اداریہ

حق و انصاف کی کامیابی

گجرات فسادات کے متاثرین کو انصاف دلانے کے لیے مسلسل جدوجہد کرنے والی مشہور سماجی جہد کار تیستا سیتلواڈ کو گجرات حکومت کی شدید مخالفت کے باوجود سپریم کورٹ نے عبوری ضمانت دے دی اور انہیں سنیچر کے روز احمد آباد سنٹرل جیل سے رہا کر دیا گیا۔ عبوری ضمانت دیتے ہوئے ملک کی سب سے بڑی عدالت نے گجرات حکومت پر شدید تنقید بھی کی۔ واضح ہو کہ آج سے زائد از دو ماہ قبل سپریم کورٹ نے ایک مقدمے میں اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم (ایس آئی ٹی) کی رپورٹ کو قبول کرتے ہوئے ذکیہ جعفری کی اپیل مسترد کردی تھی۔ اس رپورٹ نے گجرات فسادات کے سلسلے میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی اور دیگر حکومتی عہدیداروں کو صاف بری کر دیا تھا۔ اس وقت سپریم کورٹ کے فیصلے میں تیستا سیتلواڈ اور دیگر دو پولیس افسروں پر یہ الزام بھی لگایا گیا تھا کہ انہوں نے احسان جعفری اور گلبرگ سوسائٹی کے دیگر مقتولین کی مدد کے بہانے معاملے کو غیر ضروری طور پر گرمایا تھا۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے ساتھ ہی گجرات حکومت نے 26 جون 2022 کے روز انتہائی جلد بازی میں تیستا سیتلواڈ اور گجرات پولیس کے دیگر دو پولیس افسران سنجیو بھٹ اور آر کے بی سری کمار کو گرفتار کرلیا اور ان پر عائد کیے گئے مقدمات میں یہ الزام لگایا گیا کہ یہ افراد سیاست دانوں کو پھنسانے کے لیے جعلی دستاویزات بنانے اور عدالت میں جھوٹے ثبوت پیش کرنے کی سازش کا حصہ تھے اور انہوں نے 2002 کے گجرات فسادات کے بعد حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی بھی سازش رچی تھی۔ تیستا سیتلواڈ نے گجرات ہائی کورٹ میں ضمانت کے لیے عرضی داخل کی تھی۔ عدالت نے 3 اگست کے دن حکومت گجرات کو اس سلسلے نوٹس جاری کی اور جوابی حلف نامہ داخل کرنے کے لیے چھ ہفتوں کے بعد یعنی 19 ستمبر کی تاریخ دی تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ تیستا سیتلواڈ کو مزید چھ ہفتے جیل کی سلاخوں کی پیچھے رہنا تھا۔ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد وہ عبوری ضمانت کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع ہوئیں جہاں انہیں ضمانت دے دی گئی اور اب وہ جیل سے باہر بھی آ گئی ہیں۔ اگرچہ یہ ضمانت عبوری ہے اور تیستا سیتلواڈ کی باقاعدہ ضمانت کا فیصلہ گجرات ہائی کورٹ میں تمام دلائل و شواہد کی روشنی میں کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ گجرات ہائی کورٹ عبوری ضمانت کے اس فیصلے سے متاثر ہوئے بغیر آزادانہ طور پر مقدمے کی سنوائی کرے، لیکن اس کے باوجود ملک کی سب سے بڑی عدالت کی جانب سے عبوری ضمانت کا یہ فیصلہ اس اعتبار سے کافی اہم ہے کہ یہ اُس حکومت کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہے جو گجرات کے ہولناک فسادات کے مظلومین کو انصاف دلانے کی کوشش کرنے والوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔ عبوری ضمانت کا یہ فیصلہ اور مقدمے کے دوران ہونے والی جرح کے مختلف امور بھی ان لوگوں کے لیے امید کی ایک کرن ہیں جو ملک میں انصاف کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ چیف جسٹس آف انڈیا یو یو للت نے اس عبوری ضمانت کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ شہریوں کی آزادی اور قانون کی پاسداری دونوں ضروری ہیں۔ نہ تو قانون کی پاسداری کے نام پر انسانوں کی آزادی کو قربان کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی آزادی کے نام پر قانون کو۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے یہ کہتے ہوئے عبوری ضمانت کی مخالفت کی کہ ‘عرضی گزار نے انصاف کے لیے جب سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ دونوں میں سے خود اپنی مرضی کے ساتھ ہائی کورٹ کا انتخاب کر لیا ہے تو اسے دوسرے متبادل کا اختیار نہیں دینا چاہیے‘۔
سالیسٹر جنرل نے کہا کہ ‘تیستا سیتلواڈ کو بھی ملک کے دوسرے عام ملزمین کی طرح ہائی کورٹ میں مقدمے کا سامنا کرنا چاہیے اور انہیں دستور کی دفعہ 136 کے تحت سپریم کورٹ کو رجوع ہونے کی اجازت نہیں ملنی چاہیے۔ گویا حکومت یہ چاہتی ہے کہ جس طرح ملک کے لاکھوں لوگ انصاف کے منتظر ہیں ان میں یہ بھی شامل ہو جائیں۔ اس کے جواب میں چیف جسٹس یو یو للت نے ضابطہ فوجداری کا ایک اہم اصول یاد دلاتے ہوئے اس دلیل کو مسترد کر دیا کہ ’ضمانت اصل اصول ہے اور قید استثنا‘ ہے۔
عبوری ضمانت کا یہ فیصلہ یقیناً کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں ہے، کیوں کہ آج بھی ملک کی مختلف حکومتیں مختلف شہریوں اور شہری و انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والوں پر زمین تنگ کیے ہوئے ہیں اور بے شمار جہد کار جیل کی سلاخوں کے پیچھے انصاف کے منتظر ہیں، جبکہ دوسری طرف نفرت کے سوداگر اور قانون و عدالت کی توہین کے مرتکبین سپریم کورٹ کی اس طرح کی سرزنش کے باجود قانون کی گرفت سے آزاد ہیں۔ اس کے باوجود یہ فیصلہ ان لوگوں کے لیے امید کی ایک کرن ہے جو سمجھتے ہیں کہ چاہے کتنی بھی مخالفت و مزاحمت ہو بالآخر انصاف کی جیت ہوتی ہے۔
حق و انصاف کے لیے تیستا سیتلواڈ کی اس لڑائی میں امت مسلمہ کے لیے بھی پیغام ہے کہ اصل میں یہ کام مسلمانوں کے کرنے کا تھا۔ ان کا دین ان سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ انصاف کے علم بردار بن کر کھڑے ہوں۔ زمین میں ہونے والے تمام مظالم کے خلاف جدوجہد کریں۔ اس وقت ملک میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ اور بھی لوگ ہیں جو طرح طرح کے ظلم کا شکار ہیں۔ ان تمام مظلوموں کے لیے آواز اٹھانا، ان کے لیے انصاف کی لڑائی لڑنا اور انہیں سماج میں انسان کی حیثیت سے باعزت مقام دلانے کی جدوجہد کرنا امت مسلمہ کے افراد کا فرض ہے۔ اس کے لیے وہ ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار رہیں اور امید رکھیں کہ باطل قوتیں چاہے کتنی بھی کوششیں کر لیں بالآخر حق و انصاف ہی کی فتح ہوتی ہے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  11 ستمبر تا 17 ستمبر 2022