جمہوریت، حقوقِ انسانی اور حریت سے معنون اس دور میں سب سے زیادہ یہی اقدار تختہ دار پر نظر آتے ہیں۔ سیاست قومی ہو کہ عالمی اکثر ’مفادات’ کی اسیر رہی ہے۔ عہد وپیمان کی پاسداری، اصول اور اقدار تو عنقا ہی رہے۔ اب جب کہ دنیا میں سب سے زیادہ نیوکلیائی اسلحہ کے حامل روس کی یوکرین پر جارحیت دنیا کو کئی لحاظ سے آگاہی کا سبب بن سکتی ہے۔ عالمی ادارے چاہے وہ معاشی، اقتصادی یا فوجی اغراض سے قائم ہوئے ہوں ان کی معنویت وافادیت پر سنگین سوالات پیدا ہو گئے ہیں۔ کئی ہفتوں تک یورپی یونین، امریکا اور ناٹو یوکرین کو پشت پناہی کے خواب دکھا کر اس کو سابقہ سوپر پاور سے ٹکر لینے کی ترغیب دیتے رہے ان سب نے عین وقت پر اس کی مدد سے اپنے ہاتھ اٹھا لیے ہیں، حتیٰ کہ انہوں نے یہ بھی واضح کر دیا کہ وہ بھلے ہی کچھ مالی اور دفاعی سرپرستی کا سوچ سکتے ہوں لیکن اپنی افواج کو یوکرین کی حفاظت کے نام پر بَلی چڑھانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ ’ناٹو’ کا ناٹک ہو، امریکا کی لفاظی ہو یا اقوام متحدہ کی ’مذمتی اجلاسوں‘ کی رسمی کارروائیاں ہوں سب کچھ کسی طے شدہ اسکرپٹ کی مانند لگ رہا ہے۔
بھارت نے واضح موقف کا اظہار نہ کرنے کی قیمت یوں چکائی کہ ہمارے طلبہ کو یوکرین کی سرحدوں پر برے برتاؤ کا سامنا کرنا پڑا بلکہ عتاب کا بھی شکار ہونا پڑا۔ غنیمت ہے کہ کچھ فلائٹس کے وطن آنے سے جنگی حالات سے پریشان طلبا وطالبات کے دلوں میں کچھ امید تو جگی ہے۔ وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے کئی دنوں بعد یہ بیان دیا کہ ’’بھارت نے کبھی کسی ملک پر حملہ نہیں کیا ہے اور ہم مانتے ہیں کہ عالمی امن کی برقراری کے لیے ہر ایک کو اسی اصول پر کاربند رہنا چاہیے۔‘‘
ادھر روسی صدر ولادیمیر پوتین کی جانب سے ایٹمی تنصیبات کو الرٹ پر رہنے کے احکامات دینے کے بعد جنگ کے کسی بھیانک رخ اختیار کر جانے کا اندیشہ پیدا ہو گیا ہے۔ حالانکہ دو رخی مذاکرات کی خبریں کچھ امن کی امید جگانے کا کام بھی کر رہی ہیں۔
جنگ عبارت ہے امن اور تباہی دونوں سے۔ جب جہاں بانی کے جذبے اور ذاتی اَنا کی تسکین یا گروہی مفادات کے تحفظ کے لیے عوام اور افواج کو جنگ میں دھکیلا جاتا ہو اور اس کے بالمقابل جب وہ خالق ومالک کائنات کی مرضی کا نظامِ عدل وانصاف دنیا میں قائم کرنے کے لیے ہو تو دونوں کے درمیان واضح فرق دیکھا جاتا ہے جو کہ اس کے مقاصد اور طریقہ جنگ، ہر ایک میں نمایاں ہوتا ہے۔
ان سب کے درمیان یہ سوال کم از کم سوشل میڈیا میں تو اٹھ ہی رہا ہے کہ کیا عالمی اداروں بشمول یوکرین اور روس نے مسلم برادریوں پر کی جانے والی بمباریوں کے وقت جو کردار ادا کیا ہے وہ منافقت، تعصب اور دوغلے پن سے پاک کہا جا سکتا ہے؟ بالخصوص مجبور اور مظلوم فلسطنیوں کے حق میں جارح اسرائیل کے خلاف کوئی ٹھوس بندشیں عمل میں لانے میں دنیا کیوں ناکام رہی ہے؟ جہاں دنیا نے برطانیہ کا سورج از افریقہ تا ایشیاء غروب ہوتے نہیں دیکھا وہیں امریکا کو وییتنام میں اور روس کو افغانستان میں شرمناک شکست سے دوچار ہوتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ صلیبی جنگوں کی شکل میں ایک طویل معرکہ آرائی اور روم وفارس سے لے کر عثمانیہ خلافت کے ادوار اور چنگیزی بربریت ہر ایک سے عالم انسانیت گزر چکی ہے۔ جنگ وجدال سے متعلق جو ضابطے اور اصول شریعتِ محمدی نے وضع کیے ہیں اور اسلامی اقدار پر کاربند رہنے والے حکمرانوں نے جب جب ان کو جنگ وامن کے حالات میں برت کر دکھایا ہے تب تب دنیا نے ان کے میٹھے پھل چکھے ہیں۔
البتہ یوکرین سے ایٹمی ہتھیار چھین کر روس کو لوٹاتے وقت دنیا کی بڑی طاقتوں نے اس کی حفاظت کے جو وعدے کیے تھے ان کی پاسداری میں وہ سب ناکام ہیں۔ یہی دوغلا رویہ انہوں نے اسرائیل وفلسطین سے لے کر عراق، لیبیا اور افغانستان کی فوجی کارروائیوں میں بھی روا رکھا تھا۔ دیگر ملکوں میں بھی جمہوریت اور حقوق انسانی وغیرہ کے نام پر ان کی دادا گری جاری رہی۔ اگر آج وہ روس کو اس کی جارحیت پر روک ٹوک کریں گے تو کیا اس سے ان کی منافقت کی جانب نشاندہی نہیں کی جائے گی؟
لہٰذا لازم ہے کہ ملکی وعالمی امور میں ہر جگہ اصول اور اعلی اقدار کی پاسداری پر مبنی سیاست کو روا رکھا جایے۔ چنندہ عالمی قوتیں ’’ویٹو پاور‘‘ کی آڑ میں من مانی کرتی آئی ہیں۔ اس طریق میں حقیقی جمہوری راستے پر چلنا چاہیے۔ سامراجی قوتوں اور دوسری عالمی جنگ کی تباہی کے تناظر میں یورپی اقوام نے ’ناٹو’ کے نام سے جو دفاعی ادارہ تشکیل دیا ہے وہ عملا امریکی سامراج کی برقراری کا ایک آلہ بن کر رہ گیا۔ اقوام متحدہ اب تک کسی بھی جنگ میں غیر جانبدار کردار ادا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ یہ در اصل جمہوریت کی توہین ہے۔ اب اگر دنیا کے تمام ملکوں اور قوموں کی امنگوں کے مطابق اس کی تشکیل جدید نہ کی گئی تو آنے والے دنوں میں شاید اس کا بچا کھچا کردار بھی ملیا میٹ ہو جائے گا۔ امن کے لیے عدل وانصاف پر مبنی نظام کی ضرورت ہوتی ہے۔ ورنہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا نظام جاری رہے گا۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 6 تا 12 مارچ 2022