سورج نے جاتے جاتے شام سیہ قبا کو
طشت افق سے لے کر لالے کے پھول مارے
یہاں سورج اور شام دوچاہنے والے ہیں۔ جودم ِوداع ایک دوسرے کو چھیڑ رہے ہیں۔ سورج افق کی تھال سے، جولالہ کے پھولوں سے بھری ہے۔ لالے کے پھول لے کر شام سیہ قبا کی طرف اچھال رہا ہے۔
قطرہ ہائے شبنم پر اردو میں بہت کہے گئے ہیں۔ مثلاً انیس کا شعر ہے:
کھا کھا کے اوس اور بھی سبزہ ہرا ہوا
تھا موتیوں سے دامن صحرا بھرا ہوا
یا ع شبنم نے بھر دیے ہیں کٹورے گلاب کے
یا ع پتے شبنم سے وضو کرتے ہیں، وغیرہ
اقبال نے قطرہ ہائے شبنم پربہت خوبصورت نظم کہی ہے۔ حقیقت حسن یہ نظم ایک ڈرامہ ہے۔ عرش پاک سے دامن خاک تک ایک اسٹیج ہے اس میں خدا، حسن ، قمر، تارے، اختر سحر، شبنم، موسم بہاراں سب اپنا کردار نبھاتے ہیں:
خدا سے حسن نے ایک روز یہ سوال کیا
جہاں میں تونے مجھے کیوں نہ لازوال کیا
ملا جواب کہ تصویر خانہ ہے دنیا
شب دراز دم کا فسانہ ہے دنیا
ہوئی ہے رنگ تغیر سے جب نمود اس کی
وہی حسیں ہے حقیقت زوال ہے جس کی
کہیں قریب تھا یہ گفتگو قمر نے سنی
فلک پر عام ہوئی اختر سحر نے سنی
سحر نے تارے سے سن کر سنائی شبنم کو
فلک کی بات بتا دی زمیں کے محرم کو
چمن سے روتا ہوا موسم بہار گیا
شباب سیر کو آیا تھا سوگوار گیا
اقبال کے تخیل نے ایک دلچسپ پلاٹ خلق کیا ہے۔ حسن اور خدا کے درمیان راز و نیاز کی بات ہورہی ہے۔ قریب کھڑے چاندنے کان لگاکر یہ بات سن لی۔ معلو م ہوا کہ ہر حسین شئے رنگ تغیر سے بنائی گئی ہے تغیر حسن کے زوال کاسبب بنتا ہے۔ آسمان پر تاروں میں کاناپھوسی ہوتی ہے۔ بات اختر سحرسے سحر تک اور پھر شبنم تک پہنچتی ہے۔ شبنم آسمان سے زمیں پر آتی جاتی ہے۔ شبنم نے یہ راز بہار پرکھول دیا۔ قطرہ ہائے شبنم کی صورت میں بہار گریہ کرتی ہے۔ شباب سیر کے لیے آیاتھا اور سوگوار واپس جاتا ہے۔
اقبال اردو کےان معدودے چند شاعروں میں ہیں جن کاذخیرہ الفاظ بہت زیادہ ہے۔ وہ اس راز سے بھی واقف ہیں کہ الفاظ ’معنی کاگھر‘ ہیں۔ اقبال کاعلم اور ذخیرہ الفاظ ان کے تجربات کی دنیا کووسیع تربناتے ہیں۔ تجربات کی وسعت تخیل کے تمول کاسبب بنتی ہے۔ اقبال اپنے علم اپنے ذخیرہ الفاظ اور اپنے تخیل کی مددسے ساری کائنات میں ہماہمی مشاہدہ کرتے ہیں ان کوہرطرف حرکت وعمل کی آباد دنیائیں نظرآتی ہیں۔ اس لیے وہ اعیان میں وہ چیزیں دیکھتے ہیں جوہم نہیں دیکھ سکتے۔ اعیان کودیکھنے کی ہماری عادت اور ہماری طاقت محدود ہے۔ اقبال ہرشئے میں اپنے تخیل کی مددسے بہت کچھ شامل کردیتے ہیں۔ اس طرح فن پارے وجود میں آتے ہیں۔ شاعری کی ایک تعریف یہ ہے کہ
گلاب کا پھول، گلاب کا پھول ہے
گلاب کا پھول گلاب کا پھول نہیں ہے
پھر بھی گلاب کا پھول گلاب کا پھول ہے
یعنی : گلاب + غیرگلاب = گلاب جوایک تخلیقی شہ پارہ ہے۔
معنی کی نئی وسعتوں کوحیطہ اظہارمیں لانے کے لیے اقبال ترکیب سازی سے بھی کام لیتے ہیں۔ یہ غالبؔ کاوطیرہ ہے۔ جواقبالؔ، فیضؔ اور ظفر اقبال سے نئے شعراء تک چلا آتا ہے اور معنی کی بہار کااحاطہ کرتا ہے۔ اس ضمن میں اقبالؔ کی ایک نظم ملاحظہ فرمائیں:
ستارہ صبح کا روتا تھا اور کہتا تھا
ملی نگاہ مگر فرصت نظر نہ ملی
ہوئی ہے زندہ دم آفتاب سے ہر شئے
اماں مجھی کو تہہ دامن سحر نہ ملی
بساط کیا ہے بھلا صبح کے ستارے کی
نفس حباب کا تابندگی شرارے کی
کہا یہ میں نے کہ اے زیور جبین سحر
غم فنا ہے تجھے گنبدفلک سے اتر
ٹپک بلندی گردوں سے ہمرہ شبنم
مرے ریاض سخن کی فضا ہے جاں پرور
میں باغباں ہوں محبت بہار ہے اس کی
بنا مثال ابد پائیدار ہے اس کی
اس مختصرنظم میں کئی ترکیبیں استعمال ہوئی ہیں۔ فرصت نظر، دم آفتاب، تہہ دامن سحر، نفس حباب کا، تابندگی شرارے کی، زیور جبین سحر، غم فنا، گنبدفلک، بلندی گردوں، ہمرہ شبنم، ریاض سخن اور مثال، ابدنگاہ کاملنا مگرفرصت نظر سے محروم رہنا،دم آفتاب سے ہر شئے کا جی اٹھنا مگراسی چیز کا صبح کے ستارے کے لیے موت کاسبب ہوجاناکیسے حیرت انگیز بیانات ہیں۔ شاعر نے تضادات کے ذریعے محزونی کوفزوں ترکردیاہے۔ پھرریاض سخن کی فضائے جاں پرور کاتعارف ہوتاہے۔ ہمارے غم اور ہماری خوشیوں کافن کے سانچے ڈھل کر مثال ابدپائیدار ہوجانانظم کو ایک نئی کروٹ دیتا ہے۔ یہ شاعراقبال کی کارگزاری ہے۔ اقبالؔ کے ریاض سخن کی فضائے جاں پرورکاثمرہ ہے۔
***

اقبال اردو کےان معدودے چند شاعروں میں ہیں جن کاذخیرہ الفاظ بہت زیادہ ہے۔ وہ اس راز سے بھی واقف ہیں کہ الفاظ ’معنی کاگھر‘ ہیں۔ اقبال کاعلم اور ذخیرہ الفاظ ان کے تجربات کی دنیا کووسیع تربناتے ہیں۔ تجربات کی وسعت تخیل کے تمول کاسبب بنتی ہے۔ اقبال اپنے علم اپنے ذخیرہ الفاظ اور اپنے تخیل کی مددسے ساری کائنات میں ہماہمی مشاہدہ کرتے ہیں ان کوہرطرف حرکت وعمل کی آباد دنیائیں نظرآتی ہیں۔ اس لیے وہ اعیان میں وہ چیزیں دیکھتے ہیں جوہم نہیں دیکھ سکتے۔ اعیان کودیکھنے کی ہماری عادت اور ہماری طاقت محدود ہے۔ اقبال ہرشئے میں اپنے تخیل کی مددسے بہت کچھ شامل کردیتے ہیں۔ اس طرح فن پارے وجود میں آتے ہیں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 8 تا 14 نومبر، 2020