اسرائیل سے امارات اور بحرین کے معاہدے پر عربی اخبارات کی ایک جھلک
کئی ہفتوں سے یہ خبر آ رہی تھی کہ متحدہ عرب امارات اور بحرین، اسرائیل کے ساتھ معاہدے کے لیے تیار ہو گئے ہیں اور آخر کار وائٹ ہاؤس کے اندر ٹرمپ کی موجودگی میں تینوں ممالک نے معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔ اس خبر کے آتے ہی مخالف اور موافق دونوں طرح کے رد عمل آنا شروع ہو گئے ہیں اور اس کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ خاص طور سے عرب اخبارات میں اس خبر کو بہت کوریج ملا ہے۔
متحدہ عرب امارات کے اخبار ’الاتحاد‘ نے اپنے اداریے میں لکھا کہ ’متحدہ عرب امارات کے بعد بحرین نے بھی اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کرلیا ہے نیز، اب ایسے تمام ممالک جو تبدیلی کی ہمت رکھتے ہیں اور مستقبل میں ترقی کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے بھی راستہ کھلا ہوا ہے، اس معاہدے سے علم وثقافت، امن وسلامتی اور اقتصادی میدان میں مثبت تبدیلیاں پیدا ہوں گی‘۔
بحرین کے وزیر خارجہ عبد اللطیف بن راشد نے کہا کہ ’اسرائیل کے ساتھ ہمارے تعلقات سے مشرق وسطیٰ میں امن پیدا ہوگا‘۔
بحرین کے وزیر داخلہ راشد بن عبد اللہ خلیفہ نے کہا کہ: ’اسرائیل کے ساتھ ہمارے تعلقات کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم نے فلسطین کے مسئلہ پر کسی قسم کا سمجھوتا کیا ہے بلکہ اس معاہدے کا مقصد معیشت کو مضبوط کرنا اور ایران کے خطرہ سے ملک کو بچانا ہے‘۔
فلسطینی نیوز ایجنسی نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا’ یہ معاہدہ فلسطین اور مسجد اقصٰی کے ساتھ خیانت ہے‘۔
نیو عرب سائیٹ کے مطابق ’اس معاہدے کا اصل مقصد آنے والے امریکی انتخابات میں ڈونالڈ ٹرمپ کی مدد کرنا ہے‘۔
قطر کے اخبار ’الشرق‘ نے اپنے اداریے میں لکھا کہ ’عرب اسرائیل کی قربت سے مشرق وسطیٰ میں امن پیدا نہیں ہو سکتا ہے بلکہ اس معاہدے سے فلسطینیوں پر ظلم وستم بڑھے گا نیز، یہ لوگ جسے ’تاریخی امن معاہدہ‘ یا ’جراٗت مند قدم‘ بتا رہے ہیں حقیقت میں یہ ایک سراب ہے‘۔
القدس العربی نے اپنے اداریے میں کہا کہ ’اس معاہدے سے نئے خطرات پیدا ہوں گے اور اس سے مسجد اقصٰی کو گرانے اور فلسطینیوں کے حقوق دبانے میں اسرائیل کو مدد ملے گی‘۔
’رای الیوم‘ کے ایڈیٹر انچیف عبد الباری عطوان کے مطابق بحرین کا اسرائیل سے معاہدہ خطرے کی گھنٹی ہے اور یہ سب کچھ دو مہینے بعد آنے والے الیکشن میں ٹرمپ کو فائدہ پہنچانے کے لیے کیا جا رہا ہے یہ ممالک اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کر کے بہت بڑی غلطی کر رہے ہیں، ان کا خیال ہے کہ وہ اسرائیل سے قریب ہونے کے بعد محفوظ ہو جائیں گے لیکن زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ یہ ممالک پہلے سے زیادہ غیر محفوظ ہو جائیں گے۔
ایران کا کہنا ہے کہ ’یہ معاہدہ صیہونی جرائم میں شامل ہونے کے مترادف ہے اور اس سے مشرق وسطیٰ کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوگا ساتھ ہی فلسطینیوں کا خون اور بہے گا۔
قطر نے اپنے بیان میں کہا ’ہم مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل تک اسرائیل کو قبول نہیں کریں گے‘۔
بی بی سی عربی نے ایک ہیڈنگ اس طرح سوالیہ انداز میں لگائی: بحرین اور اسرائیل کا معاہدہ فلسطینیوں کے پیٹھ میں ایک نیا خنجر ہے یا تبدیلی کا جراٗت مند قدم؟
لبنان کے صحیفہ ’ الاخبار‘ کے بیروت حمود نے اپنے مضمون ’فری فنڈ کی خیانت‘ میں لکھا کہ بحرین اور متحدہ عرب امارات دونوں امریکہ اور اسرائیل کے منصوبے کو پورا کرنے میں لگے ہیں اور اس کا بنیادی مقصد الیکشن میں ٹرمپ کو کامیاب کرانا ہے اور اپنے ملک اور عوام کی ترقی کا نعرہ صرف ایک بہانہ ہے۔
اردن کی نیوز ایجنسی ’وکالۃ الزاد‘ سے بات کرتے ہوئے زید سعد ابو جسار نے کہا کہ: ’مشرق وسطیٰ کے تعلق سے جو کچھ ہو رہا ہے اس کا مقصد الیکشن میں ٹرمپ کو کامیاب کرانا ہے اور اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کرنے والے ممالک کو بہت جلد اس کی قیمت چکانی پڑے گی‘۔
بی بی سی عربی نے ایک عنوان لگایا کہ: اقوام متحدہ اور مغربی ملکوں نے بحرین اور اسرائیل کے درمیان قائم ہونے والے تعلقات کو سراہا ہے۔
الجزیرہ کے مطابق امریکی صدر نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ: ’بہت جلد اور بھی ممالک اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کریں گے اور اس کے ذریعہ مشرق وسطیٰ میں امن پیدا ہوگا‘۔
نیویارک ٹائمز کے رپورٹر تھامس فریڈ مین نے لکھا: ’امارات اور اسرائیل کے معاہدے سے سب سے بڑا نقصان ایران کو ہوگا‘۔
الجزیرہ کی ایک اور سرخی اس طرح ہے ’امارات اور اسرائیل کے معاہدے کا اقوام متحدہ اور مغربی ممالک کی طرف سے استقبال پر ترکی اور ایران نے سخت اعتراض ظاہر کیا‘۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے کہا ’ہم ایسے کسی بھی اقدام کا خیر مقدم کرتے ہیں جس سے مشرق وسطیٰ میں امن وسلامتی کی فضا عام ہو‘۔
ایرانی پارلمینٹ کے اسسٹنٹ اسپیکر امیر عبد لہیان نے کہا ’امارات کا اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کا مقصد مشرق وسطیٰ میں امن لانا نہیں ہے بلکہ صیہونی جرائم میں شریک ہونا ہے‘۔
فلسطینی صدر محمود عباس نے کہا کہ ’اسرائیل جب تک مقبوضہ علاقے واپس نہیں کرتا مشرق وسطیٰ میں امن کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے‘۔
ایرانی پارلمینٹ کے اسسٹنٹ اسپیکر امیر عبد لہیان نے کہا ’امارات کا اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کا مقصد مشرق وسطیٰ میں امن لانا نہیں ہے بلکہ صیہونی جرائم میں شریک ہونا ہے‘۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 4-10 اکتوبر، 2020