صدر جمہوریہ سیاست سے بالاتر !
پندرہویں صدر جمہوریہ ہند دروپدی مُرمو کی حلف برداری بھارت میں ایک نیا باب رقم کر سکتی ہے۔ بھارت آج بجا طور پر ان کا خیر مقدم کر رہا ہے۔ ایک قبائلی خاتون کے طور پر ان کا ملک کے سب سے اعلیٰ عہدہ پر فائز ہونے کا واقعہ ایک اہم موڑ پر پیش آیا ہے۔ یوں تو ہر ایک صدر کا دور اپنے اندر کچھ نہ کچھ اہم پہلو لیے ہوئے ہے۔ سابقہ صدر جمہوریہ رامناتھ کووند کو ایک دلت صدر جمہوریہ کے طور پر پیش کیا گیا تھا، حالانکہ ان سے قبل کے آر نارائنن کی دسویں صدر کے طور پر نہایت فعال اور سرگرم کارکردگی نے ملک کو نئی امید دلائی تھی۔ ایک جہاں دیدہ سیاست داں، سفارت کار اور ماہر تعلیم نارائنن 1992 میں نائب صدر بھی رہ چکے تھے۔ 1997 میں صدر بننے والے نارائنن سے جب پوچھا گیا کہ کیا آپ کو ملک کے پہلے صدر کے طور پر پیش کرنے پر آپ بے زاری محسوس کرتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ ’’مجھے ووٹ دے کر منتخب کرنے والوں نے میرے ’دلت‘ ہونے کو دیکھ کر ووٹ نہیں دیا ہے، میں محض حالات کی پیداوار ہوں‘‘۔ بھارت کے کثیر ثقافتی اور ہمہ مذہبی روادار ’آئیڈیا آف انڈیا‘ کے پختہ علم برادار اور ’آئینی صدر جمہوریہ‘ کے طور پر جانے جانے والے ڈاکٹر کے آر نارائنن نے ’ربر اسٹامپ‘ بننے سے انکار کرتے ہوئے یو پی اور بہار کی دو ریاستی حکومتوں کو برخواست کرنے کی سفارش کو واپس لوٹانے کی ہمت دکھائی تھی اور 1998 میں اس وقت کے چیف جسٹس کو مکتوب لکھ کر عدلیہ کے اندر ایس سی /ایس ٹی طبقات کے لیے نشستیں محفوظ رکنے کی ضرورت بیان کی تھی، لیکن اس پر کان نہیں دھرے گئے تھے۔ وہ ملک کے پس ماندہ اور کم زور عوام کی سچی آواز تھے۔
ایک غیر معروف وکیل رامناتھ کووند کو جب ۱۴واں صدر بنایا گیا تو شیو سینا نے ان کے مد مقابل نہایت فعال سابق انتخابی کمشنر ٹی ای سیشن کی حمایت کی تھی۔
اس سے قبل اسمبلی اور پارلیمانی انتخابات میں شکست کھانے کے باوجود بی جے پی نے رامناتھ کووند کو 1994ء اور 2000ء میں دو بار راجیہ سبھا میں بھیج کر ان کے سیاسی قد کو بلند رکھا۔ راجیہ سبھا میں کووند صاحب نے ’درج فہرست ذات اور قبائل مخالف‘ حکم ناموں کو رد کروایا تھا جو پس ماندہ سماج کے مفادات کے خلاف عمل تھا۔ صدر کے ناطے کووند جی کی شبیہ اور کارکردگی نے ملک و معاشرہ کو کیا کچھ دیا اس پر بولنے اور لکھنے سے پہلے دماغ پر بہت زور دینا پڑ رہا ہے، بلکہ ایسی تصاویر اور ویڈیوز سامنے گردش کرنے لگتی ہیں جن میں وہ حکمرانوں کے سامنے ’نمستے‘ کی پوز میں کھڑے ہوں اور اعلی حکم راں کسی اور طرف متوجہ ہوں!
دروپدی مورمو کا نام ان کے ایک ٹیچر نے ’پوتی‘ جیسے سَنتھالی نام سے بدل کر مہا بھارت کے ایک اہم کردار ’دروپدی’ کے نام سے تبدیل کیا تھا۔ این ڈی اے کے ذریعے ان کے نام کے اعلان کے ساتھ ہی وہ اڑیسہ میں اپنے گاؤں کے ایک مندر میں بذات خود جھاڑو لگاتی دیکھی گئیں اور اب صدر منتخب ہوتے ہی سناتنی روایات کے مطابق برہمن پروہتوں کے ذریعے مَنتر جاپ کے ساتھ ایک قبائلی کی غالبا کسی ’’شدّھی‘‘ یعنی تطہیر جیسے عمل سے گزری ہیں۔ اس پر دلت مفکر اور جہد کار دِلیپ مَنڈل سمیت متعدد افراد نے سوالات کھڑے کیے ہیں کہ اس سے قبل ایسی ہندوانہ رسومات سے کس کو اور کب گزرنا پڑا تھا؟
مورمو جی نے اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ وہ ان افراد کی تحریک کا منبع ہیں جو صدیوں سے محروم رکھے گیے ہیں اور ترقی کے پھل چکھ نہیں سکے ہیں۔‘‘ انہوں نے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’’یہ ہماری جمہوریت کی قوت ہی ہے کہ ایک دور دراز آدی باسی علاقے میں کسی غریب گھر میں پیدا ہونے والی بیٹی بھارت کے اعلی ترین آئینی پوزیشن تک پہنچ سکی ہے۔‘‘ انہوں نے نوجوانوں اور خواتین کے حقوق اور مفادات کو اولین ترجیح دینے کا وعدہ کیا ہے۔ حالانکہ ان سے قبل مہاراشٹر کی پرتبھا پاٹل بھارت کی پہلی خاتون صدر جموریہ رہ چکی ہیں اور ان کی کارکردگی بھی ایسی نہیں رہی جسے کسی نمایاں کارنامے کے لیے یاد کیا جا سکے۔
آج کے حالات میں کسی آدی باسی خاتون کو ان کی اسی صنفی، مذہبی اور ذات کی شناخت کی بنیاد پر امیدوار بنانا اور صدر منتخب کروانا شاید اس بات کی علامت ہو کہ سَنگھ اور بی جے پی، برہمنوں اور مڈل کلاس کے بعد ملک کے دیگر پس ماندہ سماجوں کو اپنا ہم نوا بنانے میں کامیاب ہو جانے کے بعد اب انتہائی دور اور محروم قبائلیوں کی طرف اپنی توجہ مرکوز کر چکے ہیں۔ اسی تناظر میں ان کے بارے میں سوشل میڈیا پر اس قسم کی باتیں اٹھائی جا رہی ہیں کہ کسی خاتون اور کسی دلت کے صدر بلکہ وزیر اعظم بھی بن جانے سے ان کے سماج اور ملک کے زمینی حالات پر کوئی خاطر خواہ فرق نہیں پڑتا تو اسی طرح کے علامتی اقدامات کس لیے؟ لیکن جہاں سیاست ہی علامتی اور جذباتی موضوعات پر کھیلی جا رہی ہو اور جس کا مقصد ملکی اور قومی مفادات کے بجائے گروہی اور فرقہ وارانہ مفادات کا تحفط رہ گیا ہو وہاں غیر جانب دار اور اعلی سیاسی اور اخلاقی اقدار کی پاس داری کا خیال کون کرے گا؟
اگر دروپدی مورمو جی صدارتی عہدے کو مروجہ ’ربر اسٹامپ‘ والی امیج سے باہر نکالنے میں کامیاب ہوتی ہیں تبھی یہ ثابت ہو سکے گا کہ وہ اپنے عہدے کے ساتھ انصاف کر رہی ہیں ورنہ وہ بھی تاریخ کے دروپدی کا وہ کردار بن کر افق سے غائب ہو جائیں گی جس کے لیے ’مہا بھارت‘ کی جنگ چھڑی تھی۔ لیکن وہ تا حال انصاف کی منتظر ہیں!
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 31 جولائی تا 07 اگست 2022