مسلمان اس سال عید الفطر ایک ایسے ماحول میں منا رہے ہیں جس میں خدا کی باغی اور خدا سے بے نیاز دنیا عالمِ اضطراب میں ہے۔ بہت ہی مختصر وقت میں کوویڈ۔۱۹ نے دنیا کے منظر نامے کو جس تیزی سے بدل کر رکھ دیا ہے اس کا نتیجہ ایک نئے نظم عالم کی صورت گَری پر منتج ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ کورونا وائرس کی عالمگیر وبا اور اس کے اثرات ونتائج نے ظاہر کر دیا ہے کہ اب دنیا ویسی نہیں رہے گی جیسی پہلےتھی۔ نظر نہ آنے والے ایک جرثومے نے عالمی طاقتوں کو للکار دیا ہے کہ وہ تا دیر اپنی طاقت کے نشے میں بدمست نہیں رہ سکتے۔ عالمی سیاست کی بساط پر ابھی تک جو کھیل وہ کھیلتے رہے ہیں، اب اس کے خاتمہ کا وقت آگیا ہے۔ اس وبا نے خاص طور پر امریکہ ویوروپ کی چولیں ڈھیلی کر دی ہیں۔ انسانوں کے درمیان زمانہ کی گردش وَتِلْكَ الْأَیامُ نُدَاوِلُهَا بَینَ النَّاسِ کی سنتِ خدا وندی کو دیکھیے کہ نائن الیون کے بعد مسلم ممالک پر جو شامت لائی گئی تھی اس سے کہیں زیادہ تباہ کن شامت امریکہ و یوروپ پر آئی ہے جہاں ہزارہا افراد ہلاک اور لاکھوں افراد روزگار سے محروم ہوگئے ہیں۔ در اصل اس دنیا میں ثبات اور دوام کسی کو بھی حاصل نہیں ہے جب کہ تغیر یہاں کی اٹل حقیقت ہے۔ ہر عروج کو زوال ہے اور عظمت وسر بلندی مستقلاً کسی قوم کی میراث نہیں ہوتی۔ جس طرح ہر ترقی یافتہ قوم کو ترقی کے بام عروج پر پہنچنے کے بعد زوال بہ کنار ہونا پڑا ہے اسی طرح آج کی بڑی طاقتوں کو بھی مسند اقتدار دوسروں کے لیے خالی کرنا پڑے گا اور اس کے بعد جو قوم اس خلا کو پر کرنے کی اہل ہوگی سنت خدا وندی کے مطابق قیادت اسی کے حصہ میں آئے گی۔ حالات کا یہ دھارا امت کو دعوت دےرہا ہے کہ وہ دنیا کو روح امم کی حیات سے روشناس کرواتے ہوئے اس موقع کو اپنے حق میں استعمال کرے اور اس معاملے میں ان کا جو رول ہوگا اسی سے یہ طے ہوگا کہ بساطِ عالم پر ان کی حیثیت کیا ہوگی۔
ان حالات نے مسلمانوں کے لیے دعوت کا ایک نیا موقع فراہم کیا ہے کہ وہ انسانوں تک ان کے رب کا پیغام پورے زور وقوت کے ساتھ پہنچا دیں اور انہیں بتا دیں کہ وہ اپنے مسائل اپنے جیسے انسانوں کی غلامی میں رہ کر کبھی حل نہیں کر سکتے بلکہ ان کے اور دنیا کے تمام مسائل کا حل اور اخروی نجات مخلوق کی غلامی سے نکل کر خدائے واحد کی بندگی وغلامی اختیار کرنے میں ہے۔ الاَّ تَعْبُدُواْ إِلاَّ إِیاہُ کا یہی وہ پیغام ہے جو قرآن بنی نوع انسان کو دیتا ہے اور امت مسلمہ جس کی امین بنائی گئی ہے۔
عید الفطر کا پہلا پیام یہی ہے کہ مسلمانوں نے جس طرح رمضان کے دن ورات قرآن کی صحبت میں گزارے ہیں اسی طرح وہ اس کے پیغام کو بھی حرزِ جاں بنالیں۔ ان کے افکار اور اعمال سب اسی کے رنگ میں ڈھلے ہوئے ہوں، ان کے انفرادی واجتماعی معاملات سب اسی کے ذریعے طے ہوں، ان کے جذبات، خواہشات، خیالات، پسند و نا پسند سب اسی کے تابع ہوں۔ غرض یہ کہ امت کے سارے گروہوں اور مسلکوں کا مقصود ومطلوب صرف اور صرف قرآن اور اس کا عطا کردہ نصب العین ہو: أَنْ أَقِیمُوا الدِّینَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِیهِ۔’’دین قائم کرو اور
متفرق نہ ہوجاو‘‘۔
عید الفطر کا دوسرا پیام یہ ہے کہ ساری دنیا کے مسلمان ایک امت بن جائیں۔ جس طرح دنیا بھر کے مسلمانوں نے مل کر مہینہ بھر ایک ساتھ روزے رکھے، اللہ واحد القہار سے اپنے ربط وتعلق کو جوڑے رکھا، اس کا پاک کلام پڑھتے رہے، اس کے آگے جبینِ نیاز گِھستے رہے اس کا تقاضہ ہے کہ وہ بکھرے دانوں کی طرح نہ رہیں بلکہ وحدت کی ایک لڑی میں پُر جائیں۔ شمال سے جنوب تک اور مشرق سے مغرب تک ایک طاقت بن جائیں۔ اسلام کو مسلمانوں کے آپسی اختلاف اور عدم اتحاد کے باعث جو نقصان پہنچا ہے اس سے زیادہ کسی اور چیز سے نہیں پہنچا۔ مسلمان اپنے فروعی اختلافات کی وجہ سے فرقوں میں بٹ گئے اور کثرت تعداد کے باوجود اقوام عالم کے لیے نوالہ تر بن گئے۔ ان کا درد مشترک ہے لیکن آواز مشترک نہیں ہے۔ ان کے درمیان دوستی اور ربط کا رشتہ ناپید ہے۔ وہ باطل کی یلغار کا سامنا کرنے کے لیے بنیان مرصوص نہیں بن سکے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ عالمی طاقتیں ان کے اسباب و وسائل پر اپنی رال ٹپکاتی ہیں اور وہ ہیں کہ ان کے دست نگر بن کر خود اپنی ہی تباہی کا سامان کرنے میں مصروف ہیں۔ قرآن نے امتِ واحدہ کا جو تصور دیا تھا اس کی بنیاد تو اتحاد واتفاق میں ہی مضمر ہے۔ لیکن اس سے تہی دامن ہو کر مسلم ملکوں نے داخلی اور خارجی معاملات کے فیصلے از خود کرنے کی صلاحیت سے اپنے آپ کو محروم کرلیا ہے۔ عالم اسلام کے مفادات کے تحفظ اور بڑی طاقتوں کے تسلط سے آزادی کے لیے ترکی اور ملائشیا جیسے ملکوں کی جانب سے حال ہی میں جو کوششیں کی گئی تھیں وہ اتفاق نہ ہونے کی وجہ سے ہی ثمر بار نہ ہو سکیں۔ عید کے موقع پر مسلم عوام میل ملاپ کے ذریعے آپسی محبت واخوت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ائے کاش! کہ اس کا دائرہ ملکوں کی سطح تک وسعت پا جائے اور مسلم ممالک باہم ایک دوسرے کو تقویت پہنچانے کا ذریعہ بن جائیں۔
وطن عزیز کے حالات کے تناظر میں مسلمانوں کے لیے عید کا پیغام یہ ہے کہ آنے والے حالات مزید سخت ہو سکتے ہیں انہیں ایمان واستقامت کے ساتھ ہر آزمائش کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے فسطائی ایجنڈہ کے آگے دیوار بننا ہے۔ اس کے لیے انہیں بیک وقت کئی محاذوں پر چو مکھی لڑائی لڑنی ہوگی۔ خاص طور پر اسلاموفوبک میڈیا کے مقابلے کے لیے متبادل میڈیا کی فراہمی، نوجوان نسل کی اسلامی فکر کے ساتھ تیاری، حالات کے تقاضوں کے مطابق جدید صلاحیتوں کا فروغ اور بہ حیثیتِ مجموعی امت کے شعور کی تربیت کے محاذ بہت اہم ہیں۔ نبی کریمﷺ نے رمضان کے مبارک ومقدس مہینے میں کئی معرکے سر کیے تھے جن میں جنگ بدر اور فتح مکہ جیسی عظیم فتوحات شامل ہیں۔ رسول اللہﷺکے اس اسوہ میں مسلم نو جوانوں کے لیے سبق یہ ہے کہ تن آسانی اور عافیت کوشی نہیں بلکہ مجاہدانہ زندگی وجفاکشی ان کا شیوہ ہونا چاہیے۔
رمضان المبارک نے مسلمانوں کو تقویٰ، صبر وشکر اور اعمال کے محاسبہ پر ابھارا ہے۔ تقویٰ ایمانی زندگی کی شاہ راہ ہے۔ صبر وشکر زاد راہ ہیں اور خود احتسابی کامیابی کے ساتھ منزل تک پہنچنے کی کلید ہے۔ آج امت مسلمہ کے ہر فرد کو انفرادی اور ساری ملت کو اجتماعی طور پر اپنا جائزہ واحتساب کرنا ہوگا کہ آیا وہ خیر امت ہونے کے تقاضوں کو پورا کر رہے ہیں یا نہیں؟ اس کا ایک اہم تقاضہ یہ ہے کہ امت کا ہر فرد انسانیت کے حق میں مفید ترین بننے کی کوشش کرے اور ہدایت کی جو روشنی اس کے پاس ہے اسے دوسروں تک پہنچانے کی فکر کرے۔ رمضان کا ایک سبق ہمدردی ومواسات بھی ہے۔ روزوں نے جہاں تقویٰ کی صفت پیدا کی ہے وہیں بھوک اور پیاس نے غریب وفاقہ کش طبقے کے درد کو بھی محسوس کرایا ہے۔ غرض اہلِ ایمان نے رمضان المبارک کے دوران جو مجاہدہ کیا ہے اس کے نتیجہ خیز ہونے کا انحصار اس امر پر ہے کہ وہ باقی مہینوں میں بھی اسی تسلسل کو برقرار رکھیں اور غفلت اور کوتاہی کو پاس پھٹکنے نہ دیں۔ خدا کرے کہ یہ عید الفطر سارے عالم کے مسلمانوں کے لیے پائیدار خوشیوں کی سوغات لے کر آئے اور اخروی کامیابی کا مژدہ جاں فزا سنائے۔
وطن عزیز کے حالات کے تناظر میں مسلمانوں کے لیے عید کا پیغام یہ ہے کہ آنے والے حالات مزید سخت ہو سکتے ہیں انہیں ایمان واستقامت کے ساتھ ہر آزمائش کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے فسطائی ایجنڈہ کے آگے دیوار بننا ہے۔ اس کے لیے انہیں بیک وقت کئی محاذوں پر چو مکھی لڑائی لڑنی ہوگی۔ خاص طور پر اسلاموفوبک میڈیا کے مقابلے کے لیے متبادل میڈیا کی فراہمی، نوجوان نسل کی اسلامی فکر کے ساتھ تیاری، حالات کے تقاضوں کے مطابق جدید صلاحیتوں کا فروغ اور بہ حیثیتِ مجموعی امت کے شعور کی تربیت کے محاذ بہت اہم ہیں۔ نبی کریمﷺ نے رمضان کے مبارک ومقدس مہینے میں کئی معرکے سر کیے تھے جن میں جنگ بدر اور فتح مکہ جیسی عظیم فتوحات شامل ہیں۔ رسول اللہﷺکے اس اسوہ میں مسلم نو جوانوں کے لیے سبق یہ ہے کہ تن آسانی اور عافیت کوشی نہیں بلکہ مجاہدانہ زندگی وجفاکشی ان کا شیوہ ہونا چاہیے۔