افغانستان :امریکہ اور اتحادیوں کے جرائم سےمغربی میڈیا کی چشم پوشی
’’ دوسروں کی لڑائی اپنے سر‘‘۔ ہندوستانی میڈیا بھی مغرب کی نہج پر
سید خلیق احمد
کابل پر پندرہ اگست کو جب سے طالبان کا قبضہ ہوا ہے راقم الحروف نے میڈیا اور بالخصوص ہندوستانی میڈیا کا بغور مشاہدہ کیا ہے۔ طالبان کے خلاف جنہوں نے سابق افغان حکومت کے ساتھ کسی مزاحمت کے بغیر کابل پر کنٹرول حاصل کرلیا ہے، ہندوستانی میڈیا نہایت ہی جارح رہا ہے۔ گزِشتہ بیس برسوں میں افغانستان میں جو کچھ ہوا ہے، ہندوستان اس میں فریق نہیں تھا۔غیر ملکی قابضین، امریکہ اور نیٹو اس شبہ پر جدید اسلحہ کے ساتھ طالبان پر چڑھ دوڑے کہ القاعدہ جس کو طالبان حکومت نے افغانستان میں پناہ دی تھی، ستمبر 2001میں واشنگٹن کے جڑواں ٹاورس پر حملہ میں ملوث تھی۔ اس وقت کے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش (جونیئر) نے طالبان کے خلاف جنگ کو مسلم طالبان کے خلاف ایک مقدس صلیبی جنگ کا نام دیا تھا۔ انہوں نے انتباہ دیا تھا کہ جو لوگ اس جنگ میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ نہیں ہیں وہ صلیبیوں کے خلاف ہیں۔ یوں اس جنگ کا سات اکتوبر ۲۰۰۱ کو آعاز ہوا تھا۔
جی ہاں، یہ ایک صلیبی جنگ تھی، کم سے کم اس سیاق میں تو یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ’عالمی سوپر پاور‘ کی زیر قیادت عیسائی فورسیس نے افغانستان کے قصبوں و دیہاتوں میں پشتو زبان میں بائبل کے نسخے گرائے تھے گویا امریکی اور نیٹو فورسیس پہاڑوں کی سرزمین افغانستان میں عیسائیت کی تبلیغ کے مشن پر ہوں۔ واضح رہے کہ افغانوں کی اکثریت پشتو زبان بولتی ہے۔
القاعدہ کا خاتمہ ہوچکا ہے۔ اس کے سربراہ اسامہ بن لادن کو پاکستان میں پکڑلیا گیا۔ پھر قتل کرکے ان کی نعش کو گہرے سمندر میں ڈبودیا گیا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ اس شخص کا کوئی نام و نشان باقی نہ رہے جسے طالبان اور دوسروں کی جانب سے موجودہ وقت کے عظیم ہیرو کے طور پر پیش کیا گیاتھا۔ سینکڑوں جنگجوؤں اور ان کے قائدین کو گرفتار کرکے گوانتا نامو بے جیل میں قید کردیا گیا۔ انہیں تمام انسانی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بری طرح اذیتیں دی گئیں دوسری طرف نام نہاد ’’مہذب‘‘ دنیا مسیحی امریکی اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے انتقام کے خوف کی وجہ سے خاموش رہی۔ گرفتار شدہ طالبان جنگجووں کو جانوروں کی طرح باندھا اور گھسیٹا گیا جس کی متعدد تصاویر نیٹ پر موجود ہیں اور ذرائع ابلاغ میں شائع ہوئی ہیں ۔ ان تصاویر کو دیکھنے سے ہی وحشت سی طاری ہوتی ہے۔ کئی آسٹریلیائی فوجیوں نے نہایت سفاکی سے درجنوں افغان شہریوں کو ہلاک کرکے تفریح طبع کا سامان کیا تھا۔ ہیومن رائٹس واچ نے اجاگر کیا ہے کہ برطانیہ کی خصوصی فوریسس نے کس طرح آدھی رات کو نہتے شہریوں کے گھروں میں گھس کر ان کا قتل کیا اور بچوں کو تک نہیں بخشا تھا۔ ہیومن رائٹس واچ کی سینیر محقق برائے افغانستان پیٹریشیا گوسمین کے مطابق’’یہ ایک بیمار کلچر کا حصہ ہے کہ مقابلہ آرائی کے ان مقامات پر رہنے والے افغانوں سے لازماً اسی طرح کا برتاو کیا گیا جیسے وہ کوئی خطرناک مجرم ہوں۔ یہاں تک کے بچوں سے بھی ایسا ہی سلوک کیا گیا گویا وہ انسان نہ ہوں‘‘۔ آسٹریلیا نے تواپنے وحشی فوجیوں کو سزا دی لیکن برطانوی حکومت نے سیاسی دباو کے تحت خلاف ورزی کرنے والوں پر کوئی کارروائی نہیں کی۔
بیرونی قابضین کے تشدد میں تقریباً دو لاکھ افغانی ہلاک
فارچیون ڈاٹ کام کے مطابق بیرونی قابضین کی جانب سے افغانستان پر مسلط کردہ جنگ کی وجہ سے پچھتر ہزار افغان فوجی اور پولیس افسر ہلاک ہوئے اور71ہزار 334شہری براہ راست مارے گئے ہیں۔ الجزیرہ کے مطابق قابض ممالک کےتین ہزار سے زائد بین الاقوامی فوجی بشمول 2ہزار448 امریکی سپاہی بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ برون یونیورسٹی امریکہ کے ’’کاسٹس آف وار پراجکٹ ‘‘کے تخمینہ کے مطابق اس جنگ میں ہلاک ہونے والے طالبان اور دیگر امریکی مخالف جنگجووں کی تعداد 51ہزار 191ہوتی ہے۔
عیسائی امریکہ ۔ اتحادی فورسیس کی قتل وغارت گری کی پردہ پوشی
آسٹریلیا کے ایک ماہر تعلیم سحر گمکھور اور یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے شعبہ اینتھروپولوجی میں چانسلرس فیلو انیلہ دولت زئی نے نشاندہی کی گئی ہے کہ امریکہ۔اتحادی فوج کی بے معنی قتل و غارت گری کو طالبان پر مرکوز مغربی میڈیا کی یلغار میں یکسر ’’گمنام‘‘ اور ’’مٹادیا‘‘ گیا ہے۔ دو مصنفین نے الجزیرہ میں ایک مشترکہ مضمون میں لکھا ہے کس طرح ’’طبقات کو دہشت زدہ کیا جاتا ہے اور کس طرح قابض طاقت ہر افغان شہری سے ایک امکانی عسکریت پسند کے طور پر نمٹتے ہوئے اور ہر افغان خاتون کو بدی کے شکنجہ سے بچانے کی ضرورت ظاہر کرتے ہوئے اجتماعی شبہ کرتی ہے اور یہی جنگ کا جدید طرز ہے‘‘۔
مغربی حکومتیں اور میڈیا طالبان کے ذریعہ ہونے والی ہلاکتوں کو ایسے پیش کرتا ہے جیسے یہ امریکی ڈرون حملے، فضائی حملوں کے ذریعہ افغانوں کی ہلاکت سے زیادہ خطرناک ہوں اور سی آئی اے سے فنڈ یافتہ و تربیت یافتہ افغان ملیشیا (ڈیتھ اسکواڈس)کے ذریعہ اور انتہائی مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے کمانڈرس، ان کی ملیشیا اور قابض طاقتوں کی حمایت یافتہ افغان حکومت کے ہاتھوں افغان باشندوں کی ہلاکتوں سے زیادہ ہولناک ہوں۔
طالبان کے تشدد کو سفید فام تشدد سے زیادہ زہر ناک ظاہر کیا جاتا ہے
گمکھوراور دولت زئی کے مطابق طالبان کے تشدد کو بے داغ سفید فام تشدد، سفید فام قبضہ، سفید فام ہراسانی، سفید فام ڈرونس سے زیادہ زہرناک ظاہر کرتے ہوئے اس کی ایک الگ تصویر بنائی جاتی ہے گویا وہ دوسری دنیا کا کوئی تشدد ہو جو مغرب سے بالکل جداگانہ ہو، جو وحشیانہ، ارادتاً اور بے دردانہ ہوتا ہے۔ یہ وہ تشدد ہے جو بربریت اور جدیدیت کے درمیان ’’ہم اور وہ‘‘ کی سرحدیں طے کرتا ہے۔ چنانچہ قابض طاقتوں کے تشدد کو غیر منطقی یا ناجائز نہ ٹھیراتے ہوئے ایک منطقی تشدد کے طور پر ظاہر کیا جاتا ہے۔ مغربی میڈیا طالبان کے تشدد کو جن میں بیشتر پشتون ہیں، دیہی قدامت پسندانہ روایات اور پسماندگی کے طور پر اور افغانستان کی ترقی میں رکاوٹ کی وجہ کے طور پر اجاگر کرتا ہے لیکن وہ امریکہ اور اس کی اتحادی فورسیس کے سبب ہونے والی تباہی پر کوئی تبصرہ نہیں کرتا اور یہ نہیں بتاتا کہ کس طرح دو دہائیوں پر محیط غیر ملکی قبضہ نے افغانستان کی ترقی رو ک دی اور انہیں عہد وسطیٰ کے دور تک گھٹا کر رکھ دیا۔
امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی نے ایک بیان میں نشاندہی کی ہے کہ استعماری طاقتوں نے کس طرح بیس برسوں تک اپنی مرضی کو مسلط کرنے کے لیے ان کے شہریوں پر سلسلہ وار بمباری اور چھاپہ ماری کی ہے۔ انہوں نے اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ طاقتور اور فوجی لحاظ سے مضبوط ممالک کی جانب سے کمزور ممالک کے معاملات میں دخل اندازی اور استحصال کو روکیں۔
عالمی میڈیا کی طالبان پر من گھڑت کہانیاں
زیادہ تر بیرونی میڈیا اور حکومتوں نے فریب دینے کے مقصد سے عالمی برادری کو طالبان کے تعلق سے گھڑی ہوئی کہانیاں ہی فراہم کی ہیں اور انہوں نے یہ کبھی نہیں بتایا کہ ۱۹۹۶ میں گلبدین حکمت یار جنہوں نے زائد از ایک دہے طویل ہلاکت خیز جنگ میں روسیوں کو بے دخل کرنے کے بعد حکومت بنائی تھی، ان کی حکومت گرانے کے لیے طالبان کو کس نے تیار کیا؟ کس نے تربیت دی اور ہتھیار فراہم کیے؟۔ مغربی عیسائی طاقتوں کی ایک سازش کے ذریعے حکمت یار کو بے دخل کرنے کی واحد وجہ یہ تھی انہوں نے افغانستان میں اسلامی قوانین پر عمل آوری کا اعلان کیا تھا۔ لیکن چونکہ طالبان نے بھی اسلامی قوانین پر مبنی اسلامی امارات کے قیام کا اعلان کیا اس لیے مغربی طاقتوں نے طالبان کی جانب سے تشکیل دی جانے والی حکومت کے خلاف بھی تحدید کا منصوبہ بنایا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغربی طاقتوں کو اسلام سے ہی الرجی ہے۔
ہندوستانی میڈیا کا طالبان کے خلاف جارحانہ پروپیگنڈہ
اب میں لازماً اپنے ملک کے میڈیا اور انٹلیجنس پر بات کرنا چاہوں گا ۔ ہندوستانی میڈیا۔ ہندی اور انگریزی۔ نے مغربی پریس کی خوشہ چینی کرتے ہوئے طالبان کے خلاف جارحانہ پروپیگنڈے کو بے لگام کیا ہے۔ ہندوستانی میڈیا میں یہ تذکرے چل پڑے ہیں کہ طالبان کس طرح خطہ کو تباہ کریں گے تہذیب کو ملیا میٹ کریں گے خواتین کو اپنی باندیاں بنالیں گے ۔ ہندوستان طالبان کے خلاف جنگ میں حلیف نہیں تھا ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان سڑکوں اور ڈیموں کی تعمیر، برقی پیداوار ، شجر کاری جیسے فلاحی و ترقیاتی کاموں میں مصروف تھا اور طالبان کے ترجمان نے اے این آئی نیوز ایجنسی کو دیے گئے انٹرویو میں اس کی ستائش بھی کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ طالبان ہندوستان سے دوستی چاہتے ہیں ۔ لہٰذا انہیں اپنے وعدوں کو پورا کرنے دیا جائے جو انہوں نے دو دن قبل کابل میں اپنی پہلی پریس کانفرنس میں کیے تھے۔ انہوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ افغان سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ خواتین پرائمری سے یونیورسٹی سطح تک تعلیم حاصل کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ انہوں نے مزید اعلان کیا کہ سب کے لیے بشمول سابقہ حکومت کے فوجیوں کے لیے جنہوں نے طالبان کے خلاف لڑائی کی ہے، عام معافی ہے۔ وہ 1990کے دہے کے طالبان نہیں ہیں۔ وہ بہت کچھ بدل گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے پندرہ اگست کو کابل پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد سڑکوں پر کوئی قتل نہیں دیکھا گیا۔ وہ جنگ زدہ ملک میں نظم و قانون بحال کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں۔
طالبان کو مغرب کے اندیشوں پر نہیں ان کے معاملات کی روشنی میں پرکھیں
معروف صحافی و مصنف ڈاکٹرظفر الاسلام کے بقول ’’طالبان کو ان کے معاملات کی روشنی میں پرکھا جانا چاہیے نہ کہ ہمارے یا مغرب کے اندیشوں پر انہیں پرکھا جائے۔ اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ وہ کشمیر کو آئیں گے جیسا کہ بعض لوگوں کی طرف سے یہ گمراہ کن پروپگنڈہ کیا جارہا ہے‘‘ لیکن طالبان کے بارے میں ہندوستانی میڈیا کا موقف ’’دوسرے کا جھگڑا اپنے سر لینا‘‘ یا ’’بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ‘‘ جیسا ہے۔ ہندوستانی میڈیا مغربی میڈیا کی نہج پر طالبان کے خلاف دن رات مبالغہ آرائی میں مصروف ہے۔
طالبان افغان سرزمین کے بیٹے ہیں
ہندوستانی میڈیا کو طالبان کی اچانک فتح پر بھی حیرت ہے۔ طالبان کے بارے میں کہنے کے لیے میرے پاس اس سے مختصر کوئی بات نہیں ہے۔ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے بقول ’’طالبان افغانستان کے بیٹے ہیں۔ انہیں فتح اس لیے ملی کیونکہ مقامی عوام کی انہیں حمایت حاصل ہے۔ طالبان نے ’’غیر ملکی قابضین‘‘ کے خلاف لڑکر انہیں اور ان کے مقامی مہروں کو شکست دی ہے جو ملک کے عوام کو چھوڑ کر ملک سے فرار ہوگئے ہیں۔ طالبان کی فتح عوام کی زبرست حمایت کے بغیر ممکن نہ تھی جبکہ ان کی کٹھ پتلی حکومت کا اسی وقت زوال ہوگیا جب بیرونی قابض طاقتوں کو یہ ادراک ہوا کہ قبضہ لاحاصل ہے اور وہ افغانستان کے عوام کے خلاف جنگ نہیں جیت سکتے جو تاریخی طور پر بیرونی قبضوں کو مسترد کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ برطانیہ اور روس اس تلخ حقیقت کا مزہ چکھ چکے ہیں‘‘۔
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 29 اگست تا 4 ستمبر 2021