جون ایلیا نے شاید آج ہی کے لیے کہا تھا:
اب نہیں بات کوئی خطرے کی اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
جس وقت مرکزی وزارتِ داخلہ ۹۶۰ غیر ملکی تبلیغی جماعت کے کارکنوں کے ویزا کو رد اور انہیں بلیک لسٹ کرکے فارنرس ایکٹ اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ کے تحت قانونی کارروائی کر رہی تھی ٹھیک اسی وقت تقریباً ۱۰۰ تا ۲۰۰ غیر ملکیوں کو خفیہ طریقے سے لکژری بسوں میں بھر کر اتر اکھنڈ کے رشی کیش سے نئی دلی ہوائی اڈے لے جایا جا رہا تھا۔ سَوراج ایکسپریس چینل کی ایک چونکا دینے والی رپورٹ کے مطابق مبینہ طور پر ’’یوگا سیکھنے والے‘‘ اسپین اور سویڈن کے 92 شہریوں کو ٹریفک پولیس نے سماجی فاصلے کے ضابطوں اور لاک ڈاؤن کی کھلے عام دھجیاں اڑاتے ہوئے انڈیا گیٹ پر پکڑ لیا۔
اینٹی ٹیرر اسکواڈ کے ذریعہ مرکز نظام الدین سے لوٹنے والے افراد کی شناخت کرائے جانے کی اطلاعات اور بھی زیادہ عوام میں دہشت کا سبب بن رہی ہیں جو متاثرین کو بھی اسپتالوں اور پولیس میں رپورٹ کرنے سے روکنے کا سبب بن سکتی ہیں۔ شاید اسی خوف کی وجہ سے بستیوں میں ہیلتھ اسٹاف کو داخل ہونے سے بھی روکا جا رہا ہے، اندیشہ ہے کہ یہ صورت حال کہیں ان کے اور انتظامیہ کے لیے دردِ سر نہ بن جائے۔ حکام ان دنوں مرکز میں موجود تبلیغی جماعت کے تمام کارکنوں سے اس طرح خود سپردگی کی اپیل کر رہے ہیں جیسے وہ مجرم ہوں۔ حد تو تب ہوئی جب ملک کے وزیر اقلیتی امور مختار عباس نقوی نے تبلیغی جماعت کے ایک ناکردہ عمل کو ’’طالبانی جرم‘‘ قرار دے دیا۔ اب ایسے حالات میں کون اسپتال وپولیس کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے آگے آنے کی جرأت کرے گا؟ حکومت ایک طرف مسلم قیادت سے تعاون کی اپیل کرتی ہے تو دوسری طرف اس طرح کے بیانات دے کر خود ہی تعاون کے دروازے بند کر دیتی ہے۔
بھارت میں جب کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد ۸۱ کو پہونچ چکی تھی تو ۱۳ مارچ تک بھی وزارت صحت کا موقف یہی تھا کہ ملک میں کوئی صحت کی ایمرجنسی والی کیفیت نہیں ہے۔ لَو اگروال کی پریس کانفرنس آن ریکارڈ یہی کہہ رہی ہے۔ دلی حکومت نے اسی تاریخ کو بعض پروگراموں پر پابندیاں عاید کیں لیکن ان میں مذہبی اجتماعات پر امتناع کا ذکر نہیں کیا۔ باقی تفصیلات کو یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ سب پر عیاں ہے۔۳۱ مارچ کو مولانا سعد اور تبلیغی جماعت کے بعض کارکنوں کے خلاف انڈین پینل کوڈ کی متعدد دفعات لگا دی گئی ہیں، اس کے علاوہ وبائی امراض قانون ۱۸۹۷ کے تحت بھی ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ لیکن اس سے ٹھیک ایک دن قبل جموں وکشمیر ہائی کورٹ نے ویشنو دیوی مندر کے ۴۰۰ یاتریوں کے ساتھ بالکل ہی الگ رویہ اپنایا اور اس کے اگلے ہی روز دلی کے ایک گرودوارے میں پھنسے تقریباً ۴۰۰ عقیدت مند خصوصی بسوں کے ذریعہ محفوظ مقامات پر لے جائے گئے۔
دراصل کورونا وائرس اور کمزور معیشت کی وجہ سے آفت میں آئی حکومت نے اپنی بلا کو مسلمانوں کے سر پر انڈیل دیا ہے۔ مرکزی وریاستی حکومتوں کی مختلف محاذوں پر سراسر ناکامی اجاگر ہو رہی تھی جس کو دبانے کے لیے بنگلہ والی مسجد میں تبلیغی کارکنان کی موجودگی کو انسانیت کے لیے ایک خطرہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ منصوبہ بندی اور دوراندیشی تو دور بنیادی انتظامی امور وفرائض کی انجام دہی تک میں حکومتوں سے جو غلطیاں اور غفلتیں ہوئی ہیں ان کی پردہ پوشی کرنے اور لاک ڈاؤن سے جو پریشانیاں اہل ملک کو اٹھانی پڑ رہی ہیں ان سے شہریوں کی توجہ ہٹانا شاید ضروری ہو گیا تھا یا پھر اور بھی ’’کچھ بڑا‘‘ ہونے جا رہا ہے جس کے لیے ماحول سازگار بنایا جا رہا ہے؟
تبلیغی جماعت اور ان کے امیر کا یہ کام ایک نادانستہ غلطی یا ایک ’غیر ذمہ دارانہ عمل‘ قرار دیا جا سکتا ہے یا ان کی اس رائے کو زیادہ سے زیادہ اندازے کی غلطی کہی جا سکتی ہے۔ لیکن اس کو بنیاد بناکر ایک پوری جماعت کو ’کورونا فوجی‘ یہاں تک کہ ’’کورونا بم‘‘ جیسے القابات سے نوازنا اور اس کی آڑ میں پوری قوم کو مطعون کرنا سراسر بہتان طرازی ظلم اور نا انصافی نہیں ہے تو اور کیا ہے؟
ایک تاریخی انسانی بحران کے وقت جب کہ سماج کو ہمدردی و رہنمائی اور مدد کی ضرورت ہے وہاں ان کو مزید آزمائش میں ڈالا جا رہا ہے پروپگنڈہ مہم چلائی جا رہی ہے اور اعتماد وحوصلے کو بڑھانے کے بجائے الزام تراشیاں کی جا رہی ہیں۔ وزیر اعظم کا لاک ڈاؤن والا اشتہار آج بھی یہی کہہ رہا ہے کہ ’’ہم سب کو مل جل کر کورونا وائرس کا مقابلہ کرنا ہے‘‘ تو کیا ایسے ہی مقابلہ کیا جاتا ہے کہ ایک بے ضرر جماعت کو مَورد الزام ٹھہرا کر اسے بدنام کر دیا جائے جبکہ جماعت کے سربراہ نے خود اپنے کارکنوں سے حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کی اپیل کی ہے؟ ہم حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ سب کا ساتھ سب کا وکاس کے اپنے باوقار سلوگن کا بھرم باقی رکھے۔ لازم ہے کہ ملکی میڈیا میں جاری ٹرائل کو فی الفور روکا جائے ناکامیوں کے لیے ذمہ دار افراد اور افسروں کے خلاف کارروائی کی جائے اور تبلیغی جماعت کے کرونا وائرس کے متاثرین کو بھی آئسولیشن اور علاج کی وہی سہولتیں فراہم کی جائیں جو اس موقع پر ضروری ہیں کہ یہی ’’راج دھرم‘‘ ہے۔
مختلف اہم مسلم جماعتیں اور تنظیمیں حکومت کو اپنے طبی وتعلیمی مراکز، اور بعض نے اپنی عمارات کو کورونا وائرس سے مقابلے کے لیے مہیا کرانے کی پیش کش پہلے ہی کر چکی ہیں۔ لاک ڈاؤن کے پہلے روز سے ہی مسلم والنٹیرز خود کی جانوں کو خطرے میں ڈال کر پریشان حال لوگوں کی خدمات میں مصروف ہیں۔ اُن گنت ان لوگوں کا ذکر بھی ممکن نہیں ہے جو ’للہ فی اللہ‘ اس کام میں محض آخرت میں نجات پانے کی نیت سے لگے ہوئے ہیں اور نہیں چاہتے کہ میڈیا یا سوشل میڈیا میں ان کی خدمات کا کوئی ذکر ہو۔ ملک کی ہر تنظیم، جماعت، ادارے اور تمام ہی مسلم قائدین نے حکومت کے بروقت اقدامات کی ستائش کی ہے اور ہر طرح کے تعاون کے لیے خود بھی آگے آئے ہیں اور قوم کو بھی آگے کر رہے ہیں۔ان سارے مثبت اور انسانیت نواز وملک دوست اقدامات کو نظر انداز کر کے سو سالہ پاک وصاف ریکارڈ رکھنے والی تبلیغی جماعت کی ایک نادانستہ لغزش کو شرانگیزیوں کے لیے بہانہ بنانا، گندی سیاست اور شرم ناک جرم ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ مارچ کے أواخر تک کورونا وائرس سے جتنی اموات ہوئی ہیں ان سے زیادہ اموات حکومتوں کی بد انتظامی و بے ہنگم لاک ڈاؤن کے سبب ہوئی ہیں۔ دلی اور اتر پردیش میں اسی ہفتے کورونا سے متاثرہ تین افراد نے خود کشی کی ہے۔ ایک سرکاری افسر نے تو سہارنپور کے سرکاری دفتر میں ہی خود کو لٹکا لیا ہے۔ اس سے قبل کورونا خود کشی کی واردات تلگو خطے میں بھی پیش آچکی ہے۔ مظفر نگر میں پولیس پر حملہ اور حیدرآباد میں نرسوں وڈاکٹروں پر حملوں کی وارداتیں درج ہوئی ہیں۔ راشن کی تقسیم سے لے کر بسوں، اسپتالوں اورطبی اسٹاف کے مسائل ایک چیلینج بن کر ہمارا منھ چِڑا رہے ہیں! یہ باتیں انتظامی ناکامی نہیں تو اور کس چیز کی غمّاز ہیں؟ کیا ان تمام کا ٹھیکرا بھی معصوم افراد وگروپوں کے سر پر پھوڑا جائے گا؟
کہا جا رہا ہے کہ مارچ کے أواخر تک کورونا وائرس سے جتنی اموات ہوئی ہیں ان سے زیادہ اموات حکومتوں کی بد انتظامی و بے ہنگم لاک ڈاؤن کے سبب ہوئی ہیں۔ دلی اور اتر پردیش میں اسی ہفتے کورونا سے متاثرہ تین افراد نے خود کشی کی ہے۔ ایک سرکاری افسر نے تو سہارنپور کے سرکاری دفتر میں ہی خود کو لٹکا لیا ہے۔ اس سے قبل کورونا خود کشی کی واردات تلگو خطے میں بھی پیش آچکی ہے۔ مظفر نگر میں پولیس پر حملہ اور حیدرآباد میں نرسوں وڈاکٹروں پر حملوں کی وارداتیں درج ہوئی ہیں۔ راشن کی تقسیم سے لے کر بسوں، اسپتالوں اورطبی اسٹاف کے مسائل ایک چیلینج بن کر ہمارا منھ چِڑا رہے ہیں! یہ باتیں انتظامی ناکامی نہیں تو اور کس چیز کی غمّاز ہیں؟ کیا ان تمام کا ٹھیکرا بھی معصوم افراد وگروپوں کے سر پر پھوڑا جائے گا؟
حکومت اور اس کے حامی میڈیا کو اب اس بلیم گیم سے فوری باہر نکلنا چاہیے اور بیانات سے آگے بڑھ کر کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے اثراتِ بد سے ملک اور عوام کو بچانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے چاہیں۔