تبصرہ: ’اصلاح معاشرہ منصوبہ بند عصری طریقے‘

سماجیات پر کام کرنے والوں کے لیے رہنما کتاب

نام کتاب:اصلاح معاشرہ منصوبہ بند عصری طریقے
مصنف: سید سعادت اللہ حسینی
صفحات 133:
قیمت 120: روپے
مبصر: سہیل بشیر کار، بارہمولہ کشمیر
رابطہ برائے کتاب ۔7290092403

اصلاح کے نئے طریقوں پر سیر حاصل بحث اور در پیش چیلینجز کا حل
معاشرے میں امن ہو،آپسی محبت کی فضا ہو اور ہر فرد کی زندگی میں سکون ہو، اس کے لیے ہمیشہ مصلحین مختلف کوششیں کرتے آئے ہیں اور ان کوششوں میں سب سے اہم کوشش معاشرے کی اصلاح رہی ہے۔ دنیا میں بالعموم اور امت مسلمہ میں بالخصوص ہمیشہ ایک یا دوسرے نام سے کوئی نہ کوئی اصلاحی تحریک سرگرم رہی ہے۔ اس طرح کی کوششیں اس بات کا ثبوت ہے کہ معاشرہ کے اندر خیر خواہی موجود ہے۔ اللہ کے نبیوں نے اپنے اپنے زمانے میں دعوت الی اللہ کا کام اور انسان کی اصلاح کا کام کیا۔ ان کے بعد کئی علما و صلحاء اٹھے جنہوں نے تحریکیں برپا کیں ۔عموماً ان تحریکوں میں دو کمیاں پائی جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ اصلاح معاشرہ کا لفظ آتے ہی صرف چند محدود رسومات کی اصلاح کے لیے’کوششیں‘ ذہن میں آتی ہیں۔ اس طرح اصلاح کا کام ایک محدود فریم میں ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ دوسرا ،جو طریقے اپنائے جاتے ہیں وہ روایتی طریقے ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نظر نہیں آتی۔ معاشرے کی تعمیر ایسے نہیں ہو پاتی جیسے ہونی چاہیے۔ دراصل معاشرے میں موجود ہر برائی کا سرا کسی سبب کے ساتھ جڑا ہوتا ہے اور وہ سبب کسی اور سبب کا نتیجہ ہوا کرتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ وقت کا مصلح سماج پر گہری نظر رکھتا ہو اور چیلنجز کا واضح شعور رکھتا ہو اور اصلاحی عمل ایک مربوط اور مضبوط پلان کے مطابق ہو۔ اصلاحِ عمل کے کیا کیا خدو خال ہونے چاہئیں؟ موجودہ علوم اور تحقیق کے تناظر میں اصلاحی منصوبہ کس طرح ترتیب دیا جانا چاہیے؟ اس پر ایک منفرد اور بہترین کوشش جناب سید سعادت اللہ حسینی کی کتاب’’اصلاح معاشرہ؛ منصوبہ بند عصری طریقے‘‘ میں ہم دیکھ سکتے ہیں۔
سید سعادت اللہ حسینی صاحب ملت کے ایک دانشورمانے جاتے ہیں۔ آپ فی الوقت امیر جماعت اسلامی ہند ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے، قرآن و حدیث پر جہاں ان کی گہری نظر ہے وہیں عصری علوم سے بھی آپ بہرہ ور ہیں، ان کی تحریر میں علمی دلائل کے ساتھ ساتھ بہترین عقلی استدلال ہوتا ہے۔ سعادت صاحب کی اور بھی کئی کتابیں ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب اس موضوع پر ایک اہم اضافہ ہے ۔ اس کتاب میں ان کمزوریوں اور رکاوٹوں کی نشاندہی کی گئی ہے جن سے اصلاح کی کوششیں نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتیں۔’پیش لفظ‘ میں وہ اس کتاب کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں’’پیش نظر کتاب میں اصلاح معاشرہ کا ایک نیا اپروچ تجویز کیا جا رہا ہے،اس اپروچ میں جدید معاشروں کی پیچیدہ ترکیب اور ان میں تبدیلی کے ہمہ گیر تقاضوں کا لحاظ رکھنے کی کوشش کی گئی ہے، سماجی تبدیلی اور سوشل انجینئرنگ کے جدید طریقوں سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔‘‘ (صفحہ 8)
‌کتاب کے بارے میں میرے محترم استاد ڈاکٹر محی الدین غازی کی رائے ہے کہ یہ اپنے موضوع پر پہلی کتاب ہے۔ مزید لکھتے ہیں :
‌’’معاشرے کی اصلاح اہم ترین دینی فریضہ ہے۔ اس کے سلسلے میں امت کے اندر ہمیشہ فکرمندی رہی ہے۔ سماج میں پائے جانے والے غلط رویوں کی اصلاح کے لیے امت کے علما اور رہنما ہمیشہ کوشاں رہے ہیں۔ اصلاحی تقریروں پر مشتمل پروگراموں اور جلسوں کا امت میں عام رواج ہے۔ اس کے باوجود سبھی لوگوں کا گہرا احساس ہے کہ اصلاحِ معاشرہ کا کام آگے نہیں بڑھ پا رہا ہے اور اس کے لیے زیادہ موثر تدبیروں کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔
‌اس وقت دنیا بھر میں انسانی آبادی پر اثر انداز ہونے والی قوتیں معاشرے کو اپنے ایجنڈے کے مطابق بدلنے اور ڈھالنے کے لیے نہایت منصوبہ بند اور ترقی یافتہ طریقے استعمال کرتی ہیں۔ معاشرے کو الہٰی ہدایات کے مطابق ڈھالنے کے لیے بھی صرف تقریروں اور خطبات پر اکتفا کرنا نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکتا ہے۔ اس عظیم الشان کام کے لیے بھی سماج کا گہرا جائزہ، منصوبہ بندی اور صالح عصری طریقوں کا استعمال ضروری ہے۔
‌منصوبہ بند اصلاحِ معاشرہ بہت اہم موضوع ہے، لیکن ابھی تک اس موضوع پر کوئی کتاب موجود نہیں تھی جو اس میدان کے کارکنوں کے لیے مرجع بنتی‘‘۔ کتاب میں پیش لفظ کے علاوہ 6 ابواب ہیں۔ کتاب کے پہلے باب’’اصلاح معاشرہ کا سماجیاتی اپروچ ‘‘ کے تحت کتاب کا مقصد بیان کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں:’’معاشرے کی اصلاح، اس وقت ہر دینی جماعت کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ بڑی دینی جماعتوں کے ساتھ ، علمائے کرام اور مصلحوں اور دانش وروں کی ایک بڑی تعداد، انفرادی طور پر بھی اصلاحی کوششوں میں مصروف ہے۔ ملک بھر میں سیکڑوں چھوٹے بڑے ، ادارے، نوجوانوں کی فلاحی تنظیمیں، مسجد کمیٹیاں، اصلاحی انجمنیں وغیرہ بھی معاشرے کی اصلاح کو اپنا اہم مقصد قرار دیتی ہیں۔ لیکن ان سب کی کوششوں کے جائزے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اصلاح معاشرہ کا کام بہت زیادہ روایتی کام بن گیا ہے اور تقریروں اور جلسوں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ جلسے اور اجتماعات کرنا، معاشرتی برائیوں کی مذمت پر تقریریں کرنا اور مختلف معاشرتی موضوعات پر اسلامی موقف بیان کردینا، ان کاموں کو اصلاح معاشرہ کی واحد سرگرمی سمجھا جانے لگا ہے۔ اب زیادہ سے زیادہ انہی تقریروں کے چھوٹے بڑے سوشل میڈیا پر عام ہونے لگے ہیں۔ اس کام کی ضرورت و افادیت سے انکار نہیں، لیکن اصلاح معاشرہ کی ساری ضرورتیں ان کاموں سے پوری نہیں ہوتیں۔ اس سوال پر از سر نو سنجیدگی سے غور ہونا چاہیے کہ آج کے دور میں معاشرے کی اصلاح کے تقاضے کیا ہیں؟ اور اس سلسلے میں جد و جہد کے کون سے پہلو مزید توجہ چاہتے ہیں؟‘‘(صفحہ 11)
اصلاح معاشرہ کے لیے کوئی بندھے ٹکے اصول نہیں،ہر جگہ کے الگ الگ مسائل ہیں۔ ہمیں ہر علاقے کے لیے الگ الگ پروگرام بنانے کی ضرورت ہے، سعادت صاحب لکھتے ہیں:’’ اصلاح معاشرہ کی حکمت عملی، ایک ایک مقام، شہر یا بستی پر توجہات کو مرکوز کرکے بنائی جائے۔ بستی کے مخصوص حالات پر غور کرکے وہاں کی خرابیوں کی تشخیص، اُن خرابیوں کے اسباب کا تعین اور اس کے مطابق اصلاح کی حکمت عملی، پھر اس حکمت عملی کو اصلاح کا عمل مکمل ہونے تک صبر و استقلال کے ساتھ روبہ عمل لانا، ہمارے خیال میں اصلاح معاشرہ کے اس اپروچ کی اس وقت ضرورت ہے۔‘‘(صفحہ 15)
‌کتاب کے دوسرے باب’’ اصلاح معاشرہ اور درپیش رکاوٹیں‘‘ میں وہ کہتے ہیں کہ اصلاح معاشرہ کے لیے ہمیں ہر برائی کا سبب معلوم کرنے کی ضرورت ہے اور ہر سبب کی اصلاح کے لیے وہ الگ الگ حکمت عملی بتاتے ہیں، سعادت صاحب کے نزدیک معاشرتی خرابیوں کی پانچ وجوہات ہیں، پہلا غلط عقیدےو تصورات ہے۔ اس سلسلے میں وہ غیر مسلموں اور مسلمانوں کے معاشرے کے غلط عقیدے اور تصورات کی نشاندہی بھی کرتے ہیں اور ساتھ میں ان کے سدباب کے لیے حکمت عملی بھی بھی بتاتے ہیں، ان کے نزدیک دوسری بڑی رکاوٹ معاشرے میں موجود روایات ہیں، جو اگرچہ غلط ہوتی ہیں لیکن معاشرہ میں وہ مستحکم ہوئی ہوتی ہیں۔ اس سلسلے میں وہ روایات بننے کی وجوہات بھی بتاتے ہیں اور چند روایات کی نشاندہی اور ان کے خاتمہ کے لیے دور نبوی سے بہترین مثالیں بھی پیش کرتے ہیں، ساتھ ہی فعالیت کی وکالت کرتے ہیں، مصنف کے نزدیک معاشرتی برائیوں کے سدباب میں تیسری رکاوٹ ’عادات‘ ہوتی ہیں، اس سلسلے میں وہ ری پروگرام کرنا اور نئی عادتوں کی بار بار مشق کرنا ضروری سمجھتے ہیں تاکہ وہ پرانی عادتوں کی جگہ لے لے۔ چوتھی رکاوٹ ان کے نزدیک مفادات ہیں۔چاہے وہ مالی مفادات ہوں یا مذہبی۔ پانچویں رکاوٹ ان کے نزدیک عملی مشکلات ہیں جن کو اسی وقت تک دور نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ نہ مشکلات پر قابو پایا جائے، اس کی وہ کئی مثالیں بھی دیتے ہیں مثلاً کچھ مشکلات شرعی مشکلات ہیں۔ ان مشکلات کا اجتہادی بصیرت کے ساتھ حل ڈھونڈنا ضروری ہے۔ مثلاً بیوی کے لیے خلع حاصل کرنا ہو یا نکاح فسخ کراناہو، ہمارے ملک کے بیشتر علاقوں میں آج بھی یہ نہایت مشکل بلکہ ناممکن کام ہے۔ یہ مسئلہ خاندانوں میں بہت سی برائیوں کے فروغ کا ذریعہ بنتا ہے۔ جب تک اس عمل کو آسان نہیں بنایا جائے گا، اس سے منسلک سماجی برائیوں پر تقریروں اور اجتماعات کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔(صفحہ 25)اسی طرح کچھ مشکلات ادارہ جاتی تعاون چاہتی ہیں اور کچھ مشکلات وہ ہیں جن کے سدباب کے لیے متبادل ہونا ضروری ہے۔
انجینئر سید سعادت اللہ حسینی کتاب کے تیسرے باب میں’’اخلاقی تصور اور اخلاقی حساسیت‘‘ کے تحت اخلاقی حساسیت پر زور دیتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ مسلم معاشرہ میں اخلاقی تصورات میں نظریے کی سطح پر کوئی بگاڑ نہیں لیکن عملاً ان کے حوالے سے حساسیت ختم ہو گئی ہے، مصنف اسلام کا تصور اخلاق جو کہ ہمہ گیر ہے بیان کرتے ہیں۔ قرآن کریم کی آیات سے وہ ثابت کرتے ہیں کہ اسلامی اخلاق کا دائرہ کتنا وسیع ہے البتہ وہ کہتے ہیں کہ اخلاق کا تصور جب گھٹ گیا تو بہت سی چیزوں کے تئیں وہ حساسیت برقرار نہ رہی۔ ایفائے عہد، صفائی و پاکیزگی، صحت کے معاملات، وراثت، خواتین کے حقوق جیسے معاملات میں امت مسلمہ کے اندر وہ حساسیت پائی نہیں جاتی، اس حوالے سے واشنگٹن یونیورسٹی کی ایک ریسرچ جو کہ دو مسلمان محققین نے کی ہےاور گلوبل اکنامک جرنل میں شائع ہوئی ہے اس کے بارے میں لکھتے ہیں۔ ’’اس تحقیق میں انہوں نے قرآن کی بعض اخلاقی تعلیمات کو لے کر اشارہ اسلامیت(Islamicity index) تشکیل دیا اور اعداد و شمار اور حقائق کو بنیاد بناکر 208 ملکوں کا جائزہ لیا۔ اس جائزے کے مطابق اسلام کی ان اخلاقی تعلیمات پر سب سے زیادہ عمل جس ملک میں ہوتا ہے وہ یورپی ملک آئر لینڈ ہے۔ اس کے بعد ڈنمارک، لکسمبرگ، سویڈن، نیوزی لینڈ، سنگاپور وغیرہ ہیں۔ پہلا اسلامی ملک جو اس رینکنگ میں جگہ بناسکا وہ 33ویں نمبر پر ملیشیا ہے۔ سعودی عرب 91 ویں مقام پر جبکہ ساری بڑی مسلم آبادیاں ۱۰۰ کے بعد، انڈونیشیا( 104) پاکستان (141) بنگلہ دیش (145) ہیں۔‘‘
مصنف اس باب میں اخلاقی حساسیت نہ ہونے کے اسباب بھی بیان کرتے ہیں مثلاً زبان کی اصطلاحات کے تحت وہ مثال دیتے ہیں’’قرآن میں چھوٹی چھوٹی باتوں کے سلسلے میں بھی اخلاقی احکام موجود ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ قرآن کا کوئی حکم چھوٹا نہیں ہوسکتا۔ ہماری حساسیت کی کمی کی وجہ سے وہ حکم چھوٹا لگتا ہے اور اسے چھوٹا کہنے سے اس عدم حساسیت کو مزید تقویت ملتی ہے۔ مصلحین کی زبان اور لب و لہجہ اور اخلاقی شعور میں ترتیب و درجہ بندی کا ایک تصور لاشعور میں جاگزین کردیتا ہے۔ اگر یہ تصور دین کی ترجیحات کے مطابق نہ ہو تو اہم مسائل پر حساسیت کم ہوجاتی ہے۔‘‘(صفحہ 38)اسی طرح مصنف ہر خرابی کی ذمہ داری حکومت کو سمجھنا، عصبیتوں، اور اخلاقی حساسیت کیسے پروان چڑھائی جائے اس پر بھی گفتگو کرتے ہیں۔
کتاب کے چوتھے باب کا عنوان’’سماجی معمولات‘‘ہے۔ اس باب میں مصنف نے سماجی معمولات (social norms) پر بحث کی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے جدید سماجی ماہرین سے خوب استفادہ کیا ہے۔ اس باب کے مطالعہ سے سماجی سائنس کی اہمیت معلوم ہوتی ہے، اسی طرح انہوں نے سماجی معمولات کو جانچنے کے ماڈرن طریقے بھی بتائے ہیں، اسی طرح مصنف اسلام کی اس خوبی کو بیان کرتے ہیں جس کے نزدیک برائی کی تشہیر کرنے سے منع کیا گیا ہے، سماجی معمولات کیسے بدلے جا سکتے ہیں، کے تحت مصنف نے 6 طریقے بیان کیے ہیں جو کہ پریٹکل بھی ہیں، سائنٹفک بھی اور ممکن بھی۔ کتاب کے پانچویں باب میں مصنف نے’’اصلاح معاشرہ اور سوشل انجینئرنگ‘‘ پر بات کی ہے، اس باب میں بھی انہوں نے ماہرین کی آرا پیش کی ہیں اور اسلام کا موقف بھی بیان کیا ہے، مصنف نے اس سلسلے میں ترجیحات، منصوبہ بندی اور تدریج پر زور دیا ہے. مصنف کا ماننا ہے کہ ہماری اصلاحی تحریکیں نہ صرف غیر منظم اور غیر منصوبہ بند ہوتی ہیں بلکہ زیادہ تر یک طرفہ مواصلات (one way communication) تک محدود ہوتی ہیں یعنی تقریر و لٹریچر کے ذریعے اپنی بات بیان کردینا کافی سمجھ لیا جاتا ہے۔(صفحہ 69)
امت مسلمہ کے مصلحین کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ جاہلیت سے واقف ہوں، انہیں معلوم ہو کہ باطل قوتیں کیسے کام کرتی ہیں۔ سعادت صاحب نے کتاب کے پانچویں باب’’سوشل انجینئرنگ اور باطل طاقتیں‘‘ میں سماجی تبدیلی کے ان منصوبوں کا ذکر کیا ہے جو باطل قوتیں منصوبہ بند طریقہ سے کرتی ہیں، اس سلسلے میں انہوں نے کئی مثالیں پیش کی ہیں مثلاً gender equality کے نام پر عورت کا استحصال۔ جنسی مساوات کے تحت انہوں نے بیجنگ لائحہ عمل کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کس طرح وہاں areas of concern متعین کیے گئے، اہداف کے حصول کے لیے حکومتوں کو کیا کرنا ہے، سماجی تنظیموں کو کیا کرنا ہے، کمپنیوں کو کیا کرنا ہے، مصنف نے یہ بھی بتایا ہے کہ اہداف کے حصول کے لیے کس طرح ہمہ گیر سماجی منصوبہ بندی کی گئی، کس طرح امت مسلمہ میں حساسیت ختم کرنے کی کوشش کی گئی، اسی طرح اشتہار اور کارپوریٹ کو استعمال کیا گیا، یہی منصوبہ بندی ہم جنسی کے فروغ کے لیے بھی کی گئی، اس باب میں کار آمدمعلومات ہیں۔ اس باب سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سماجی تبدیلی کا عمل کتنا ہمہ گیر، وسیع الاطراف اور منصوبہ بند ہے۔ مصنف لکھتے ہیں: ’’سماجی تبدیلی کے لیے جو کوششیں ہورہی ہیں وہ صرف تقریر و تحریر اور رائے عامہ کی بیداری کے عام طریقوں تک محدود نہیں ہیں بلکہ سماجی معمولات کو بدلنے، نئے تصورات کو ذہنوں میں راسخ کرنے، نئی حساسیت پیدا کرنے اور قدیم طریقوں کو ختم کرنے کے لیے بہت سے غیر محسوس لیکن نہایت کارگر طریقے اختیار کیے جارہے ہیں ۔ ایک اہم بات یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ سماجی تبدیلی کا کام اب صرف سماجی مصلحین تک محدود نہیں رہا۔ بلکہ سماجی تنظیموں ، حکومتوں ، میڈیا حتٰی کہ کاروباری اور تجارتی اداروں کا بھی اس میں نہایت سرگرم کردار ہے. ‘‘(صفخہ 87)
کتاب کے آخری باب میں مصنف نے چند عملی مثالوں کے حوالے سے منظم سماجی اصلاح کے منصوبے کا نمونہ پیش کیا ہے، مصنف نے چار مثالیں پیش کی ہیں۔ پہلی مثال میں مصنف نے’’نکاح کا مشکل ہونا‘‘ کے تحت عملی پروگرام دیا ہے، لکھتے ہیں:’’تدریجی سوشل انجینئرنگ کا ایک اہم کلیہ یہ ہے کہ ذہانت کے ساتھ ایسی برائی کا انتخاب کیا جائے جس پر ضرب لگانے سے بہت سی دیگر برائیوں کو ختم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔یہ کام سنجیدہ ریسرچ چاہتا ہے کہ ایسی برائیوں کی شناخت کی جائے جو دوسری برائیوں کا ذریعہ بن رہی ہیں۔اگر معاشرتی بگاڑ پر نظر ڈالیں تو ہمارا اندازہ یہ ہے کہ معاشرتی برائیوں میں نکاح کا مشکل ہوجانا یا نکاح سے وابستہ تقریبات و فضول خرچیاں ایک بڑی برائی ہے۔ اس برائی کی وجہ سے کئی معاشرتی خرابیاں پیدا ہورہی ہیں۔‘‘(صفحہ 89) اس کے بعد انہوں نے 12 خرابیوں کی فہرست پیش کی ہے جن کے فروغ سے نکاح مشکل ہوتاہے،اس کے بعد مصنف نے منصوبہ بند طریقہ سے اس برائی کے سدباب کے لیے عملی پروگرام دیا ہے، اسی طرح دوسری مثال میں قانون وراثت سے بے اعتنائی، تیسری مثال میں تجارت و مالیات سے متعلق برائیاں اور چوتھی مثال میں صفائی و پاکیزگی کے فقدان کے حوالے سے عملی پروگرام دیا ہے، ہر مثال میں ایک چارٹ ہے، ساتھ ہی برائی ختم کرنے کے لیے بہترین اور ممکنہ ذرائع بتائے ہیں، ان مثالوں سے باقی خرابیوں کے ازالہ کے لیے بھی راہ ملتی ہے. کتاب میں حوالہ جات کی کثرت سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنف نے کتاب لکھنے کے لیے کس عرق ریزی سے کام لیا ہے۔
ایک عرصہ سے اس بات کی کمی محسوس کی جا رہی تھی کہ تحریک اسلامی نیا موثر اور موجودہ تقاضوں کے پیش نظر لٹریچر تیار نہیں کر پاتی ہے لیکن’زندگی نو‘میں دو سال سے ایسے مضامین شائع ہو رہے ہیں جو کہ اس خلا کو پورا کر رہے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب کے مضامین اصل میں’زندگی نو‘‘میں تسلسل کے ساتھ شائع ہوئے۔ اس کے بعد ان میں کچھ ترامیم کی گئی، اگر’زندگی نو‘ کا یہ سلسلہ جاری رہا تو امید ہے کہ تحریک اسلامی ایک بہترین لٹریچر پیش کرنے میں کامیاب ہوگی۔ راقم کا ماننا ہے کہ یہ کتاب نہ صرف اصلاحِ معاشرہ کا عظیم فریضہ انجام دینے والوں کے لیے گائیڈ بک کا کام دے گی بلکہ سوشیالوجی کے طالب علموں کے لیے بھی رہنما کتاب کے طور پر کام دے گی۔ کتاب کا گیٹ اپ اور کاغذ بھی اعلیٰ ہے ۔ بحیثیت مجموعی دعوت کا کام کرنے والوں کے لیے بڑی مفید کتاب ہے ۔
***

 

***

 ‌اس وقت دنیا بھر میں انسانی آبادی پر اثر انداز ہونے والی قوتیں معاشرے کو اپنے ایجنڈے کے مطابق بدلنے اور ڈھالنے کے لیے نہایت منصوبہ بند اور ترقی یافتہ طریقے استعمال کرتی ہیں۔ معاشرے کو الہٰی ہدایات کے مطابق ڈھالنے کے لیے بھی صرف تقریروں اور خطبات پر اکتفا کرنا نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکتا ہے۔ اس عظیم الشان کام کے لیے بھی سماج کا گہرا جائزہ، منصوبہ بندی اور صالح عصری طریقوں کا استعمال ضروری ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  13 تا 19 مارچ  2022