عبد العزیز
ولا تنابزوا بالالقاب ’’ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد نہ کرو ‘‘۔ جس طرح کسی شخص کو اچھے القابات سے ملقب کرنا اس کے لیے عزت افزائی کا باعث ہوتا ہے اسی طرح کسی پر برے القاب کا چسپاں کرنا اس کی انتہائی توہین وتذلیل بھی ہے۔ کیونکہ یہ القاب عام طور پر لوگوں کی زبانوں پر چڑھ جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں وہ شخص بری طرح اس لقب کے مفہوم کا آئینہ دار بن جاتا ہے اور کوشش کے باوجود اس کے اثرات اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ بعض دفعہ پشتوں تک اس کے اثرات باقی رہتے ہیں۔ اس لیے اسلام نے ایسا کوئی بھی لقب کسی کو دینے سے منع فرمایا ہے جس سے اس کی عزتِ نفس کو ٹھیس پہنچتی ہو۔ اور عرب جب کسی کی ہجو کرتے تھے تو وہ ایسے ہی طریقے اختیار کرتے تھے اور اس میں ان کو بہت مہارت حاصل تھی اور اسی کا نتیجہ تھا کہ کبھی وہ ایک قوم نہ بن سکے۔ ہر قبیلے کا خطیب اور شاعر اپنے قبیلے کی برتری ثابت کرنے کی کوشش کرتا اور دوسروں کو گرانے اور بچھاڑنے میں لگا رہتا۔ تو اس سے قبیلے کی بنیادیں تو مستحکم ہوتیں لیکن قومی شعور کبھی پیدا نہ ہوتا۔ اسلام نے جو عربوں پر بے شمار احسانات کیے ہیں ان ہی میں یہ احسان بھی ہے کہ انہیں قبائلی تعصبات سے نکالا اور قوم کا وسیع تر تصور ان کے دماغوں میں اتارا۔ اور اسی کی بدولت وہ دنیا کی ہدایت وقیادت کے اہل بنے۔ البتہ اس میں یہ بات یاد رکھنے کی ہے وہ یہ کہ بعض دفعہ کوئی لقب ظاہری صورت کے اعتبار سے تو بد نما ہوتا ہے لیکن وہ کثرت استعمال سے کسی شخصیت کی پہچان بن جاتاہے۔ مثلاً محدثین میں الاعمش کا لفظ یا الاحدب کا لقب اگرچہ معنوی اعتبار سے یہ کوئی اچھے القاب نہیں لیکن شناخت بن جانے کے بعد آج تک ان کا استعمال ہو رہا ہے۔ صحابہ کرام ؓمیں بھی ہمیں اس کی مثالیں ملتی ہیں۔
جس طرح کسی شخص کو اچھے القابات سے ملقب کرنا اس کے لیے عزت افزائی کا باعث ہوتا ہے اسی طرح کسی پر برے القاب کا چسپاں کرنا اس کی انتہائی توہین وتذلیل بھی ہے۔ کیونکہ یہ القاب عام طور پر لوگوں کی زبانوں پر چڑھ جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں وہ شخص بری طرح اس لقب کے مفہوم کا آئینہ دار بن جاتا ہے اور کوشش کے باوجود اس کے اثرات اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔
دوسرا مفہوم اس کا یہ ہے کہ کسی کو چِڑانے کے لیے کوئی لقب نہ دیا جائے؛ مثلاً کسی کو اس کے سابق مذہب کی طرف منسوب کرنا یا اس کے خاندان کی بری شہرت کے حوالے سے اسے پکارنا یا اس میں کوئی جسمانی عیب پایا جاتا ہے تو اسی کو اس کا لقب بنا دینا۔ تو جب اسے ایسے القات سے پکارا جائے گا تو یقیناً وہ اس سے ناراض ہوگا جو بالآخر تعلقات کی خرابی پر منتج ہوگا۔ اور بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کوئی ایسی خاص بات نہیں ہوتی لیکن اگر اسے تکرار کے ساتھ کہا جائے تو سننے والا ناراض ہو جاتا ہے۔ تو یہ رویہ بھی اسی ممانعت میں داخل ہے۔ عبد المجید سالک مرحوم نے اپنی سرگزشت میں یہ واقعہ لکھا ہے کہ ایک دن جیل میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری مرحوم نے یہ لطیفہ سنایا کہ لدھیانے کی جامع مسجد میں کوئی عالم دین اسی آیت پر تقریر کرتے ہوئے یہ کہہ رہے تھے کہ کسی کی چڑ مقرر نہیں کرنی چاہیے۔ کیونکہ آدمی اس سے چڑ جاتا ہے اور لڑائی ہوجاتی ہے۔ مجمع میں ایک تحصیلدار صاحب بیٹھے تھے، وہ اپنے پاس بیٹھے ہوئے صاحب سے کہنے لگے یہ مولوی صاحب کیا کہہ رہے ہیں، آخر آدمی کسی بات سے کیسے چڑ جاتا ہے، کوئی کہتا رہے اور سننے والا نہ چڑے تو کیسے لڑائی ہو جائے گی۔ دوسرے صاحب نے کہا کہ تحصیلدار صاحب یہ انسانی فطرت ہے کہ آپ بار بار کسی کو ایک ہی بات کہیں تو وہ چڑ جائے گا، لیکن تحصیلدار صاحب نہیں مانے۔ دوسرے صاحب نے انہیں سبق سکھانے کے لیے ان ہی پر تجربہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ چنانچہ تقریر کے دوران ہی اس نے پوچھا کے صاحب آپ کے یہاں شلجم کا اچار ہوگا۔ وہ کہنے لگے نہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد اس نے پھر پوچھا، تحصیلدار صاحب نے کہا کہ میں نے کہا کہ ہمارے یہاں نہیں ہے۔ اس نے چند منٹ کے بعد پھر اپنا سوال دہرایا۔ اب آہستہ آہستہ تحصیلدار صاحب کا پارہ چڑھنے لگا۔ چھٹی ساتویں دفعہ پوچھنے پر تحصیلدار صاحب نے جوتا اٹھالیا کہ ارے کمبخت تو نے مجھے مذاق بنا رکھا ہے۔ وہ پہلے ہی جوتا سنبھالے بیٹھے تھے وہ اٹھ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ ہجوم کو پھلانگتے ہوئے باہر نکل گئے اور ہر دس قدم کے بعد پلٹ کر اپنا سوال دہراتے اور تحصیلدار صاحب گالیاں دیتے ہوئے ان کے پیچھے۔ اسی طرح انہوں نے سارا بازار طے کیا۔ وہ بار بار اپنا سوال دہراتے اور تحصیلدار صاحب غصے کے مارے بے قابو ہوئے جا رہے تھے۔ حتیٰ کہ تمام بازار والوں کو پتہ چل گیا کہ تحصیلدار صاحب شلجم کے اچار سے بہت چڑتے ہیں۔ اگلی صبح تحصیلدار صاحب جب بازار میں کوئی گوشت اور سبزی خریدنے کے لیے آئے تو دکانداروں کو رات کا لطیفہ یاد آیا، وہ بہانے بہانے سے ایک دوسرے کی طرف منہ کرکے یہ سوال دہرانے لگے۔ اور یہ مصیبت اس قدر دراز ہوئی کہ انہیں اپنا تبادلہ کرا کے دوسرے شہر جانا پڑا۔ اس لیے فرمایا گیا کہ کسی کی چڑ مقرر نہ کرو، یہ ساری باتیں فسق اور گناہ کی ہیں اور گناہ کا نام لینا بھی ایک صاحب ایمان کے لیے ایمان لانے کے بعد نہایت بری بات ہے۔ مسلمانوں کو اس سے اجتناب کرنا چاہیے اور اگر پہلے وہ یہ گناہ کرچکے ہیں تو اب انہیں اس سے توبہ کرنی چاہیے۔ اور جو اس قدر وضاحت کے بعد بھی توبہ نہیں کرے گا تو وہ ظالموں میں شمار ہوگا اور اللہ تعالیٰ ظالموں کو کبھی ہدایت نہیں دیتا۔ (جاری) ترتیب: عبدالعزیز