افغانستان اور متعصب میڈیا‘ اہم ملکی مسائل پر زبان بند

افغانستان کی آڑ میں مسلمانوں کی شبیہ داغدار کرنے کی مہم!

ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی

منور رانا، مولانا سجاد نعمانی اور ڈاکٹر شفیق الرحمٰن پر گری برق ۔۔!
افغانستان میں سامراجی قوتوں کی پسپائی اور کٹھ پتلی انتظامیہ و بد عنوان حکمرانوں کے خاتمے نیز نئے اقتدار کے ہاتھوں میں زمام کار کے آثار نظر آتے ہی بھارتی میڈیا کے اندر ایک زلزلہ سا آگیا ہے۔
جانب دار میڈیا بھول گیا کہ وزیر اعظم نے لال قلعہ کی فصیل سے کون کون سے خوبصورت خواب دکھائے تھے؟ عدالتِ عظمیٰ میں پیگاسس کے تعلق سے کیا پیش رفت ہورہی ہے؟ دہلی فساد کے تعلق سے ہائی کورٹ میں کون سے اہم فیصلے ہورہے ہیں؟ شمال مشرق میں میزورم اور آسام تنازع کے بعد میگھالیہ میں اس قدر خلفشار کیوں برپا ہوا کہ وزیر داخلہ کو استعفیٰ دینا پڑا؟ چھتیس گڑھ میں نکسلی سی آر پی ایف کے دو نوجوانوں کو ہلاک کرکے ان کا اسلحہ لوٹ کر کیسے لے گئے وغیرہ۔ حالانکہ یہ سب اپنے ملک کی اہم وارداتیں ہیں، یہاں تک کے اتر پردیش کی انتخابی اتھل پتھل بھی پس پردہ چلی گئی ۔
میڈیا فی الحال افغانستان سے متعلق صحیح اور غلط خبریں پھیلانے میں دن رات مصروف ہے۔ ویسے کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ اس کے پیچھے بھی اترپردیش میں یوگی کے حق میں فضا ہموار کرنے کی ایک سازش کار فرما ہے۔ اس سے قطع نظر یہ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی ایک تازہ مہم ہے اور اس مقصد میں وہ کامیاب ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ وہاں خبروں کو توڑ مروڑ کر عوام کو بلاوجہ خوفزدہ کرنے کا ایک سلسلہ چل پڑا ہے۔ ایسے میں معروف شاعر منور رانا نے یہ کہہ کر سب کو چونکا دیا کہ جو بے رحمی افغانستان میں کی جا رہی ہے اس سے کہیں زیادہ بے رحمی تو یہاں ہندوستان میں موجود ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پہلے رام راج تھا لیکن اب کام راج ہے، اگر رام سے کام ہے تو ٹھیک، ورنہ کچھ نہیں۔
منور رانا ایک نرم لہجے کے شاعر ہیں لیکن جب وہ سیاسی حالات پر اظہار خیال کرتے ہیں تو ان کا لب و لہجہ خاصا سخت ہو جاتا ہے اور وہ بلا خوف وخطر اپنے دل کی بات پیش کردیتے ہیں ۔ شاعری کی دنیا میں منور رانا کا بڑا مقام ہے وہ بہت اچھے نثر نگار بھی ہیں لیکن سیاسی دانشور نہیں ہیں اس لیے ان کے خیالات سے اختلاف بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن وہ عام لوگوں کے زبان و لہجہ میں اپنی رائے کو ظاہر کردیتے ہیں۔
منور رانا کا مذکورہ بیان اسی زمرے میں آتا ہے اس لیے کہ اب تک کی میڈیا رپورٹوں کے مطابق دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے دوران طالبان کا رویہ خاصا نرم ہوا ہے۔ انہوں نے ایک طرف عام معافی کا اعلان کردیا ہے تو دوسری طرف خواتین کےحقوق کی بابت اندیشوں کو ختم کردیا ہے۔ اہل تشیع کے جلوس کو تحفظ فراہم کیا ہے اور گردوارے کا ازخود دورہ کر کے ملک کی اقلیتوں کے تحفظ سے متعلق شکوک و شبہات کا ازالہ کردیا ہے۔ ظلم و جبر کی جو خبریں ذرائع ابلاغ میں ان سے منسوب کی جا رہی ہیں ان میں سے اکثر گھڑی ہوئی ہیں یا کسی کا انفرادی عمل ہے جس کو طالبان سے جوڑا جا رہا ہے۔
منور رانا نے نہ صرف ظلم وجبر کا موازنہ کیا ہے بلکہ یہ بھی کہا کہ ہندوستان کو طالبان سے خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ افغانستان کا بھارت سے ہزاروں برس کا تعلق رہا ہے اور اس نے ہمارے ملک کو کبھی نقصان نہیں پہنچایا ہے۔ یہاں تک کہ جب ملا عمر کی حکومت تھی اس وقت بھی انہوں نے بھارت کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اتنی اے کے-47 رائفلیں طالبان کے پاس نہیں ہوں گی جتنی ہندوستان میں مافیاوں کے پاس ہیں۔ طالبان تو اسلحہ چھین کر یا مانگ کر لاتے ہیں لیکن ہمارے یہاں کے مافیا تو ہتھیار خریدتے ہیں۔ یہ سب بھی تحقیق طلب امور ہیں لیکن عام آدمی اس طرح کی سوچ رکھتا ہے۔ اتر پردیش حکومت کی جانب سے دیوبند میں اے ٹی ایس کا مرکز کھولنے پر منور رانا نے بڑی پتہ کی بات کہی کہ ’جب تک یہ حکومت ہے کچھ بھی کر سکتی ہے لیکن موسم ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا۔ تبدیلی مذہب جیسے مسائل ملک کو برباد کر دیتے ہیں (ان کا اشارہ غالباً تبدیلی مذہب کے نئے قانون کی طرف تھا ورنہ یہ تو انسان کا بنیادی حق ہے) لیکن ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک پہلے جیسا ہو جائے۔
منور رانا نے کھری کھری سناتے ہوئے کہا کہ ’’اتر پردیش میں بھی تھوڑے بہت طالبانی ہیں، یہاں نہ صرف مسلمان بلکہ ہندو طالبان بھی موجود ہیں۔ دہشت گرد کیا صرف مسلمانوں میں ہوتے ہیں؟ دہشت گرد ہندوؤں میں بھی ہوتے ہیں۔ مہاتما گاندھی سیدھے تھے اور ناتھورام گوڈسے طالبانی تھا۔ یوپی میں بھی طالبان جیسا کام کیا جا رہا ہے‘‘۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ لکھنو میں بیٹھ کر اس قدر سخت بیانات دینے کے باوجود منور رانا کے خلاف کوئی شکایت درج نہیں ہوئی کیونکہ انہوں نے ایک آئینہ دکھا دیا۔
کل یگ میں کیمرے کے ساتھ آئینہ بھی جھوٹ بولنے لگا ہے اس لیے یہ عکس بھی پوری طرح درست نہیں ہے۔ اس کے برعکس سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ شفیق الرحمن برق پر ملک سے غداری کی ایف آئی آر درج ہوگئی ہے کیونکہ انہوں نے افغانستان سے امریکیوں کے انخلاء کا انگریزوں کے بھارت چھوڑ جانے سے موازنہ کردیا۔
یہ حقیقت بھی دلچسپ ہے کہ شکایت کنندہ اسی بی جے پی کے مقامی رہنما ہیں جس کے پریوار نے آزادی کی جدوجہد سے خود کو دور رکھا تھا۔ اسی پارٹی کی ایک رکن پارلیمنٹ پرگیہ ٹھاکر نے گاندھی جی کے قاتل گوڈسے کے تئیں کھلے عام عقیدت کا اظہار کیا تھا۔ پرگیہ کی حرکت سے وزیر اعظم کو ’قلبی تکلیف‘ پہنچی تھی، اس کے باوجود پرگیہ ٹھاکر کے خلاف مقدمہ تو دور پارٹی کی جانب سے کوئی تادیبی کارروائی تک نہیں ہوئی۔ ویسے اپنے اور پرائے میں فرق اگر ورن آشرم کے حامی نہ کریں تو اور کون کرے گا؟ اترپردیش کے سنبھل میں سماجوادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر شفیق الرحمٰن برق پر افغانستان میں طالبان کے قبضے کی حمایت کرنے کا الزام ہے۔ بی جے پی کے راجیش سنگھل کی شکایت پر پولیس نےان کے خلاف غیر ضمانتی دفعات مثلاً آئی پی سی کی دفعہ 124 اے (ملک سے غداری) کے علاوہ 153 اے اور 295 کے تحت ایف آئی آر درج کی ہے۔
طالبان کے مخالفین یہ سوچ کر پریشان ہیں کہ ان کے اقتدار میں آجانے کے بعد افغانستان میں اظہار رائے کی آزادی ختم ہوجائے گی لیکن وطن عزیز میں تو ایسا کچھ نہیں ہے یہاں ہر کوئی اپنے من کی بات کرنے کے لیے آزاد ہے۔ طالبان کی مخالفت کرنے کی کھلی چھوٹ موجود ہے۔ لیکن اگر کسی نے ان کی حمایت میں دو بول کہہ دیے تو اسے برداشت نہیں کیا جاتا بلکہ غدارِ وطن قرار دے کر اس پر مقدمہ ٹھونک دیا جاتا ہے۔ اس دلچسپ آزادی کے حق میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ طالبان کا اندراج ملک کی دہشت پسند تنظیموں میں ہے۔ وزارت داخلہ کی جو فہرست انٹرنیٹ پر موجود ہے اس میں تو یہ نام نہیں ہے۔ روس کے اندر ایسا ضرور ہے لیکن اس کا سفیر تو طالبان سے کھلے عام ربط میں ہے مگر ہندوستان کے اندر ابھی تک اس بابت 14 لوگوں کے حراست میں لیے جانے کی خبر آچکی ہے اور سوشل میڈیا کی نگرانی کی جارہی ہے۔
شفیق الرحمن برق پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے افغانستان میں طالبان کے قبضے کو صحیح ٹھیراتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان کی آزادی اس کا اپنا معاملہ ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ امریکہ افغانستان میں کیوں حکومت کر رہا ہے؟ اور کہا کہ طالبان وہاں کی طاقت ہیں۔ طالبان نے امریکہ اور روس کے قدم جمنے نہیں دیے۔ افغان عوام طالبان کی قیادت میں آزادی چاہتے ہیں۔ بھارت میں بھی پورا ملک انگریزوں سے لڑا۔ اگر سوال بھارت کا ہو اور اگر کوئی یہاں اس پر قبضہ کرنے کے لیے آتا ہے تو ملک اس سے لڑنے کے لیے مضبوط ہے۔ اس بیان میں کیا بات قابل اعتراض ہے؟ یہ تو طالبان کے حامی یا مخالف سب کی سمجھ سے پرے ہے۔ ویسے شفیق الرحمٰن برق نے طالبان کی حمایت میں بیان دینے والی خبروں سے متعلق یہ صفائی دے دی ہے کہ ’’میں نے ایسا کوئی بیان نہیں دیا، یہ بالکل غلط ہے۔ انہوں نے کہا جب مجھ سے سوال کیا گیا تو میں نے صاف طور سے کہا کہ اس کا مجھ سے کیا تعلق؟ ان کا کہنا ہے کہ میں نے صرف اتنا کہا کہ میرے ملک کی جو پالیسی ہوگی میں اس کے ساتھ ہوں گا، میں نے اس میں کیا جرم کر دیا؟ میں نے طالبان کے سلسلے میں کسی بھی طرح کی رائے دینے سے انکار کر دیا۔ میرے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے‘‘۔ ویسے اس کی ضرورت نہیں تھی لیکن یہ ان کا اپنا معاملہ ہے۔
شفیق الرحمٰن برق کے لیے تریپورہ میں بر سرِ اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن اسمبلی ارون چندر بھومک کی جانب سے ایک بلا واسطہ دلچسپ حمایت آگئی۔ بھومک نے ببانگِ دہل کہہ دیا کہ اگرتلہ ہوائی اڈے پر ترنمول کانگریس کے رہنماؤں کا بی جے پی کے کارکنوں کو ‘طالبانی طرز’ میں مقابلہ کرنا چاہیے۔ اس طرح گویا بی جے پی رکن اسمبلی نے طالبان کو اپنے لیے نمونہ مان لیا حالانکہ اس بیچارے کو یہ تک معلوم نہیں کہ طالبان ہوائی اڈے پر آنے والوں کا مقابلہ نہیں بلکہ وہاں سے جانے والوں کو سہولت فراہم کررہے ہیں۔ اے ایف پی نامی بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی نے تصدیق کی ہے کہ طالبان نے ہندوستانی سفارت کاروں کی ملک سے نکلنے میں مدد کی ہے۔ برق کے مقابلے میں بھومک کا بیان نہایت اشتعال انگیز ہے مگر اس پر بی جے پی کی جانب سے یہ صفائی کافی ہو گئی کہ یہ پا رٹی کا نہیں بلکہ رکن اسمبلی کا ذاتی بیان ہے ۔ یہی دلیل مولانا سجاد نعمانی کی بھی ہے کہ ان کے بیان کا مسلم پرسنل لا بورڈ سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ ان کی نجی رائے ہے۔ ویسے موصوف کے بیان میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے اس کے باوجود کوئی جندل نامی وکیل ان کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کی دہائی دے رہا ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ لوگ جس بات پر چیں بہ چیں ہیں اس پر یہ شعر صادق آتا ہے؎
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے
مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس سے شکست نے بی جے پی کو باولا کرکے رکھ دیا ہے۔ ٹی ایم سی کا اگلا ہدف تریپورہ میں 2023میں ہونے والا اسمبلی انتخاب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹی کے جنرل سکریٹری ابھیشیک بنرجی باربار وہاں کے چکر لگا رہے ہیں۔ اس سے گھبرا کر بیلونیا انتخابی حلقہ کے بی جے پی رکن اسمبلی ارون چندر بھومک نےترنمول کانگریس پر تریپورہ کی صوبائی سرکار کو نقصان پہنچانے کا الزام لگادیا ۔ انہوں نے ایک تہنیتی تقریب میں سبھی شرکا سے درخواست کی کہ وہ ٹی ایم سی پر طالبانی طرز میں حملہ کردیں۔ بھومک نے خون کی ہر ایک بوند سے بپلب کمار دیب کی بی جے پی سرکار کو بچانے کے عزم کا اظہار کیا۔ اتفاق سے تریپورہ کے ٹی ایم سی سربراہ بھی بھومک قبیلے کے سبل بھومک ہیں۔ انہوں نے بی جے پی ایم ایل اے کی گرفتاری کا مطالبہ کردیااور ترنمول رہنماؤں کو اگرتلہ کے ایک ہوٹل میں (جہاں وہ قیام پذیر تھے) پریشان کرنے کا الزام بھی لگادیا۔ سبل کے مطابق یہ واقعہ مذکورہ ایم ایل اے کی اشتعال انگیزی کا نتیجہ ہے ۔
ترنمول کی سابق رکن پارلیمنٹ ریتابرت بنرجی نے بی جے پی پر حملہ کرنے کے لیے ایک ’تھینگرے واہنی‘ (غنڈہ دل) بنانے کا بھی الزام لگایا۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ معاملہ صرف بیان بازی تک محدود نہیں ہے۔ بنرجی کے مطابق بی جے پی کا حملہ مایوسی کی علامت ہے۔ بی جے پی کےترجمان سبرت چکرورتی نے ارون چندر بھومک کےتبصرے سے پلہ جھاڑتے ہوئے کہہ دیا کہ اس بیان کا پارٹی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اور یہ بی جے پی کی تہذیب نہیں ہے۔ ویسے بی جے پی کے اندر ایسی بد تہذیبی پر کارروائی کرنے کی روایت بھی نہیں ہے۔ چہار جانب سے ہونے والی تنقید کے سبب ارون چندر بھومک بھی ’طالبانی‘ لفظ کے استعمال پر مدافعت میں آگئے ہیں۔ وہ اپنی صفائی میں کہہ رہے ہیں کہ ان کا ارادہ صرف جوابی کارروائی کی شدت بتانے کا تھا۔ریاستی بی جے پی کے ترجمان نبیندو بھٹاچاریہ نے یہ دلچسپ انکشاف بھی کیا کہ جمہوری قدروں میں یقین رکھنے والی ان کی پارٹی قانون کو ہاتھ میں لینے کے خلاف ہے۔
کاش کہ بی جے پی ویسی ہی ہوتی جیسا کہ اس بیان میں مذکور ہے لیکن ایسا نظر نہیں آتا۔ بی جے پی سنگھ پریوار کا ایک حصہ ہے اور وہ خود کو ہندتوا کی حامل تشدد پسند تنظیموں سے الگ نہیں کرسکتی۔ بی جے پی کا ہجومی تشدد میں ملوث لوگوں کو تحفظ فراہم کرنا بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ۔ حال میں اس کی تازہ مثال کانپور میں سامنے آئی ۔ پچھلے دنوں آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے یہ اعلان کرکے پورے ملک کو چونکا دیا تھا کہ جو لوگ دوسروں کی ماب لنچنگ کررہے ہیں وہ ہندوتوا کے خلاف ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو بغیر کسی جانب داری کے ایسے لوگوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔ اس بیان کی روشنی میں کانپور کے سانحہ کا جائزہ لینا چاہیے جہاں بجرنگ دل کے لوگوں نے پولیس کے سامنے مارپیٹ کی اور ان کی فوراً ضمانت ہوگئی ۔ کیا یہ جانبداری نہیں ہے کہ جس اترپردیش میں اعظم خان کے خلاف سو سے زیادہ مقدمے جڑ دیے گئے اور سپریم کورٹ سے ضمانت کے باوجود اضافی ایف آئی آر درج کی گئی، وہیں کھلے عام تشدد کرنے والوں اور اسے دُہرانے کا عزم کرنے والوں کو پہلے تو پولیس نے اپنا ہاتھ صاف کرنے کا موقع دیا اور گرفتاری کا ناٹک کرنے کے بعد فوراً رہا کردیا ۔
اتر پردیش میں اس جانبداری کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یوگی سرکار میں ہندوتوا کے علمبردار درندے بے لگام ہوچکے ہیں اور دوسرا سبب یہ ہے کہ اس مارپیٹ میں بی جے پی کے مقامی رکن اسمبلی کا بیٹا ملوث تھا کانپور کی پولیس نے ایک مقامی باشندے اس کے بیٹے اور آٹھ تا دس نامعلوم لوگوں کے خلاف فساد کرانے کامقدمہ درج کیا ہے ۔ پولیس نے اس کے لیے بجرنگ دل کو ذمہ دار ٹھیرانے کی جرأت نہیں کی اور مسلم رکشا ڈرائیور کو پیٹ پیٹ کر ’جے شری رام‘ کا نعرہ لگوانے کے الزام میں گرفتار کیے گئے تین ملزمین کو تھانے میں ہی ضمانت دے دی کیونکہ بجرنگ دل کے لوگ اس کے لیے ڈی سی پی دفتر کے باہر احتجاج کررہے تھے ۔ کمال سفاکی کا مظاہرہ کرنے کے بعد اس کے کارکن نے سرِ عام اعلان کیا ’بجرنگ دل کانپور کے ہندو سماج کو یقین دلاتا ہے کہ جس کے ذریعہ بھی ہمارے دھرم پر حملہ کیا جائے گا تو ہندو پریشد ، بجرنگ دل خاموش نہیں بیٹھنے گا ‘۔ ایسے میں اگر منور رانا یہ کہتے ہیں ہمیں طالبان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ جس بے رحمی کا مظاہرہ افغانستان میں کیا جا رہا ہے اس سے کہیں زیادہ بے رحمی تو یہاں ہندوستان میں موجود ہے تو کیا غلط ہے؟
اب اگر انتظامیہ منور رانا اور مولانا سجاد نعمانی جیسے لوگوں پر کوئی کارروائی بھی کرے تو حقیقت بدلنے والی نہیں ہے۔ سچائی کو بزورِ طاقت نہ چھپایا جاسکتا ہے اور نہ دبایا جاسکتا ہے۔یہ بھی کھلی جانبداری ہے کہ طالبان کے حوالے سے میڈیا اور ہندو احیا پرست تنظیمیں مسلمانوں کے بارے میں جس قدر حساس ہیں دیگر لوگوں کے ساتھ نہیں ہیں ۔ ارون چندر بھومک نے تو خیر طالبان کا حوالہ دے کر تشدد کی ترغیب دے دی مگر بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ سبرامنیم سوامی نے بھی مودی سرکار کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ معروف سفارتکار گوتم مکھو پادھیائے اور وویک کاٹجو نے پریس کلب دہلی میں قومی مفاد کی خاطر طالبان سے بالواسطہ یا بلا واسطہ رابطہ قائم کرنے کی وکالت کی ۔ان سب سے صرفِ نظر کرکے صرف شفیق الرحمٰن برق اور مولانا سجاد نعمانی کو نشانہ بنانا بدترین جانبداری ہے اور اس کا مقصد سیاسی مفاد پرستی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ بی جے پی کے سابق وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ یشونت سنہا نے اس معاملے میں سیاست بازی کو پسند نہیں کیا ہے۔ میڈیا اور انتظامیہ کو اپنے آقاوں کے اشارے پر اس طرح کے رویہ سے گریز کرنا چاہیے۔
***

 

***

 یہ بھی کھلی جانبداری ہے کہ طالبان کے حوالے سے میڈیا اور ہندو احیا پرست تنظیمیں مسلمانوں کے بارے میں جس قدر حساس ہیں دیگر لوگوں کے ساتھ نہیں ہیں ۔ ارون چندر بھومک نے تو خیر طالبان کا حوالہ دے کر تشدد کی ترغیب دے دی مگر بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ سبرامنیم سوامی نے بھی مودی سرکار کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ معروف سفارتکار گوتم مکھو پادھیائے اور وویک کاٹجو نے پریس کلب دہلی میں قومی مفاد کی خاطر طالبان سے بالواسطہ یا بلا واسطہ رابطہ قائم کرنے کی وکالت کی ۔ان سب سے صرفِ نظر کرکے صرف شفیق الرحمٰن برق اور مولانا سجاد نعمانی کو نشانہ بنانا بدترین جانبداری ہے اور اس کا مقصد سیاسی مفاد پرستی کے سوا کچھ نہیں ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 29 اگست تا 4 ستمبر 2021