اسباب زوال امت اور عروج کا راستہ

مسلمانوں کو علم وتحقیق کے میدان میں آگے بڑھنے اور اپنے اخلاق وکردار کی بلندی دنیا سے منوانے کی ضرورت

پروفیسر محسن عثمانی ندوی

مسلمانوں کے زوال کے اسباب میں ایک اہم سبب (۱) عصری علوم اور سائنس اور ٹکنولوجی میں مسلمانوں کا پسماندہ رہ جانا ہے ۔
کئی سو سال کی درخشندہ اور تابندہ تاریخ کے بعد مسلم امت زوال اور ادبار کا شکار ہوچکی ہے، تاریخ کے ہر طالب علم کے سامنے بلکہ اس عہد کے ہر مسلمان کے سامنے بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ زوال کیوں شروع ہوگیا اور آسمان پر عروج کا چمکنے والا سورج کیوں غروب ہوگیا ،اس کا ایک بہت اہم سبب یہ ہے کہ سائنس اور صنعت میں مسلمان دوسری قوموں سے بہت پیچھے رہ گئے اس میدان میں مسلمانوں کے ذہن کی تیزی اور تابناکی رخصت ہوگئی ان کا نشتر تحقیق کند ہوگیا چاند ستاروں پر کمندیں ڈالنا دوسروں کا تمغہ امتیاز بن گیا، علامہ اقبال کے نزدیک مسلمانوں کے زوال کے اسباب میں بہت اہم سبب یہی ہے۔ وہ سوال کرتے ہیں
کس طرح ہوا کند ترا نشترتحقیق
ہوتے نہیں کیوں تجھ سے ستاروں کے جگر چاک
مہرومہ و انجم نہیں محکوم ترے کیوں
کیوں تیری نگاہوں سے لرزتے نہیں افلاک
اقبال پوچھتے ہیں کہ اے مرد مسلماں تو آسمانوں پر کمندیں کیوں نہیں ڈالتا مہر ومہ وانجم اب ترے محکوم کیوں نہیں ہیں کیوں صرف غیروں کے قدم چاند کی سرزمیں پر پڑتے ہیں کیوں تیری نگاہوں سے افلاک لرزتے نہیں ہیں، کئی سو سال تک جہاں بانی کرنے کے بعد تو اب محکوم اور مقہور کیوں ہوگیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ اب مسلماں ملکوں کی آزادی برائے نام ہے امریکہ اور یورپ کے ہاتھ میں تمام مسلم ملکوں کی لگام ہے، اب حرمین شریفین کی حرمت اور عزت بھی خطرہ میں ہے، معلوم ہوا کہ ہر زمانہ کے جو علوم ہوتے ہیں ان میں فائق ہونا ترقی اور طاقت کے لیے ضروری ہے، اسی بات کو سرسید نے نثر کی زبان میں بیان کیا ہے وہ لکھتے ہیں
’’ تم اپنے حال کا اپنے بزرگوں کے حال سے مقابلہ کرو، تمہارے بزرگ جس زمانہ میں تھے۔ انہوں نے اپنے تئیں اس زمانہ کے لائق بنالیا تھا اس لیے وہ دولت وحشمت اور عزت سے نہال تھے اور جس زمانہ میں کہ ہم ہیں ہم نے اپنے تئیں اس زمانہ کے لائق نہیں بنایا اور اس لیے نکبت اور ذلت میں ہیں ‘‘ ( خطبات عالیہ مطبوعہ علی گڑھ)
ہم جانتے ہیں کہ ہم سائنس کی ایجادات اور انکشافات اور نئی تحقیقات کے اعتبار سے کس قدر پسماندہ اور زوال آمادہ ہیں، نئی سائنسی اور صنعتی طاقت کا حصول خلافت ارضی کے تقاضے میں داخل ہے، ہم نے خلافت ارضی کے تقاضے پورے کیے اورنہ ایجادات و اختراعات کے ذریعہ اہل دنیا کے لیے راحت رسانی کا انتظام کیا، ہم نے نہ موٹر کی ایجاد کی نہ ٹرین نہ ہوائی جہاز نہ پانی کے جہاز نہ راکٹ نہ بجلی نہ بجلی کے آلات ایجاد کیے۔ جب ایجادات کی دنیا میں ہمارا حصہ تھا اور ہم نے تمدنی سہولتیں اہل دنیا کو عطا کیں تو دنیا میں ہمارا دبدبہ تھا قومیں مسلمانوں سے ڈرتی تھیں، جنگی سامان بھی مسلمانوں کے پاس بہتر ہوا کرتے تھے لیکن اب کایا پلٹ چکی ہے سائنس اور صنعت میں دوسری قومیں ہم سے بہت آگے نکل چکی ہیں اور ایجادات وانکشافات میں ہمارا ان کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ علم الکیمیاء ‘علم حیاتیات‘ علم نباتات، علم طبیعیات، علم فلکیات ،میڈیکل سائنس اور اسلحہ سازی اور صنعت و حرفت اور ٹکنولوجی ہر میدان میں وہ ہم سے فائق اور برتر ہیں۔ علم و حکمت جو ہمارا گم شدہ مال تھا اسے ہم چھوڑ بیٹھے۔ جب تک ہم اپنے متاع گمشدہ کو دوبارہ حاصل نہیں کرلیں گے جب تک ہم ان تمام میدانوں میں یورپ کی قوموں سے برتر نہ ہوجائیں گے ہمارا زوال ختم نہیں ہوگا۔ ان میدانوں میں ہمسری کرنے کے لیے ہمیں ایک نیا تعلیمی نظام قائم کرنا ہوگا۔ عصری علوم کو حاصل کرنا ہوگا، بنیادی دینی تعلیم اور اخلاقی تعلیم بلاشبہ ضروری ہے ، اس کے لیے ہر مسجد کو دینی تعلیم کا مرکز بنانا ہوگا اس منصوبہ کے مطابق مسلمانوں کی نئی نسل ان مساجد میں ابتداء میں دین واخلاق کی تعلیم حاصل کرے گی، دینی علوم میں اختصاص کے لیے صرف کچھ تھوڑے طلبہ بڑے مدارس کا رخ کریں گے، مسلم طلبہ کی غالب اکثریت عصری علوم میں دست گاہ حاصل کرنے کے لئے عصری تعلیم گاہوں کا رخ کرے گی ایسا ہی مسلمانوں کا تعلیمی منصوبہ ہونا چاہیے اور عصری تعلیم گاہیں زیادہ تر مسلمانوں کی قائم کی ہوئی ہوں گی اوراس منصوبہ کے تحت ان تعلیم گاہوں کے قیام کی ویسی ہی سنجیدہ کوشش کی جائے گی جیسے مدارس کے قیام کی کوشش ہندستان میں کی جاتی رہی ہے ۔عصری تعلیم گاہوں میں غریب طلبہ کے اخراجات اسی طرح صدقات وزکات کے فنڈ سے پورے کیے جائیں گے جس طرح دینی مدارس کے طلبہ کے لیے پورے کیے جاتے ہیں مسلمانوں کو اس نئے تعلیمی نظام کے لیے آگے آنا ہوگا مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی حالت کو درست کرنے کا منصوبہ بنانا ہوگا۔ بہتر عصری تعلیم اور بہتر معاشی استحکام کے بغیر ترقی اور طاقت کا دور واپس نہیں آسکتا ہے ۔مقتضیات زمانہ سے چشم پوشی کا رجحان خطرناک ہے عصری علوم کے تقاضوں سے غفلت مختلف طریقوں سے پیدا کی جاتی ہے، مثال کے طور پر عصری علوم کی اہمیت کو کم کرنے کے لیے کہنے کا یہ انداز اختیار کیا جاتا ہے کہ’’ مسلمانوں کے زوال کے دو اسباب ہیں ایک آپس کا اختلاف دوسرے مذہب سے دور ی‘‘ ۔ یہ قول اپنی جگہ پر درست ہونے کی باوجود اس لیے غلط ہے کہ علم و تحقیق اور سائنس کی طاقت کو سرے سے نظر انداز کردیا گیا ہے۔ مسلمانوں کا اتحاد بلا شبہ ضروری ہے لیکن اگر مسلمان متحد ہوجائیں اور عصری طاقت انہیں حاصل نہ ہو تو یہ اتحاد انہیں غالب اور سربلند نہیں کرسکتا ہے ۔ بلاشبہ مذہب سے دوری بھی نقصان دہ ہے لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ کیوں ایسا ہے کہ دنیا کی بہت سے قومیں مذہب سے بہت دور ہونے کے باوجود ترقی یافتہ ہیں۔ مذہب سے دوری مسلمانوں کے لیے باعث انحطاط اس لیے ہے کہ مذہب اسلام نے حصول علم پر بہت زور دیا ہے مذہب اسلام نے ’’اعدوا لہم ماستطعتم ‘‘ کا حکم دے کر آلات حرب کی تیاری اور War Industry قائم کرنے کا حکم دیا تھا، دین اسلام نے خلافت ارضی کا بلند مقام دے کر دنیا اور اس کے سامان وصنعت کو اپنی تحویل میں لینے کا اور اس کے نظم وانصرام کاحکم دیا تھا، مسلمانوں نے قرآن کے ایما اور اشارہ کو نہیں سمجھا اوردنیا کا سارا انتظام و انصرام دوسری قوموں کے حوالہ کرکے مطمئن ہوگئے اور میٹھی نیند سوگئے اور مذہب کو نماز روزہ تک محدود کردیا۔ عصری علوم کے ماہرین کی اور صانعین کی مسلمانوں میں کمی کا مطلب دنیا کی امامت اور قیادت دوسروں کے حوالہ کردینا ہے۔ اس لیے کہ دنیا کا کارخانہ عصری علوم سے چلتا ہے۔ دنیا کے اسٹیج پر کلیدی رول ادا کرنا ہے تو عصری علوم میں مہارت کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ مولانا علی میاں نے اپنی مشہور کتاب ’’ماذا خسر العالم ‘‘ کے آخری باب میں مسلم ملکوں کوعالمی صنعت وتجارت کی طرف متوجہ کیا ہے۔ ہمارے کم نظر علماء اکثر یہ آیت پڑھتے ہیں جس کا ترجمہ یہ ہے کہ تم ہی غالب ہوگے اگر تم صاحب ایمان ہوگے اور پھر ہمارے بعض واعظین اس آیت کے ذریعہ یہ غلط پیغام دینا چا ہتے ہیں کہ صرف نماز روزہ اور مسجدوں میں عبادت کافی ہے بس اسی سے تم سربلند ہوجائو گے، حالانکہ اس آیت کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے۔
تاریخ میں مسلمانوں کے زوال کا دوسرا سبب (۲) وہ ہے جو اس آیت میں بیان کیا گیا ہے ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما بانفسہم ( سورہ رعد ۱۱۰) ‘‘ اللہ کسی قوم کے ساتھ اپنا معاملہ اس وقت تک نہیں بدلتا ہے جب تک وہ خود اپنی اندرونی حالت میں تبدیلی نہ کرلے۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ قوموں کا عروج ان کے اندرونی اوصاف کا مرہون منت ہے اور کوئی قوم اس وقت تک اوج وعروج کے مقام بلند سے ہٹائی نہیں جاتی ہے اور زوال آمادہ نہیں ہوتی ہے اور تنزل کے غار میں گرائی نہیں جاتی ہے جب تک کہ اس کے اندرون کی اخلاق حالت خراب اور خستہ نہیں ہوجاتی ہے۔ یعنی اخلاق وکردار کسی قوم کی بلندی اور پستی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ڈاکٹر لیبان نے بھی لکھا ہے کہ قوم کی عمارت اخلاق کے ستون پر قائم ہوتی ہے۔ تاریخ اسلام پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے ایک قاری یہ محسوس کرے گا کہ مسلمانوں کے اخلاق و کردار میں بہت سی اخلاقی برائیاں سرایت کرگئی تھیں خلافت راشدہ کے زمانہ میں کردار کا جومعیار تھا وہ باقی نہیں رہا خلفاء اور ان کی حواریین عیش وعشرت کے دلدادہ ہو گئے تھے ہندوستان میں بھی اورنگ زیب کے بعد کئی بادشاہ نواب اور امرائے سلطنت عیش کوش اور میخانہ بدوش ہوا کرتے تھے اور جب قوم کے اعلی طبقہ میں جن کے ہاتھ میں اقتدار ہوتا ہے بد اخلاقی سرایت کرجاتی ہے تو وہی بد اخلاقی بتدریج قوم کے افراد میں بھی داخل ہوجاتی ہے۔ ایک اور مغربی مورخ ڈاکٹر گستا لی بان نے بھی لکھا ہے کہ خصائص اخلاقی ودماغی پر کسی قوم کی ترقی کا مدار ہوتا ہے۔ اگر کسی قو م میں آرام طلبی ہوگی فرض ناشناسی ہوگی خود غرضی ہوگی کاہلی ہوگی تو اس قوم کا ستارہ اقبال غروب ہوکر ہے گا۔ یہ اخلاقی زوال ہی ہوتا ہے جو سیاسی زوال کی راہ کھولتا ہے۔ یعنی تاریخ میں مسلمانوں کے عروج کے بعد جو ان کا سیاسی زوال شروع ہوا اس کی وجہ ان کا اخلاقی زوال ہے ، ان کا عیش پسند اور عشرت طلب ہوجانا ہے ۔
یہ بھی ضروری ہے کہ اخلاق کا مفہوم قوم کے ہر فرد کے لیے واضح ہوجائے سچ بولنا دوسروں کی مدد کرنا ذکر وعبادت میں مشغول ہوناوغیرہ کو سب اخلاق کا حصہ سمجھتے ہیں، لیکن ان اوصاف کے علاوہ عزم واستقلال‘ ضبط وتحمل ، کام کی لگن اورفرض شناسی، روادری، انصاف، ہمدردی، حصول علم اور جذبہ تحقیق اور ایثار یہ و ہ اخلاقی صفات ہیں جو اگر کسی قوم میں نہیں ہوں گی تووہ قوم ترقی نہیں کرسکتی ہے۔
مسلمانوں کو اپنے عروج کے بعد زوال سے سابقہ پیش آیاہے وہ اوج ثریا سے تحت الثری میں آگرے ہیں، ان کے زوال کا تیسرا سبب (۳)جس کا عام طور پر ذکر نہیں ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے ’’خیر ا مت‘‘ ہونے کا استحقاق اب کھودیا ہے، قرآن مجید میں آتا ہے کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنہون عن المنکر وتؤمنون باللہ (آل عمران ۱۱۰) اس آیت میں مسلمانوں کو خیر امت ہونے کا اعزاز بخشا گیا ہے ۔مسلمانوں کو خیراور معروف کی دعوت دینے کے لیے یعنی اسلام کی دعوت دینے کے لیے تمام بنی نوع انسان کی طرف بھیجا گیا ہے یعنی ان کو صرف مسلمانوں کی اصلاح کی فکر نہیں کرنی ہے بلکہ ان کو ساری انسانیت کی فکر کرنی ہے سب کو توحید کی دعوت دینی ہے اور آخرت کے بارے میں بتانا ہے اور رسالت کا تعارف کرانا ہے اور اگر انہوں نے یہ کام نہیں کیا تو اللہ کی نصرت ان پر نازل نہیں ہوگی اور اللہ کی نصرت ان پر نازل ہوتی ہے جو اللہ کی نصرت کرتا ہے اور اللہ کی نصرت اللہ کے دین کو اللہ کے بندوں تک پہونچانا ہے ، یہ وہ پیغمبرانہ مشن ہے جو صدیوں سے متروک ہوچکا ہے اور اسی وجہ سے اللہ کی مدد کا نازل ہونا بند ہوگیا ہے ۔
***

 

***

 جب ایجادات کی دنیا میں ہمارا حصہ تھا اور ہم نے تمدنی سہولتیں اہل دنیا کو عطا کیں تو دنیا میں ہمارا دبدبہ تھا قومیں مسلمانوں سے ڈرتی تھیں، جنگی سامان بھی مسلمانوں کے پاس بہتر ہوا کرتے تھے لیکن اب کایا پلٹ چکی ہے سائنس اور صنعت میں دوسری قومیں ہم سے بہت آگے نکل چکی ہیں اور ایجادات وانکشافات میں ہمارا ان کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ علم الکیمیاء ‘علم حیاتیات‘ علم نباتات، علم طبیعیات، علم فلکیات ،میڈیکل سائنس اور اسلحہ سازی اور صنعت و حرفت اور ٹکنولوجی ہر میدان میں وہ ہم سے فائق اور برتر ہیں۔ علم و حکمت جو ہمارا گم شدہ مال تھا اسے ہم چھوڑ بیٹھے۔ جب تک ہم اپنے متاع گمشدہ کو دوبارہ حاصل نہیں کرلیں گے جب تک ہم ان تمام میدانوں میں یورپ کی قوموں سے برتر نہ ہوجائیں گے ہمارا زوال ختم نہیں ہوگا۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  24 جولائی تا 30 جولائی 2022