اسلام اور ہندو مت ( ایک تقابلی مطالعہ) تعارف وتجزیہ

تقابل ادیان میں مسلم علماء کی خدمات ( قسط 14)

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی،علیگڑھ

 

ڈاکٹر ذاکر عبد الکریم نائک علمی حلقوں میں کسی بھی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ انہوں نے تقابلِ ادیان میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں ۔ جہاں انہوں نے برادران وطن کے رہنماؤں اور اصحاب علم وفن سے مناظرے کیے ہیں ان کے ذہنوں میں ابھرنے والے اسلام کے خلاف سوالات کا جواب تشفی بخش دیا ہے وہیں انہوں نے مطالعہ ادیان پر وقیع اور قیمتی کتب بھی رقم کی ہیں۔ ڈاکٹر نائک نے اپنی کتابوں یا معترضین کے اعتراضات کے جو جوابات دیے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا اختصاص تقابل ادیان ہے۔ زیادہ تر ان کا علمی سرمایہ انگریزی زبان میں ہے لیکن ان کے اس علمی ورثہ کو دعوتی نقظہ نظر سے بہت سارے لوگوں نے اردو یا دیگر زبانوں میں بھی منتقل کیا ہے۔ لہذا ان کی ایک کتاب ’اسلام اور ہندو دھرم ایک تقابلی مطالعہ‘ کے عنوان سے موجود ہے۔ اس کتاب کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصہ میں اسلام اور ہندومت کی تعلیمات کا تقابل وتجزیہ کیا گیا ہے اور دوسرے حصے میں مناظرہ ہے۔ جس کا عنوان ہے ’’ انسانوں کے لیے گوشت خوری جائز ہے یا ناجائز‘‘ اس کتاب کو زبیر پبلشر لاہور نے شائع کیا ہے۔ اصل کتاب انگریزی زبان میں ہے لیکن محمد زاہد ملک نے اردو ترجمہ کرکے ’’اسلام اور ہندو مت ایک تقابلی مطالعہ‘‘ کے نام سے شائع کروائی ہے۔ یہ کتاب kitabosunnat.com پر بھی موجود ہے۔ خواہش مند حضرات وہاں سے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں۔ کتاب کی ضخامت 222 صفحات پر مشتمل ہے۔ فاضل مصنف نے کتاب کے پہلے حصے میں جن مباحث پر گفتگو کی ہے ان کی تفصیل اس طرح ہے۔
1- اسلام اور ہندومت کا تقابلی مطالعہ 2- ہندؤوں کو اسلام کی دعوت 3- وہ سوالات جو ہندو اکثر اسلام کے بارے میں کرتے ہیں۔
کتاب کے اہم مباحث کا تعارف
ڈاکٹر ذاکر نائک کی تحقیق کے مطابق ’’ہندو مت میں ہندو مت کے ستون بیان نہیں کیے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندو مت میں سکہ بند اعتقاد نہیں ہیں اور نہ ہی اس کے کوئی ستون یا اصول ہیں جن پر اس مذہب کے پیروکاروں کے لیے عمل در آمد ضروری ہو۔ ایک ہندو کے لیے آزادی ہے کہ وہ چاہے عمل در آمد کرے جس عمل کو چاہے اپنائے۔ کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اس کے لیے ضروری یا اس کے لیے ممنوع ہو۔ لہذا اس کا کوئی بھی عمل اسے ہندو مت سے خارج نہیں کرتا اور نہ ہی کسی مذہبی قانون کی خلاف ورزی اسے ہندومت سے خارج کرتی ہے۔ تاہم کچھ ایسے عقائد ہیں جو بہت سے ہندوؤں میں یکساں پائے جاتے ہیں اگر چہ سو فیصد ہندو ان عقائد پر متفق نہیں ہیں‘‘
(صفحہ 10) اسی کے ساتھ یہ بھی مبنی بر حقیقت ہے کہ ہندو مت اس قدر گنجلک ہے کہ اس کی جامع اور مانع تعریف کرنے سے خود علماء ہنود قاصر ہیں۔ جب تک کسی بھی دھرم و دین کے خطوط و راہ متعین نہ ہوں، اس وقت تک اس کی کما حقہ اتباع و تقلید نا ممکن ہے۔آج ہندو مت کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس نے عوام کے لیے کوئی بھی مسلمہ گائیڈ لائن متعین نہیں کی نیز، کوئی ہندو یہ نہیں کہہ سکتا کہ اگر فلاں فلاں تعلیمات کو نمونہ عمل بنایا جائے تو راہ نجات و فلاح حاصل ہوجائے گی۔ چنانچہ وہ ہندو مت میں تصور خدا کے متعلق انتہائی اہم بات لکھتے ہیں۔ ’’اگر آپ ایک عام ہندو سے دریافت کریں کہ وہ کتنے خداؤں پر یقین رکھتا ہے ۔ ۔ کچھ ہندو کہیں گے کہ تین کچھ 33 بھی کہہ سکتے ہیں کچھ کہیں گے کہ ایک ہزار جبکہ کچھ کہیں گےکہ 33 کروڑ اور تیس لاکھ۔ لیکن اگر آپ یہ سوال کسی فاضل ہندو سے پوچھیں جو کہ ہندوؤں کی مذہبی کتب سے بھی واقف ہو وہ جواب دے گا کہ ایک ہندو کو ایک خدا پر ایمان لانا چاہئے‘‘ ( ایضاً 10- 11)
ہندو مسلم اتحاد کے لیے لائحہ عمل
ڈاکٹر ذاکر نائک نے لکھا ہے کہ اسلام اور ہندو کے درمیان فرق ’ایس‘ (S) کا ہے۔ کیونکہ توحید کے متعلق اسلام کا موقف یہ ہے کہ ہر چیز کا مالک خدا ہے۔ ( every thing is ” God,s ” ) برعکس اس کے ہندوؤں کا نظریہ یہ ہے کہ ہر چیز خدا ہے۔ every thing) is God ) ہندوؤں اور مسلمانوں میں بڑا فرق یہ ہے کہ ہندو اس فلسفے پر یقین رکھتے ہیں کہ ہر چیز خدا کا حصہ ہے یعنی ہر چیز خدا ہے۔ درخت خدا ہے سورج خدا ہے چاند خدا ہے سانپ خدا ہے بندر خدا ہے انسان خدا ہے۔ ‘‘ (ایضاً) لہذا اگر ہم اس فرق کو مٹا سکیں تب ہندو اور مسلم متحد ہوسکتے ہیں ۔ انتہائی اہم بات ہے اگر غور سے دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ توحید کی شکل بالکل بگاڑ کر رکھ دی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہر ہندو ہر نفع اور ضرر پہنچانے والی شئے کو خدا سمجھ بیٹھا ہے۔ لہذا اگر باہمی یکجہتی کو فروغ دینا ہے تو یقیناً اس فرق کو نابود کرنا ہوگا۔ حالانکہ خود ان کے دینی مصادر میں ان کی عقل پر ماتم کیا گیا ہے اور ان کے نظریہ توحید پر سخت تنقید کی گئی ہے۔ گیتا میں توحید کے متعلق کہا گیا ہے۔ "وہ جن کی عقل پر مادی خواہشات کے پردے پڑے ہہوئے ہیں وہ نقلی خداؤں کو پوجتے ہیں” ( ایضاً صفحہ 12) اسی طرح اپنشد میں آیا ہے ’’ خدا محض ایک ہے دوسرا خدا کوئی نہیں ہے‘‘ اسی مفہوم و معنی کو سورہ اخلاص میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ یہ الگ مسئلہ ہے کہ اب ہندوؤں نے توحید کی تعبیر و تشریح بالکل بدل کر رکھ دی ہے۔ جب کہ ان کے بنیادی مصادر میں خالص توحید کا ثبوت ملتا ہے۔
ہندو مصادر میں غزوات کا تذکرہ
ہندو ازم میں دو طرح کی مقدس تحریروں اور مصادر و مراجع کا ذکر ملتا ہے سروتی ( Sruti) اور سمرتی (Smrti)۔ سروتی کا مطلب وہ تحریریں جو سنی گئیں اور سمجھیں گئیں ۔ یہ مذہبی کتب ہندوؤں کی قدیم ترین اور مقدس ترین کتب تصور کی جاتی ہیں۔ سروتی کو دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ وید اور اپنشد ان کو الہامی کتب تصور کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں سمرتی کو اتنا مقدس اور اہم تصور نہیں کیا جاتا ہے۔ سمرتی کا مطلب ہے یاد داشت یا یاد کیا ہوا ۔ ہندوؤں کے اس ادب کو سمجھنا آسان ہے۔ کیونکہ یہ زمانے کے حقائق کی نشاندہی کرتا ہے۔ ۔سمرتی کو الہامی کتب تصور نہیں کیا جاتا بلکہ ان کو انسانی تدوین شدہ اور مرتب شدہ سمجھا جاتا ہے جو انسانوں کو روز مرہ زندگی کے طور طریقوں کے بارے میں رہنمائی فراہم کرتی ہیں اور انسانوں کی برادری میں کس قسم کے عمل کا مظاہرہ کرنا ہے ان کو دھرماشاسترہ بھی کہا جا تا ہے۔ سمرتی کئی ایک تحریروں پر مشتمل ہے اس میں پرانا (Purans) بھی شامل ہیں۔ ( ایضاً صفحہ 20)
چنانچہ ہندو دھرم کی کتب مقدسہ میں محمدﷺ کے متعلق پیشین گوئی جگہ جگہ مذکور ہے۔ اسی طرح ہندو مت کے مصادر میں بعض غزوات کا بھی تذکرہ ملتا ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائک نے اتھروید کتاب نمبر 20 ۔ باب نمبر 6 اور شلوک نمبر 21 کے حوالے سے لکھا ہے۔’’بغیر جنگ کے دس ہزار دشمنوں پر غالب آ گئے‘‘ اس پیشین گوئی کا تعلق جنگ احزاب سے ہے۔ کیونکہ اس جنگ میں لڑائی کے بغیر فتح حاصل کی تھی۔ اسی طرح اتھر وید کی کتاب 20 باب 21 اور شلوک 7 میں مذکور ہے۔ ’’ تم اے ہندوستان تم نے 20 بادشاہوں اور 60099 افراد کو شکست دی جو اس سے جنگ کرنے کے لیے آئے جس کی تعریف کی گئی یا جس کی شہرت دور دور تک تھی ( محمدﷺ) یتیم تھے‘‘۔ ڈاکٹر ذاکر نائک نے اس شلوک سے درج ذیل استدلال کیا ہے
1 پیغمبر اسلام کے زمانہ مبارک میں مکہ کی آبادی تقریبا 60000 تھی۔
2 ۔ مکہ میں کئی ایک قبیلے آباد تھے ۔ ہر ایک قبیلے کا ایک سردار تھا۔ تقریبا 20 سردار تھے جو مکہ کی آبادی پر حکومت کرتے تھے۔
3 ۔ ایک ’’اباندھو‘‘Abandhu کا مطلب ہے بے یارو مددگار ہستی جس کی شہرت دور دور تک تھی اور جس کی تعریف کی گئی تھی۔ محمدﷺ خدا کی مدد کے ساتھ دشمنوں پر غالب آ ئے۔
( ایضاً صفحہ 39) اس سے فتح مکہ مراد لی گئی ہے۔
چند مشہور سوالات کے جوابات
عموماً یہ سوال ذہن میں گردش کرتا رہتا ہے کہ ہندوستان میں کون سے نبی مبعوث ہوئے، اسی طرح کیا رام اور کرشنا خدا کے نبی ہیں یا ہندوستان کے لیے کوئی کتاب نازل کی گئی ہے۔ ان تمام اشکالوں کے جواب ڈاکٹر ذاکر نائک نے اپنی کتاب میں دیے ہیں۔
1 ہندوستان میں کون سی الہامی کتاب نازل کی گئی اور کیا وہ ویدوں اور دیگر ہندو مذہبی کتب کو الہامی تصور کرسکتے ہیں؟
اس کا جواب یہ دیا گیا کہ قرآن پاک اور احادیث صحیحہ میں ویدوں اور دیگر ہندو مذہبی کتب کے نام نہیں پائے جاتے لہذا کوئی بھی شخص یہ یقین کے ساتھ نہیں کہ سکتا کہ یہ الہامی کتب تھیں، یہ الہامی کتب ہوسکتی ہیں اور نہیں بھی ہوسکتی ہیں اس بارے میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر ذاکر نائک نے لکھا ہے۔ ’’اگر یہ تصور بھی کرلیا جائے کہ وید اور دیگر مذہبی کتب کلام الٰہی تھیں لیکن وہ اس دور کے لوگوں کے لیے کار آمد تھیں جس دور کے لوگوں کے لیے یہ نازل ہوئی تھیں اور یہ مخصوص لوگوں اور مخصوص دور کے لیے کار آمد تھیں۔ آج کل تمام تر دنیا کے لوگوں بشمول ہندوستان کو محض خدا کے آخری اور حتمی کلام کی پیروی کرنا ہوگی۔ یعنی قرآن پاک کی پیروی کرنا ہوگی۔ چونکہ سابقہ الہامی کتب کو دوام حاصل نہ تھا لہٰذا خدا تعالیٰ نے ان کی حفاظت کی ذمہ داری نہیں لی تھی۔ آج کل کسی بھی بڑے مذہب کی کوئی بھی الہامی کتب جس کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ وہ کلام الٰہی تھی اپنی اصلی حالت میں موجود نہیں ہے اور اس میں مرضی کے مطابق تبدیلیاں کی گئی ہیں کیونکہ ان کی حفاظت کاذمہ اللہ تعالیٰ نے نہیں لیا تھا۔ چونکہ قرآن پاک قیامت تک لیے ہدایت کا سر چشمہ ہے اس لیے اس کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود اٹھایا ہے۔‘‘
رہی یہ بات کہ رام اور کرشنا خدا کے پیغمبر تھے یا نہیں تو اس کے جواب میں ڈاکٹر ذاکر نائک نے لکھا ہے۔ ہر قوم میں پیغمبر مبعوث کیے گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ ’’اور جو کوئی گروہ تھا سب میں ڈر سنانے والا گزر چکا‘‘( سورہ فاطر ۔24) اسی طرح دوسری جگہ ارشاد ہے ’’ تم ڈر سنانے والے ہو اور ہر قوم کے لیے ہادی ہے‘‘ (سورہ رعد۔ 13) ( تفصیل کے لیے دیکھیے ایضاً صفحہ 42-43) اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہقرآن پاک یا حدیث مبارکہ میں کسی قسم کا کوئی ذکر نہیں فرمایا گیا کہ ہندوستان میں کون سا پیغمبر مبعوث فرمایا تھا۔ چونکہ رام اور کرشنا کے نام قرآن پاک یا حدیث مبارکہ میں نہیں پائے جاتے لہٰذا کوئی شخص پورے وثوق سے کے ساتھ یہ نہیں کہ سکتا کہ وہ خدا کے پیغمبر تھے یا نہیں تھے’’ (ایضاً صفحہ 46) دوسری اہم بات یہ ہے کہ اگر یہ بات تسلیم بھی کر لی جائے کہ رام اور کرشنا خدا کے پیغمبر تھے تب یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ وہ اپنے دور کے لوگوں کے لیے مبعوث فرمائے گئے تھے اور وہ ایک مخصوص دورانیے تک کے لیے تھے۔ آ ج تمام تر دنیا میں آباد تمام تر انسانیت کو بشمول ہندوستان نبی آخر الزمان حضرت محمدﷺ کی پیروی کرنی چاہیے۔ ‘‘( ایضاً صفحہ 47)
کتاب کی اہمیت
مذکورہ مباحث و اقتباسات کی روشنی میں یہ عرض کیا جاسکتا ہے کہ مصنف کی یہ کتاب کئی اعتبار سے اہمیت کی حامل ہے ایک تو یہ اس کے اندر جا بجا ہندو مذہب کے مصادر سے استدلال کرکے اسلام کی حقانیت و صداقت کو پیش کیا گیا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس کتاب کے اندر ان مباحث پر گفتگو کی گئی ہے جن کا تعلق عموماً روز مرہ کی زندگی سے ہے۔ اسی لیے انہوں نے ان سوالوں کا جواب دینے کی کوشش کی ہے جو عام طور پر لوگوں کے ذہن و دماغ میں آتے رہتے ہیں۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ اس کتاب کو اگر ہم دعوتی نقظہ نظر سے دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے آج جن بنیادی مسائل کی ضرورت ہے ان تمام کا احاطہ اس کے اندر کیا گیا ہے۔ خصوصاً وہ چیزیں جن کی ضرورت دعوت و تبلیغ کے لیے ہوتی ہیں۔ آج برادران وطن کا ایک بہت بڑا طبقہ حق جاننے اور سننے کا منتظر ہے۔ اس کے ذہن میں طرح طرح کے اشکالات ہیں مگر افسوس کہ ہمارے اندر ایسے افراد کی کمی ہے جو ان کے شکوک وشبہات کو رفع کرسکیں۔ تقابل ادیان پر لکھی گئی یہ کتاب بہت حد تک اس کمی کو پورا کرے گی۔ امید اس کتاب کے مطالعہ سے ہمارے علماء فضلاء اور اصحاب دانش و بینش میں افہام وتفہیم کا جذبہ پیدا ہوگا۔ یہی جذبہ انسانیت کو راہ راست پر لانے کا سبب بھی بن سکتا ہے اس بات کو ذہن میں مستحضر رکھنا چاہیے کہ ہم اپنی ذمہ داری سے موت تک سبکدوش نہیں ہوسکتے لہذا حق پہنچانا اور لوگوں پر حق کی افادیت کو واضح کرنا ہمارا اولین فریضہ ہے۔
[email protected]
***

آج ہندو مت کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس نے عوام کے لیے کوئی بھی مسلمہ گائیڈ لائن متعین نہیں کی نیز، کوئی ہندو یہ نہیں کہہ سکتا کہ اگر فلاں فلاں تعلیمات کو نمونہ عمل بنایا جائے تو راہ نجات و فلاح حاصل ہوجائے گی

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 8 تا 14 نومبر، 2020