ارطغرل، ٹی وی سیریز

کیا یہ ہمارا نیا ابلاغ ہے؟

صہیب شہاب ،ممبئی

ماضی بعید میں جب عروضی نظمیں عربوں کے لیے تماشا، تفریح اور انبساط کا ذریعہ تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا پیغام قرآن بنی نوع انسان کے لیے نازل کیا جس کی ادبی عظمت، بے مثالی اور معصومیت کو عربوں نے صرف 23 سال کی کم ترین مدت میں اس طرح جوق درجوق گلے لگا لیا کہ تاریخ آج تک ایسے کسی مشن کی گواہ نہیں بن سکی ہے۔
جب اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (ﷺ) کو آفاقی پیغام کی منادی کرنے کا حکم دیا تو اس وقت مکہ مکرمہ میں یہ رواج تھا کہ کپڑے اتار کر کوہِ صفا سے اعلان کیا جاتا، جسے آج ہم بڑی بریکنگ نیوز یا شہروں میں تازہ خبر کہتے ہیں۔ یہ اس دور کا میڈیا یعنی ٹویٹر یا بی بی سی تھا ۔ نبی کریم جنہوں نے اخلاق عالیہ کو کمال تک پہنچایا،۔ اس روایت کے غیر اخلاقی حصے کو حذف کر کے اس دور کے جدید ذرائع ابلاغ سے استفادہ کیا تاکہ اپنے پہلے سے طے شدہ مقصد کو حاصل کیا جا سکے۔ خدا کے نبی ساتویں صدی کے ذرائع ابلاغ پر نظر رکھنے میں ناکام نہیں ہوئے۔ ہاں! لیکن فرسودہ روایت کو حذف کر کے اس کی اہلیت اور افادیت سے بار آور ہوئے ۔
اکیسویں صدی کو فیس بک جنریشن کہا جاتا ہے، وہ نسل جو ہیری پورٹر کو دیکھ کر پروان چڑھی ہے۔ وہ زیادہ پڑھائی نہیں کرتے ہیں، وہ رات دن کے طویل اوقات سوشل نیٹ ورک پر صرف کرتے ہیں جہاں ٹک ٹاک کا ایک کلپ آپ کو ایک مشہور اسٹار بنا سکتا ہے۔ اسی لیے آج کے بچے بھی انہی ذرائع ابلاغ کو استعمال کر کے اپنی خوش قسمتی حاصل کرنے کے لیے یو ٹیوب پر ایک چھوٹی سی بے بی شارک ویڈیو کلپ بنا کر ایک ارب وویوز (views) کو بٹورتے ہیں۔ ایک امریکی بچہ ایک ہفتے میں اوسطاً 28 گھنٹے ٹیلی ویژن دیکھتا ہے۔ ہندوستان میں نوجوان کسی بھی چیز سے زیادہ وائی فائی کو فوقیت دیتے ہیں۔ ان کے لیے اس کے بغیر ایک دن بھی رہنا ناقابل برداشت ہے۔ بلاشبہ ان ذرائع کے گھناؤنے نقصانات ہیں، یہ اس چاقو کی طرح ہے جو قتل کے لیے استعمال کیا جاتا ہے حالانکہ اس کو روٹی یا کیک کاٹنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ تعمیری ہیں یا تباہ کن؟ وہ تمام آپ پر منحصر ہے کہ آپ ان کو کس طرح استعمال کرتے ہیں۔ کوہ صفا کی طرح ان ذرائع سے نتیجہ خیز فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اور ایسا ہی ایک کام محمد بوزداگ نے اس وقت کیا جب انہوں نے شاندار سیریز ارطغرل غازی کی ہدایت کاری کی۔ اس ترک ڈرامے کی اردو ڈبنگ نے برصغیر میں طوفان برپا کر کے نئے ریکارڈ قائم کر دیے۔ ناظرین کے ردعمل جانچنے کے لیے جب پائلٹ ایپی سوڈ لانچ کیا گیا تو ایک ماہ میں یوٹیوب چینل پر اس ایپی سوڈ نے سب سے زیادہ نئے سبسکرائبرز کا ریکارڈ توڑ دیا۔ اس سیریز کے وویورز تین ارب تک پہنچ گئے اور عالمی ڈرامے کی تاریخ میں سب سے بہترین ڈرامے کے طور پر گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج ہوا۔ یہ سیریز کائی قبیلے کے سلیمان شاہ، ان کے بیٹے ارطغرل اور ان کے پوتے عثمان کی جدوجہد اور قربانیوں کی عکاسی کرتی ہے جنہوں نے چھ صدیوں تک تین براعظموں پر حکومت کرنے والی سلطنت عثمانیہ کا سنگ بنیاد رکھا۔ جنہیں اکثر ترک گیم آف تھرونز کے مماثل بیان کیا جاتا ہے۔ ایک سیٹ جو ترکی میں تیرھویں صدی کے اناطولیہ کے مناظر کو دوبارہ تخلیق کرنے پر مبنی تھا اس کو دیکھنے کے لیے اردگان، ملائیشیا کے صدر ڈاکٹر مہاتر محمد اور دیگر ممتاز عالمی رہنما پہنچے۔ بوزداگ اپنے کام میں شو کے بہت سے ناقدین کو سیٹوں کے کنارے پر سمیٹنے میں کامیاب رہا۔ ترکی کا ٹی آر ٹی ون چینل اس طرح کے نئی تاریخی سیریز کی کامیاب کوشش کے ذریعے دوسرے ہدایت کاروں کو تاریخی فلم سازی کی طرف راغب کر رہا ہے جیسے سلجوقی خاندان کے سلطان محمد الپ ارسلان اور ملک شاہ اور یونس ایمرے ہیں۔ سنیماٹوگرافی کے اس میدان میں مسلمانوں کے لیے یہ کوئی بے مثال کام نہیں ہے، اس سے قبل ایرانی پروڈکشن نے بھی حضرت یوسف علیہ السلام کی زندگی پر ایک سیریز ’دی یوسف‘ فلمائی تھی حالانکہ میں ذاتی طور پر سب سے بہترین کام جس کو سمجھتا ہوں وہ مراقش اور لیبیا میں فلمائی گئی دو گھنٹے کی فلم” دی میسج “ کا ہے، جو پیغمبر اسلام (ص) کے پیغام کی عکاسی کرتی ہے۔ مزید شاندار کام حاتم علی کی ہدایت کاری میں بننے والی”عمر سیریز“ ہے جس میں قطری سینما نے ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی زیر نگرانی خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ کی پوری سوانح حیات دکھائی گئی ہے۔ اس میں موجود اسی فیصد روایات مستند ہیں جیسا کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے بھی 30 ایپی سوڈز کی یہ سیریز اور فلم ”دی میسج“ دیکھنے کی سفارش کی تھی۔ عمر سیریز مکہ میں پیغمبر اسلام (ص) اور ان کے ساتھیوں کی جدوجہد، اسلام کی بنیاد اور عروج کے دور میں لڑی گئی فیصلہ کن لڑائیوں، ہجرت، مدینہ میں مسلم معاشرے کے سماجی، سیاسی اور معاشی پہلوؤں اور خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ کی زندگی کے اس دس سالہ دور حکومت کا احاطہ کرتی جس میں انہوں جزیرہ نمائے عرب میں اسلام کو پھیلایا ۔
ارطغرل کے علاوہ جو یقیناً ہماری شاندار تاریخ کا حصہ ہے، ہمارے آباء و اجداد کی سوانح نگاری جن کی جدوجہد اسلام کو حقیقی معنوں میں ہم تک پہنچانے اور ہمیں ایک عالمی مذہب کا حصہ ہونے پر فخر کرنے میں مددگار ثابت ہوئی، جس کی عظمت دنیا کے کونے کونے میں پھیلی ہوئی ہے، جس میں ہر ثقافت اور ہر زبان کے عقیدت مند موجود ہیں۔ عمر سیریز، اسلام کے اصل ماخذ کو واضح انداز میں بیان کرتی ہے یا اسلام کے ماخذ کو خوبصورتی سے نمایاں کر رہی ہے، اس کی توجیہات اسلام کے ابتدائی خطوط پر استوار ہیں کہ آخر اسلام کیا ہے۔ کیا یہ مجازی پیغام تھا، یہ کب شروع ہوا اور ہر مسلمان کو کیا جاننا چاہیے؟ کس طرح یہ سلسلہ وارانہ انقلاب برپا ہوا؟ اس میں مکہ مکرمہ میں بت پرستوں اور دشمنوں کا نزول، رد عمل اور سازشوں کا عمل اور اس کے بدلے میں قرآن کے جوابات شامل ہیں۔ حاتم علی کی سیریز میں اسلام کی آمد سے پہلے کے ایک شہر کو بیان کیا گیا ہے جو ایک جاہلانہ تہذیب سے منتقل ہوتے ہوئے سب سے زیادہ پاکیزہ کھیتی باڑی کی سر زمین بننے کی طرف سفر کرتا ہے جسے دنیا نے کبھی نہیں دیکھا تھا اس نے اس راستے کو کھول دیا جہاں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جیسے عظیم صحابی ابتداء میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کے ساتھ مل کر سازشیں کرتے ہیں پھر یہاں تک کہ وہ عظیم ترین اسلامی فوجی اور کمانڈر بن گئے۔ اس سیریز میں دکھایا گیا تھا کہ یہ عظیم صحابہ انفرادی اور ریاستی معاملات اور اسلامی فقہ کے ساتھ کس طرح نبرد آزما ہوئے تھے جب وحی بند ہو گئی تھی اور ان میں کوئی نبی نہیں تھا۔ اس وقت وہ کس طرح اپنی غلطیوں کو درست کر رہے تھے۔ اس پروگرام سے معلوم ہوا کہ ایسی عظیم سلطنت کا خلیفہ کس طرح اعلیٰ درجے کی اکائیوں کی کفایت شعاری اور تقویٰ کے ساتھ زندگی گزارتا تھا۔
ڈرامے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے دیکھنے والے کی روح پر اثر ڈالے اور اس میں تبدیلیاں لائے چاہے وہ چھوٹی سی ہی کیوں نہ ہوں۔ عمر سیریز نے دلوں میں انقلاب لانے کے مقصد کو حاصل کر لیا ہے۔ کوئی بھی عمر (رضی اللہ عنہ) کی مطابقت نہیں کرسکتا۔ ایک عظیم ترین ساتھی لیکن اداکار سمر اسماعیل نے اس کردار کو اپنی بہترین صلاحیت کے مطابق جذب کرنے کی پوری کوشش کی۔
بلاشبہ، ان عظیم شخصیات کی یادداشتوں کو پڑھنے سے بہتر اور کوئی چیز نہیں ہے جو ان کی قربانیوں یا جدوجہد کو بیان کرتی ہیں، تاہم جو نسل اسے پڑھنے سے گریز کرتی ہے اس کے لیے یہ ہالی ووڈ اور بالی ووڈز سے بچنے کا ایک عبوری متبادل ذریعہ ہے۔ ہمارے پاس جو اثاثے ہیں وہ بے مثال، بے ربط اور ”صرف “ انسانی نفسیات کے مطابق ہیں۔ اس کا موازنہ بالی ووڈ سے کبھی نہیں کیا جا سکتا جس میں ناگن (انسانی سانپ) مرکزی کرداروں کے طور پر ہیں یا ہالی ووڈ جہاں پروفیسر کی شکل میں ایک اہم کردار سب سے زیادہ پیسہ کمانے کا طریقہ بتاتا ہے، جہاں ملکی بینک کے قومی سونے کے ذخائر کو لوٹنے کے جواز ثابت کیے جاتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کو کرہ ارض کے سب سے زیادہ اثر انگیز ذرائع ابلاغ کے اس دائرے کو اثر انگیز کیا جائے اور ہمارے کلام کو مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں تک پھیلایا جائے جو اس فن کو سیاہ و سفید کرنے میں ماہر ہیں۔

 

***

 ارطغرل کے علاوہ جو یقیناً ہماری شاندار تاریخ کا حصہ ہے، ہمارے آباء و اجداد کی سوانح نگاری جن کی جدوجہد اسلام کو حقیقی معنوں میں ہم تک پہنچانے اور ہمیں ایک عالمی مذہب کا حصہ ہونے پر فخر کرنے میں مددگار ثابت ہوئی، جس کی عظمت دنیا کے کونے کونے میں پھیلی ہوئی ہے، جس میں ہر ثقافت اور ہر زبان کے عقیدت مند موجود ہیں۔ عمر سیریز، اسلام کے اصل ماخذ کو واضح انداز میں بیان کرتی ہے یا اسلام کے ماخذ کو خوبصورتی سے نمایاں کر رہی ہے، اس کی توجیہات اسلام کے ابتدائی خطوط پر استوار ہیں کہ آخر اسلام کیا ہے


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  15 تا 21 مئی  2022