اسماء صقر ، جس نے ممتا كے مقابلے میں شہادت كو ترجیح دى
میدان رابعہ کى ایک ایمان افروز داستان
عمارہ رضوان،نئى دلى
مصر کے دارالحکومت قاہرھ میں ایک بار پھرحق وباطل کى کش مکش برپا ہے ، ایک طرف نہتے مصرى عوام ہیں جو اپنے حق رائے دہى کے تحفظ میں مسلسل چالیس دنوں سے دھرنے پہ بیٹھے ہیں ،رمضان کا پورا مہینہ اسى میدان کار زار میں گزرا ہے ، کیا بچے کیا بوڑھے، پورا پورا خاندان رابعہ کے میدان میں خیمہ زن ہے ، تکبیر ، تہلیل اور قیام لیل سے پورے میدان کى فضا معطر ہے ، کبھى کبھى پرجوش نعروں اور ترانوں سے پورى فضا گونج اٹھتى ہے ، تو دوسرى طرف جنرل سیسى اور اس کے حواریوں کى فوج ہے ، انہیں پس پشت مغربى قوتوں کى پشت پناہى حاصل ہے اور پڑوسى ملکوں کى مالى امداد بھى ، انہیں نے بھى طے کررکھا ہے کہ مصرى تاریخ میں پہلى بار منتخب صدر مرسى کو کسى صورت دوبارہ اقتدار میں آنے نہیں دیں گے ، چاہے اس کےلیے خون کى ندیاں ہى کیوں نہ بہانى پڑیں، اقوام متحدہ اور یورپى یونین کے نمائندے بھى کئى بار آچکے ہیں اور دبى زبان سے مظاہرین کو سپر ڈالنے کى نصیحت بھى کرچکے ہیں ، مگر مظاہرین اپنے پرامن مظاہرے کو جارى رکھنے پر بضد ہیں ، اسٹیج سے بار بار یہ آواز آرہى ہے ’’ ہمار ا پرامن مظاہرہ تمھارى گولیوں پر بھارى ہے‘‘۔
رابعہ کے میدان کے ایک خیمے میں اسماء دوپہر بعد قرآن کى تلاوت کے بعد آرام کرنے کےلیے لیٹ گئیں ، ابھى آنکھ لگى ہى تھى کہ کیا دیکھتى ہیں کہ شہید سعید صیام ( فلسطینى مجاہد ) اوپر سے آواز دے رہے ہیں کہ اسماء تم بھى اوپر آجاؤ اور اپنا ہاتھ آگے کردیتے ہیں ، اسماء بھى اوپر جانے کا ارادہ کرتى ہیں کہ پیچھے سے اسماء کى ما ں کى آواز آتى ہے ’’ ابھى نہیں اسما ء – ابھى نہیں ‘‘
اس خواب کو اسماء نے رابعہ کے قتل عام سے پہلے کئى بار دیکھا اور اپنى ماں سے اس کا ذکر بھى کیا ، جب رابعہ کے میدان میں ظلم وبربریت کا ننگا ناچ ہوا اور قتل وخون کى ہولى کھیلى گئى تو اسماء نے اپنى ماں سے کہا ’’ ماں ! شاید میرے اس خواب کى تعبیر یہى ہے جو آج ہمارے سامنے ہورہا ہے‘‘۔
14/ اگست 2013 کی صبح روزکى طرح آج بھى اسماء اپنے شوہر عصام فواد کے ساتھ رابعہ کے میدان میں نکل پڑیں تاکہ ظلم و بربریت کى تاریخ کو کیمرے میں قید کرسکیں اور مغرب کوغاصب جنرل سیسى کا حیوانى چہرہ دکھا سکیں ، اسى اثناء ان کے شوہر کے پیر کے ایک انگلى میں کسى بزدل کى بندوق سے ایک گولى آکر لگى۔
اسماء نے اسى وقت اپنے شوہر کو رابعہ کے فیلڈ ہاسپٹل میں سہارا دے کر منتقل کیا جو اس حادثے کى جگہ سے چند قدم کى دورى پر واقع تھا۔ یہ فیلڈہاسپٹل درا اصل ایک بلڈنگ میں تھا جسے وقتى طور پر ایک اسپتال کى شکل دے دى گئى تھى۔ اسماء اپنے شوہر کے ساتھ اسپتال کى تیسرى منزل پر بڑى مشکل سے پہونچیں کیونکہ ہر چہار جانب سے گولے بارود کى بارش ہو رہى تھى۔
عصام فواد لکھتے ہیں ’’ جب میرى انگلى میں بندوق کى گولى لگى تو میں خود ہى اپنے ساتھ اسماء کو اسپتال لے کر چل دیا کیونکہ میں اسماء کو ان حالات میں تنہا چھوڑنا نہیں چاہتا تھا ۔ مجھے اسماء کے شوقِ شہادت کا علم تھا ،اور میں یہ بھى جانتا تھا کہ اسماء کو اپنى جان کى قطعا ً فکر نہیں ہے ، وہ مجھے سہارا دے کر اسپتال کے تیسرى منزل تک لائى جہاں پر پہلے سے ہى زخمیوں کى تعداد جمع تھى اور ڈاکٹر ان کى مرہم پٹّى کر رہے تھے ، اسماء نے مجھے ایک کرسى پر بٹھا دیا اور خود فرش پر بیٹھ گئى ، ڈاکٹر ابھى میرے زخم کا علاج کر ہى رہاتھا اور اسماء مرہم پٹى میں اس ڈاکٹر کى مدد کررہى تھى کہ اچانک ایک گولى کھڑکى کے شیشے کو چیرتے ہوئے آئى اور اسماء کے سر میں پیوست ہوگئى ، اسماء فرش پر ڈھڑام سے گرى اور گرتے ہى اللہ کو پیارى ہوگئى ۔ یہ سب میرى آنکھوں کے سامنے ہوا اور میں دیکھ رہاتھا کہ اس کے لب گرنے سے پہلے لاإلہ الا اللہ کا ورد کررہے تھے ۔
اسماء کى والدہ 14/ اگست 2013 کو اپنے گھرمیں تھیں اور رابعہ میں وقوع پذیرپَل پَل کى خبریں پہونچ رہى تھیں ، میدان رابعہ سے ہى کسى نے ان کو فون کردیا کہ آپ کى لخت جگر اسماء نے بھى جام شہادت نوش فرما لیا ہے ،تحقیق کى خاطر انہوں نے اپنے داماد عصام کو فون لگایا اور پوچھا – اسماء کیسى ہیں ؟ عصام نے جواب دیا : وہ اچھى ہیں اور میرے بغل میں ہیں ، لیکن بات کرنے کى پوژیشن میں نہیں ہیں ۔ماں نے راحت کى سانس لى۔
اسماء کا گھر رابعہ کے میدان سے قریب ہى تھا ، ماں نے سوچا ، رابعہ میں بہت زخمى ہو ں گے ، کیوں نہ میں ان کى مدد کو پہونچوں ، انہوں نے گیرج سے اپنى کار نکالى اور خو د ہى ڈرائیو کرتے ہوئے رابعہ ہونچ گئیں ۔ کیا دیکھتى ہیں کہ وہاں تو لاشیں ہى لاشیں ہیں ، ہر طرف خون ہى خون بکھرا پڑا ہے ، آہیں ،کراہیں ایسى کہ سینہ چھلنى کردیں ایسے میں ایک نوجوان ایک چادر میں لپٹى ہوئى لا ش کے ساتھ سڑک کنارے کھڑا ہے اور اس کے پیروں پر پٹى چڑھى ہوئى ہے ، وہ اپنى کار کو وہیں روک دیتى ہیں اور اس نوجوان کو مدد کا آفر کرتى ہیں ، نوجوان پچھلے دروازے کو کھول کر لاش کو پچھلى سیٹ پر لٹا دیتا ہے اور اگلى سیٹ پر جب بیٹھنے کےلیے آگے بڑھتا ہے توخاتون ڈرائیورنوجوان کا چہرہ دیکھ کر بول پڑتى ہیں ، عصام تم ! کیا اسماء کا انتقال ہوگیا ؟ عصام اپنے آنسؤوں کو سنبھالتے ہوئے جواب دیتے ہیں: ہاں امى ! اسماء نے اپنے رب کے راستے کو اختیارکیا اور ہم سے جدا ہو گئیں۔
اسماء کى والدہ اسى وقت کار سے نیچے اترتى ہیں اور زمین پر سجدہ شکر بجالاتى ہیں کہ اسماء نے حق کى راھ میں اپنى جان قربان کردی۔ پھر عصام کو اسماء کى وصیت کے بارے میں بتاتى ہیں۔وہ وصیت جسے اسماءنے رابعہ کے مظاہرے میں شرکت کے پہلےدن ہى اپنے ہاتھوں سے لکھ رکھى تھى جو ان کى ماں نے شہادت کے بعد عصام فواد کے حوالے کیا۔
یہ وصیت اسماء صقر کے ایمان کى علامت ہے۔ یہ وصیت اسماء کے شوق شہادت کى درایت ہے۔جی ہاں، یہ وصیت اہل جنوں کے خوابوں کى صداقت ہے۔
’’میں دو بچوں( یحیى اور رحمت ) کى ماں ہوں ، میرے دل میں بھى ماں کى ممتا ہے ، میرے جگر گوشےمجھے بہت عزیز ہیں ، لیکن وہ ہیں تو اللہ کى ودیعت ، ان بچوں سے میں کتنا پیار کرتى ہوں یا تو میں جانتى ہوں یا میرا اللہ ، لیکن اللہ سے ملاقات مجھے عزیز تر ہے ، میرى تمنا ہے کہ ان بچوں کو اسى ذات کے حوالے کرجاؤوں جس کى وہ امانت ہیں ، مجھے مکمل اطمینان ہے کہ اس ذات کى نگرانى میں امانتیں ضائع نہیں ہوں گى۔ اور مجھ سے بہتر وہ ذات ان کى پرورش وپرداخت کرنے پر قادر ہے‘‘۔
یہ اسماء صقر کى وصیت کے وہ الفاظ ہیں جو آب ِزر سے لکھے جانے کے قابل ہیں ۔عصام ایک فوٹو گرافر اور صحافى ہیں ، جو عالمى میڈیا کےلیے میدان رابعہ سے رپورٹیں بھیجتے تھے ، اسماء صقر عربى زبان کے ساتھ ساتھ انگریزى پر بھى قادر تھیں جو اس مہم میں اپنے شوہر کى مدد کرتى تھیں ۔
اسماء نے عین شمس یونیورسٹى کے سائنس کالج سے گریجویشن کیا تھا اور قاہرھ امریکن اوپن یونیورسٹى سے انگریزى زبان میں ڈپلوما کى ڈگرى لى تھى اور دونو ں ہى یونیورسٹیوں میں اپنى صلاحیت و قابلیت کا لوہا منوایا تھا۔ گریجویشن تک وہ اپنے کلاس کے پانچ ممتاز طلبہ میں اپنے نام کا اندراج کراتى رہیں۔تعلیم کے ساتھ ساتھ وہ اپنے دن کا ایک حصہ یونیورسٹى میں دعوتى اور ثقافتى سرگرمیوں پر لگاتى رہیں ، فہم قرآن و أذکار واوراد کے حلقوں میں ان کى کلاس کى زیادھ تر لڑکیا ں شامل ہوتى تھیں۔ یہاں تک کہ ایک بار اپنى انہیں ’’قابل اعتراض سرگرمیوں‘‘ کى وجہ سے وہ یونیورسٹى انتظامیہ کے عتاب کا شکار بھى ہوئیں اور ایک ہفتے تک انہیں کلاس میں حاضر ہونے روک دیا گیا۔
اسماء جب یونیورسٹى کے سال اوّل میں تھیں تب سے ہى ان کے مضامین اخوان آن لائن اور اسلام ڈاٹ نیٹ میں شائع ہونے لگے جو، ان کى فکرى و علمى گہرائى کے عکاس ہیں۔
اسماء تو اپنے رب کے حضور حاضر ہوگئیں ، مگر پورى امت کى نوجوان نسل کےلیے ایک پیغام چھوڑگئیں ،
حق کےلیے جینے کا پیغام !
حق کےلیے مرنے کا پیغام !
حق کےلیے سب کچھ قربان کرنے کا پیغام !
’’میں دو بچوں(یحیى اور رحمت) کى ماں ہوں، میرے دل میں بھى ماں کى ممتا ہے، میرے جگر گوشے مجھے بہت عزیز ہیں، لیکنوہ ہیں تو اللھ کى امانت، ان بچوں سے میں کتنا پیار کرتى ہوں یا تو میں جانتى ہوں یا میرا اللہ، لیکن اللہ سے ملاقات مجھے عزیز تر ہے، میرى تمنا ہے کہ ان بچوں کو اسى ذات کے حوالے کر جاؤں جس کى وہ امانت ہیں، مجھے مکمل اطمینان ہے کہ اس ذات کى نگرانى میں امانتیں ضائع نہیں ہوں گى ۔ اور مجھ سے بہتر وہ ذات ان کى پرورش وپرداخت کرنے پر قادر ہے ۔ ‘‘