اداریہ

سماجی ایمرجنسی

۔

سماجی ایمرجنسی
وزیر اعظم کی جانب سے بھارت کے مختلف ریاستی وزرائے اعلیٰ اور حزب اختلاف کے قائدین کے ساتھ تبادلہ خیال اور کورونا کے چیلینجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ان سے مشاورت کو دیرآید درست آید ہی کہا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں بعض بزرگ سیاسی رہنماوں نے مرکزی حکومت کو کچھ اہم تجاویز بھی روانہ کی ہیں ان پر فی الفور عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم کے دفتر (پی ایم او) کی جانب سے جاری ایک نوٹ میں کہا گیا کہ ملک میں تعمیری ومثبت سیاست، پختہ جمہوری بنیادیں اور وفاقی تعاون کی روح ابھی زندہ ہے۔ وزیر اعظم کے اس بیان میں بتایا گیا کہ حالیہ سخت فیصلوں کے پیچھے سماجی ایمرجنسی (social emergency) جیسے حالات ہیں اور ہم سب کو پہرہ دار بن کر کام کرنا ہے۔ اس سے یہ اندازہ ہونے لگا ہے کہ مُعلنہ ملک بندی ۱۵ اپریل سے آگے بڑھے گی۔
اسی دوران بی جے پی کے قومی صدر نے پارٹی کے چالیسویں تاسیسی جشن سے خطاب کیا۔ جے پی نَڈّا نے پارٹی کارکنوں کو نصیحت کی کہ انہیں ’سب کا وِشواس‘ اور ’تہذیبی قوم پرستی‘ کی راہ پر چلنا ہے۔ نیز انھوں نے معاملات کو فرقہ وارانہ رنگ دینے سے بھی روکا۔ لیکن بی جے پی کے عام کارکنوں پر سرکار اور حکمراں پارٹی کی ان باتوں کا کوئی اثر کہیں دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ اول تو بستی نظام الدین کا معاملہ سامنے آتے ہی اسے مذہبی رنگ میں دیکھنے سے روکا جانا چاہیے تھا، جو نہیں ہوسکا۔ اس کی آڑ میں اتنے دنوں تک زہر افشانی کی اجازت کیوں اور کس نے دی؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آئی پی سی کی دفعہ ۱۵۳۔اے کے تحت فی الفور کاروائی کی جاتی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عوامی بیداری اور قانونی وعدالتی چارہ جوئی کے ذریعے ہی مذہبی منافرت اور فرقہ وارانہ پراگندگی کو روکنا ممکن ہوگا، کیونکہ وزیر اعظم کے بیانات اول تو بہت دیر سے آتے ہیں اور پھر ان پر خود ان کے ’معتقدین‘ بھی کہیں عمل کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ وزیر اعظم کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ قانون کی دھجیاں اڑانے والے بلا کسی تفریق کے سلاخوں کے پیچھے بھیج دیے جائیں گے۔ یہ سب افراط وتفریط اور انتظامیہ کی مدہوشی کی علامات ہیں، جو کہ ملک میں صحت مند وفاقی روایات، جمہوری بنیادوں، شمولیت اور مشاورت پر مبنی سیاست کے لیے نقصان دہ ہیں۔ لیکن جب حکومتیں اپنے فرض منصبی کو بھول جائیں تو عدلیہ کو وہ کردار ادا کرنا پڑتا ہے جو کہ معمولاً حکومت اور انتظامیہ کو انجام دینا ہوتا ہے۔ چنانچہ سپریم کورٹ کو یہ حکم جاری کرنا پڑا کہ نجی اسپتالوں میں بھی کورونا کا معائنہ مفت ہونا چاہیے۔ مزدوروں کو راشن دلانے کے لیے بھی سماجی کارکنان عدالت پہنچنے پر مجبور ہوئے۔ کرناٹک اور کیرالا کی سرحد کھولنے کے لیے ہائی کورٹ کے احکامات کے باوجود کیرالا سے آنے والے مریضوں کو سرحد پر روکا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ نفرت کا کاروبار بھی بلا روک ٹوک جاری ہے۔
لیکن زمینی حقیقت کیا ہے؟
بی جے پی کی رکن پارلیمان شوبھا کَرَندلاجے نے ۸ اپریل کو بیان دیا کہ ’’کوویڈ۔۱۹ کے پھیلاو کے پیچھےجہادیوں کا ہاتھ ہے۔‘‘ ایک اور ایم پی و سابق مرکزی وزیر اَننت کمار ہیگڑے نے تو یہ تک کہہ ڈالا کہ ’’تبلیغ کے افراد کو گولی مار دینا چاہئے‘‘ ایم ایل اے رینوکا چاریہ اور بَسَنا گوڈا پاٹل یَتنال نے بھی نفرت واشتعال انگیزی کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا کام کیا ہے۔ مہاراشٹر نَونِرمان سینا کے سربراہ، راج ٹھاکرے نے بر سرِعام کہا کہ تبلیغ کے لوگوں کو کورونا پھیلانے کے لیے گولی مار دینا چاہیے۔ اس سلسلے کی انتہا تو اس وقت ہوئی جب اقلیتی امور کے مرکزی وزیر نقوی نے ملک کی مسلمان اقلیت کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے تبلیغ کا رشتہ سیدھے طالبان سے جوڑ دیا۔ امیت مالویہ بی جے پی کے آئی ٹی سیل کے اِنچارج ہیں، انھوں نے اسی پُرفِتن ہفتے کے دوران ۱۵ کے قریب نفرت انگیزیا جعلی خبروں پر مبنی ٹویٹ کیے ہیں اور اب بھی ’جماعت‘ یا مرکز کی آڑ میں مسلمانوں پر رکیک حملے کر رہے ہیں۔
یہ حرکتیں!
ان سب حرکتوں کا جو منطقی نتیجہ نکلنا تھا وہ نکلا۔ ملک کے طول وعرض میں مسلمانوں پر حملوں اور تعصب کے واقعات میں تشویش ناک حد تک اضافہ درج ہوا ہے۔ بنگلورو، ہریانہ، پنجاب، پونے، راجستھان، بہار سے لے کر سوشیل میڈیا پر مسلمانوں کے بائیکاٹ کی مہم تیز تر ہو گئی۔ کیا یہ حرکتیں سیاسی روٹی سینکنے کی سازش نہیں ہیں؟ اہم سوال یہ ہے کہ کیا پارٹی کی اعلیٰ قیادت حسب سابق اپنے گروہی مفادات کے حصول میں کارآمد بننے والے ہر جائز وناجائز عمل سے چشم پوشی کی روایت وعادت کو یوں ہی جاری رکھے گی؟
ان معاملات کی گونج عالمی سطح پر بھی سنائی دینے لگی ہے۔ عالمی صحت تنظیم (WHO) کے ڈائریکٹر مائک ریان اور بین الاقوامی مذہبی آزادی کے لیے امریکی سفیر سیم براؤن بیک کی نصیحت آچکی تھی کہ ’کورونا جہاد‘ جیسی منافرت پر مبنی مہم غلط ہے نیز امریکہ کورونا وائرس کے لیے مذہبی اقلیتوں کو ذمہ دار قرار دینے کی حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ تب جا کر ہماری وزارتِ صحت نے ایک ایڈوائزری جاری کی اور کہا کہ منافرت سے بچنا ہوگا اور قرنطینہ میں رکھے گئے افراد کی شناخت ظاہر نہ کی جائے۔ لیکن اب بھی پروفائلنگ کو روکنے میں کوئی سختی نہیں برتی جا رہی۔
ملت کا کردار:
اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے مسلمانوں کی بعض بڑی جماعتیں عدالت پہنچی ہیں، اس عمل کو مزید وسعت دینے اور منظم طریقے پر انجام دینے کی ضرورت ہے۔ اروناچل پردیش اور اتر پردیش کے حوالے سے جعلی خبروں کو نشر کرنے والوں کی معذرت ’’نفرت کے خلاف جنگ‘‘ کو کمزور کرنے کا سبب نہیں بن سکتی۔ ان کے خلاف مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچانا اور اس ذہنیت پرضربِ کاری لگانا ضروری ہو گیا ہے۔
علما ہمیں متوجہ کر رہے ہیں کہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے رمضان کی آمد کا انتظار نہیں کرنا ہے۔ اس آفت کی گھڑی میں اس فرض کی ادائیگی ابھی کی جائے اور اپنے ارد گرد بے سہارا، مسافر، مظلوم، معذور، مریض، ضعیف یا مجبور کو اس کا حق اس وقت ملے جب اس کو زیادہ ضرورت ہے۔ انسانی خدمت کے نبوی نمونے کو پیش کرنے کے لیے ملی قیادت اور علما کرام کو سڑکوں پر عوام کے شانہ بشانہ نظر آنا چاہیے۔
وہاٹس ایپ، فیس بُک، ٹویٹر اور انسٹاگرام پر نفرت انگیز پیغامات کا نوٹس لینے اور رپورٹ کرنے کے مختلف طریقوں سے اکثر لوگ نابلَد ہیں۔ اخبارات کے مدیران کو مراسلات اور چینلوں کو ایس ایم ایس اور ٹویٹ کے ذریعے اپنی رائے سے آگاہ کرنے کے کام گھر بیٹھے کرنے کے ہیں۔ ہمارے با شعور افراد لاک ڈاون میں فرصت کے لمحات میں لوگوں میں اس کے تعلق سے بیداری کا کام انجام دے سکیں تو یہ ایک بہت اہم خدمت ہوگی اور خاندان کے بزرگوں، خواتین، علما اور فارغینِ مدارس کو ان تقاضوں سے واقف کرانا بھی مفید ہوگا۔
پولیس اور ڈاکٹروں سے تعاون جاری رکھنا چاہیے لیکن تعصب، زیادتیوں اور ناانصافیوں کی مختلف وارداتوں کو موبائل سے ریکارڈ کرنے جیسا چھوٹا عمل دراصل ایک بہت بڑا قانونی ثبوت بن جاتا ہے۔ شہرسے لے کر قصبہ ودیہات تک ہر فرد کو اس کے استعمال اور اس کی اہمیت سے آگاہ کرنا ہوگا۔
یہ بات یقیناً بہت ہی حوصلہ افزا ہے کہ ان سنگین حالات میں بھی ملت کے سواد اعظم نے صبروضبط، فراست وحکمت اور خدمت کی راہ کو ترک نہیں کیا ہے اور وہ ملک اور ریاستوں کی متعلقہ حکومتوں کے ساتھ نظم و قانون اور کورونا سے حفاظت کے لیے درکار ہر ممکنہ تعاون کررہے ہیں اور اہل اسلام کی اس روش کو زمانہ دیکھ رہا ہے۔ امید ہے کہ مستقبل میں ملک پر اس کے مثبت نتائج بھی دنیا دیکھے گی۔ ان شاء اللہ!

اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے مسلمانوں کی بعض بڑی جماعتیں عدالت پہنچی ہیں، اس عمل کو مزید وسعت دینے اور منظم طریقے پر انجام دینے کی ضرورت ہے۔ اروناچل پردیش اور اتر پردیش کے حوالے سے جعلی خبروں کو نشر کرنے والوں کی معذرت ’’نفرت کے خلاف جنگ‘‘ کو کمزور کرنے کا سبب نہیں بن سکتی۔ ان کے خلاف مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچانا اور اس ذہنیت پرضربِ کاری لگانا ضروری ہو گیا ہے۔