(افسانہ) کووڈ۔۱۹

ابو نبیل خواجہ مسیح الدین، حیدرآباد

میں جس کامپلکس میں رہتا ہوں اُس کے سامنے ایک کشادہ سڑک ہے اور مقابل میں کچھ خالی زمین ہے جس کے اطراف لوگوں نے جائز یا ناجائز طریقے سے اپنے گھر بنا لیے ہیں۔ یہ سب غریب لوگ ہیں جو آپس میں ایک دوسرے کا درد بانٹ کر رہتے ہیں۔ غریبوں میں کوئی ہندو مسلمان نہیں ہوتا بس غربت ہوتی ہے۔ ہر روز یہ لوگ اس اجاڑ جگہ جھاڑیوں میں منھ اندھیرے رفع حاجت کے لیے آتے ہیں اور دن بھر راہگیر بھی اس کے حصار کی بوسیدہ دیوار پر پیشاب پاشی کر کرکے بس اب بنیاد باقی چھوڑی ہے۔ شہر کی بلدیہ کہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ شہر کی گلی کوچوں کی صفائی ستھرائی کا انتظام کرے اور غلاظت وگندگی پھیلنے نہ دے۔ چنانچہ یہاں کچھ کوڑے دان لاکر رکھ دیے گئے ہیں۔ جس سے کامپلکس کے مہذب مکینوں کا کچرا ابل پڑتا رہتا ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ان دنوں ملکی میڈیا، کوڑے دان جیسے ماحول میں نفرت وعداوت کی غلاظت انڈیلتا رہتا ہے۔
میدان کی دیوار کا ناجائز استحصال کرنے والوں میں ہر طبقے وہر مذہب کے لوگ ہیں خواہ وہ موٹر نشین ہوں یا پیدل، بے گھر غریب ہوں یا آٹو رکشا ڈرائیور یا گھر گھر دوڑ دوڑ کر پارسل اور غذا کے پیکٹس پہنچانے والے امیزون، سویگی یا زوماٹو کے کارندے۔ یہ سب یہاں رک کر اپنے مثانوں کا بوجھ ہلکا کرتے ہیں۔ یقیناً میرے لیے یہ منظر انتہائی نا گوار اور کریہہ ہوتا ہے لیکن مجبوراً سہنا پڑتا ہے۔ مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ اس بیش قیمت موقع کی زمین پر ابھی تک کسی لینڈ گرابر کی نگاہِ التفات کیوں نہیں پڑی؟ کہتے ہیں کہ یہ جگہ کسی نواب صاحب کی ملکیت ہے لیکن نواب صاحب کی آل اولاد یا اُن کے وارثوں کا کوئی اتا پتا نہیں ہے۔ یہ بھی سنتے ہیں کہ کسی زمانے میں نواب صاحب کا ایک چوکیدار یہاں نگران تھا لیکن کسی وقت شہر میں ہیضہ پھوٹ پڑا تو اس کا گھر کا گھر اس وبا کا شکار ہوگیا اور بلدیہ کے عملے نے ہی اس بیچارے چوکیدار کے خاندان کی آخری رسومات انجام دے کر یہیں قبریں بنا دیں۔ اب مقامی اکثریتی فرقے کے لوگ چاہتے ہیں کہ یہ زمین شمشان کے لیے دی جائے۔ نواب صاحب کی ملکیت ہونے کے ناطے اقلیتی فرقہ بھی اس پر اپنا حق جتاتا ہے اور بلدیہ چاہتی ہے کہ یہاں اچھا سا پارک بنا دیا جائے۔ بہرحال یہ ایک متنازعہ جائیداد ہے جس کا کوئی حل نکلتا دکھائی نہیں دیتا۔ دن میں دس دس بار خیال آتا ہے کہ کاش کوئی قبضہ گینگ ہی بڑھ کر یہاں ایک عمارت بنوادے تاکہ روز روز کی اس گندگی اور تعفن سے چھٹکارا ملے لیکن اس ملک میں تنازعات کو پیدا کرنے اور ان کو زندہ رکھنے سے ہی سب کی دوکانیں چلتی ہیں۔ گزشتہ بارشوں میں اس میدان کی بچی کچھی دیوار بھی گر پڑی تو بلدیہ والوں نے نئی دیوار کھڑی کر کے ساتھ میں فٹ پاتھ بھی بنا دیا۔ اور ساتھ ہی دیوار کا استحصال روکنے کے لیے قومی یکجہتی کی بقا کے طور پر ہندو، مسلم، سکھ اور عیسائی مذاہب کی امتیازی علامتیں بھی پینٹ کروادیں تاکہ عوام کم از کم مذہبی جذبات کا خیال رکھتے ہوئے یہاں پیشاب کرنے اور گند ڈالنے سے باز رہیں۔ لیکن مزے دار بات یہ ہے کہ چند دنوں سے ایک نیا تماشہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ جس طریقے سے ملک کے غلیظ خارش زدہ گودی میڈیا کے کتوں نے بھونک بھونک کر سماج میں فرقہ پرستی کے زہریلے وائرس پھیلا دیے ہیں اس کے اثرات کا اندازہ اس دیوار تلے حاجت رفع کرنے والوں کے رویوں سے ہونے لگا ہے۔ جو کوئی حاجت کا مارا یہاں رکتا ہے تو دیوار پر مذہبی علامتیں دیکھ کر کچھ دیر کے لیے ٹھٹک جاتا ہے پھر سواستک کے نشان سے ہٹ کر چاند تارے پر اپنا زہر اگلتا ہے۔ پھر کوئی اور آتا ہے تو چاند تارے سے ہٹ کر سواستک کو نشانہ بناتا ہے۔ کبھی کوئی نیم پڑھا لکھا پہنچتا ہے تو کراس کے نشان پر اپنی رواداری کو سولی چڑھا دیتا ہے۔
جس طرح آج کل لوگ کپڑوں سے پہچان لیے جاتے ہیں، میرا بیٹا بھی اس دیوار سے استفادہ کرنے والوں کو پہچان لیتا ہے اور ہنس ہنس کر نئی نئی کہانیاں سنانے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسی زہریلی پہچان کو قائم رکھنے کے لیے لوگ کسی غریب میوہ فروش کو اپنے محلے میں گھسنے نہیں دیتے، سبزی کی دوکانوں پر جھنڈے لگا دیتے ہیں۔ اسپتالوں میں کچھ خاص مریضوں کا علاج نہیں کیا جاتا۔ کسی بستی میں ہجومی تشدد سے بے قصور جان سے مار دیے جاتے ہیں۔ برا ہو اس عالمی وبا کا کہ اس مرض میں مبتلا افراد کے اعداد وشمار بھی مذہب کی بنیاد پر اعلان کیے جاتے ہیں۔ جب کہ وبا تو ہندو، مسلمان، سکھ یا عیسائی کچھ نہیں دیکھتی بلکہ سب پر یکساں غضب ڈھاتی ہے۔ اب لوگ جاننے لگے ہیں کہ کورونا وائرس سب کا مشترکہ دشمن ہے اس سے جیتنے کے لیے بلا تفریق مذہب وملت یہ جنگ ہر ایک کو مل کر لڑنی ہے۔
خزاں کی بربادیوں میں بہار کے جھونکوں کی طرح یہ بھی خبریں آنے لگی ہیں کہ کورونا کے قہر اور لاک ڈاون کی وجہ سے جو دیہاڑی کے مزدور، چھوٹے کاروباری، ٹھیلا گاڑی لگانے والے غریب غربا بے روزگاری کا شکار بھوکوں مرنے کے قریب ہیں، ان کی مدد کے لیے ان گنت تنظیمیں کشادہ دلی سے راحت پہنچانے کا کام کر رہی ہیں۔ حکومت بھی محتاط ہے کہ اس پر آشوب دور میں یہ رواداری اور یکجہتی برقرار رہے۔ یہ دیکھ کر دلی اطمینان ہوتا ہے کہ میرے ملک میں انسانیت ابھی مری نہیں ہے۔ ہم وطنوں کی اکثریت میں بہت حد تک بھائی چارا ابھی باقی ہے۔ کہیں کچھ ٹوپی داڑھی والے کسی پڑوسی کی ارتھی کو کندھا دے رہے ہیں تو کوئی ممتا کی ماری مائی لاک ڈاون میں پھنسی روزہ دار لڑکی کی سحری کا انتظام کر رہی ہے۔ کہیں کوئی مردِ مجاہد دوسری قوم کی زچہ بہن کو خون کا عطیہ دے رہا ہے تو کہیں کچھ نوجوان نے اپنی زمینیں بیچ کر بھوکوں کے لیے لنگر کھول رکھا ہے۔
کورونا کی دہشت اور لاک ڈاون کے سبب سامنے کی دیوار بہت پاک صاف دکھائی دے رہی ہے اب یہاں کوئی گندگی کوئی غلاظت ڈالنے نہیں آتا، فضا بھی خوش گوار ہو چکی ہے۔ یہاں پیشاب پاشی کرنے کی کسی کو ہمت نہیں ہوتی، بلدیہ بھی اپنا فرض نبھا رہی ہے۔ سوچتا ہوں کہ ایک دن چل کر اس دیوار پر سارے نقوش سب علامتوں کو یکسر مٹا دوں اور جلی حروف میں صرف کووڈ۔۱۹ لکھ دوں تاکہ ملک کا بھائی چارا اسی طرح برقرار رہے اور عوام اپنے کسی طرز عمل سے پہچانے نہ جا سکیں۔ سب کی بس ایک ہی پہچان ہو۔۔۔ انسان ہونے کی۔

اسی زہریلی پہچان کو قائم رکھنے کے لیے لوگ کسی غریب میوہ فروش کو اپنے محلے میں گھسنے نہیں دیتے، سبزی کی دوکانوں پر جھنڈے لگا دیتے ہیں۔ اسپتالوں میں کچھ خاص مریضوں کا علاج نہیں کیا جاتا۔ کسی بستی میں ہجومی تشدد سے بے قصور جان سے مار دیے جاتے ہیں۔ برا ہو اس عالمی وبا کا کہ اس مرض میں مبتلا افراد کے اعداد وشمار بھی مذہب کی بنیاد پر اعلان کیے جاتے ہیں۔ جب کہ وبا تو ہندو، مسلمان، سکھ یا عیسائی کچھ نہیں دیکھتی بلکہ سب پر یکساں غضب ڈھاتی ہے۔