اداریہ

نفرت تو ادھر ہے !

گزشتہ دنوں دہلی یونیورسٹی کے ہندو کالج میں تاریخ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر رتن لال کو سوشل میڈیا پر شیو لنگ کے متعلق نازیبا پوسٹ کرنے کی پاداش میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ دہلی کے ایک وکیل و سماجی کارکن نے ان کے خلاف پولیس میں شکایت درج کروائی تھی جس پر فوری کارروائی کرتے ہوئے پہلے پولیس نے طلب کر کے ان سے پوچھ گچھ کی اور بعد میں انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ ان کی گرفتاری پر طلبا اور دیگر تنظیموں نے احتجاج بھی کیا تھا۔پروفیسر رتن لال دہلی یونیورسٹی میں معلم ہونے کے ساتھ ساتھ حقوق انسانی کے ایک سرگرم جہد کار اور موجودہ حکومت کے سخت ناقد بھی ہیں اس کے علاوہ ایک یوٹیوب چینل امبیڈکر نامہ کے ایڈیٹر ان چیف بھی ہیں۔ پولیس نے ان پر تعزیرات ہند کی دفعہ 153 اے اور 295 اے کے تحت مقدمہ درج کیا تھا، جن میں اول الذکر دفعہ مذہب، زبان، علاقہ وغیرہ کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان نفرت پھیلانے اور ہم فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے سے متعلق ہے جب کہ موخر الذکر دفعہ کا تعلق دانستہ طور پر کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے اور لوگوں کے مذہب کی بے حرمتی سے ہے۔ بعد ازاں عدالت نے پروفیسر رتن لال کو ضمانت پر رہا کر دیا۔
اس معاملے کا تشویشناک پہلو یہ ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے اس طرح کے معاملات میں انتظامیہ، بالخصوص پولیس کا رویہ انتہائی جانب دارانہ ہوتا جا رہا ہے۔ انہی دفعات کا استعمال کرکے حکومت پر تنقید کرنے والے صحافیوں، سماجی جہد کاروں اور طلبا قائدین کو بغیر کسی تاخیر کے گرفتار کر کے ان کی آوازوں کو دبانے کی سر توڑ کوشش کی جا رہی ہے۔ کچھ عرصہ قبل معروف جہد کار ہرش مندر پر بھی نفرت پر مبنی تقریر کا الزام لگا کر مقدمہ دائر کر دیا گیا تھا۔ جب کہ دوسری جانب حکمراں پارٹی کے کئی لیڈر مسلمانوں کے خلاف کھلے عام زہریلی تقریریں کرتے ہیں، ان کے قتل کے لیے اکسانے ہیں، انتہائی خراب زبان کا استعمال کر کے سماج میں ان کے خلاف نفرت کا ماحول تیار کرتے ہیں لیکن پولیس اور انتظامیہ نہ تو انہیں گرفتار کرتی ہے اور نہ ان کے خلاف کوئی کارروائی کی جاتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس طرح کے اشتعال انگیز بیانات کے خلاف داخل کی جانے والی عرضی پر ملک کی عدالت یہ تبصرہ کرتی ہے کہ اس طرح کی تقریر کوئی غلط نہیں ہے کیوں کہ مقرر تقریر کے وقت مسکرا رہا تھا۔ جب کہ ان منافرت بھری تقریروں کے اثرات ملک کے مختلف مقامات پر کھلی آنکھوں سے دیکھے جا رہے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی تقریروں نے ان کے سامعین کو گویا سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم کر دیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ گزشتہ دنوں مدھیہ پردیش کے ایک مقام پر جین مذہب کے ماننے والے ایک ضعیف شخص کو مسلمان سمجھ کر میں پیٹ پیٹ کر قتل کر دیا گیا۔
بعض شرپسند لوگ اظہار خیال کی آزادی کے حق کا فائدہ اٹھا کر اپنے نفرتی ایجنڈے کی تکمیل کرتے ہیں اور نفرت پر مبنی تقریر کے خلاف جو ضوابط موجود ہیں ان کو اظہار خیال کی آزادی میں رکاوٹ قرار دیتے ہیں جب کہ اظہار خیال کی آزادی اور کسی فرقے کے خلاف دشمنی کا اظہار اور نفرت کا پرچار دو بالکل الگ الگ چیزیں ہیں۔ آئین میں تقریر و اظہار خیال کی آزادی اس لیے دی گئی ہے کہ ملک میں مختلف امور پر متنوع خیالات اور آرا سامنے آسکیں۔ اس کا اصل ہدف خیالات کا تنوع ہے نہ کہ کسی فرد یا گروہ کے خلاف نفرت یا دشمنی کا اظہار؟ اظہار خیال اور تقریر کی آزادی کو ہر جمہوریت کا لازمی حصہ سمجھا گیا ہے لیکن اکثر اس حق کا استعمال غلط مقاصد کے لیے ہوتا رہا ہے۔
اس وقت کسی فرقہ یا گروہ کے خلاف نفرت پھیلانے کا کام سب سے زیادہ سوشل میڈیا کے ذریعے انجام دیا جا رہا ہے جس کے لیے کوئی واضح قوانین ابھی تک موجود نہیں ہیں جس کی وجہ سے نفرت کے یہ پرچارک بڑی آسانی کے ساتھ بچ نکلتے ہیں۔ اور جب معاملہ ان کے خلاف ہوتا ہے تو انہی قوانین کے تحت لوگوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائیاں کی جاتی ہیں اور اس میں وہی افراد پیش پیش ہوتے ہیں جو خود اس طرح کے کاموں میں بڑے پیمانے پر مشغول ہوتے ہیں۔ پروفیسر رتن لال کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک طرف تو سوشل میڈیا میں نفرت پر مبنی اظہار خیال کے لیے واضح اصول اور قوانین بنائے جائیں تو دوسری جانب ان کے نفاذ میں انتظامیہ انصاف کی روش اپنائے کیوں کہ اگر انتظامیہ جانب دار ہو جائے تو کوئی بھی قانون، چاہے وہ کتنا ہی موثر کیوں نہ ہو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا لہٰذا جہاں کہیں انتظامیہ اور پولیس ان معاملات میں انصاف کے خلاف کام کرتے ہوئے پائے جائیں تو وہاں عدلیہ اپنا فریضہ انجام دے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  29 مئی تا 04 جون  2022