اداریہ

افواہوں کا راکشس

مہاراشٹرا کی قانون ساز اسمبلی میں ادّھو ٹھاکرے نے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے گورنر کے خطبے کا جواب دیتے ہوئے اپنے سابقہ سیاسی حلیف بی جے پی پر کڑا طنز کسا تھا کہ ’’آج ہمیں پتہ چلا کہ سیاست ایک جوا ہے، سیاست اور دھرم کے خلط ملط کرنے کی وجہ سے ہمیں کافی نقصان اٹھانا پڑا ہے ہم سے یہ غلطی ہوگئی۔ پارٹی نے مذہب کو سیاست سے جوڑ رکھا تھا‘‘۔ شیو سینا کے اس نئے اوتار کو دیکھنے کے بعد بی جے پی آگ بگولہ ہے اور اب تک اس کے سینے میں آگ دہک رہی ہے۔ بی جے پی کے سابق وزیر اعلیٰ دیویندر پھڈنویس نے ۲۰ نومبر۲۰۱۹ سے، جب کہ ادھو ٹھاکرے نے وزارت اعلیٰ کے عہدے کا حلف لیا تھا، اب تک شیو سینا، کانگریس و این پی سی کی حکومت کو کمزور کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ ادھر سنجے راوت اور شرد پوار کی کامیاب ڈپلومیسی کے نتیجے میں تشکیل پانے والی محاذی حکومت نے خود کو جذباتی اور مذہبی ایشوز میں الجھائے بغیر شیواجی مہاراج کے نمونے کو سامنے رکھ کر ایک فلاحی ریاست بنانے کی جانب اپنی پیش قدمی جاری رکھی ہے۔ کورونا کی آفت سے مقابلہ کرنے والی نمایاں ترین ریاستوں میں کیرالا اور مہاراشٹرا کا نام لیا جاتا ہے۔ جس طرح اپنے حلیفوں اور مرکزی حکومت کے ساتھ تال میل بنا کر ادّھو ٹھاکرے نے کام کیا ہے اس سے ان کی قائدانہ صلاحیت اور سیاسی سوجھ بوجھ کا پتہ چلتا ہے۔ دوسری طرف بی جے پی نے عدم تعاون سے آگے بڑھ کر ریاستی حکومت کی راہ میں مشکلات کھڑے کرنے میں اپنی توانائیاں خرچ کی ہیں۔ باندرہ میں مزدوروں کی بھیڑ کا معاملہ ہو یا تبلیغی افراد کی سنجیدگی کے ساتھ شناخت اور قرنطینہ کے انتظامات کا معاملہ ہو یا معاشی وطبی محاذوں پر ریاست کو ازسر نو کھڑا کرنے کے لیے ٹاسک فورس کے ذریعے منصوبہ بندی کرنے کا انداز ہو۔ ان سب چیزوں نے اقلیتوں سمیت بہت سے طبقات کے اندر ادھو ٹھاکرے کے لیے مثبت بلکہ ہمدردی کے جذبات پیدا کر دیے ہیں۔ ریاستی حکومت نے میڈیا پر پھیلائی جانے والی غلط خبروں اور افواہوں کے خلاف ایکشن لے کر بحیثیت مجموعی عوام الناس کے اندر مثبت بلکہ ہمدردی کے جذبات پیدا کر دیے ہیں۔ ریاستی حکومت نے میڈیا کو غلط خبروں اور افواہوں کو روکنے کی سخت تاکید کی ہے۔ چنانچہ قومی میڈیا کے مقابلے میں ریاستِ مہاراشٹرا میں اشتعال انگیزی کرنے پر کسی قدر لگام لگ گئی ہے۔ ریاست کے وزیر صحت ٹوپے بنفس نفیس ایشیا کی سب سے بڑی سلم بستی میں پہنچ کر حالات کا جائزہ لیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جب کہ حزب اختلاف گورنر سے ساز باز کرتا اور حکومت کی خامیوں وکمزوریوں کی ٹوہ میں لگا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ یہاں شیوسینا کی طرف سے صفائی پیش نہیں کی جا رہی ہے بلکہ ریاستی حکومت کی طرف سے بعض اچھے کاموں کی ستائش کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بتانا مقصود ہے کہ فسطائی عزائم کے ساتھ بی جے پی کا اژدھا جس طرح چہار سو دوڑ رہا تھا اس کی راہ میں مہاراشٹرا ایک روڑا بن کر کھڑا ہوگیا اور یہی بات ایک چھبتا ہوا کانٹا بن کر انہیں بے چین کیے ہوئے ہے۔
ضلع پال گھر میں دو پجاریوں سمیت تین افراد کی ماب لنچنگ کی واردات اور اس بہانے ریاست میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی جو تگ و دو دکھائی دیتی ہے اس کو دراصل اسی سیاق وسباق میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ۱۱ اپریل کی شب ممبئی کے کاندیویلی سے مہنت سوشیل گیری، مہاراج کلب راکیش گیری اور ڈرائیور نیلیش تیل گھڑے سورت جانے کے لیے نکلے تھے۔ ان کی گاڑی علاقہ تحت مرکز دادر نگر حویلی کے چیک پوسٹ سے لوٹا دی گئی کیونکہ ان کے پاس لاک ڈاون میں سفر کرنے کا کوئی پروانہ نہیں تھا۔ پھر یہ لوگ جنگل کے راستے سے جانے لگے اور گجرات سرحد پر واقع ڈہانو کے پاس ایک بھیڑ نے گاڑی کو گھیر لیا جس کے بعد پیش آئے واقعات اور مناظر سے ہر کوئی واقف ہے۔ جس بربریت اور سفاک انداز سے پتھروں اور لاٹھی ڈنڈوں سے پیٹ پیٹ کر تین انسانی جانوں کا قتل کیا گیا وہ نہ صرف غیر قانونی، بہیمانہ ہے بلکہ مہذب معاشرے کے لیے شرمناک بھی ہے۔ ہر طرف سے اس ظالمانہ کارروائی کی بجا طور پر مذمت کی گئی اس کے باوجود ملک کے ایک طبقے کی بے قراری صاف اشارہ دے رہی تھی کہ وہ اس واقعہ کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے بھنانے کی کوشش کرے گا۔ پولیس کے رول پر سوال اٹھنا تو فطری ہے ہی لیکن اکھل بھارتیہ سنت سمیتی کا وزیر داخلہ کو خط لکھ کر اس قتل کو ’’بڑی سازش‘‘ بتانا اور نکسلیوں سے اس کو جوڑنا بجائے خود کسی سازش کی طرف اشارہ ہے۔ اکھل بھارتیہ اکھاڑا پریشد کے صدر نریندر گیری نے کھلم کھلا حکومت مہاراشٹرا کے خلاف تحریک چلانے کی دھمکی دے ڈالی۔ سادھووں کے ان دونوں اداروں نے ملک بھر میں مہم چلانے کے جن عزائم کا اظہار کیا ہے اس کے پس پشت دراصل ایک ہی مفروضہ کار فرما ہے کہ چونکہ بھگوا لباس زیب تن کیے ہوئے لوگوں کا قتل ہوا ہے تو لازماً کسی مسلمان نے یہ کام کیا ہے‘‘۔ حالانکہ راتوں رات چھاپہ مار اور کومبنگ کی کارروائی کے بعد اگلے ہی دن ۱۰۱ لوگ گرفتار ہو چکے تھے۔ لاپروائی کے الزام میں دو پولیس اہل کاروں پر کارروائی ہوچکی تھی اور وزیر اعلیٰ، نائب وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ اعلان کرچکے تھے کہ ’’غلط فہمی‘‘ کی بنا پر یہ قتل ہوا ہے اور اس میں کسی دوسرے مذہب کے ماننے والوں کا کوئی رول نہیں ہے اور یہ بھی کہ جو بھی گنا گار ہوگا اسے سخت سزا دی جائے گی۔ اب تو اس واردات کی تحقیقات سی آئی ڈی کر رہی ہے اس کے باوجود سنت سادھو حکومت مہاراشٹرا پر عدم اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں۔ آر ایس ایس تک اس معاملے میں کود پڑی ہے اور اعلیٰ سطحی جانچ کا مطالبہ کرنے لگی ہے، کیونکہ یہ اس کی دانست میں ہندو سماج کے لیے خطرہ ہے۔ زمینی سطح سے نکل کر آنے والی باتیں چونکانے والی ہیں۔ جس مقام پر اجتماعی قتل عام ہوا وہاں گزشتہ دس برسوں سے بی جے پی کی چترا چودھری سرپنچ ہیں اور گاوں میں بی جے پی کا دبدبہ ہے حالانکہ مارکسوادی ایم ایل اے ضرور ہیں لیکن علاقہ آدی واسی ہے اور اس خطے میں افواہوں کا بازار گرم چل رہا تھا۔ ۱۴ اپریل کو امدادی کاموں کے بعد واپس ہونے والے ایک ڈاکٹر کو بھی اسی طرح گھیر کر مارا پیٹا گیا تھا تب مقامی پولیس نے ان کو بچایا تھا۔ ۱۷ اپریل کو یعنی سادھووں کے قتل کے بعد والے دن بھی اسی طرز پر ایک واردات درج ہوئی ہے۔ اس تناظر میں یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ یہاں کی فضا پہلے سے مسموم بنی ہوئی تھی۔ لاکھ ٹکے کا سوال یہ ہے کہ نفرت کی فضا کیسے تیار ہوئی؟ اب یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ ملک میں وہاٹس ایپ کو افواہوں کے لیے بڑے پیمانے پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ پال گھر میں بھی بچہ چوری اور کڈنی گینگ کی افواہیں گردش کر رہی تھیں۔ اس سے بہت پہلے ملک کے مخلتف حصوں میں یہ بات عام کر دی گئی تھی کہ کچھ مسلمان سادھو کے بھیس میں کورونا وائرس پھیلا رہے ہیں۔ افواہ بازوں پر لگام کسنے کا حکومت مہاراشٹرا کا اعلان بھی بی جے پی کو پریشان کر رہا تھا۔ اب وقت ہے کہ سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق بلا تاخیر ماب لنچنگ مخالف قانون بنایا جائے، نفرت انگیزی کو بھی قابل سزا جرم بنایا جائے کیونکہ افواہوں اور نفرت کے راکشس کو روکے بغیر انسانی جانوں کا احترام باقی نہیں رکھا جا سکتا۔
ادّھو ٹھاکرے کو 28 مئی سے قبل اسمبلی میں کسی نہ کسی ایوان کا رکن بن جانا ضروری ہے ورنہ وہ مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر قائم نہیں رہ سکیں گے۔ گورنر کو بار بار کابینہ کی جانب سے سفارش اور مہاراشٹرا وکاس آگھاڑی کی یاد دہانی کرانے کے باوجود بھگت سنگھ کوشیاری لگاتار کونسل کے لیے ادّھو ٹھاکرے کی نامزدگی کو ٹالتے جا رہے ہیں۔ کیا مرکز چاہتا ہے کہ یہ محاذی حکومت گرجائے اور مدھیہ پردیش اور گوا کی طرز پر پھر بی جے پی حکومت کے تشکیل پانے کی راہ کھل جائے جو کہ یقینی طور پر ایک غیر جمہوری عمل ہوگا؟ سیاسی عدم استحکام اور سماجی منافرت فسطائیت کی جانب بڑھنے کا اشارہ دے رہے ہیں۔