ارود ادب میں تقابلِ ادیان کا فروغ قومی یکجہتی کی علامت
ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی۔ علی گڑھ
مرزا محمد کاظم برلاس مراد آبادی نے ہندوستان کی تاریخ پر ایک کتاب "تاریخ الہند” کے نام سے مرتب کی ہے۔ اس کی تیسری جلد میں ہندوستان کے ہندوؤں کے احوال کو انتہائی شرح وبسط کے ساتھ رقم کیا ہے اور اس کا نام "الہنود” رکھا ہے۔ اس کتاب کو مطبع گلزار احمدی مرادآباد نے 1867 میں شائع کیا ہے۔ تقابل ادیان پر اردو زبان وادب میں ان گنت کتابیں مسلم مفکرین واسکالر نے تحریر کی ہیں جن کا تعارف "ہفت روزہ دعوت” کے کالم کے توسط سے راقم سلسلہ وار کرائے گا۔ یہ کتاب ہندوؤں کے افکار، قدماء ہنود کے فرقے، عقائد، نظریات، فلسفہ، کتب، ہندو مت کی برگزیدہ شخصیات اور رسم و رواج پر مشتمل ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اس کتاب میں ہندوؤں اور ان کے مذہب کی بابت جو مفید معلومات اردو زبان وادب میں ملتی ہیں شاید وہ کسی اور کتاب میں نہ مل پائیں۔ اس کتاب میں اردو رسم الخط اور زبان پرانے زمانے کی استعمال کی گئی ہے۔ یہ بات واضح کردی جائے کہ اس کتاب کی تصنیف وتالیف اور ترتیب و تدوین میں کن مصادر سے استفادہ کیا گیا ہے اس کا ذکر تو ملتا ہے مگر اس طرح کہ "دبستان مذہب” کے مصنف نے یہ لکھا اور "بدیع ہندوستان” کے مصنف نے یہ لکھا ہے وغیرہ وغیرہ۔ البتہ کتاب کے پہلے صفحہ پر ثبت ہے کہ اس کی تصنیف میں دس برس کا طویل وقت صرف ہوا ہے۔ کتاب کے مباحث و مضامین انتہائی دلچسپ اور قابل مطالعہ ہیں۔ اس کتاب میں جن عناوین پر بحث کی گئی ہے وہ درج ذیل ہیں۔ اشاعت مذہب پوران۔ خلاصہ مضامین پوران۔ اوتار۔ عقائد اعمال ہنود۔برہم چاریہ۔ شادی بیاہ۔ ہوم۔ حالات مرتاضان ہنود۔ پرستاران شیو۔ بیدانتیان۔ شنکر اچاری۔ ہر رامپوری۔ دوارہ۔ اگم ناتھ۔ بیاس۔ حکایت دیگر۔سانکھیان۔ مقاصد جوگ۔ سناسیان۔ شاکتی فرقہ۔ گشائین ترلوچن شاکیتہ۔ سدا نند شاکیتہ۔ رامانج۔ بشنوان مادھو اچاریہ کا بہت بڑا فرقہ۔ بیراگیان۔ کبیر موحد۔ نام دیو بیراگی۔ چئیتن۔ بلبہ سوامی۔ عقائد چار واگی۔ عقائد سراو گیان۔ عقائد سکھان۔ عقائد مختلفہ فقراء ہند۔ مداری۔ جلالیان ۔بینوا۔ ناکام ۔ داؤد پنہتی۔ بشنوئی۔ فرقہ۔ سورج مکھی۔ عقائد قراتبتیان۔ گائے کی پرستش۔ قربانی کی رسم۔ گائے کی قربانی۔ کتاب کے مضامین پر نگاہ ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مرزا کاظم نے ہندو قوم کے احوال وکوائف اور ان سے وابستہ تمام بنیادی و اہم باتوں کو پیش کیا ہے ۔
اس تمہید اور تعارفی کلمات کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اب اس کتاب کے بعض ضروری مباحث کو نذر قارئین کیا جائے گا۔
مصنف موصوف نے بدھ دھرم کی ترویج و اشاعت اور ہندو دھرم سے باہم چپقلش کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے "کہ بودھ مذہب نے اپنے شروع کے زمانہ سے برہمنی مذہب کے ساتھ جھگڑے اور تنازع کرتے کرتے آخر کار ایسی قوت حاصل کرلی کہ تخمیناً ایک ہزار برس تک ہندوستان میں اپنا رنگ جمائے رہا۔ اس ترقی کے زمانہ میں برہمنوں کا اعزاز بالکل گھٹ گیا۔ بودھ مذہب کا سب سے بنیادی اصول یہ تھا کہ تمام بنی آدم یکساں ہیں۔ سب کو برابر تعلیم دینا چاہیے۔ مذہبی امور میں سب برابر ہیں۔” آگے لکھتے ہیں کہ” آہستہ آہستہ لوگوں نے گوتم کی زندگی ہی میں اس کے مروجہ اصول میں دخل دینا اور اس میں اپنی رائے شامل کرنے کا آغاز کر دیا تھا۔ (جیساکہ دیورت وغیرہ کی ترمیمیں نظر سے گزری ہیں) مگر گوتم بدھ کی زندگی کے بعد تو اس سلسلہ کی ایسی بنیادیں جمی کہ جس کا نتیجہ خاص مذہب کے واسطے بہت برا ہوا۔ چنانچہ دو سو برس کے اندر مذہب بودھ تمام نئے خیالات سے آمیز ہو گیا اور یہ نئی باتیں بڑھتے بڑھتے اس قدر چھا گئیں کہ اصل اصولِ ملت بالکل چھپ گئے اور لوگوں کا عملدرآمد زیادہ تر ان نئی باتوں پر ہی رہ گیا۔ حالانکہ اس کی انسداد کے واسطے جلسے کیے گئے، راجاؤں نے سختیاں بھی کیں مگر مذہبی آزادی کے سبب یہ رواج پوری طرح بند نہ ہوا”۔ آگے تحریر کیا ہے کہ "ان نئے خیالات کی ترقی کے زمانہ میں برہمنوں کو موقع ملا اور تھوڑے تھوڑے عقلی دلائل سے مذہب بودھ کے پیروؤں کے دلوں میں (ان باتوں کی طرف سے جن کو وہ لوگ اپنا مذہبی اصول تصور کیے ہوئے تھے) شکوک پیدا کر دیے اور جب یہ شکوک پیدا ہوگئے تو مذہب کی بے وقعتی پیروؤں کے دلوں میں جم گئی اور کچھ لوگ اس عقیدہ سے برداشت خاطر ہو کر پھر برہمنی ملت کی طرف متوجہ ہونے لگے۔ اس موقع کو برہمنوں نے غنیمت جان کر تالیف قلوب کرنی شروع کی اور تالیف قلوب کے واسطے کچھ نئے اصول قائم کرنے پر بھی مجبور ہوئے اور ایک نیا مجموعہ تیار کیا گیا۔ اس نئے مجموعہ کا نام پوران رکھا گیا۔ برہمنوں نے اس وقت میں نئے طور پر اشاعتِ مذہب کرنی شروع کی یعنی پہلے وید کے عقائد سے اب کچھ بدل کر۔ پوران کے مضامین سے۔ مذکورہ اقتباسات کے تناظر میں یہ کہا جاسکتا ہے ہے کہ مرزا کاظم کے مطابق بودھ مذہب کی تبلیغی سرگرمیوں پر روک لگنے کی واحد وجہ تھی کہ اس مذہب کے متبعین نے اس کے اندر بہت کچھ نئی باتیں ایجاد و اختراع کرلی تھیں جس کی وجہ سے بودھ مذہب کی اشاعت دھیرے دھیرے کم ہوتی گئی اور اس موقع سے برہمنوں نے فائدہ اٹھا کر ان کے دل ودماغ میں شکوک وشبہات پیدا کرکے انہیں بودھ مذہب سے توڑ لیا اور اپنے مذہب/ویدک دھرم کو پوران مذہب کے نام سے متعارف کرایا اور نئے سرے سے اپنے برہمن مت کی تبلیغ کا کام انجام دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا کے منظر نامہ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ بودھ مذہب کے حاملین کی تعداد بہت کم ہے اس کے علاؤہ ہندو دھرم کے متبعین کی ایک بڑی تعداد ہند اور بیرون ہند میں موجود ہے۔ بودھ مذہب اور ہندو مذہب کی باہمی پرخاش کو بیان کرنے کے بعد صاحب کتاب مرزا کاظم نے مذاہب و ادیان کی اشاعت وعدم اشاعت پر انتہائی چشم کشا اور موجودہ دور سے مربوط تجزیہ کیا ہے۔
"دنیا میں جس قدر مذاہب برباد اور ضعیف ہوئے ہیں اگر ان کے ضعف کا سبب دریافت کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ہر مذہب اور ملت کی کجی وخرابی کا باعث یہی نئی باتیں ہوتی ہیں۔ جو دراصل مذہب سے الگ ہوتی ہیں مگر پیروؤں کے برتاؤ میں آتے آتے ایسی قوی ہوجاتی ہیں کہ اصول ملت شکستہ اور ضعیف ہوکر انہیں پر دارو مدار ہونے لگتا ہے۔ اس طرح آہستہ آہستہ اصل مذہب و دین غیر مستحکم اور اور حقیر ہوجاتا ہے اور ایسے لوگ اپنے مذہبی امور کے برتاؤ میں کم متوجہ ہوجاتے ہیں۔ آخر ایسے ہی ضعیف الاعتقادوں کی بدولت قوموں اور جماعتوں بسے مذہب نکل جا تا ہے۔ اور لا مذہب انسان رہ جاتے ہیں۔”اس اقتباس کی روشنی میں تمام مذاہب و ملت کے افراد کو اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا ہوگا کہ جو اصل پیغام مذہب و دین کا تھا عین اسی پر ملت قائم ہے یا اس نے اپنی ہوس اور آسانیاں حاصل کرنے کے لیے دین و دھرم کے بنیادی اور اصل پیغام کو تو کہیں پس پشت نہیں ڈال دیا ہے؟
مصنف موصوف "شیو” کے پرستاروں کے احوال کے متعلق گویا ہیں "قوم ہنود میں یوں تو ہمیشہ ہی مرتاض لوگ ہوتے رہے ہیں۔ پرانے زمانے کی تواریخ ہند پر غور سے اگر نظر کی جائے تو معلوم ہوگا کہ بہت سے راجے جو بڑی بڑی حکومتوں کے مالک تھے ترکِ سلطنت کرکے گوشہ گزین اور خاک نشین بنے ہیں کوئی زمانہ ایسا نظر نہیں آتا جس میں کوئی صاحبِ دل قوم ہنود میں موجود نہ ہو لیکن راجہ بکرم کی آٹھویں صدی سے سادھو سنتوں کی زیادہ کثرت ہونے لگی۔ اور بہت سے اچاریے پیدا ہوگئے جن کے تعجب خیز حالات اور کرامتوں کے تذکروں سے اکثر کتابیں مملو ہیں۔منجملہ ان کتابوں کے ایک کتاب "بھگت مال” بہت مشہور ہے۔ قدمائے ہنود ان سنتوں اور اچاریوں کے ظہور کی بہت مدت قبل پیشین گوئی بھی کر گئے تھے اور ان کی خاص کرامتیں یعنی کنواریوں بسے پیدا ہونا۔ شیروں سے لڑکر مغلوب ہونا۔ ہوا میں اڑجانا، آدمیوں کی نظر سے یکایک غائب ہو جانا، پہاڑ اٹھانا، عمیق دریا میں مثل خشک زمین کے چلنا وغیرہ وغیرہ” یہ خصوصیات” شیو” کے متبعین اور عابدوں کی بیان کی گئی ہیں۔ ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کتاب کا مطالعہ قاری کے لیے ہندو ازم کے فرقوں ،شخصیات اور رسم و رواج کی معلومات کا مرقع ثابت ہوگا۔ ویدانتیان فرقے کے احوال میں صاحب کتاب نے انتہائی دلچسپ باتیں رقم کی ہیں اور بتایا ہے کہ بت پرستی سے اس فرقہ کا کیا منشا تھا۔ "بت پرستی کا منشا ان کے نزدیک صرف فرشتوں کو مطیع اور راضی کرنا تھا۔ اس طائفہ کا قول ہے کہ نفس ناطقہ انسان ایک فرشتہ ہے بس بت پرستی صرف اسی فرشتہ کو مطیع کرنے کے واسطے کی جاتی ہے۔”
اس کتاب میں مرزا کاظم نے اگم ناتھ شخص کے احوال میں رقم کیا ہے کہ "اگم ناتھ ایک جوگی تھا ہند میں بڑا مرتاض اور صاحب دل گزرا ہے۔ اس کے شاگردوں کا قول ہے کہ اس کو حیات ابدی حاصل ہے بلکہ اس کی عمر کے ابھی دس ہزار برس ہی گزرے ہیں”
رامانج کے احوال کے متعلق لکھتے ہیں "یورپین مورخوں کی تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شخص جس نے سب سے پہلے "وشنو” کی پوجا کا اعلان کیا اور وعظ کہا اور لوگوں کو تعلیم دینی شروع کی اس کا نام "رامانج سوامی” تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ کتب ہنود میں اس سے قبل اس امر کے واسطے کوئی شخص مخصوص نہیں ہوا تھا۔ لہذا اسی شخص کو بانی پرستش "وشنو” تصور کرنا چاہئے۔ اس شخص کے ان وعظوں کا پتہ (جو اس نے وشنو کی پوجا کے بارے میں متفرق مقام پر بیان کیے تھے ) تخمیناً بارہویں صدی عیسوی کے وسط کے قریب پایا جاتا ہے۔ اس نے تعلیم دی کہ "وشنو” خالق کائنات اور علت اولی عالم کی ہے۔ چونکہ یہ” وشنو” کی خدائی کا قائل تھا لہذا اس کے یہ خیالات سن کر بعض راجہ جو اس عقیدے کو برا جانتے تھے اس کی ایذا رسانی پر مائل ہوئے۔ دکن کا ایک راجہ جو "کول” خاندان کا تھا اس کا دشمن ہوا اور اس کے جور سے اسے ترک وطن کرنا پڑا”
مرزا کاظم کی تحقیق کے مطابق قدماء ہنود میں ایک فرقہ کا نام سورج مکھی ہے۔ اس کے متعلق صاحب کتاب نے لکھا ہے کہ۔ "یہ فرقہ قدماء اہل ہند میں سے ہے۔ چونکہ آفتاب پرست ہیں لہذا ہندی زبان میں ان کو سورج مکھی کہا جاتا ہے۔ ان کے دو فرقے ہیں ایک وہ ہیں جو آ فتاب کو جمیع ملائکہ بزرگ تر فرشتہ تصور کرتے ہیں اور دوسرا گروہ پہلے سے بڑھ کر آفتاب کا مرتبہ سمجھتا ہے۔”
کتاب کا مطالعہ بتاتا ہے کہ صاحب کتاب نے ہندوستان کے قدماء ہنود کے تمام احوال وکوائف کو قلمبند کیا ہے۔ اس طرح اس زمانے میں اس کتاب کی اہمیت وافادیت کئی اعتبار سے بڑھ جاتی ہے۔ ایک تو یہ کہ کتاب کو پڑھنے سے ہندوستان کے قدیم مذہب ہندومت سے وابستہ قدیم لوگوں کے عقائد ونظریات، افکار وخیالات کا مکمل طور پر احاطہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اس زمانہ میں ہندو مت میں جو فرقے اور اس مذہب کی برگزیدہ شخصیات پر بھی بڑی تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔ دوسری اہم بات یہ کہ اس کتاب کے مطالعہ سے ہندوستان کی قدیم تاریخ، معاشرت، تہذیب اور کلچر و ثقافت بھی معلوم ہوجاتا ہے۔ لہذا اس اعتبار سے یہ کتاب قدماء ہنود کے جملہِ حالات پر ایک اہم ترین دستاویز ہے۔ اس کے مطالعہ سے اردو دان طبقہ کے اندر توسع اور فکری اقدار روشن ہوں گی۔ نیز وہیں اس بات سے بھی قطعی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ کتاب کے مطالعہ سے ہندو ازم کی خاصی اور وقیع معلومات حاصل ہوجائے گی۔ اس طرح ہمارے رشتوں کو ایک بار پھر تازگی اور روحانیت نصیب ہوگی اور ملک میں باہم ہندو مسلم اتحاد کی علامت ثابت ہوگا۔ مرزا کاظم برلاس مراد آبادی نے کہیں بھی کسی واقعے یا تاریخ وتہذیب کو بیان کرتے ہوئے ہندو ازم کے کسی بھی معاملے کو بے جا تنقید کا نشانہ نہیں بنایا ہے۔ البتہ کہیں کہیں انہوں نے مذہب اسلام کی تعلیمات کے تناظر میں تقابل کرنے کی سعی ہے۔
*
[email protected]