ڈاکٹر سید محی الدین علوی، حیدرآباد
یہ بات خوش آئند ہے کہ عوام الناس میں دین کا محدود تصور ختم ہورہا ہے اور دین کا شعور انہیں حاصل ہورہا ہے لیکن اسلام کو غالب کرنے کی بات ابھی دلوں میں جاگزیں نہیں ہورہی ہے وہ بار بار قرآن مجید کی یہ آیت تو پڑھتے ہیں:
ادخلوا فی السلم کافہ (مسلمانو) اسلام میں پورے کے پورے داخل ہوجاو لیکن اس پر عمل درآمد نہیں کرتے۔ وہ یہ تو جانتے ہیں کہ اسلام میں دین و دنیا کا فرق نہیں اور اسلام صرف چند عبادات اور اخلاقیات کا نام بھی نہیں ہے بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں احکام الہی پر کاربند ہونے کا نام ہے۔ آج عملی طور پر مسلمان اسلام کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ شادی بیاہ میں غیر اسلامی رسومات کا چلن اور جوڑے گھوڑے کی لعنت، وراثت میں لڑکیوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنا، کاروبار میں دھوکہ دہی اور بے ایمانی، سود کی لعنت، فحش، بے حیائی اور اخلاق باختہ کام مخلوط تعلیم کو بڑھاوا دینا، موبائل اور انٹرنیٹ کا غلط استعمال، مسلم لڑکیوں کا غیر مسلم لڑکوں سے پینگیں بڑھانا ور ان سے شادی کرنے کے لیے اپنا مذہب تبدیل کرنا، نوجوانوں میں چرس اور منشیات کا استعمال، غیر اسلامی سیاست میں عملی حصہ غرضیکہ کون سے ایسے برے کام ہیں جنہیں مسلمان (الا ماشا اللہ) برا جانتے ہوئے بھی نہیں کررہے ہیں؟ اور جہاں تک فرض کاموں یعنی اقامت دین اور اعلائے کلمۃ اللہ کا سوال ہے، جن کی ادائیگی پر ہی ہماری فوز و فلاح اور نجات کا انحصار ہے اس پر چند ایک درمندانِ ملت کے علاوہ بہت سے لوگوں کی توجہ نہیں ہے۔ اب آئیے اقامت دین اور اعلائے کلمۃ اللہ کی اہمیت اور اس کے اصول اور ضابطوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
امت مسلمہ کا مقصد وجود اقامت دین ہے۔ ارشادِ خدا وندی ہے:
’’(مسلمانو) اللہ نے تمہارے لیے وہی دین مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوحؑ کو دیا تھا اور جس کی (اے نبیؐ) ہم نے تم پر وحی کی ہے اور جس کا حکم ہم نے ابراہیمؑ کو موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کو دیا تھا کہ اس دین کو قائم کرو۔‘‘ (الشوری:۲۳)
اقامت دین کی ایک تعبیر اعلائے کلمۃ اللہ بھی ہے۔ یعنی اللہ کے کلمے کو سر بلند کرنا۔ کسی شخص کا اپنی انفرادی زندگی میں احکام الٰہی کا پابند ہونا کچھ مشکل نہیں ہے لیکن بہت سے کام ایسے ہیں جو اجتماعی معاملات کی تعریف میں آتے ہیں اور انہیں روبعمل لانے کے لیے اجتماعیت کی ضرورت ہوتی ہے جسے جماعت کہا جاتا ہے۔ اسلام میں جماعت کی کتنی اہمیت ہے اس کا اندازہ اس حدیث مبارکہ سے ہو سکتا ہے جس میں اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’میں تمہیں پانچ چیزوں کا حکم دیتا ہوں، جماعت سمع (حکم سننا) طاعت (حکم ماننا) ہجرت (ضرورت کے وقت اللہ کے دین کی خاطر وطن تک چھوڑ دینا) اور جہاد (اللہ کے دین کی خاطر جان توڑ کوشش کرنا اور وقت آنے پر اس راہ میں جان تک کی بازی لگا دینا) جو شخص جماعت سے بالشت بھر بھی الگ ہوا اس نے اسلام کا حلقہ اپنی گردن سے اتار پھینکا۔ سوائے اس شخص کے جو پھر جماعت میں لوٹ ائے اور اس نے جاہلیت (اسلام کے اصولوں کے خلاف کام کی دعوت دی وہ جہنمی ہے۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ اگرچہ وہ روزہ رکھے اور نماز پڑھے؟ (تب بھی جہنمی ہے؟) حضورؐ نے فرمایا ہاں اگر چہ وہ نماز پڑھے، روزہ رکھے اور اپنے کو مسلمان کہے‘‘(احمد و حاکم)
اس حدیث میں جماعت سے نکل جانے والے کے بارے میں سخت وعید آئی ہے۔ دنیا میں چھوٹے سے چھوٹا کام بھی بغیر اجتماعیت کے نہیں ہو سکتا پھر اقامت دین اور اعلائے کلمۃ اللہ کا کام جو سب میں اہم ہے بھلا بغیر جماعت کے کیسے ہو سکتا ہے۔ یہ نماز، روزہ اور حج بھی بغیر جماعت کے ادا نہیں ہو سکتے بلکہ کہنا چاہیے کہ ان کے ذریعہ اقامت دین کے کاموں کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔ دوسرا اہم کام اقامت دین کے فریضہ کو انجام دینے میں ناگزیر ہے وہ ہے صبر و استقامت۔ اقامت دین کا کام کوئی پھولوں کی سیج نہیں ہے کہ اس میں کوئی مشکل نہ آئے بلکہ اس راہ میں مصائب و آلام آنا یقینی ہے۔ کاروبار کا متاثر ہونا، روزگار کا چِھن جانا، رزق میں تنگی ہونا، بلکہ کبھی کبھی باطل طاقتوں کے ذریعہ پابند سلاسل بنایا جانا کچھ عجب نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت ایسے مردان کار کو حاصل ہوتی ہے اور بالآخر حق کو غلبہ حاصل ہوتا ہے اور اللہ کا دین غالب ہو کر رہتا ہے۔
وَقُلْ جَآءَ ٱلْحَقُّ وَزَهَقَ ٱلْبَٰطِلُ ۚ إِنَّ ٱلْبَٰطِلَ كَانَ زَهُوقًا(بنی اسرائیل۸۱)
’’کہہ دو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔ باطل تو ہے ہی مٹنے والا‘‘۔ راہ حق میں مشکلات پیش آتی ہیں ان راہوں میں اہل ایمان ایک دوسرے کے معاون اور مددگار ہوتے ہیں اور رفیق کار بھی ۔تیسری چیز جو اقامت دین کا کام کرنے والوں کے لیے ضروری ہے وہ ہے اللہ کا ذکر ۔ انسان اکثر اللہ کی یاد سے غافل ہو جاتا ہے جس سے شیطان اس پر مسلط ہو جاتا ہے۔ وہ یہ تک بھول جاتا ہے کہ کل روز محشر میں اللہ تعالیٰ کے ہاں سخت پُرسش ہوگی اور اپنی کوتاہیوں کے بارے میں اسے جواب دینا ہو گا۔ اسے جواب دینا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بہترین دل و دماغ دیا۔ وقت بھی دیا تھا اور قابلیت اور صلاحیت سے بھی نوازا تھا۔ پھر کیوں اس نے اقامت دین کے فریضہ کو انجام نہیں دیا؟
چوتھا کام بارگاہ الٰہی میں مناجات اور دعا ہے۔ دعا کبھی خالی نہیں جاتی۔ یا تو قبول ہو جاتی ہے یا اس سے بہتر چیز اللہ تعالیٰ اسے عطا فرماتا ہے یا پھر آخرت میں اس کے لیے ذخیرہ کردی جاتی ہے۔ اللہ جل شانہ سے دعا کرنی چاہیے کہ اقطاع عالم میں اللہ کا دین غالب ہو جائے۔ باطل کو شکست فاش ہوجائے اور وہ ملیا میٹ ہو جائے۔ قرآن مجید میں اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے:
اور اے نبیؐ، میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انہیں بتادو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔ لہٰذا انہیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں (یہ بات تم انہیں سنادو) شاید کہ وہ راہ راست پالیں۔ (البقرہ:۱۸۶)
ذکر الٰہی کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث سے ہو سکتا ہے کہ ایک شخص نے رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا ’’اے اللہ کے رسول آپ مجھے نصیحت کیجیے لیکن ہو وہ مختصر۔ آپ نے ارشاد فرمایا :
تیری زبان اللہ کے ذکر سے تر رہے۔
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 14 نومبر تا 20 نومبر 2021